حسیب نذیر گِل
محفلین
انڈیا اور پاکستان میں بننے والا مون سون سسٹم اگر چہ شدید گرم موسم میںبارشوں کی صورت راحت کا سامان لے کر آیا۔ لیکن وسط جون میں مون سون بارشوں کا آغاز خطے میں وقوع پذیر ہونے والی غیر معمولی موسمی و ماحولیاتی تبدیلیوں کی جانب واضح اشارہ ہے۔ ان بے وقت مون سون بارشوں سے آنے والے سیلابی ریلوں نے بھارت کے بالائی شمالی علاقوں اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں زبردست تباہی مچائی ہے۔چونکہ اس مون سون سسٹم کی شدت پاکستان کے علاقوں کی جانب بتدریج کم ہوچکی تھی اس لیے ہمیں کسی غیر معمولی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قدرت ہم پہ بہت مہربان ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس خطے میں بالخصوص اور پورے کر۔ہ ارض پر بالعموم موسمی و ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمیں بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
بہت سے سائنسی مشاہدوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے جب سے زمینی درجہ حرارت ریکارڈ کیا جارہا ہے۔سال2010 تک کی گزشتہ دہائی کو زمین کا گرم ترین دورانیہ ریکارڈکیا گیا ہے۔زمینی درجہ حرارت میں اضافہ بدستور جاری ہے۔زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی بدولت موسموںکا توازن بگڑتا جارہاہے۔جس کی وجہ سے غیر معمولی موسمی و ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔یہ موسمیاتی تبدیلیاں نہ صرف اس خطے میںبلکہ یورپ،امریکا،افریقہ، ایشیاء اور دیگر خطوں میں بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہیں۔مثلاً چند ہفتے پہلے یورپ میں غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے جرمنی،پولینڈ،چیک ریپبلک، سلواکیہ،آسٹریا،ہنگری اور دیگر یورپی ممالک تباہ کن سیلابی صورتِ حال سے دوچار تھے۔کُچھ اسی طرح کی صورتِ حال برطانیہ کو بھی درپیش ہے جہاں بارشیں معمول بہت زیادہ ہو رہی ہیںجب کہ اسکاٹ لینڈمیں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے وہاں بارشیں معمول سے بہت کم ہو رہی ہیں۔
امریکا کو طوفانی بگولوں اور آفت انگیز سمندری طوفانوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔لاطینی امریکا کے ممالک برازیل ، ارجنٹائن، چلی، پیرواوربولیویا میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلابوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔غیر معمولی موسمی حالات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے کئی افریقی ممالک، چین اور روس وغیرہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے حالیہ بارشوں سے خیبرپختونخواہ کے بعض علاقوں میں آنے والے سیلاب نے پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہونے والی موسمی و ماحولیاتی تبدیلیاں صرف غیر معمولی بارشوں کی ہی ذمے دار نہیں بلکہ یہ بیک وقت کئی خطوں میں شدید خشک سالی کا بھی باعث بن رہی ہیں۔گلیشئر پگھل رہے ہیں اور سمندروں کی سطح آب میں اضافہ ہو رہا ہے۔قِصہ مختصرکہ تیزی سے وقوع پذیر ہونے والی غیر معمولی موسمی و ماحولیاتی تبدیلیوں نے کرہ ارض کے باسیوں کے لیے بحرانی کیفیت پیدا کررکھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخرکیونکر یہ موسمی و ماحولیاتی تبدیلیاں سنگین شکل اختیار کرتی جارہی ہیں۔اور یہ کہ ان سے کس طرح نبرد آزما ہو ا جاسکتا ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سورج زمین کے لیے حرارت کا بنیادی ذریعہ ہے۔یہی نہیں بلکہ سورج زمین کے موسمی و ماحولیاتی ماڈلز کی تشکیل میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتاہے۔سورج سے آنے والی توانائی روشنی و حرارت کی شکل میں زمین کی فضاء سے گزر کرسطحِ زمین کو گرم کرتی ہے۔ اس توانائی کی بہت سی مقدار بادلوں اور زمین کے برف پوش اورسفیدحصوں سے ٹکرا کر منعکس ہوکر واپس خلاء کی جانب مڑ جاتی ہے۔باقی ماندہ توانائی زمین کے موسمی و ماحولیاتی اور ایکولوجیکل نظام چلانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس سارے عمل میں ہزاروں لاکھوں سال سے ایک توازن کی صورتحال برقرار تھی لیکن صنعتی انقلاب کے آغاز سے فضاء میںگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے یہ توازن بگڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
