مولانا رومی کے فرزند بہاءالدین محمد سلطان ولد کا تعارف

حسان خان

لائبریرین
بہاءالدین محمد بن جلال الدین محمد، معروف بہ سلطان ولد و متخلص بہ ولد، مولانا جلال الدین بلخی رومی کے فرزندِ بزرگ اور دوسرے جانشین تھے۔ ان کی ولادت ۲۵ ربیع الآخر ۶۲۳ ہجری کو ہوئی۔ کچھ منابع میں ان کا نام بہاءالدین احمد آیا ہے، لیکن افلاکی کی اس تصریح کے مطابق کہ مولانا رومی نے اپنے والد کی یاد میں اُن کا نام و لقب اپنے بیٹے کو دیا تھا، بہاءالدین محمد زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔
سلطان ولد قونیہ کے جنوب میں واقع شہر لارندہ میں پیدا ہوئے تھے جسے اب قرامان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُس وقت یہ شہر ایشیائے صغیر میں سلجوقیوں کے مراکزِ حکومت میں سے تھا۔ بہاءالدین محمد اور ان کے بھائی علاءالدین محمد دونوں خواجہ شرف الدین لالائے سمرقندی کی دختر گوہر خاتون کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔
ابتدا ہی سے مولانا جلال الدین ان پر خاص لطف و عنایت روا رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے قول و فعل سے بارہا اس توجہ اور مہربانی کا ذکر کیا تھا۔ ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا نے خود انہیں برہان الدین ابوبکر مرغینانی کی کتاب ہدایہ پڑھائی تھی اور جب وہ سنِ تحصیل تک پہنچ گئے تو بہاءالدین اور ان کے بھائی علاءالدین کو انہوں نے حلب اور دمشق بھیج دیا۔ شام سے واپسی کے بعد بہاءالدین نے اپنے والد مولانا رومی، برہان الدین محقق ترمذی، شمس تبریزی، صلاح الدین فریدون زرکوب اور حسام الدین چلبی کے نزدیک باطنی تربیت کے حصول کا آغاز کیا۔
بہاءالدین کا اپنے والد کے ساتھ بڑا قریبی تعلق تھا اور اپنے بھائی کے برخلاف، کہ جنہیں صوفیانہ طریقِ زندگی اور سلوک سے چنداں علاقہ نہیں تھا، وہ ہمیشہ مولانا کی پیروی کرتے تھے، ان کے دوستوں اور مریدوں کے بیچ حاضر ہوتے تھے اور ان کی روش و منش کو اپنے لیے نمونہ قرار دیتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مولانا اپنے مریدوں اور اقرباء میں سے صلاح الدین زرکوب، حسام الدین چلبی اور بہاءالدین محمد کو اپنے نزدیک ترین لوگوں میں شمار کرتے تھے۔ بہاءالدین صوفیوں کی اکثر محفلوں میں اپنے والد کے ہمراہ حاضر ہوتے تھے اور ان کی اپنے والد سے اتنی شباہتِ ظاہری تھی کہ اغلب انہیں مولانا کا بھائی سمجھا جاتا تھا۔
۶۴۳ ہجری میں شمس تبریزی کے ناپدید ہو جانے کے بعد مولانا نے انہیں واپس لانے کے لیے سلطان ولد کو دمشق بھیجا تھا۔ واپسی کی راہ میں سلطان ولد شمس کے ہمراہ دمشق سے قونیہ تک پا پیادہ آئے اور اس سفر میں انہوں نے شمس سے بہت فیض حاصل کیا۔
سلطان ولد نے اپنے والد کی خواہش پر صلاح الدین فریدون زرکوب کی بیٹی فاطمہ خاتون سے شادی کی تھی۔ مولانا فاطمہ خاتون کی بہت عزت کرتے تھے اور ہمیشہ سلطان ولد کو ان کے باب میں نیکی کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ سلطان ولد کی فاطمہ خاتون سے دو بیٹیاں مطہرہ خاتون عابدہ و شرف خاتون عارفہ اور ایک بیٹا چلبی شمس الدین امیر عارف، جو بعد میں ان کا جانشین بنا، پیدا ہوئے۔ ان کے اپنی دیگر ازواج سے چلبی شمس الدین امیر عابد، چلبی حسام الدین امیر زاہد اور چلبی امیر واجد نامی تین بیٹے مزید تھے۔
۷۶۲ ہجری میں مولانا کی وفات کے بعد، چونکہ وہ جانتے تھے کہ مولانا نے خود حسام الدین چلبی کو خلافت پر منصوب کیا تھا، انہوں نے حسام الدین کے اصرار کے باوجود جانشینی کو قبول نہ کیا۔ اس طرح حسام الدین مولانا کے جانشین بن گئے اور ان کی خلافت کی پوری ۱۱ سالہ مدت میں بہاءالدین نے ان کا مرشد و خلیفہ کی طرح احترام کیا اور فروتنی سے ان کی اطاعت کی۔
