موسیقی کی منازل۔ موسیقی کی کائی۔

سید رافع

محفلین
موسیقی کی منازل۔ موسیقی کی کائی۔

ایک دوست فرما رہے تھے۔

شہوت انگیز موسیقی اور شہوت انگیز ماحول میں تو کافی obvious ہے کہ حرام کے زمرے میں آئے گا۔ کیا اس کا تعلق موسیقی کی دھن یا لئے سے یا الفاظ یا موضوع سے۔ بعض صوفی سلسلوں میں سماع کا نظریہ ہے۔ حضرت امیر خسرو نے تو موسیقی کے آلات اور راگ بھی ایجاد کئے۔

اس پر میں نے بھی گفتگو میں حصہ ڈالا۔

بس یہی تو ہے جو آپ نے لکھا۔ لیکن اس سے آگے یہ ہے کہ ایک واقعہ سنیں۔ ایک دفعہ میں ایک عالم دین کی مجلس میں دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا ۔ ایک صاحب ایک طرف ہو گئے جبکہ سب کھانا کھا رہے تھے۔ جب کچھ دیر ہو گئی تو عالم دین ان صاحب سے بولے کہ آپ بھی کھانا کھا ئیں۔ ان صاحب نے کہا کہ آپ کھا ئیں۔ اسپر ان عالم دین نے کہا کہ جب آپ کی غذا روحانی ہو جائے تو بیشک یہ کھانا ترک کر دیجیے گا ابھی تو کھا لیں۔ ان عالم دین کا مقصد منزلوں کی طرف توجہ دلانا تھا۔

یہی بات موسیقی پر بھی صادق آتی ہے کہ جو انگریزی اردو گانوں اور غزلوں کو سنتا ہو وہ موسیقی چھوڑنے سے زیادہ پہلے دیگر راستوں سے اپنے قلب کو روحانی غذا باہم پہنچائے۔ نماز موسیقی کو کم کروا دے گی۔ پھر اگر نعت موسیقی والی سے کام چلا لے کہ موسیقی بھی دماغ کو سیگرٹ کی طرح آرام دیتی اور کمزور کرتی ہے۔

لیکن توجہ قوالی اور موسیقی والی نعت سے زیادہ دماغ پر رہے کہ اتنا بوجھل نہ ہو جائے کہ کام کاج اور اخلاق خراب ہو جائیں۔ جب اس منزل پر قدم جم جائیں اور کسی کام سے اپنی من پسند روحانی غذا حاصل ہونے لگے یا کسی عالم دین یا شیخ یا صوفی کے کاموں میں لگ جائیں تو وقت ہی کہاں ملے گا کہ موسیقی والی نعت سنیں۔ یا قوالی سنیں ۔ یا غزلیں سنیں۔

اگر ان سب منزلوں سے گزر جائیں تو نعت بغیر موسیقی والی کو سہارے کے طور پر استعمال کر لیں۔ یا نوحہ و مرثیہ یا مشاعرے جس سے طبعیت میں فرحت واپس لوٹے۔ اگر اس منزل سے بھی گزر جائیں اور دینی مہمات اسقدر بڑھ جائیں تو تلاوت سننا ہو گی۔ مختلف قسم کے قاری خوش الحان آوازاں میں ایسی ایسی قرت کرتے ہیں کہ طبعیت جھوم جائے۔ بعض اس منزل سے بھی گزر جاتے ہیں اور ان کے اندر ہی اندر قرآت ہوتی رہتی ہے۔ اور نئے ںئے موضوع اور انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔ اس سے بھی گزر جائیں تو طبعیت ہی قرآن بن جاتی ہے۔ یعنی قرآن ہی بولتے ہیں قرآن ہی کی آیات لوگوں میں ماحول میں حرکت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ تبھی دعا ہے کہ قرآن کو میرے سینے کا نور بنا۔

صوفی سلسلوں میں سماع بھجن کے رد میں آیا کہ ہندو وقوم میں ایسے ایسے راگ اور راگنیاں ہیں جو طبعیت میں راحت پیدا کرتے ہیں۔ یہ اگلے لوگوں کے پاکیزہ علوم سے نکلی ہو ئی شئے ہے۔ جیسے کہ بت پرستی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کہ ایک صاحبزادے کو راگ اور راگنیوں کے بارے میں معلومات تھی۔ مطلب اسکی اصل سمجھنے کی شش کی۔ علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے جہاں سے ملے حاصل کر لے۔ ہندو مسلم صوفیوں میں جب بیٹھتے تو قوالی اور سماع کی محفل ہوتی جس میں کلام عموما اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھومتا۔ امیر خسرو رح نطام الدین اولیا رح کے ایک خلیفہ ہیں۔ ان کے کلام سے وہ صوفی اپنے احوال سے بلند احوال کی طرف متوجہ ہوتے ۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ اصل یہی ہے کہ موسیقی چاہے گھنٹی کی آواز ہی کیوں نہ ہو قلب پر ایک کائی جماتی ہے۔ دیگر اعمال سے اس کائی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ بعض کے قلوب شہوت سے اسقدر پاک ہوتے ہیں کہ وہ کائی جمے تو کہاں؟ بہرحال دین میں نرم راستے سے داخل ہونا چاہیے ورنہ یہ آپ پر غالب آجائے گا۔

جس شخص میں کائی جمنے اور ہٹنے کی کیفیت میں فرق واضح نہ ہو پہلے وہ وہاں فرق سمجھنے تک تو پہنچے۔ جو بھی عمل ہو وہ مختصر ہو لیکن ہمیشہ ہو کیونکہ ہم ہی عمل کرنے سے تھک جائیں گے لیکن اللہ ثواب یا درجے بڑھانے سے نہیں۔ لا محدود ذات کو محدود اعمال سے نہیں توفیق خداوندی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس وقت کیا چیز آپ کے قلب میں ہے، کہاں دھیان جا رہا ہے جو اصل سے دھیان ہٹا رہا ہے۔ سو اس سے فارغ ہوں۔ مثلا ایک صحابی نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو باغ کی چڑیا کی بھلی آواز نے انکو اپنی طرف متوجہ کیا۔ انہوں نے وہ باغ ہی صدقہ کر دیا۔ خیر وہ بڑے لوگوں کے بڑے اعمال۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ بندہ اپنی اوقات میں رہے۔ لامحدود ذات آپکے محدود اعمال سے حاصل ہونے والی پاکی کے ذریعے اپنی معرفت اور مغفرت دینے کی ذرا بھی محتاج نہیں وہ جب چاہے صحیح قلب کو اپنی طرف کھینچ لے۔ وہاں ایک ہی سکہ چلتا ہے قلب سلیم۔ واللہ اعلم۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کوئل کا گلا بھی گھونٹ دیجیے کہ اُس کی آواز میں بھی موسیقی ہے جو کہیں آپ کے کانوں تک پہنچ گئی توقلب پر "کائی" نہ جم جائے!
 

سید رافع

محفلین
کوئل کا گلا بھی گھونٹ دیجیے کہ اُس کی آواز میں بھی موسیقی ہے جو کہیں آپ کے کانوں تک پہنچ گئی توقلب پر "کائی" نہ جم جائے!

خدا کی عبادت کرنے اور خدا بنا کر عبادت کرنے میں بھی وہی فرق ہے جو کوئل کے سلسلے میں آپ نے فرمایا۔
 
Top