مولانا جلال الدین رومی

نیلم

محفلین
مولاناجلال الدین رومی کی شخصیت اور ان کا کالام دونوں هی کسی تعارف کے محتاج نهیں۔ چھبیس ھزار چھ سو چھیاسٹھ اشعار پر مبنی ان کی مشهور زمانه مثنوی تصوف اور عشق الهٰی کے جمله موضوعات کو انتهائ سادگی روحانی اور عام فهم انداز مین بیان کرتی ھے۔ عشق الهٰی اور معرفت کے انتهائ مشکل و پیچیده نکات سلجھانے کے لیے مولانا نے سبق آموز حکایات و قصے کهانیوں سے مدد لی ھے جو بھی لکھا ھے قرآن و حدیث نبوی سے اس کی سند بھی بیان کی جاتی هے اس لیئے آج آٹھ سو سال گزر جانے کے باوجود ان کے کلام کی اهمیت و افادیت میں کوئ کمی واقع نهین ھوئ۔

مولانا جلال الدین رومی الملقب به مولوی معنوی سن باره سو سات میں بلخ میں پیدا ھوئے۔ آپ کے والد بزرگوار بهاء الدین اپنے دور کے مشهور علماء مین شمار کیئے جاتے تھے، حتی کے ان حلقهء درس میں حاکم وقت خوارزم شاه بھی شرکت کیا کرتے تھا۔ وحشی منگولوں کے حملوں کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر مولانا کے خاندان نے بلخ کو خیر باد کها اور پناه کی تلاش مین انا طویه کی راه لی، راستے میں نیشاپور میں رکے جهاں مشهور صوفی بزرگ عطار نیشا پوری سے ملاقات کی۔ عطا بڑے قیافه شناس تھے۔ جلال الدین رومی کو دیکھ کر سمجھ گئے که آگے چل کر یه بچه عشق و معرفت کی دنیا میں دھوم مچا دے گا۔ چناں چه انهوں نے بهاء الدین کو ان کی تربیت پر خصوصی توجه دینے کی هدایت کی۔ حج کی سعادت حاصل کرتے هوئے بهاء الدین اناطولیه پهنچے جهاں کے سلجوتی حاکم علاءالدین کیقباد نے انکا پرتپاک استقبال کیا۔ قونیه میں بهاء الدین نے ایک مدرسے میں تدریس شروع کی اور بهت جلد مشهور ھوگئے، ان کے انتقال کے بعد مولانا رومی نے والد کی گدی سنبھال لی۔ حلقهء درس میں شریک هونے والے حاکم وقت اور اعیان دولت ان سے بے انتها عقیدت رکھتے تھے۔

مولانا کی زندگی بڑے سکون سے گزررهی تھی، ایک دن گرمیوں کی صبح وه حوض کے پاس معمول کے مطابق درس دے رهے تھے، ایک خوانچه فروش حلوه بیچتا ھوا مدرسے کے احاطے میں آگیا۔ اپنے اطراف اور ماحول سے بے پرواه اور بے خبر اس جگه جا کر کھڑا ھواگیا جهاں مولانا تدریس میں مشغول تھے۔ خوانچه فروش نے تعجب سے پوچھا که یه سب کیا ھے، کیا ھورھا هے۔ مولانا نے بڑے تحمل سے کها یه تم نهین جانتے جاؤ، اپنا کام کرو۔ وه آگے بڑھا اور کتاب مولانا کے هاتھ سے لے کر اٹھا اور حوض میں پھینک دی۔ مولانا نے کها یه تم نے کیا کیا۔ میں نے تو کچھ بھی نهیں کیا۔ یه کهه کر اس نے حوض سے کتاب نکال کر رومی نے حیرت سے پوچھا، یه کیا ھے، اب باری اس کی تھی، یه تم نهیں جانتے یه که کر اس نے اپنا خوانچه اٹھایا اور اسی طرح صدا لگاتا ھوا باهر چلا گیا۔ یه حضرت شمس تبریز تھے۔ مولانا رومی، شمس تبریز کو اپنے ساتھ لے آئے۔ انهوں نے علم کی انتھائ اعلیٰ منازل طے کررکھی تھین، اب عشق الهٰی و معرفت کے سفر کا آغاز کیا جس مین قدم قدم پر انهیں اپنے مرشد شمس تبریز کی راه نمائ حاصل تھی۔ مولانا رومی نے رفته رفته اپنا رابطه اپنے ماحول اور گردو پیش سے منقطع کرلیا۔ بس وه تھے اور شمس تبریز کی صحبت۔ یه صورت حال ان کے شاگردوں کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نه تھی۔ چنانچه شمس تبریز انکے نزدیک متنازع شخصیت بن گئے، شاگردوں و عقیدت مندوں کے بدلتے هوئے تیور دیکھ کر ایک رات اچانک حضرت شمس تبریز غائب ھوگئے۔ بعض روایات کے مطابق انھیں شهید کردیا گیا۔