گرین ہاؤس گیسیں یعنی آبی بخارات،کاربن ڈائی آکسائڈ،کلوروفلوروکاربنز،نائٹرس آکسائڈاور میتھین ہماری زرعی ،صنعتی اور روزمرہ کی سرگرمیوں اور بعض قدرتی ذرائع سے بڑی مقدار میں فضاء میں شامل ہوکر اس کو آلودہ کر رہی ہیں۔اس کے علاوہ گرد، دھواں اور دیگر عوامل بھی فضائی آلودگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔بہت سی سائنسی تحقیات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ فضاء میں گرین ہاؤس گیسوں کی بڑھتی ہوئی مقداراور دوسری آلودگیاںزمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔دراصل سورج سے آنے والی حرارت جب منعکس ہوکرواپس خلاء کی جانب جانے لگتی تو فضاء میں موجود گرین ہاؤس گیسیں اسے جذب کر کے واپس فضاء کی نشیبی پرت میں اِدھر اُدھر بکھیر دیتی ہیں۔یوں یہ حرارت زمین پر ہی رہ کر زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا موجب بنتی ہے۔
انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج جو کہ پوری دنیا کے ممالک سے اقوامِ متحدہ کے زیرانتظام1300خودمختار سائنسی ماہرین کا ایک گروپ ہے کی حالیہ فورتھ ایسیسمنٹ رپورٹ میںاس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ90فیصد سے زیادہ امکان ہے کہ گزشتہ250سال میںدرجہ حرارت میںہونے والا اضافہ انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے ۔ سائنسدان اس بات پربھی متفق ہیں کہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادیوں اور کاشتکاری کے لیے زمین کا استعمال ، ایندھن کے طورپر آئل،گیس ،کوئلہ،دیگر معدنیات اور لکڑی کو جلانا،زراعت میں کھادوں اور کیمیائی مادوںکا استعمال،شہروں اور آبادیوں کا کوڑا کرکٹ اور فضلات، لائیوسٹاک اور بہت سے دوسرے عوامل جو کہ خالصتاً انسانی سرگرمیوں پرمبنی ہیں فضاء کو تیزی سے آلودہ کر رہے ہیں۔
کہا یہ جارہا ہے اگر زمین کا اوسط درجہ حرارت اسی رفتار سے بڑھتا رہاجس میںاب تک 1.5′سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور سال2060میں یہ4′سینٹی گریڈ تک جا پہنچے گا جو کہ ایک انتہائی خطرناک صورتِ حال ہو گی۔زمینی درجہ حرارت میںاضافے کے نتیجے میں ہونے والی موسمی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ تو نہیں لگایا جا سکتا لیکن ممکنہ خطرات میںفوڈ سیکیورٹی، سیٹلمنٹ،صحت ،آبی وسائل ،ایکوسسٹم اورجنگلی حیات کوناقابلِ تلافی نقصانات پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ان نقصانات سے خطرناک سیاسی ،سماجی اورحیاتیاتی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔وسائل کی کمی اورکمزور معاشی حالات کی بناء پراس بات کا قوی امکان ہے کہ ممکنہ نقصانات سے سب سے زیادہ متاثرترقی پذیر اورغریب ممالک ہوں گے۔
ہمارا ملک انہی ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں جنگلات اور درختوں کی تعدادخطرناک حد تک کم ہو چکی ہے اور باقی ماندہ جنگلات اور درخت تیزی سے صاف کیے جارہے ہیں۔ جب کہ متوازی سطح پرآبادی میں اضافہ، بغیر منصوبہ بندی کے گاڑیوں ،سڑکوں،صنعتی ورہائشی یونٹوں اورزرعی آبادیوںکی بڑھتی ہوئی تعداد ہمیں ایک خطرناک موڑ کی جانب دھکیل رہے ہیں۔یہی نہیں بلکہ زراعت میںکیمیائی کھادوںاورخطرناک زہروں کا بے تحاشا استعمال اور فصلوں کی تیاری وکٹائی کے بعد کھیتوںکو صفائی کے لیے آگ لگانے کا معمول ماحول اورفضاء کوخوفناک حدتک آلودہ کر رہے ہیں۔