یہ نکتہ زیادہ روشن نہیں کہ حسام الدین کی وفات کے بعد کس نے ان کی جانشینی سنبھالی تھی۔ افلاکی اور سپہ سالار کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حسام الدین کے بعد سلطان ولد خلیفہ بنے اور مولویہ سلسلے کی رہنمائی کی۔ یہ روایت زیادہ موردِ قبول رہی ہے۔ لیکن کچھ محققوں نے ولدنامہ کے کچھ اشعار کی اساس پر، کہ جن میں کریم الدین بن بکتمور نامی فرد کی ستائش کی گئی ہے، اس روایت کی تردید کی ہے۔ بہاءالدین سلطان ولد نے ان اشعار میں کریم الدین کی مرشد و خلیفہ کی طرح تعریف کی ہے اور ان کی سات سالہ خلافت پر تصریح کی ہے۔ ان اشعار سے استناد کرتے ہوئے کچھ محققوں کا یہ باور ہے کہ کریم الدین بن بکتمور مولانا کے برجستہ مریدوں اور نزدیکی دوستوں میں سے تھے اور حسام الدین چلبی کی وفات کے بعد انہوں نے اپنی عمر کے بقیہ سات سال مولویہ سلسلے کے خلیفہ کے طور پر بسر کیے تھے۔
کچھ دیگر محققین کہتے ہیں کہ اگرچہ سلطان ولد عملاً حسام الدین کی وفات کی بعد طریقۂ مولویہ کی مسندِ خلافت پر بیٹھ گئے تھے لیکن چونکہ وہ خود میں لازم معنوی کمال نہیں دیکھتے تھے اس لیے انہوں نے کریم الدین بن بکتمور کو اپنا مرشد اور پیر قرار دیا اور ان کی متابعت کی۔
بہرحال، سلسلۂ مولویہ کے انسجام اور شکل گیری کا آغاز سلطان ولد کی خلافت ہی میں ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے والد کے مریدوں کو اپنے گرد جمع کیا اور اس طریقے کے امور کو نظم بخشا۔ انہوں نے مریدوں کی مدد سے قونیہ میں واقع مولانا کے مزار پر بقعہ بنوایا جس نے اس شہر کو مرکزیت بخش دی۔ اس کے بعد، انہوں نے اپنی تیس سالہ پیشوائی کے دور میں مولویہ طریقے کے آداب وضع کیے اور مختلف شہروں میں مولویہ خانقاہیں برپا کروا کر اور اپنے نائبوں اور نمائندوں کو بھیج کر مولویہ طریقے کی ترویج کی کوشش کی۔
سلطان ولد اپنے والد کے پہلے سوانح نگار اور ان کے افکار و اشعار کے پہلے مفسر تھے۔ انہوں نے سپہ سالار اور افلاکی سے قبل مولانا کی زندگی اور مولویہ سلسلے کی تاریخ کی تدوین کا آغاز کیا اور ان کی کتابیں مولانا رومی کے بارے میں قابلِ اعتماد ماخذ کا درجہ رکھتی ہیں۔ چند محققوں کے مطابق وہ اولین شخص تھے جنہوں نے مولانا رومی کے خطبوں اور مجالس کو جمع کرنا شروع کیا تھا۔ نیز کچھ لوگوں کے مطابق مقالاتِ شمس کا قدیم ترین نسخہ بھی سلطان ولد کے ہاتھوں سے لکھا گیا ہے۔
بہاءالدین سلطان ولد کی تصنیفات ترکی شاعری کے ارتقاء کے مطالعے کے لیے بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے فارسی دیوان میں ۱۲۹ ترکی اشعار، ولد نامہ میں ۸۰ ترکی اشعار اور رباب نامہ میں ۱۷۵ ترکی اشعار موجود ہیں۔ یہ اشعار سلجوقی لہجے میں ہیں اور اناطولیائی ترکی شاعری کے اولین نمونے ہیں۔ ترکی شاعری کی شکل گیری کے ابتدائی ترین مرحلے کا تعارف دیتے ان اشعار میں ترکی الفاظ و اصطلاحات کا غلبہ ہے اور بعد کے ادوار کی نسبت ان میں عربی اور فارسی الفاظ کم نظر آتے ہیں۔ سلطان ولد ہی وہ پہلے شاعر تھے جنہوں نے فارسی شاعری کے زیرِ تاثیر ترکی شاعری کو فارسی اوزان میں باندھا تھا۔ ان کے ترکی اشعار محققوں کی توجہ خصوصیت سے جلب کرتے آئے ہیں اور اب تک ان پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ گِب نے انہی اشعار کی بنا پر سلطان ولد کو عثمانی ملت کی شاعری کا بانی کہا ہے۔ اس اظہارِ نظر کی اہمیت اس بات سے دوچنداں ہو جاتی ہے کہ اناطولیہ کی ترکی شاعری کا آغاز کرنے والے سلطان ولد خود ایک ایرانی النسل اور فارسی گو شخص تھے اور یہ نکتہ اس چیز کا بھی بیان گر ہے کہ ترکی ادبیات کی شکل گیری میں فارسی زبان و ادبیات کا کتنا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ سلطان ولد نے یونانی زبان میں بھی کچھ شعر کہے ہیں۔ ولد نامہ میں انہوں نے تصریح کی ہے کہ وہ ترکی اور یونانی زبانوں کو اچھی طرح نہیں جانتے البتہ فارسی اور عربی میں بہتر سخن گوئی کر سکتے تھے۔
سلطان ولد ۱۰ رجب ۷۱۲ ہجری کو ۸۹ سال کی عمر میں قونیہ میں وفات کر گئے اور اپنے والد کے جوار میں سپردِ خاک کیے گئے۔