شمس تبریز کی جدائ مولانا رومی کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اپنے مرشد کے فراق میں خود و ارفتگی کے عالم میں انهوں نے فی البدیهه شعر کهنا شروع کردیئے۔ یوں عرفان و آگهی کی مضبوط ترین دستاویز مثنوی تخلیق ھوئ۔

اس مثنوی کے علاوه مولانا رومی کا دیوان کبیر، جو چالیس هزار اشعار پر مشتمل ھے، جس میں بائیس شعری مجموعے بشمول دیوان شمس تبریز عربی، ترکی اور یونانی زبانوں میں ان کا کلام۔ تصوف پر ایک کتاب فی مافیه، مجالس سبع اور مکتوبات، ایسی کتابیں هیں جو ان کے نام کو صوفیانه ادب میں همیشه روشن اور تابنده رکھیں گی۔

هر سال ستره دسمبر کو مولانا کا عرس [شب عروس] کے نام سے قونیه میں منعقد کیا جاتا ھے۔

سن دوهزار سات کو ان کی ولادت کی آٹھ سو ساله تقریبات کے طور پر منایا ۔ مئ کے مهینے میں یونیسکو نے استنبول میں ایک شاندار کانفرنس کا اهتمام کیا تھا، اسی مهینے میں تهران مین بھی ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد ھوچکا ۔ قارئین مولانا سلوک کی اس منزل پر پهنچ چکے تھے که انهیں هر طرف الله هی کا جلوه نظر آتا تھا، جو قرآن کی آیت [الله نور السموات و الارض] کی گویا تفسیر ھے، وه حسن و زیبائ کے کائناتی، ملکاتی اور الهامی تصور کے علم بردار تھے۔ الله تعالی نے محبت رسول الله سے شیفتگی کے اس مرتبے پر پهنچ چکے تھے، جهاں ان کی اپنی هستی معدوم هوچکی تھی۔
 
مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی اور دکھ ہؤا کہ اچھا خاصہ مولانا رومی رح کتاب پڑھ رہےتھے کہ مولانا شمس تبریز رح نے انکی کتاب اٹھا کر پھینک دی ۔۔۔۔وہ بھی بغیر بتائے ۔۔۔
پکی بات ہے یہ ہمارے بزرگان دین کا ہی قصہ ہے یا ان پر بہتان ؟
اول تو مولانا رومی رح کا درس دیتے کسی انجان بندے کو یہ کہنا "جاؤ اپنا کام کرو" ہی کافی متنازعہ ہے ۔۔بھلا جو دوسروں کو اخلاق کا درس دے وہ بھی اسلام کا اخلاق تو اس سے انجان بندے سے ایسا کہنا ہی محل نظر آتا ہے ۔۔

بلکہ پیار سے کہتے بیٹھ جاؤ تم بھی سنو وغیر وغیرہ ۔۔۔۔۔پھر مولانا شمس تبریز کا ان سے کتاب چھین کر حوض میں پھینک دینا
یہ کونسا اسلام اخلاق ہے بھئی ؟
اگر کوئی آپ کے ساتھ ایسا کرے تو آپ اسکو اس حرکت کو کیا نام دینگے ؟
اگر ایسے واقعات کو عام کیا جائے گا تو دوسرے اسکا کیا اثر لینگے ،
ان بزرگان دین کے بارے میں تو مشہور ہے کہ انہوں نے پیار و محبت کا درس دیا ۔۔۔۔
یہ کیسا پیار تھا کہ شاگردوں کو استاد سے ہی جدا کردیا جائے ۔۔۔۔؟؟

خدارا ۔۔۔۔واقعات شئیر کرتے وقت انکی سند کا خیال رکھے اور اس طرح کے ہولناک واقعات لکھ کر عوام میں بزرگوں کا "جلال" کے خوف کی بجائے "پیار" کا پیغام دے تو زیادہ اچھا ہو ۔۔۔

میں بزرگوں کے کرامات کا منکر نہیں لیکن ایسے واقعات کو قبول کرنے میں تامل ضرور ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی اور دکھ ہؤا کہ اچھا خاصہ مولانا رومی رح کتاب پڑھ رہےتھے کہ مولانا شمس تبریز رح نے انکی کتاب اٹھا کر پھینک دی ۔۔۔ ۔وہ بھی بغیر بتائے ۔۔۔
پکی بات ہے یہ ہمارے بزرگان دین کا ہی قصہ ہے یا ان پر بہتان ؟
اول تو مولانا رومی رح کا درس دیتے کسی انجان بندے کو یہ کہنا "جاؤ اپنا کام کرو" ہی کافی متنازعہ ہے ۔۔بھلا جو دوسروں کو اخلاق کا درس دے وہ بھی اسلام کا اخلاق تو اس سے انجان بندے سے ایسا کہنا ہی محل نظر آتا ہے ۔۔

