فارسی شاعری مولانا رومی کی سِتائش میں کہی گئیں صائب تبریزی کی ابیات

حسان خان

لائبریرین
چون نیابد نورِ فیض از روحِ پاکِ مولوی؟
شمسِ تبریز است صائب در میانِ عاشقان

(صائب تبریزی)
وہ مولوی [رُومی] کی روحِ پاک سے نُورِ فیض کیسے نہ پائے؟۔۔۔ 'صائب' عاشقوں کے درمیان شمسِ تبریز (تبریز کا خورشید) ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اقتدا تا به مولوی کرده‌ست
شعرِ صائب تمام عرفان است

(صائب تبریزی)
جب سے 'صائب' نے مولوی [رُومی] کی اقتدا کی ہے، اُس کی شاعری تمام کی تمام عِرفان ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مُریدِ مولویِ رُوم تا نشد صائب
نکرد در کمرِ عرش دست گُفتارش

(صائب تبریزی)
جب تک 'صائب' مولویِ رُوم کا مُرید نہ ہوا، اُس کے گُفتار نے عرش کی کمر میں دست نہ کیا۔ (یعنی تب تک اُس کی شاعری عرش تک نہ پہنچی۔)
 

حسان خان

لائبریرین
ز شعرِ مولویِ رُوم چون بِپردازید
مُوَحِّدان غزلِ صائب انتخاب کنید

(صائب تبریزی)
اے مُوَحِّدو! جب آپ مولویِ رُوم کی شاعری سے فارغ ہو جائیں تو 'صائب' کی غزل مُنتخَب کیجیے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ازان ترانهٔ ما هوش می‌بَرَد صائب
که پَیروِ سُخنِ مولوی و عطّاریم

(صائب تبریزی)
اے صائب! ہمارا ترانہ اِس لیے ہوش لے جاتا ہے کیونکہ ہم مولوی [رُومی] اور عطّار [نیشابوری] کے سُخن کے پَیرو ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر چه می‌خواهیم صائب هست در دیوانِ او
با کلامِ مولوی زاشعارِ عالَم فارِغیم

(صائب تبریزی)
اے صائب! ہم جو بھی چیز چاہتے ہیں وہ [مولانا رُومی] کے دیوان میں ہے۔۔۔ مولوی [رُومی] کے کلام کے ہوتے ہوئے ہم اشعارِ عالَم سے فارغ و بے نیاز ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
هیچ است فکرِ صائب در پیشِ فکرِ مُلّا
با آفتابِ تابان نورِ سُها چه باشد؟

(صائب تبریزی)
مُلّا [رُومی] کی فکر کے پیش میں صائب کی فکر ہیچ ہے۔۔۔۔ آفتابِ تاباں کے مُقابل ستارۂ سُہا کے نُور کی کیا حیثیت؟
 

حسان خان

لائبریرین
سال‌ها اهلِ سُخن باید که خونِ دل خورند
تا چو صائب آشنایِ طرزِ مولانا شوند

(صائب تبریزی)
'صائب' کی طرح طرزِ مولانا [رُومی] سے آشنا ہونے کے لیے اہلِ سُخن کو سالوں تک خونِ دل پینا لازم ہے۔ (یعنی سالوں تک مُسلسل خونِ دل پی کر ہی طرزِ مولانا رُومی سے آشنا ہوا جا سکتا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
صائب از افکارِ مولانایِ رُوم
طُرفه شوری در جهان افکنده‌ای

(صائب تبریزی)
اے صائب! تم نے مولانائے رُوم کے افکار سے جہان میں ایک عجیب و نادر شور [و آشوب] برپا کر دیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر فیض که می‌رسد به صائب
از رُوح پُر از فُتوحِ مُلّاست

(صائب تبریزی)
'صائب' کو جو بھی فَیض پہنچتا ہے وہ مُلّا [رُومی] کی روحِ پُرفُتوح سے ہے۔

