بہرحال وہ پرانی پوسٹ ملاحظہ فرمایئے ۔
آپ دیکھیں کہ یہاں جہاد کی کیسی توجیحات اور تشریحات پیش کیں جا رہی ہیں ۔ اور اپنی توجیحات اور تشریحات تک کا ان کے پاس جواب نہیں ۔
جہاد اسلام میں ایسے نہیں ہوتا جیسا کہ یہاں کتابچوں میں بتایا جارہا ہے ۔ جہاد کے لیئے اسلام میں ایک پورا قانون ہے ۔ جس کو بڑی وضاحت کیساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے چند بنیادی نکات ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئیں ۔ جہاد علماء نے نہیں بلکہ حکومت کو کرنا ہوتا ہے ۔ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ لوگوں پہ اللہ تعالیٰ کے حدود ، کوئی عام آدمی نافذ کردے ۔ کوئی تنظیم نافذ کردے ۔ کوئی جماعت نافذ کردے ۔ یہ ذمہ داری باقاعدہ ایک حکومت کی ہے ۔ یہی ذمہ داری جہاد کے معاملے میں ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آپ جہاد کس مقصد کے لیئے کرتے ہیں ۔ اسلام میں جہاد ، نہ تو مالِ غنیمت کے لیئے کیا جاتا ہے ۔ نہ ہی دنیا کو تسخیر کرنے کے لیئے کیا جاتا ہے ۔ نہ کسی مذہبی تبلیغ کے لیئے ہوتا ہے ۔ نہ اپنا دین لوگوں پہ نافذ کرنے کے لیئے ہوتا ہے اور نہ ہی کسی نظام کے غلبے کے لیئے ہوتا ہے ۔ اسلام میں جہاد صرف " ظلم و ادوان " کے خلاف ہوتا ہے ۔ جس طریقے سے کوئی سرکش ہوجاتا ہے ۔ تو آپ اس کے خلاف اقدام کرتے ہیں ۔ جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو اللہ تعالیٰ نے حرمت عطا فرمائی ہے ۔ اس بنیادی بات کو پہلے سمجھ لینا چاہیئے ۔ اس دنیا میں اللہ نے امتحان کا جو پلان مقرر کر رکھا ہے ۔ اس کے لیئے اس نے یہ اہتمام کیا ہے کہ لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو آزاد رکھا جائے ۔ اور یہ عقل و رائے کی ہی آزادی ہے جس کو اللہ یوں بیان فرماتا ہے کہ " میں نے اپنے تکمیلی نظام میں لوگوں پر کوئی جبر نہیں کیا ( لا ابراھا فی دین ) ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میںنےانسانوںکو یہ حق دیا ہے کہ " جس کا جی چاہے وہ ایمان قبول کرے ، جس کا جی چاہے وہ کفر اختیار کرے " ۔ یہ فرمان ہے آزادی کا حریت کا ۔ چنانچہ اللہ چاہتا ہے کہ دنیا میں جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کی آزادی رہے ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں کتنی بلاغت کیساتھ فرمایا ہے کہ " یہ دن ( یوم النہر) جو حرمت رکھتا ہے ، یہ مہینہ ( ذی الحج ) جو حرمت رکھتا ہے ، یہ شہر ( مکہ ) جو حرمت رکھتا ہے ، اس سے بڑی اسلام میں اور کیا کسی کی ہوسکتی ہے ۔ مگر یہاں فرمایا کہ اس سے بڑھ کر حرمت تمہاری جان ، مال ، آبرو کو حاصل ہے ۔ " سو یہ وہ حرمت ہے ۔ جس کی حفاظت کرنا ہر اجتماعی نظام کی ذمہ داری ہے ۔ یہی حفاظت ، حکومت ایک قانون بنا کر کرتی ہے ۔ اگر قومیں سرکش ہوجائیں تو پھر ان کے خلاف جنگ کی جاتی ہے ۔ جہاد ایک وسیع اصطلاح ہے ۔ جہاد صرف جنگ کے لیئے قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوتا ۔ اصل لفظ قتال ہے ۔ اور قتال کا حکم لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو حکومتوں ، قوموں ، قبیلوں ، جماعتوں کے ظلم سے بچانے کے لیئے ہے ۔
