میرے خیال میں غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہو رہی ہے اگر لغت (یا املا) اور عروضی وزن کو ایک سمجھا جائے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، مثلاً
لغت میں لفظ دھیان (دے یان) ہے لیکن اس کا وزن صرف دان یا فاع ہے۔
لفظ پیاس یا پیار دونوں میں ے ہے لیکن ان دونوں کا وزن پاس اور پار یعنی فاع ہے۔
لفظ آنکھ، اس میں نون بھی ہے اور دو چشمی ھ بھی ہے لیکن اس کا وزن صرف آک یا فاع ہے۔
اور یہی مسئلہ کھنڈر کا ہے!
وجہ یہ ہے کہ ہندی الفاظ میں جو نون ہے اسے مخلوط نون کہا جاتا ہے (یہ نون غنہ سے مخلتف ہے) اور اس مخلوط نون کا کوئی وزن شمار نہیں ہوتا، اسی طرح ہندی الفاظ میں جو یائے مخلوط ہے (جیسے پیاس یا پیار میں) اسکا وزن بھی شمار نہیں ہوتا، ہندی میں انہیں 'ادھے اکھشر' بھی کہا جاتا ہے۔