عمار ابن ضیا
محفلین
جب حکمرانوں پر بحث کی جائے گی تو طرزِ حکومت پر بھی کہیں نہ کہیں گفتگو ضرور ہوگی۔
آپ عام آدمی کی نظر سے دیکھیے۔ اس کے لیے یہ اہم نہیں کہ ملک کا حاکم کون ہے، فوجی ہے کہ جمہوری؟ آمر ہے یا منتخب سیاسی بندہ؟ اس کے لیے یہ بات اہم ہے کہ اس کو ریلیف کون دے رہا ہے؟
پچھلی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی کوئی خاص تیر نہیں مارا۔۔۔ لیکن اگر مہنگائی اس حکومت نے کم نہیں کی تو پچھلی حکومتوں نے بھی کوئی انقلاب برپا نہیں کیا تھا۔
میں نے مشرف کی مشروط حمایت کی ہے۔ یعنی وہ اگر واقعی مخلص ہے تو جمہوری چادر خود پر نہ چڑھائے۔ اس نے اپنے ساتھ جو “خوف لیگ“ کی دم لٹکالی ہے، وہی اس کی بدنامی اور ناکامی کا سبب ہے۔
عام آدمی کو تو آپ یہ بتائیں نا کہ اگر وہ پرویز مشرف کو حکومت سے نکال دے گا تو اس کو حکومت کی تبدیلی سے کیا فائدہ ہوگا؟؟؟ اگر وہی لٹیرے پھر آجائیں گے تو بتائیں پھر شور و غل کیوں؟
یہ بات پہلے بھی کسی دھاگے میں لکھی تھی اور اب پھر دہرا رہا ہوں کہ ہم مجبور لوگ ایک برائی سے چھٹکارا پانے کے لیے دوسری برائی کا ساتھ دیتے ہیں اور پھر دوسری برائی سے چھٹکارا پانے کے لیے یا تو تیسری برائی تلاش کرتے ہیں یا پھر پہلی برائی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہی کھیل جاری ہے۔
بے نظیر کو نکالا، نواز شریف کو لے آئے۔ پھر نواز شریف کو نکال کر دوبارہ بے نظیر لے آئے۔ اس کے بعد ایک بار پھر بے نظیر کو ہٹایا اور نواز شریف کے پیچھے لگ گئے۔ پھر نواز شریف کو کو ہٹاکر پرویز مشرف آئے تو اب پرویز مشرف سے جان چھڑا کر دوبارہ بے نظیر اور نواز شریف کو یاد کرتے ہیں۔۔۔
ہمارا سیاسی منظر نامہ بھی کسی مزاح نامہ سے کم نہیں ہے۔
آپ عام آدمی کی نظر سے دیکھیے۔ اس کے لیے یہ اہم نہیں کہ ملک کا حاکم کون ہے، فوجی ہے کہ جمہوری؟ آمر ہے یا منتخب سیاسی بندہ؟ اس کے لیے یہ بات اہم ہے کہ اس کو ریلیف کون دے رہا ہے؟
پچھلی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی کوئی خاص تیر نہیں مارا۔۔۔ لیکن اگر مہنگائی اس حکومت نے کم نہیں کی تو پچھلی حکومتوں نے بھی کوئی انقلاب برپا نہیں کیا تھا۔
میں نے مشرف کی مشروط حمایت کی ہے۔ یعنی وہ اگر واقعی مخلص ہے تو جمہوری چادر خود پر نہ چڑھائے۔ اس نے اپنے ساتھ جو “خوف لیگ“ کی دم لٹکالی ہے، وہی اس کی بدنامی اور ناکامی کا سبب ہے۔
عام آدمی کو تو آپ یہ بتائیں نا کہ اگر وہ پرویز مشرف کو حکومت سے نکال دے گا تو اس کو حکومت کی تبدیلی سے کیا فائدہ ہوگا؟؟؟ اگر وہی لٹیرے پھر آجائیں گے تو بتائیں پھر شور و غل کیوں؟
یہ بات پہلے بھی کسی دھاگے میں لکھی تھی اور اب پھر دہرا رہا ہوں کہ ہم مجبور لوگ ایک برائی سے چھٹکارا پانے کے لیے دوسری برائی کا ساتھ دیتے ہیں اور پھر دوسری برائی سے چھٹکارا پانے کے لیے یا تو تیسری برائی تلاش کرتے ہیں یا پھر پہلی برائی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہی کھیل جاری ہے۔
بے نظیر کو نکالا، نواز شریف کو لے آئے۔ پھر نواز شریف کو نکال کر دوبارہ بے نظیر لے آئے۔ اس کے بعد ایک بار پھر بے نظیر کو ہٹایا اور نواز شریف کے پیچھے لگ گئے۔ پھر نواز شریف کو کو ہٹاکر پرویز مشرف آئے تو اب پرویز مشرف سے جان چھڑا کر دوبارہ بے نظیر اور نواز شریف کو یاد کرتے ہیں۔۔۔
ہمارا سیاسی منظر نامہ بھی کسی مزاح نامہ سے کم نہیں ہے۔