سید شہزاد ناصر
محفلین
موجوں کا عکس ہے خطِ جامِ شراب میں
یا خون اچھل رہا ہے رگِ ماہتاب میں
وہ موت ہے کہ کہتے ہیں جس کو سکون سب
وہ عین زندگی ہے ہے جو ہے اضطراب میں
دوزخ بھی ایک جلوۂ فردوس سے حسن ہے
جو اس سے بے خبر ہیں وہی ہیں عذاب میں
اس دن بھی میری روح تھی محوِ نشاطِ دید
موسیٰ الجھ گئے تھے سوال و جواب میں
میں اضطرابِ شوق کہوں یا جمالِ دوست
اک برق ہے جو کوند رہی ہے نقاب میں