اگر اس نوعیت کا کہیں ارتکاب ہو رہا ہے ، آپ کو معلوم ہے کہ جان و مال اور آبرو و عقل رائے کے خلاف ظلم ہورہا ہے ۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاد فوراً فرض ہوگیا ہے ۔ اگر آپ کے پاس اس ظلم کا ازالہ کرنے کی طاقت ہے تو تب آپ جہاد کے لیئے اٹھیں گے ۔ اس کے لیئے قرآن مجید نے نسبت و تناسب کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اور جب یہ ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام پر ڈالی گئی تو 1 نسبت 2 کی حساب سے ڈالی گئی ۔ اس وقت مسلمان کہاں جہاد کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ اگر یہ پوزیشن میسر نہیں ہے تو پھر تصادم کی فضا نہ پیدا ہونی دی جائے ۔ آپ حالات میں خرابی نہ پیدا ہونے دیں ۔ آپ ہر قیمت پر امن خریدیں تاکہ آپ اپنے اندر طاقت بھی پیدا کریں اور قوت بھی پیدا کریں ورنہ جرم ِ ضعیفی کی سزا ، مرگِ مفاجات ۔ اگر طاقت نہیں ہے تو پھر اس کے بعد آپ خودکشی کریں گے ۔ اور اب کیا ہورہا ہے ۔ افغانستان میں جہاد کرکے ہم نے کیا کیا ۔ سامراجی قوتوں کے جانے کے بعد ہم نے اپنے ہی لوگوں کے گلے کاٹے ۔ اب پاکستان میں بھی ہم جہاد کر رہے ہیں ۔ کس کے خلاف کر رہے ہیں ۔ خود اپنے ہی لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں ۔ اصل میں جہاد کو جب ہم نے اللہ کے بتائے ہوئے قانون سے مبرا قرار دیکر اپنے نظریوں اور عقائد میں ڈھال لیا ہے ۔ اور اب ہر جگہ کا ایک امیر المومینن ہے ۔ جس کے ہاتھ میں اب لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل رائے کا اختیار آگیا ہے ۔ اب وہ جہاں چاہیں کسی کو بھی اغواء کرکے ، اس کے سر قلم کے مناظر والی وڈیو فخر سے دنیا کے سامنے پیش کریں ۔ کسی بھی خاتون کا فاحشہ قرار دیکر اس کو زندگی سے محروم کردیں ۔۔۔ جب اس سے بھی مطمئن نہ ہوئے تو اب کم عمر بچوں کو ورغلا کر انہیں بازاروں ، چوراہوں ، مسجدوں ، جنازوں ، شادیوں وغیرہ میں خود کش حملوں میں استعمال کیا جارہا ہے ۔ یہ ہے وہ جہاد ۔۔۔ جس کی نوید مولوی عرصے سے سنا رہے ہیں ۔ اور یہ ہے وہ آثار جس کے بعد مسلمان ایک عظیم قوم بن کر سامنے آنے والی ہے ۔
آپ دیکھیں کہ یہاں جہاد کی کیسی توجیحات اور تشریحات پیش کیں جا رہی ہیں ۔ اور اپنی توجیحات اور تشریحات تک کا ان کے پاس جواب نہیں ۔
جہاد اسلام میں ایسے نہیں ہوتا جیسا کہ یہاں کتابچوں میں بتایا جارہا ہے ۔ جہاد کے لیئے اسلام میں ایک پورا قانون ہے ۔ جس کو بڑی وضاحت کیساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے چند بنیادی نکات ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئیں ۔ جہاد علماء نے نہیں بلکہ حکومت کو کرنا ہوتا ہے ۔ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ لوگوں پہ اللہ تعالیٰ کے حدود ، کوئی عام آدمی نافذ کردے ۔ کوئی تنظیم نافذ کردے ۔ کوئی جماعت نافذ کردے ۔ یہ ذمہ داری باقاعدہ ایک حکومت کی ہے ۔ یہی ذمہ داری جہاد کے معاملے میں ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آپ جہاد کس مقصد کے لیئے کرتے ہیں ۔ اسلام میں جہاد ، نہ تو مالِ غنیمت کے لیئے کیا جاتا ہے ۔ نہ ہی دنیا کو تسخیر کرنے کے لیئے کیا جاتا ہے ۔ نہ کسی مذہبی تبلیغ کے لیئے ہوتا ہے ۔ نہ اپنا دین لوگوں پہ نافذ کرنے کے لیئے ہوتا ہے اور نہ ہی کسی نظام کے غلبے کے لیئے ہوتا ہے ۔ اسلام میں جہاد صرف " ظلم و ادوان " کے خلاف ہوتا ہے ۔ جس طریقے سے کوئی سرکش ہوجاتا ہے ۔ تو آپ اس کے خلاف اقدام کرتے ہیں ۔ جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو اللہ تعالیٰ نے حرمت عطا فرمائی ہے ۔ اس بنیادی بات کو پہلے سمجھ لینا چاہیئے ۔ اس دنیا میں اللہ نے امتحان کا جو پلان مقرر کر رکھا ہے ۔ اس کے لیئے اس نے یہ اہتمام کیا ہے کہ لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو آزاد رکھا جائے ۔ اور یہ عقل و رائے کی ہی آزادی ہے جس کو اللہ یوں بیان فرماتا ہے کہ " میں نے اپنے تکمیلی نظام میں لوگوں پر کوئی جبر نہیں کیا ( لا ابراھا فی دین ) ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میںنےانسانوںکو یہ حق دیا ہے کہ " جس کا جی چاہے وہ ایمان قبول کرے ، جس کا جی چاہے وہ کفر اختیار کرے " ۔ یہ فرمان ہے آزادی کا حریت کا ۔ چنانچہ اللہ چاہتا ہے کہ دنیا میں جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کی آزادی رہے ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں کتنی بلاغت کیساتھ فرمایا ہے کہ " یہ دن ( یوم النہر) جو حرمت رکھتا ہے ، یہ مہینہ ( ذی الحج ) جو حرمت رکھتا ہے ، یہ شہر ( مکہ ) جو حرمت رکھتا ہے ، اس سے بڑی اسلام میں اور کیا کسی کی ہوسکتی ہے ۔ مگر یہاں فرمایا کہ اس سے بڑھ کر حرمت تمہاری جان ، مال ، آبرو کو حاصل ہے ۔ " سو یہ وہ حرمت ہے ۔ جس کی حفاظت کرنا ہر اجتماعی نظام کی ذمہ داری ہے ۔ یہی حفاظت ، حکومت ایک قانون بنا کر کرتی ہے ۔ اگر قومیں سرکش ہوجائیں تو پھر ان کے خلاف جنگ کی جاتی ہے ۔ جہاد ایک وسیع اصطلاح ہے ۔ جہاد صرف جنگ کے لیئے قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوتا ۔ اصل لفظ قتال ہے ۔ اور قتال کا حکم لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو حکومتوں ، قوموں ، قبیلوں ، جماعتوں کے ظلم سے بچانے کے لیئے ہے ۔
اگر اس نوعیت کا کہیں ارتکاب ہو رہا ہے ، آپ کو معلوم ہے کہ جان و مال اور آبرو و عقل رائے کے خلاف ظلم ہورہا ہے ۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاد فوراً فرض ہوگیا ہے ۔ اگر آپ کے پاس اس ظلم کا ازالہ کرنے کی طاقت ہے تو تب آپ جہاد کے لیئے اٹھیں گے ۔ اس کے لیئے قرآن مجید نے نسبت و تناسب کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اور جب یہ ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام پر ڈالی گئی تو 1 نسبت 2 کی حساب سے ڈالی گئی ۔ اس وقت مسلمان کہاں جہاد کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ اگر یہ پوزیشن میسر نہیں ہے تو پھر تصادم کی فضا نہ پیدا ہونی دی جائے ۔ آپ حالات میں خرابی نہ پیدا ہونے دیں ۔ آپ ہر قیمت پر امن خریدیں تاکہ آپ اپنے اندر طاقت بھی پیدا کریں اور قوت بھی پیدا کریں ورنہ جرم ِ ضعیفی کی سزا ، مرگِ مفاجات ۔ اگر طاقت نہیں ہے تو پھر اس کے بعد آپ خودکشی کریں گے ۔ اور اب کیا ہورہا ہے ۔ افغانستان میں جہاد کرکے ہم نے کیا کیا ۔ سامراجی قوتوں کے جانے کے بعد ہم نے اپنے ہی لوگوں کے گلے کاٹے ۔ اب پاکستان میں بھی ہم جہاد کر رہے ہیں ۔ کس کے خلاف کر رہے ہیں ۔ خود اپنے ہی لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں ۔ اصل میں جہاد کو جب ہم نے اللہ کے بتائے ہوئے قانون سے مبرا قرار دیکر اپنے نظریوں اور عقائد میں ڈھال لیا ہے ۔ اور اب ہر جگہ کا ایک امیر المومینن ہے ۔ جس کے ہاتھ میں اب لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل رائے کا اختیار آگیا ہے ۔ اب وہ جہاں چاہیں کسی کو بھی اغواء کرکے ، اس کے سر قلم کے مناظر والی وڈیو فخر سے دنیا کے سامنے پیش کریں ۔ کسی بھی خاتون کا فاحشہ قرار دیکر اس کو زندگی سے محروم کردیں ۔۔۔ جب اس سے بھی مطمئن نہ ہوئے تو اب کم عمر بچوں کو ورغلا کر انہیں بازاروں ، چوراہوں ، مسجدوں ، جنازوں ، شادیوں وغیرہ میں خود کش حملوں میں استعمال کیا جارہا ہے ۔ یہ ہے وہ جہاد ۔۔۔ جس کی نوید مولوی عرصے سے سنا رہے ہیں ۔ اور یہ ہے وہ آثار جس کے بعد مسلمان ایک عظیم قوم بن کر سامنے آنے والی ہے ۔