بلکہ پیار سے کہتے بیٹھ جاؤ تم بھی سنو وغیر وغیرہ ۔۔۔ ۔۔پھر مولانا شمس تبریز کا ان سے کتاب چھین کر حوض میں پھینک دینا
یہ کونسا اسلام اخلاق ہے بھئی ؟
اگر کوئی آپ کے ساتھ ایسا کرے تو آپ اسکو اس حرکت کو کیا نام دینگے ؟
اگر ایسے واقعات کو عام کیا جائے گا تو دوسرے اسکا کیا اثر لینگے ،
ان بزرگان دین کے بارے میں تو مشہور ہے کہ انہوں نے پیار و محبت کا درس دیا ۔۔۔ ۔
یہ کیسا پیار تھا کہ شاگردوں کو استاد سے ہی جدا کردیا جائے ۔۔۔ ۔؟؟

خدارا ۔۔۔ ۔واقعات شئیر کرتے وقت انکی سند کا خیال رکھے اور اس طرح کے ہولناک واقعات لکھ کر عوام میں بزرگوں کا "جلال" کے خوف کی بجائے "پیار" کا پیغام دے تو زیادہ اچھا ہو ۔۔۔

میں بزرگوں کے کرامات کا منکر نہیں لیکن ایسے واقعات کو قبول کرنے میں تامل ضرور ہے
سر پھرا صاحب آپ کی آمد پر خوش آمدید۔
محفل پر معلومات شئیر کرنے کا اک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی ہے تو اسے درست کر لیا جائے۔ اور اکثر اوقات یہ سود مند ہی رہا ہے۔
آپ نے پیاری بات کی سند کی۔
ان واقعات پر اعتراض اگر آپکی ذاتی رائے ہے تو پذیرائی کی حقدار نہ ٹھہرے گی۔ لیکن اگر آپ اس ضمن میں کچھ تحقیق کر سکیں اور سند مہیا کر سکیں تو تمام محفلین آپ کے تہہ دل سے شکر گزار رہیں گے۔ کم از کم میں :) ۔ کہ سیکھنے کا عمل اک دوسرے سے ہی جڑا ہے۔
ہم آپکے تعارف کے لیئے بھی گوش بر صدا ہیں کہ یہ آپکا پہلا مراسلہ ہے۔ :)
 

پپو

محفلین
واقعات سے اختلاف اپنی جگہ اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے لازما مانا جائے جو حقیقت ہے وہ یہی ہے کہ مولانا روم رحمت اللہ علیہ بہت بلند پایا صوفی بزرگ تھے ان کی مثنوی میں رشد ہدایت کے علاوہ کوئی ایسی بات نہیں جسے اختلاف کیا جا سکے اپنے زمانے کے حالات کے مطابق یہ بہترین تصنیف ہے
 
