یارب میرے جذبات کو ایسی زباں ملے
حالِ دل وہ جان لے مگر بنا کہے
محبتوں کی چاہ ہو دِل کو دِل سے راہ ہو
دو جسم ہوں ایک جان میں نہ تُو رہے
کانٹا چُبھے مجھے اگر درد ہو اُسے
روئے اُس کا دِل وہاں آنسو مراگرے
ہو ہمارے مُلک کا ایسا نظامِ زندگی
ہر بشر آزاد ہو انصاف بھی ملے
بچوں کی تعلیم کا یکساں ہو انتظام
ایک جیسی صحت و خوراک بھی ملے
قدرہواچھائی کی عزت ملے انسان کو
اونچ نیچ ذات پات سب رہیں پرے
گوہرِ نایاب اور پتھر میں فرق ہو
جوہر شناس ایسا کوئی راہنما ملے
سر زمینِ پاک کا احسان ہے تُم پر
خورشید و ماہتاب تو آئے کئی گئے
 

سیما علی

لائبریرین
یارب میرے جذبات کو ایسی زباں ملے
حالِ دل وہ جان لے مگر بنا کہے
محبتوں کی چاہ ہو دِل کو دِل سے راہ ہو
دو جسم ہوں ایک جان میں نہ تُو رہے
کانٹا چُبھے مجھے اگر درد ہو اُسے
روئے اُس کا دِل وہاں آنسو مراگرے
ہو ہمارے مُلک کا ایسا نظامِ زندگی
ہر بشر آزاد ہو انصاف بھی ملے
بچوں کی تعلیم کا یکساں ہو انتظام
ایک جیسی صحت و خوراک بھی ملے
قدرہواچھائی کی عزت ملے انسان کو
اونچ نیچ ذات پات سب رہیں پرے
گوہرِ نایاب اور پتھر میں فرق ہو
جوہر شناس ایسا کوئی راہنما ملے
سر زمینِ پاک کا احسان ہے تُم پر
خورشید و ماہتاب تو آئے کئی گئے

اُستادِ محترم کی خدمت میں برائے اصلاح
عاطف بھیا
 
محترم اساتذہ کرام اصلاح کی کوشش کی ہے کہاں تک کامیاب ہوئی ہے مہربانی کرکے ضرو بتائیں

میرے جذبات کو ایسی پہچان دے
بِن کہے وہ مرا حالِ دل جان لے
چاہ ہو پیار کی دل ہوں دل سے ملے
بُت ہوں دو ایک جاں سارا جگ مان لے
میرے کانٹا چبھے تو اُسے درد ہو
روئے واں اُس کا دل آنسو گر یاں گرے
بے ثمر بیت جائے نہ ساری عمر
زندگی کی کہانی کو عنوان دے
اس کی الفت عنایت میسر مجھے
کیا غرض ہے مجھے حُور و غِلمان سے
دیس کی خاک کا تُم پہ احسان ہے
یہ جو خورشید جیتے ہو تم شان سے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ثمر والے شعر میں عمر کا تلفظ درست نہیں اسے درست کرنا ضروری ہے ۔۔۔ آور آپ نے کیوں کہ دو قافیے ملحوظ رکھے ہیں اس لیے آنسو والا شعر ٹھیک نہیں ۔ باقی بحر اور اوزان کا برتاؤ درست ہے۔
 
چاہ ہو پیار کی دل ہوں دل سے ملے
بُت ہوں دو ایک جاں سارا جگ مان لے
یہاں بت کی کیا معنویت ہے؟ اصولاً تو محاورے کے مطابق یہاں جسم آنا چاہیے ۔۔۔ مگر موجودہ ترتیب میں وزن کا مسئلہ ہوگا ۔۔۔۔

میرے کانٹا چبھے تو اُسے درد ہو
روئے واں اُس کا دل آنسو گر یاں گرے
’’تو‘‘ کا دو حرفی باندھنا اچھا نہیں
قوافی کی غلطی تو مکرمی عاطف بھائی نے بتا ہی دی ہے ۔۔۔ گر کے ساتھ یاں کی نشست بھی اچھی نہیں کہ گریہ کا اشتباہ گزرتا ہے۔

بے ثمر بیت جائے نہ ساری عمر
زندگی کی کہانی کو عنوان دے
پہلے مصرعے میں تلفظ کی غلطی کے علاوہ شعر میں مخاطب کی طرف اشارہ بھی نہیں ہے ۔۔۔ کون عنوان دے؟ یہ واضح نہیں۔
عمر تیری نہ گزرے کہیں بے ثمر
زندگی کی ۔۔۔الخ

اس کی الفت عنایت میسر مجھے
کیا غرض ہے مجھے حُور و غِلمان سے
غلمان کا تذکرہ یہاں محض قافیہ پیمائی لگتا ہے ۔۔۔ غلمان شرعی اصطلاح میں تو جنت والوں کی خدمت گزار مخلوق کا نام ہے جن کا عشق و الفت کے معاملات سے کوئی علاقہ نہیں ۔۔۔ اگر ایک مخصوص لغوی معنی اختیار کریں تو معنی میں بڑی قباحت پیدا ہوجاتی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
ویسے تو راحل مشورے دے چکے ہیں لیکن کچھ جو صرف نظر ہو گیا ہے، وہ میں کہہ دیتا ہوں
میرے جذبات کو ایسی پہچان دے
بِن کہے وہ مرا حالِ دل جان لے
. درست

چاہ ہو پیار کی دل ہوں دل سے ملے
بُت ہوں دو ایک جاں سارا جگ مان لے
.. سارا جگ مان لے کا ٹکڑا غیر متعلق لگتا ہے، جگ جیسے اجنبی( اس غزل یا شعر کی عمومی زبان کے تناظر میں ) لفظ سے بھی بچیں

میرے کانٹا چبھے تو اُسے درد ہو
روئے واں اُس کا دل آنسو گر یاں گرے
... واں اور یاں قدیمی اردو کا استعمال ہے

بے ثمر بیت جائے نہ ساری عمر
زندگی کی کہانی کو عنوان دے
.. راحل نے اچھا مشورہ دیا ہے

اس کی الفت عنایت میسر مجھے
کیا غرض ہے مجھے حُور و غِلمان سے
.. پہلے مصرع میں بات مکمل ہی نہیں ہو رہی!
اس کی الفت ہی مجھ کو میسر ہو بس!

دیس کی خاک کا تُم پہ احسان ہے
یہ جو خورشید جیتے ہو تم شان سے
.. خاک کا.. میں تنافر ہے، اور دونوں مصرعوں میں آخری حرف ے ہے
 
محترم اساتذہ کرام اگر ہو سکے تو طفل مکتب کی کاوِش غزل (اساتذہ کرام کی اصلاح اور حوصلہ افزائی کی طلبگار) کی لڑی پر بھی کچھ وقت عنایت فرما دیں
 
Top