تصنیفات:
سلطان ولد نے چار منظوم تصنیفات اور ایک منثور تصنیف ورثے میں چھوڑی ہے۔ یہ ساری تصنیفات اشاعت پذیر ہو چکی ہیں۔
۱۔ تیرہ ہزار ابیات پر مشتمل فارسی دیوان جس میں ان کی غزلیات، قصائد، مقطعات، ترکیبات و رباعیات اور ترجیع بند شامل ہیں۔ فارسی ابیات کے علاوہ ان میں کچھ ترکی، عربی، اور یونانی ابیات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ بہاءالدین نے اپنے والد کی پیروی و تقلید میں غزلیں کہی ہیں لیکن وہ مولانا رومی کی طرح پایۂ کمال تک نہ پہنچ سکے۔ یہ دیوان پہلی بار فریدون نافذ اوزلق نے ۱۹۴۱ء میں استانبول میں شائع کیا تھا اور بعدازاں ۱۹۵۹ء میں سعید نفیسی کی جانب سے یہ دیوان تہران میں شائع ہوا۔
۲۔ مثنوی ولد نامہ یا ابتدا نامہ۔۔۔۔ یہ مثنوی دس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ بہاءالدین نے اسے ۶۹۰ھ کے ربیع الاول اور جمادی الآخر کے درمیان مکمل کیا تھا اور یہ سنائی غزنوی کی حدیقۃ الحقیقہ کے وزن میں ہے۔ اس منثوی میں بہاء ولد، برہان الدین محقق، مولانا رومی، شمس تبریزی، صلاح الدین زرکوب اور حسام الدین چلبی کے حالاتِ زندگی اور مقامات پر گفتگو کی گئی ہے۔ یہ مثنوی جلال الدین ہمائی کے مفصل مقدمے اور حاشیے کے ہمراہ تہران میں شائع ہو چکی ہے۔
۳۔ رباب نامہ۔۔۔ یہ عرفانی مثنوی ہے اور ولد نامہ کے مقابلے میں زیادہ استحکام، فصاحت اور عرفانی رنگ کی حامل ہے۔ یہ مثنوی ۷۰۰ھ میں پانچ مہینوں کی مدت میں مثنویِ معنوی کے وزن میں کہی گئی تھی۔ بہاءالدین کی اس مثنوی میں صنائعِ ادبی سے زیادہ اس بات پر توجہ رہی ہے کہ وہ اس میں مثنویِ مولوی کے نکات و مشکلات کی تشریح اور اس کے دقائقِ عرفانی کی توضیح کریں۔ اس وجہ سے بعض دفعہ اس کے اشعار کے مضامین میں تکرار نظر آتا ہے اور اس کا لحن تعلیمی کتابوں سے نزدیک ہو جاتا ہے۔ با ایں ہمہ، یہ مثنوی مولانا رومی کی مثنوی کے مبہم اور مشکل نکات کے ادراک کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔
۴۔ انتہا نامہ۔۔۔ یہ مثنوی ذیقعد ۷۰۸ھ کے آخری دنوں میں مکمل ہوئی تھی اور سات ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اس مثنوی میں جدید مضامین یا نئے خیالات نہیں لائے گئے بلکہ پچھلی دو مثنویوں کا اتمام کیا گیا ہے اور سلوکِ معنوی سے مربوط عرفانی نکات و مسائل کو بہ اندازِ دگر بیان کیا گیا ہے نیز قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی سے استناد کرتے ہوئے صوفیانہ اعتقادات کی توضیح کی گئی ہے۔
۵۔ معارف۔۔۔ یہ منثور تصنیف تصوف و عرفان سے متعلق ہے اور یہ کسی مقدمے، خطبۂ ثنا و حمد وغیرہ سے خالی ہے۔ اس کتاب کی فصلوں میں آیاتِ قرآنی کی تفسیر، عرفانی دقائق کی تشریح اور آدابِ خانقاہی وغیرہ جیسے مضامین پر بحث کی گئی ہے۔ ظاہراً یہ ساری فصلیں پہلے مجلس کی گفتگو تھیں جو بعد میں خود سلطان ولد کی طرف سے رشتۂ تحریر میں آئیں اور ان کے مجموعے سے یہ کتاب تیار ہوئی۔ یہ کتاب نجیب مائل ہروی کی کوششوں سے ۱۹۸۲ء میں تہران میں چھپ چکی ہے۔