نیلم بہت بھاگوان بچی ہے لیکن قلم کا استعمال ایک الگ فن ہے اور پھر ایسی حکایات کا بیان کرنا انتہائی ہوشمندی اور الفاظ کے چناؤ کا متقاضی ہے۔
اصل واقعہ کچھ اسطرح ہے کہ اللہ اکبر کچھ اشعار یاد آگئے ذہن سے نکل نہ جائیں اس لیئے پہلے لکھ دیتا ہوں کسی زمانے میں اقبال کی اسرار و رموز میں پڑھے تھے اچانک صاعقہ کی رفتار سے ذہن کی لوح پر روشن ہوئے۔
شیخ تبریزی ز ازراہ کمال
جست راہ مکتبہ ملا جلال
گفت،ایں غوغائے قیل و قال چیست
ایں خیال وہم و استدلال چیست
مولوی فرمود،ناداں لب بہ بند
این مقالات خرد منداں مخند
اب میں ادھر بھول رہا ہوں کہ یہ شیخ تبریزی ہے یا کہ شمس تبریزی ہے
اصل واقعہ ہم نے جو بزرگان دین سے سنا ہے وہ اس طرح ہے کہ علم کی انتہائی بلندیوں اور عروج پر پہنچنے کے باؤجود مولانا کو سکون قلب نہ تھا اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا کی کہ یا للہ اس کا کوئی درماں فرمادیجیو۔ تو اللہ تبارک تعالیٰ نے شمس تبریز کو بھیجا۔
مولانا اپنے مدرسے میں حوض کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے اور درس جاری تھا کہ اچانک ایک نووارد نمودار ہوا اور کتابوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا کہ ایں چیست! مولانا نے اس کی ظاہری شخصیت اور طفلانہ سوال کو ہنس کر ٹال دیا اور کہا کہ ایں قیل و قال است ترا چہ
اچانک اس نووارد نے اس میں کچھ کتابیں اٹھا کر حوض میں پھینک دیں مولانا کہ سنبھلنے سے پہلے پہلے وہ پندرہ بیس کتابیں حوض میں پھینک چکا تھا ۔ جب اس کو روکا گیا تو مولانا نے انتہائی دکھ اور تاسف بھرے لہجے میں کہا کہ یہ تو نے کیا کیا یہ تو میری برسوں کی محنت کا نتیجہ تھیں (یاد رہے کہ اس زمانے میں چھاپ خانے نہیں ہوتے تھے اور کاتبوں کے ذریعے کتابوں کو نقل کیا جاتا تھا) تو شمس تبریزی نے اس حوض میں ہاتھ ڈال کر کتابیں نکال کر مولانا کہ آگے رکھ دیں تو وہ ایسی تھیں جیسا کہ حوض میں پھینکنے سے قبل تھیں۔ مولانا نے بے اختیار کہا ! ایں چیست ! تو نوواد نے متبسم ہو کر کہا کہ ایں ذوقے وصال است ترا چہ۔
یہ سوال اور جواب ایک بہت خوبصورت شعر بھی بنتا ہے جس کا پہلا مصرعہ مولانا کا ہے اور دوسرا شمس تبریز کا ہے
ایں چیست! ایں قیل و قال است ترا چہ
ایں چیست! ایں ذوقے وصال است ترا چہ
شمس تبریز: یہ کیا ہے! یہ کہی کہائی باتیں ہیں یعنی علم کی باتیں ہیں تو اس کو حقیقت کو نہیں جان سکتا ہے تیرا اس سے کیا واسطہ؟؟؟
مولانا! یہ کیا ہے! یہ ذوقِ وصال ہے تو اس کی معرفت کو نہیں جان سکتا ہے تیرا اس سے کیا واسطہ؟؟؟
بعض اولیاء کی زبان سے اس واقعہ کو یوں سنا ہے
ایں چیست! ایں قیل و قال است تو نمی دانی
ایں چیست! ایں ذوقے وصال است تو نمی دانی
نیلم بٹیا یہ راہ بہت باادب ہے دیکھ کر چلا کرو ایک شعر یاد آیا
ادب گاہِ است، زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
محمود احمد غزنوی الف نظامی [USER=6120]باباجی
 
مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی اور دکھ ہؤا کہ اچھا خاصہ مولانا رومی رح کتاب پڑھ رہےتھے کہ مولانا شمس تبریز رح نے انکی کتاب اٹھا کر پھینک دی ۔۔۔ ۔وہ بھی بغیر بتائے ۔۔۔
پکی بات ہے یہ ہمارے بزرگان دین کا ہی قصہ ہے یا ان پر بہتان ؟
اول تو مولانا رومی رح کا درس دیتے کسی انجان بندے کو یہ کہنا "جاؤ اپنا کام کرو" ہی کافی متنازعہ ہے ۔۔بھلا جو دوسروں کو اخلاق کا درس دے وہ بھی اسلام کا اخلاق تو اس سے انجان بندے سے ایسا کہنا ہی محل نظر آتا ہے ۔۔

بلکہ پیار سے کہتے بیٹھ جاؤ تم بھی سنو وغیر وغیرہ ۔۔۔ ۔۔پھر مولانا شمس تبریز کا ان سے کتاب چھین کر حوض میں پھینک دینا
یہ کونسا اسلام اخلاق ہے بھئی ؟
اگر کوئی آپ کے ساتھ ایسا کرے تو آپ اسکو اس حرکت کو کیا نام دینگے ؟
اگر ایسے واقعات کو عام کیا جائے گا تو دوسرے اسکا کیا اثر لینگے ،
ان بزرگان دین کے بارے میں تو مشہور ہے کہ انہوں نے پیار و محبت کا درس دیا ۔۔۔ ۔
یہ کیسا پیار تھا کہ شاگردوں کو استاد سے ہی جدا کردیا جائے ۔۔۔ ۔؟؟

خدارا ۔۔۔ ۔واقعات شئیر کرتے وقت انکی سند کا خیال رکھے اور اس طرح کے ہولناک واقعات لکھ کر عوام میں بزرگوں کا "جلال" کے خوف کی بجائے "پیار" کا پیغام دے تو زیادہ اچھا ہو ۔۔۔

میں بزرگوں کے کرامات کا منکر نہیں لیکن ایسے واقعات کو قبول کرنے میں تامل ضرور ہے
آپ کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ یا پھر تحریر لکھنے والے کا انداز ایسا تھا۔ یہ بات کرنے کا انداز ایسا نہیں جیسا آپ سمجھے۔
 

