مولانا اقبال سہیل " کی ہے شبِ غم کس طرح بسر، پچھلا وہ فسانہ کیا کہئے "

طارق شاہ

محفلین

غزل
مولانا اقبال سہیل

کی ہے شبِ غم کس طرح بسر، پچھلا وہ فسانہ کیا کہئے
کانوں میں ہو جب گلبانگِ سحر رُودادِ شبانہ کیا کہئے

سرمشقِ ستم، محرومِ کرم، آہ اپنا فسانہ کیا کہئے
سر تا بقدم ہیں نالہٴ غم، عِشرت کا ترانہ کیا کہئے

آئی شبِ غم کے بعد سحر، غمناک رہا پھر بھی منظر
وہ غنچہ وگل کا ہنس ہنس کر شبنم کو رُلانا کیا کہئے

کیوں بزم طرب کے صدر نشِیں، پائِیں کے اب ہم اہل نہیں
کل وادئِ غم میں ہم دونوں، تھے شانہ بشانہ کیا کہئے

یا لالہ وگل اِس باغ کے سب، کرتے تھے ہمارا پاسِ ادب
یا کِھنچتے ہیں ہم سے خار بھی اب، نیرنگِ زمانہ کیا کہئے

ادراک و تصوّر، فکر و نظر معراجِ بصیرت ہے تو مگر
اِس راز کو بھی تا حدِ یقیں جانا کہ نہ جانا کیا کہئے

گو چین سے دم بھر رہ نہ سکے،سر دے نہ سکے، دُکھ سہہ نہ سکے
آپ اپنی کہانی کہہ نہ سکے، اوروں کا فسانہ کیا کہئے

گھر اپنا لُٹایا جِن کے لئے، آئے سرِ صحرا جِن کے لئے
پوچھیں وہی ہم سے نام ونشاں، تو اپنا ٹھکانہ کیا کہئے

انکار پہ رشحہ ابرِکرم، اقرار کی دنیا تشنۂ نم
اے ساقیِ فِطرت تیری قسم، اب بے ادبانہ کیا کہئے

سرسبزیِ دل، شادابیِ جاں، کیا بات تِری اے اشک رواں
ساون کی جھڑی، موتی کی لڑی، وہ آب یہ دانہ کیا کہئے

ہرحرف حقائق کا دفتر، ہر لفظ معانی کا جوہر
ہے تیری غزل یا سِلکِ گُہر ، اقبال یگانہ کیا کہئے
مولانا اقبال سہیل
1948
 

جنید اقبال

محفلین
گھر اپنا لُٹایا جِن کے لئے، آئے سرِ صحرا جِن کے لئے
پوچھیں وہی ہم سے نام ونشاں، تو اپنا ٹھکانہ کیا کہئے

کیوں بزم طرب کے صدر نشِیں، پائِیں کے اب ہم اہل نہیں
کل وادئِ غم میں ہم دونوں، تھے شانہ بشانہ کیا کہئے

آئی شبِ غم کے بعد سحر، غمناک رہا پھر بھی منظر
وہ غنچہ وگل کا ہنس ہنس کر شبنم کو رُلانا کیا کہئے

کیا ہی خوب ہے
 

سید زبیر

محفلین
گھر اپنا لُٹایا جِن کے لئے، آئے سرِ صحرا جِن کے لئے
پوچھیں وہی ہم سے نام ونشاں، تو اپنا ٹھکانہ کیا کہئے
کیا کہنے ۔ ۔ ۔ شاہ صاحب بہت عمدہ انتخاب ۔ ۔ ۔واہ
 

طارق شاہ

محفلین
گھر اپنا لُٹایا جِن کے لئے، آئے سرِ صحرا جِن کے لئے
پوچھیں وہی ہم سے نام ونشاں، تو اپنا ٹھکانہ کیا کہئے
کیا کہنے ۔ ۔ ۔ شاہ صاحب بہت عمدہ انتخاب ۔ ۔ ۔واہ
اس ستائشِ انتخاب اور اظہارِ خیال پر آپ کا ممنون ہوں
مسرت ہوئی جو انتخاب پسند آیا
تشکّر
بہت خوش رہیں
 
Top