ترجمہ از: دانش نامۂ بزرگِ اسلامی

محمود احمد غزنوی نایاب تلمیذ محمد وارث
 
آخری تدوین:
میں کا فی عرصے سے مولانا روم کے والدِ گرامی جنہیں "بہاءولد" بھی کہا جاتا ہے انکی تصنیف "معارف" کی تلاش میں ہوں۔۔۔۔۔اگر کہیں سے مل جائے تو کیا کہنے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
میں کا فی عرصے سے مولانا روم کے والدِ گرامی جنہیں "بہاءولد" بھی کہا جاتا ہے انکی تصنیف "معارف" کی تلاش میں ہوں۔۔۔۔۔اگر کہیں سے مل جائے تو کیا کہنے۔۔۔
مولانا کے والد کی یہ کتاب فارسی میں یہاں سے پڑھی جا سکتی ہے:
http://irfan-lit.tufs.ac.jp/
 

حسان خان

لائبریرین
سلطان ولد ہی وہ پہلے شاعر تھے جنہوں نے فارسی شاعری کے زیرِ تاثیر ترکی شاعری کو فارسی اوزان میں باندھا تھا۔
یہ قول نادرست نہیں ہے۔ پس از اسلامی دور میں تُرکی کا اوّلین منظومہ 'قوتادغو بیلیگ' ۱۰۶۹-۱۰۷۰ء میں بحرِ مُتقارب میں لکھا گیا تھا۔ یہ طویل مثنوی «یوسف خاص حاجِب بلاساغونی» کی طرف سے مشرقی تُرکستان کی قاراخانی سلطنت میں لکھی گئی تھی۔ اُس کے بعد سے کُل کلاسیکی تُرکی شاعری فارسی عَروضی بحروں میں ہوئی ہے۔ فارسی اوزان میں تُرکی شاعری کا آغاز سُلطان ولد سے دو صدیوں قبل ہو چکا تھا۔
 
آخری تدوین:
Top