باباجی

محفلین
مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی اور دکھ ہؤا کہ اچھا خاصہ مولانا رومی رح کتاب پڑھ رہےتھے کہ مولانا شمس تبریز رح نے انکی کتاب اٹھا کر پھینک دی ۔۔۔ ۔وہ بھی بغیر بتائے ۔۔۔
پکی بات ہے یہ ہمارے بزرگان دین کا ہی قصہ ہے یا ان پر بہتان ؟
اول تو مولانا رومی رح کا درس دیتے کسی انجان بندے کو یہ کہنا "جاؤ اپنا کام کرو" ہی کافی متنازعہ ہے ۔۔بھلا جو دوسروں کو اخلاق کا درس دے وہ بھی اسلام کا اخلاق تو اس سے انجان بندے سے ایسا کہنا ہی محل نظر آتا ہے ۔۔

بلکہ پیار سے کہتے بیٹھ جاؤ تم بھی سنو وغیر وغیرہ ۔۔۔ ۔۔پھر مولانا شمس تبریز کا ان سے کتاب چھین کر حوض میں پھینک دینا
یہ کونسا اسلام اخلاق ہے بھئی ؟
اگر کوئی آپ کے ساتھ ایسا کرے تو آپ اسکو اس حرکت کو کیا نام دینگے ؟
اگر ایسے واقعات کو عام کیا جائے گا تو دوسرے اسکا کیا اثر لینگے ،
ان بزرگان دین کے بارے میں تو مشہور ہے کہ انہوں نے پیار و محبت کا درس دیا ۔۔۔ ۔
یہ کیسا پیار تھا کہ شاگردوں کو استاد سے ہی جدا کردیا جائے ۔۔۔ ۔؟؟

خدارا ۔۔۔ ۔واقعات شئیر کرتے وقت انکی سند کا خیال رکھے اور اس طرح کے ہولناک واقعات لکھ کر عوام میں بزرگوں کا "جلال" کے خوف کی بجائے "پیار" کا پیغام دے تو زیادہ اچھا ہو ۔۔۔

میں بزرگوں کے کرامات کا منکر نہیں لیکن ایسے واقعات کو قبول کرنے میں تامل ضرور ہے
السلام و علیکم بھائی
آپ کا پہلا پہلا مراسلہ پڑھا اور پڑھ کر مجھے نہ تو افسوس ہوا نہ دُکھ لیکن مجھے پسند نہیں آیا
کیوں یہ آپ کی لاعلمی کی طرف اشارہ کرتا ہے
اور اس کے ساتھ ہی آپ نے کچھ سوالات بھی اُٹھائے
بہت اچھی بات ہے
لیکن اس آپ کے سوالات خود ساختہ ہیں اور ان میں وہ پختگی نہیں ہے جس کی وجہ سے سوال کی اہمیت بڑھ جاتی ہے
اور اس میں بزرگ کے کسی 'جلال' کا ذکر نہیں ہے یہ کسی کو اس کے حساب سے سکھانے کا نام ہے
کیونکہ استاد کو پتا ہوتا ہے کہ اس کا کونسا شاگرد کس طریقے سے بات کو سمجھتا ہے
اور جس راہ کے یہ بزرگ تھے
پہلے آپ اس راہ کا نقشہ کسی سے پوچھیں
پھر شائد آپ کو سمجھ آجائے کہ وہ کیا رمز تھی جو ایسا ہوا

اور اپنا تعارف کروادیں تعارف کے زمرے میں :)
 