ہم پہلے ہی غیریقینی اور غیرمعمولی موسمی وماحولیاتی حالات کی ستم ظریفیوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہرسال بعض علاقوںمیں شدید سیلابوں سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اوربعض علاقوں میں سخت خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جس کی وجہ سے غربت میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ملک تیزی سے بہت سارے سیاسی ، سماجی اور صحت کے مسائل میں گھرتا چلا جارہا ہے۔اس پہ طرّہ یہ کہ موسمی وماحولیاتی تغیر سے نبردآزماہونا تو دور کی بات ہم اس سے آگاہی سے بھی ہنوز بہت دورہیں اور معاملات کو ایڈہاک بنیادوں پر چلا رہے ہیں۔
یہ پہلو امید افزاء ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات سے موسمی وماحولیاتی تغیر کوسست اوراس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایندھن کے طورپرفوسل فیول،دیگر معدنیات اور لکڑی پرانحصارکم سے کم کرکے ری نیوا یبل توانائی کے ذرائع کو اپنانا ہوگا۔کنزیومرازم کو ترک کر کے اپنے طرزِ زندگی میں سادگی لانا ہو گی۔موجودہ جنگلات اور درختوں کو بچانا اور نئے جنگلات اور درختوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔کیمیائی کھادوں،زہروں اوردیگر کیمیائی مادوںکااستعمال کم سے کم کرنا ہوگا اورزراعت میںماحول دوست اور استقامت انگیز(Sustainable)طریقے اپنانا ہونگے۔بائیوڈائیورسٹی،ویٹ لینڈزاور جنگلی حیات کو محفوظ بنانا ہوگا۔ہمیں اپنے گلیشئرز کوجوکہ تیزی سے پگھل رہے ہیںاورآ بی وسائل، دریاؤں،جھیلوں وغیرہ کومحفوظ بنانا ہوگا۔ہمیں سمندرکے پانی کوزرعی،صنعتی اور دیگر آلودگیوں سے زہریلا اور تیزابی ہونے سے بچانا ہوگا۔ ہمیںاپنے قدرتی وسائل پربوجھ کم سے کم کر کے ان کے استعمال کو استقامت انگیز بنانا ہوگا۔اور سب سے بڑھ کر ہمیں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں ہزار بار سوچنا ہوگاکہ اسے کس طرح روکا جائے ۔علاقائی اور عالمی سطح پرایسے اقدامات سے زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی رفتار کو سست کیا جاسکتاہے۔اور اس سے ہونے والے ممکنہ نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔
(مضمون نگارچیئرمین انسیٹیوٹ فارکنزرویشن آف نیچر ہیں)
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
بہت سے سائنسی مشاہدوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے جب سے زمینی درجہ حرارت ریکارڈ کیا جارہا ہے۔سال2010 تک کی گزشتہ دہائی کو زمین کا گرم ترین دورانیہ ریکارڈکیا گیا ہے۔زمینی درجہ حرارت میں اضافہ بدستور جاری ہے۔زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی بدولت موسموںکا توازن بگڑتا جارہاہے۔جس کی وجہ سے غیر معمولی موسمی و ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔یہ موسمیاتی تبدیلیاں نہ صرف اس خطے میںبلکہ یورپ،امریکا،افریقہ، ایشیاء اور دیگر خطوں میں بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہیں۔مثلاً چند ہفتے پہلے یورپ میں غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے جرمنی،پولینڈ،چیک ریپبلک، سلواکیہ،آسٹریا،ہنگری اور دیگر یورپی ممالک تباہ کن سیلابی صورتِ حال سے دوچار تھے۔کُچھ اسی طرح کی صورتِ حال برطانیہ کو بھی درپیش ہے جہاں بارشیں معمول بہت زیادہ ہو رہی ہیںجب کہ اسکاٹ لینڈمیں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے وہاں بارشیں معمول سے بہت کم ہو رہی ہیں۔
