امداد علی قادری
محفلین
مولاناجلال الدین رومی کی شخصیت اور ان کا کالام دونوں هی کسی تعارف کے محتاج نهیں۔ چھبیس ھزار چھ سو چھیاسٹھ اشعار پر مبنی ان کی مشهور زمانه مثنوی تصوف اور عشق الهٰی کے جمله موضوعات کو انتهائ سادگی روحانی اور عام فهم انداز مین بیان کرتی ھے۔ عشق الهٰی اور معرفت کے انتهائ مشکل و پیچیده نکات سلجھانے کے لیے مولانا نے سبق آموز حکایات و قصے کهانیوں سے مدد لی ھے جو بھی لکھا ھے قرآن و حدیث نبوی سے اس کی سند بھی بیان کی جاتی هے اس لیئے آج آٹھ سو سال گزر جانے کے باوجود ان کے کلام کی اهمیت و افادیت میں کوئ کمی واقع نهین ھوئ۔ مولانا جلال الدین رومی الملقب به مولوی معنوی سن باره سو سات میں بلخ میں پیدا ھوئے۔ آپ کے والد بزرگوار بهاء الدین اپنے دور کے مشهور علماء مین شمار کیئے جاتے تھے، حتی کے ان حلقهء درس میں حاکم وقت خوارزم شاه بھی شرکت کیا کرتے تھا۔ وحشی منگولوں کے حملوں کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر مولانا کے خاندان نے بلخ کو خیر باد کها اور پناه کی تلاش مین انا طویه کی راه لی، راستے میں نیشاپور میں رکے جهاں مشهور صوفی بزرگ عطار نیشا پوری سے ملاقات کی۔ عطا بڑے قیافه شناس تھے۔ جلال الدین رومی کو دیکھ کر سمجھ گئے که آگے چل کر یه بچه عشق و معرفت کی دنیا میں دھوم مچا دے گا۔ چناں چه انهوں نے بهاء الدین کو ان کی تربیت پر خصوصی توجه دینے کی هدایت کی۔ حج کی سعادت حاصل کرتے هوئے بهاء الدین اناطولیه پهنچے جهاں کے سلجوتی حاکم علاءالدین کیقباد نے انکا پرتپاک استقبال کیا۔ قونیه میں بهاء الدین نے ایک مدرسے میں تدریس شروع کی اور بهت جلد مشهور ھوگئے، ان کے انتقال کے بعد مولانا رومی نے والد کی گدی سنبھال لی۔ حلقهء درس میں شریک هونے والے حاکم وقت اور اعیان دولت ان سے بے انتها عقیدت رکھتے تھے۔ مولانا کی زندگی بڑے سکون سے گزررهی تھی، ایک دن گرمیوں کی صبح وه حوض کے پاس معمول کے مطابق درس دے رهے تھے، ایک خوانچه فروش حلوه بیچتا ھوا مدرسے کے احاطے میں آگیا۔ اپنے اطراف اور ماحول سے بے پرواه اور بے خبر اس جگه جا کر کھڑا ھواگیا جهاں مولانا تدریس میں مشغول تھے۔ خوانچه فروش نے تعجب سے پوچھا که یه سب کیا ھے، کیا ھورھا هے۔ مولانا نے بڑے تحمل سے کها یه تم نهین جانتے جاؤ، اپنا کام کرو۔ وه آگے بڑھا اور کتاب مولانا کے هاتھ سے لے کر اٹھا اور حوض میں پھینک دی۔ مولانا نے کها یه تم نے کیا کیا۔ میں نے تو کچھ بھی نهیں کیا۔ یه کهه کر اس نے حوض سے کتاب نکال کر رومی نے حیرت سے پوچھا، یه کیا ھے، اب باری اس کی تھی، یه تم نهیں جانتے یه که کر اس نے اپنا خوانچه اٹھایا اور اسی طرح صدا لگاتا ھوا باهر چلا گیا۔ یه حضرت شمس تبریز تھے۔ مولانا رومی، شمس تبریز کو اپنے ساتھ لے آئے۔ انهوں نے علم کی انتھائ اعلیٰ منازل طے کررکھی تھین، اب عشق الهٰی و معرفت کے سفر کا آغاز کیا جس مین قدم قدم پر انهیں اپنے مرشد شمس تبریز کی راه نمائ حاصل تھی۔ مولانا رومی نے رفته رفته اپنا رابطه اپنے ماحول اور گردو پیش سے منقطع کرلیا۔ بس وه تھے اور شمس تبریز کی صحبت۔ یه صورت حال ان کے شاگردوں کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نه تھی۔ چنانچه شمس تبریز انکے نزدیک متنازع شخصیت بن گئے، شاگردوں و عقیدت مندوں کے بدلتے هوئے تیور دیکھ کر ایک رات اچانک حضرت شمس تبریز غائب ھوگئے۔ بعض روایات کے مطابق انھیں شهید کردیا گیا۔ شمس تبریز کی جدائ مولانا رومی کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اپنے مرشد کے فراق میں خود و ارفتگی کے عالم میں انهوں نے فی البدیهه شعر کهنا شروع کردیئے۔ یوں عرفان و آگهی کی مضبوط ترین دستاویز مثنوی تخلیق ھوئ۔ اس مثنوی کے علاوه مولانا رومی کا دیوان کبیر، جو چالیس هزار اشعار پر مشتمل ھے، جس میں بائیس شعری مجموعے بشمول دیوان شمس تبریز عربی، ترکی اور یونانی زبانوں میں ان کا کلام۔ تصوف پر ایک کتاب فی مافیه، مجالس سبع اور مکتوبات، ایسی کتابیں هیں جو ان کے نام کو صوفیانه ادب میں همیشه روشن اور تابنده رکھیں گی۔ هر سال ستره دسمبر کو مولانا کا عرس [شب عروس] کے نام سے قونیه میں منعقد کیا جاتا ھے۔ سن دوهزار سات کو ان کی ولادت کی آٹھ سو ساله تقریبات کے طور پر منایا ۔ مئ کے مهینے میں یونیسکو نے استنبول میں ایک شاندار کانفرنس کا اهتمام کیا تھا، اسی مهینے میں تهران مین بھی ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد ھوچکا ۔ قارئین مولانا سلوک کی اس منزل پر پهنچ چکے تھے که انهیں هر طرف الله هی کا جلوه نظر آتا تھا، جو قرآن کی آیت [الله نور السموات و الارض] کی گویا تفسیر ھے، وه حسن و زیبائ کے کائناتی، ملکاتی اور الهامی تصور کے علم بردار تھے۔ الله تعالی نے محبت رسول الله سے شیفتگی کے اس مرتبے پر پهنچ چکے تھے، جهاں ان کی اپنی هستی معدوم هوچکی تھی۔