باباجی

محفلین
نیلم بہت بھاگوان بچی ہے لیکن قلم کا استعمال ایک الگ فن ہے اور پھر ایسی حکایات کا بیان کرنا انتہائی ہوشمندی اور الفاظ کے چناؤ کا متقاضی ہے۔
اصل واقعہ کچھ اسطرح ہے کہ اللہ اکبر کچھ اشعار یاد آگئے ذہن سے نکل نہ جائیں اس لیئے پہلے لکھ دیتا ہوں کسی زمانے میں اقبال کی اسرار و رموز میں پڑھے تھے اچانک صاعقہ کی رفتار سے ذہن کی لوح پر روشن ہوئے۔
شیخ تبریزی ز ازراہ کمال
جست راہ مکتبہ ملا جلال
گفت،ایں غوغائے قیل و قال چیست
ایں خیال وہم و استدلال چیست
مولوی فرمود،ناداں لب بہ بند
این مقالات خرد منداں مخند
اب میں ادھر بھول رہا ہوں کہ یہ شیخ تبریزی ہے یا کہ شمس تبریزی ہے
اصل واقعہ ہم نے جو بزرگان دین سے سنا ہے وہ اس طرح ہے کہ علم کی انتہائی بلندیوں اور عروج پر پہنچنے کے باؤجود مولانا کو سکون قلب نہ تھا اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا کی کہ یا للہ اس کا کوئی درماں فرمادیجیو۔ تو اللہ تبارک تعالیٰ نے شمس تبریز کو بھیجا۔
مولانا اپنے مدرسے میں حوض کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے اور درس جاری تھا کہ اچانک ایک نووارد نمودار ہوا اور کتابوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا کہ ایں چیست! مولانا نے اس کی ظاہری شخصیت اور طفلانہ سوال کو ہنس کر ٹال دیا اور کہا کہ ایں قیل و قال است ترا چہ
اچانک اس نووارد نے اس میں کچھ کتابیں اٹھا کر حوض میں پھینک دیں مولانا کہ سنبھلنے سے پہلے پہلے وہ پندرہ بیس کتابیں حوض میں پھینک چکا تھا ۔ جب اس کو روکا گیا تو مولانا نے انتہائی دکھ اور تاسف بھرے لہجے میں کہا کہ یہ تو نے کیا کیا یہ تو میری برسوں کی محنت کا نتیجہ تھیں (یاد رہے کہ اس زمانے میں چھاپ خانے نہیں ہوتے تھے اور کاتبوں کے ذریعے کتابوں کو نقل کیا جاتا تھا) تو شمس تبریزی نے اس حوض میں ہاتھ ڈال کر کتابیں نکال کر مولانا کہ آگے رکھ دیں تو وہ ایسی تھیں جیسا کہ حوض میں پھینکنے سے قبل تھیں۔ مولانا نے بے اختیار کہا ! ایں چیست ! تو نوواد نے متبسم ہو کر کہا کہ ایں ذوقے وصال است ترا چہ۔
یہ سوال اور جواب ایک بہت خوبصورت شعر بھی بنتا ہے جس کا پہلا مصرعہ مولانا کا ہے اور دوسرا شمس تبریز کا ہے
ایں چیست! ایں قیل و قال است ترا چہ
ایں چیست! ایں ذوقے وصال است ترا چہ
شمس تبریز: یہ کیا ہے! یہ کہی کہائی باتیں ہیں یعنی علم کی باتیں ہیں تو اس کو حقیقت کو نہیں جان سکتا ہے تیرا اس سے کیا واسطہ؟؟؟
مولانا! یہ کیا ہے! یہ ذوقِ وصال ہے تو اس کی معرفت کو نہیں جان سکتا ہے تیرا اس سے کیا واسطہ؟؟؟
بعض اولیاء کی زبان سے اس واقعہ کو یوں سنا ہے
ایں چیست! ایں قیل و قال است تو نمی دانی
ایں چیست! ایں ذوقے وصال است تو نمی دانی
نیلم بٹیا یہ راہ بہت باادب ہے دیکھ کر چلا کرو ایک شعر یاد آیا
ادب گاہِ است، زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
محمود احمد غزنوی الف نظامی [USER=6120]باباجی
بجا فرمایا آپ نے روحانی بابا
یہ راہ ادب، تسلیم و رضا اور خاکساری کی ہے
اور جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ ہماری تعلیم کے لیئے نہ کہ ہردو بزرگ میں سے کسی کی تحقیر و تذلیل اجاگر کرنے کے لیئے ہے
اور زبان در زبان جب کوئی بات بیان ہوتی ہے تو اس میں کافی تبدیلیاں ہوتی ہیں لیکن اصل روح وہی ہوتی ہے
 
آپ لوگ شائد میری بات سمجھ نہیں پائے ، یا میں صحیح طور سمجھا نہیں پا رہا ۔۔۔
بہرکیف میرے کہنے مقصد یہ ہے کہ ہمارے بزرگان دین ہمارا سلاف قابل احترام ہیں لیکن ان سے منسوب ایسے واقعات جو انکے شایان شان نہ ہو یا پھر توہین کا پہلو نکلے وہ بیان نہ کیے جائے تو بہتر ہے ۔۔۔

ہمارے بزرگوں نے پیار و محبت کا درس دیا ہے انکے حلقہ عقیدت میں مسلمان تو کیا غیر مسلم بھی شامل ہیںاور یہ سب انہوں نے اپنے حسن سلوک سے ممکن کیا ۔۔۔

ایسے واقعات پڑھ کرعام سیدھا سادھا قاری کیا اثر لے گا ۔۔۔۔یہ میں کہہ رہا ہوں
 

فرسان

محفلین
ادب گاہِ است، زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

روحاني بابا میں عرصه سے اس شعر كے شاعر كے احوال ڈھونڈ رها هوں اگر آپ كو علم هو تو ضرور سامنے لائيے۔
اور يه تصوف نهيں بلكه غالبا نعت كے اشعار ہیں اب اس كي بھی تصديق كرنا پڑے گی كيونكه اگر نعت كے هوئے تو پھر ان كو كسي اور جگہ فِٹ كرنا سخت معيوب هوگا۔
 