امریکا کو طوفانی بگولوں اور آفت انگیز سمندری طوفانوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔لاطینی امریکا کے ممالک برازیل ، ارجنٹائن، چلی، پیرواوربولیویا میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلابوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔غیر معمولی موسمی حالات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے کئی افریقی ممالک، چین اور روس وغیرہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے حالیہ بارشوں سے خیبرپختونخواہ کے بعض علاقوں میں آنے والے سیلاب نے پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہونے والی موسمی و ماحولیاتی تبدیلیاں صرف غیر معمولی بارشوں کی ہی ذمے دار نہیں بلکہ یہ بیک وقت کئی خطوں میں شدید خشک سالی کا بھی باعث بن رہی ہیں۔گلیشئر پگھل رہے ہیں اور سمندروں کی سطح آب میں اضافہ ہو رہا ہے۔قِصہ مختصرکہ تیزی سے وقوع پذیر ہونے والی غیر معمولی موسمی و ماحولیاتی تبدیلیوں نے کرہ ارض کے باسیوں کے لیے بحرانی کیفیت پیدا کررکھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخرکیونکر یہ موسمی و ماحولیاتی تبدیلیاں سنگین شکل اختیار کرتی جارہی ہیں۔اور یہ کہ ان سے کس طرح نبرد آزما ہو ا جاسکتا ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سورج زمین کے لیے حرارت کا بنیادی ذریعہ ہے۔یہی نہیں بلکہ سورج زمین کے موسمی و ماحولیاتی ماڈلز کی تشکیل میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتاہے۔سورج سے آنے والی توانائی روشنی و حرارت کی شکل میں زمین کی فضاء سے گزر کرسطحِ زمین کو گرم کرتی ہے۔ اس توانائی کی بہت سی مقدار بادلوں اور زمین کے برف پوش اورسفیدحصوں سے ٹکرا کر منعکس ہوکر واپس خلاء کی جانب مڑ جاتی ہے۔باقی ماندہ توانائی زمین کے موسمی و ماحولیاتی اور ایکولوجیکل نظام چلانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس سارے عمل میں ہزاروں لاکھوں سال سے ایک توازن کی صورتحال برقرار تھی لیکن صنعتی انقلاب کے آغاز سے فضاء میںگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے یہ توازن بگڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
گرین ہاؤس گیسیں یعنی آبی بخارات،کاربن ڈائی آکسائڈ،کلوروفلوروکاربنز،نائٹرس آکسائڈاور میتھین ہماری زرعی ،صنعتی اور روزمرہ کی سرگرمیوں اور بعض قدرتی ذرائع سے بڑی مقدار میں فضاء میں شامل ہوکر اس کو آلودہ کر رہی ہیں۔اس کے علاوہ گرد، دھواں اور دیگر عوامل بھی فضائی آلودگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔بہت سی سائنسی تحقیات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ فضاء میں گرین ہاؤس گیسوں کی بڑھتی ہوئی مقداراور دوسری آلودگیاںزمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔دراصل سورج سے آنے والی حرارت جب منعکس ہوکرواپس خلاء کی جانب جانے لگتی تو فضاء میں موجود گرین ہاؤس گیسیں اسے جذب کر کے واپس فضاء کی نشیبی پرت میں اِدھر اُدھر بکھیر دیتی ہیں۔یوں یہ حرارت زمین پر ہی رہ کر زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا موجب بنتی ہے۔
انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج جو کہ پوری دنیا کے ممالک سے اقوامِ متحدہ کے زیرانتظام1300خودمختار سائنسی ماہرین کا ایک گروپ ہے کی حالیہ فورتھ ایسیسمنٹ رپورٹ میںاس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ90فیصد سے زیادہ امکان ہے کہ گزشتہ250سال میںدرجہ حرارت میںہونے والا اضافہ انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے ۔ سائنسدان اس بات پربھی متفق ہیں کہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادیوں اور کاشتکاری کے لیے زمین کا استعمال ، ایندھن کے طورپر آئل،گیس ،کوئلہ،دیگر معدنیات اور لکڑی کو جلانا،زراعت میں کھادوں اور کیمیائی مادوںکا استعمال،شہروں اور آبادیوں کا کوڑا کرکٹ اور فضلات، لائیوسٹاک اور بہت سے دوسرے عوامل جو کہ خالصتاً انسانی سرگرمیوں پرمبنی ہیں فضاء کو تیزی سے آلودہ کر رہے ہیں۔