× تصوُّف کی اصطلاح میں 'فُتوح' اُس گُشائشِ حالِ باطنی کو کہتے ہیں جو سُلوک کے مراحل میں سالِک کو نصیب ہوتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
زمزمهٔ فکرِ من وجد و سماع آورَد
تا غزلِ مولوی‌ست سرخَطِ افکارِ من

(صائب تبریزی)
جب سے مولوی [رُومی] کی غزل میرے افکار کا سرمَشق ہے (یعنی جب سے میرے افکار مولویِ رُومی کی غزل کی تقلید و پَیروی کرتے ہیں)، میری فکر کا زیرِ لب نغمہ وجْد و سَماع برپا کر دیتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هنگامهٔ اربابِ سُخن چون نشود گرم؟
صائب سُخن از مولویِ رُوم دراَفکنْد
(صائب تبریزی)
اربابِ سُخن کا ہنگامہ کیوں نہ گرم ہو؟۔۔۔ [کہ] 'صائب' نے مولویِ رُوم کا ذِکر شروع کیا [ہے]۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
صائب فسرده‌ایم بِیا در میان فِکن
از قولِ مولوی غزلِ عاشقانه‌ای

(صائب تبریزی)
اے «صائب»، ہم افسُردہ ہو گئے ہیں۔۔۔ آؤ، مولوی [رُومی] کی کہی کوئی عاشقانہ غزل درمیان میں ڈال دو۔
 

حسان خان

لائبریرین
از گفتهٔ مولانا مدهوش شدم صائب
این ساغرِ روحانی صهبایِ دگر دارد

(صائب تبریزی)
اے صائب! میں گُفتۂ مولانا [رُومی] سے مدہوش ہو گیا؛ یہ ساغرِ روحانی ایک دیگر ہی شراب رکھتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
صائب تبریزی اپنی ایک غزل کے مقطع میں کہتے ہیں:
چنان گفت این غزل را در جوابِ مولوی صائب
که روحِ شمسِ تبریزی ز شادی در سجود آمد

(صائب تبریزی)
صائب نے اِس غزل کو مولویِ [رُومی] کے جواب میں اِس [احسن] طرز سے کہا کہ شادمانی سے شمس تبریزی کی روح سُجود میں آ گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز خاکِ پاکِ تبریز است صائب مولدِ پاکم
از آن با عشق‌بازِ شمسِ تبریزی سخن دارم

(صائب تبریزی)
اے صائب! میرا مولدِ پاک تبریز کی خاکِ پاک سے ہے؛ اِسی لیے میری شمسِ تبریزی کے عاشق (مولانا رُومی) کے ساتھ گفتگو رہتی ہے۔
× مَولِد = جائے ولادت
 

حسان خان

لائبریرین
صائب تبریزی کی ایک غزل کا مقطع:
صائب چو سُخن سر کند از مولویِ رُوم
شیران بِنَیارند در آن دشت چریدن

(صائب تبریزی)
'صائب' جب مولویِ رُوم کا ذِکر شروع کرتا ہے تو شیر [بھی] اُس دشت میں چرنے کی جُرأت و طاقت نہیں کر پاتے۔

× مصرعِ دوم مولانا رُومی کا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
صائب تبریزی کی ایک غزل کا مقطع:
این غزل صائب مرا از فیضِ مولانایِ رُوم
از زبانِ خامهٔ شکَّرفشان بی‌خواست خاست

(صائب تبریزی)
اے صائب! مولانائے رُوم کے فیض سے یہ غزل میرے قلمِ شَکَر فِشاں کی زبان سے [کسی] خواہش و اِرادے کے بغیر نِکلی ہے۔ (یعنی یہ غزل خود بخود ہی میرے قلم کی زبان پر جاری ہو گئی ہے۔)
 
زان شب که یار کرد نگاهی به سویِ دل
دیگر به سویِ خویش ندیدیم رویِ دل
(نظیری نیشابوری)

جس شب سے یار نے ایک نگاہ دل کی طرف کی ہے ہم نے دل کا چہرہ اپنی طرف نہیں دیکھا۔
 
Top