فرسان

محفلین
آپ لوگ شائد میری بات سمجھ نہیں پائے ، یا میں صحیح طور سمجھا نہیں پا رہا ۔۔۔
بہرکیف میرے کہنے مقصد یہ ہے کہ ہمارے بزرگان دین ہمارا سلاف قابل احترام ہیں لیکن ان سے منسوب ایسے واقعات جو انکے شایان شان نہ ہو یا پھر توہین کا پہلو نکلے وہ بیان نہ کیے جائے تو بہتر ہے ۔۔۔

ہمارے بزرگوں نے پیار و محبت کا درس دیا ہے انکے حلقہ عقیدت میں مسلمان تو کیا غیر مسلم بھی شامل ہیںاور یہ سب انہوں نے اپنے حسن سلوک سے ممکن کیا ۔۔۔

ایسے واقعات پڑھ کرعام سیدھا سادھا قاری کیا اثر لے گا ۔۔۔ ۔یہ میں کہہ رہا ہوں

بھائي جان آپ كا نكته درست هے صوفياء كي اكثر حكايات محض ترغيب دلانے كے لئے هوتي ہیں البته اوائل صوفياء كي بهت سي روايات باسند هوا كرتي تھیں۔ پھر يه سلسله آهسته آهسته اور تيز هوتا گیا يهاں تك كه هر مريد اپنے شيخ كےلئے حكايات تراشا كرتا تھا۔

معامله اس سے آگے پہنچ چكا ہے كه بهت سي كتب اور شاعري صوفياء كي طرف جھوٹ موٹ منسوب هے۔

سر دست بهت سي مثالیں ميرے لئے شايد ممكن نه هو البته آپ خواجه عطار اوران كي طرف جھوٹی شاعري پر سعيد نفيسي كي تحقيق ملاحظه كرلیں۔
حضرت مولوي رومي پر اينميري شمل كي بهت تحقيق هے۔
ابن عربي كي طرف پوری فصوص كي جھوٹی نسبت كي تحقيق تو كئي صوفياء نے كي هے۔
حضرت جيلاني اور ان كي غنيه طالبين كا بھی یہی قصه ہے۔
حلاج پر حضرت علي هجويري كي تحقيق آپ كشف میں ملاحظه كرلیں۔
 

فرسان

محفلین
اور آخر میں يه بھی ياد ركھیں كه تصوف میں بھی اب كئي فرقے (جي هاں فرقے طريقے نهيں) اور بهت سے فليور ہیں۔ تحقيق كيلئے ديكھیں المدخل إلى التصوف۔

اوائل صوفياء كي پارسائي كو ديكھ كر كسي خوش فهمي میں نهيں رهنا چاہیے۔
اسلام میں رهبانيت تو ويسے بھی نهيں هے۔
چند الله والوں كو چھوڑ كر اب تو حال يه هے كه بقول اقبال

اسرار خودی
راهب دیرینه افلاطون حکیم
از گروه گوسفندان قدیم
گوسفندی در لباس آدم است
حکم او بر جان صوفی محکم است

رموز بیخودی
صوفی پشمینه پوش حال مست
از شراب نغمه ی قوال مست
آتش از شعر عراقی در دلش
در نمی سازد بقرآن محفلش
از کلاه و بوریا تاج و سریر
فقر او از خانقاهان باج گیر
واعظ دستان زن افسانه بند
معنی او پست و حرف او بلند
از خطیب و دیلمی گفتار او
با ضعیف و شاذ و مرسل کار او



جاویدنامه
عالمان از علم قرآن بی نیاز
صوفیان درنده گرگ و مو دراز
گرچه اندر خانقاهان های و هوست
کو جوانمردی که صهبا در کدوست

با ل جبر یل
رہانہ حلقہ صوفي ميں سوز مشتاقي
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقي

تو اب میں اور آپ فسانہ ہائے کرامات كے دور میں ہیں۔
 
مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی اور دکھ ہؤا کہ اچھا خاصہ مولانا رومی رح کتاب پڑھ رہےتھے کہ مولانا شمس تبریز رح نے انکی کتاب اٹھا کر پھینک دی ۔۔۔۔وہ بھی بغیر بتائے ۔۔۔
پکی بات ہے یہ ہمارے بزرگان دین کا ہی قصہ ہے یا ان پر بہتان ؟
اول تو مولانا رومی رح کا درس دیتے کسی انجان بندے کو یہ کہنا "جاؤ اپنا کام کرو" ہی کافی متنازعہ ہے ۔۔بھلا جو دوسروں کو اخلاق کا درس دے وہ بھی اسلام کا اخلاق تو اس سے انجان بندے سے ایسا کہنا ہی محل نظر آتا ہے ۔۔

بلکہ پیار سے کہتے بیٹھ جاؤ تم بھی سنو وغیر وغیرہ ۔۔۔۔۔پھر مولانا شمس تبریز کا ان سے کتاب چھین کر حوض میں پھینک دینا
یہ کونسا اسلام اخلاق ہے بھئی ؟
اگر کوئی آپ کے ساتھ ایسا کرے تو آپ اسکو اس حرکت کو کیا نام دینگے ؟
اگر ایسے واقعات کو عام کیا جائے گا تو دوسرے اسکا کیا اثر لینگے ،
ان بزرگان دین کے بارے میں تو مشہور ہے کہ انہوں نے پیار و محبت کا درس دیا ۔۔۔۔
یہ کیسا پیار تھا کہ شاگردوں کو استاد سے ہی جدا کردیا جائے ۔۔۔۔؟؟

خدارا ۔۔۔۔واقعات شئیر کرتے وقت انکی سند کا خیال رکھے اور اس طرح کے ہولناک واقعات لکھ کر عوام میں بزرگوں کا "جلال" کے خوف کی بجائے "پیار" کا پیغام دے تو زیادہ اچھا ہو ۔۔۔

میں بزرگوں کے کرامات کا منکر نہیں لیکن ایسے واقعات کو قبول کرنے میں تامل ضرور ہے




جواب
جناب محترم یہ واقعہ درست ہے
لیکن سمجنھے میں ایک اہم غلط فہمی ہے وہ یہ کہ
یہ واقعہ اس وقت کا جب جناب رومی ایک مولوی صاحب کی حیثیت سے درس دیتے تھے
اور اہل علم کا تکبر علم کا شکار ہوجانا ایک عام بات ہے
اور زمانہ قدیم میں تو جس کے پاس علم ہوتا وہ اور زیادہ متکبر ہو جایا کرتا
سوائے ان چند خاص لوگوں کے جن کو اللہ کریم اپنی رحمت کے ذریعے تکبر سے بچا لیتا اور شیطان کے چنگل میں نہ پھنسنے دیتا
تب آپ کو ایک ایسا شخص جو کہ عام میلے کچیلے کپڑوں میں ہے وہ کچھ کہتا ہے تو ایک مولوی کی حیثیت سے آپ کا جواب ہوتا ہے

جناب رومی کا اپنا ایک ارشاد ہے کہ
مولوی ہرگز مولائے روم نہ بن پاتا اگر وہ غلام شمس تبریز نہ ہوتا
بعد کی باتیں عشق اور عاجزی کی ہیں
 
مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی اور دکھ ہؤا کہ اچھا خاصہ مولانا رومی رح کتاب پڑھ رہےتھے کہ مولانا شمس تبریز رح نے انکی کتاب اٹھا کر پھینک دی ۔۔۔۔وہ بھی بغیر بتائے ۔۔۔ پکی بات ہے یہ ہمارے بزرگان دین کا ہی قصہ ہے یا ان پر بہتان ؟ اول تو مولانا رومی رح کا درس دیتے کسی انجان بندے کو یہ کہنا "جاؤ اپنا کام کرو" ہی کافی متنازعہ ہے ۔۔بھلا جو دوسروں کو اخلاق کا درس دے وہ بھی اسلام کا اخلاق تو اس سے انجان بندے سے ایسا کہنا ہی محل نظر آتا ہے ۔۔ بلکہ پیار سے کہتے بیٹھ جاؤ تم بھی سنو وغیر وغیرہ ۔۔۔۔۔پھر مولانا شمس تبریز کا ان سے کتاب چھین کر حوض میں پھینک دینا یہ کونسا اسلام اخلاق ہے بھئی ؟ اگر کوئی آپ کے ساتھ ایسا کرے تو آپ اسکو اس حرکت کو کیا نام دینگے ؟ اگر ایسے واقعات کو عام کیا جائے گا تو دوسرے اسکا کیا اثر لینگے ، ان بزرگان دین کے بارے میں تو مشہور ہے کہ انہوں نے پیار و محبت کا درس دیا ۔۔۔۔ یہ کیسا پیار تھا کہ شاگردوں کو استاد سے ہی جدا کردیا جائے ۔۔۔۔؟؟ خدارا ۔۔۔۔واقعات شئیر کرتے وقت انکی سند کا خیال رکھے اور اس طرح کے ہولناک واقعات لکھ کر عوام میں بزرگوں کا "جلال" کے خوف کی بجائے "پیار" کا پیغام دے تو زیادہ اچھا ہو ۔۔۔ میں بزرگوں کے کرامات کا منکر نہیں لیکن ایسے واقعات کو قبول کرنے میں تامل ضرور ہے
 
Top