کہا یہ جارہا ہے اگر زمین کا اوسط درجہ حرارت اسی رفتار سے بڑھتا رہاجس میںاب تک 1.5′سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور سال2060میں یہ4′سینٹی گریڈ تک جا پہنچے گا جو کہ ایک انتہائی خطرناک صورتِ حال ہو گی۔زمینی درجہ حرارت میںاضافے کے نتیجے میں ہونے والی موسمی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ تو نہیں لگایا جا سکتا لیکن ممکنہ خطرات میںفوڈ سیکیورٹی، سیٹلمنٹ،صحت ،آبی وسائل ،ایکوسسٹم اورجنگلی حیات کوناقابلِ تلافی نقصانات پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ان نقصانات سے خطرناک سیاسی ،سماجی اورحیاتیاتی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔وسائل کی کمی اورکمزور معاشی حالات کی بناء پراس بات کا قوی امکان ہے کہ ممکنہ نقصانات سے سب سے زیادہ متاثرترقی پذیر اورغریب ممالک ہوں گے۔
ہمارا ملک انہی ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں جنگلات اور درختوں کی تعدادخطرناک حد تک کم ہو چکی ہے اور باقی ماندہ جنگلات اور درخت تیزی سے صاف کیے جارہے ہیں۔ جب کہ متوازی سطح پرآبادی میں اضافہ، بغیر منصوبہ بندی کے گاڑیوں ،سڑکوں،صنعتی ورہائشی یونٹوں اورزرعی آبادیوںکی بڑھتی ہوئی تعداد ہمیں ایک خطرناک موڑ کی جانب دھکیل رہے ہیں۔یہی نہیں بلکہ زراعت میںکیمیائی کھادوںاورخطرناک زہروں کا بے تحاشا استعمال اور فصلوں کی تیاری وکٹائی کے بعد کھیتوںکو صفائی کے لیے آگ لگانے کا معمول ماحول اورفضاء کوخوفناک حدتک آلودہ کر رہے ہیں۔ہم پہلے ہی غیریقینی اور غیرمعمولی موسمی وماحولیاتی حالات کی ستم ظریفیوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہرسال بعض علاقوںمیں شدید سیلابوں سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اوربعض علاقوں میں سخت خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جس کی وجہ سے غربت میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ملک تیزی سے بہت سارے سیاسی ، سماجی اور صحت کے مسائل میں گھرتا چلا جارہا ہے۔اس پہ طرّہ یہ کہ موسمی وماحولیاتی تغیر سے نبردآزماہونا تو دور کی بات ہم اس سے آگاہی سے بھی ہنوز بہت دورہیں اور معاملات کو ایڈہاک بنیادوں پر چلا رہے ہیں۔
یہ پہلو امید افزاء ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات سے موسمی وماحولیاتی تغیر کوسست اوراس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایندھن کے طورپرفوسل فیول،دیگر معدنیات اور لکڑی پرانحصارکم سے کم کرکے ری نیوا یبل توانائی کے ذرائع کو اپنانا ہوگا۔کنزیومرازم کو ترک کر کے اپنے طرزِ زندگی میں سادگی لانا ہو گی۔موجودہ جنگلات اور درختوں کو بچانا اور نئے جنگلات اور درختوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔کیمیائی کھادوں،زہروں اوردیگر کیمیائی مادوںکااستعمال کم سے کم کرنا ہوگا اورزراعت میںماحول دوست اور استقامت انگیز(Sustainable)طریقے اپنانا ہونگے۔بائیوڈائیورسٹی،ویٹ لینڈزاور جنگلی حیات کو محفوظ بنانا ہوگا۔ہمیں اپنے گلیشئرز کوجوکہ تیزی سے پگھل رہے ہیںاورآ بی وسائل، دریاؤں،جھیلوں وغیرہ کومحفوظ بنانا ہوگا۔ہمیں سمندرکے پانی کوزرعی،صنعتی اور دیگر آلودگیوں سے زہریلا اور تیزابی ہونے سے بچانا ہوگا۔ ہمیںاپنے قدرتی وسائل پربوجھ کم سے کم کر کے ان کے استعمال کو استقامت انگیز بنانا ہوگا۔اور سب سے بڑھ کر ہمیں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں ہزار بار سوچنا ہوگاکہ اسے کس طرح روکا جائے ۔علاقائی اور عالمی سطح پرایسے اقدامات سے زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی رفتار کو سست کیا جاسکتاہے۔اور اس سے ہونے والے ممکنہ نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔
(مضمون نگارچیئرمین انسیٹیوٹ فارکنزرویشن آف نیچر ہیں)
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس