انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
علیہ السلام
کسی شاعر سے کہہ کر اس شعر نما جملے کو بحر میں فٹ کروا لیجے یا پھر اسے شعر کے انداز میں نہ لکھا جائے۔ ہم ہر بار اسے بار بار پڑھتے ہیں لیکن وزن کا معاملہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔
احمد صاحب یہ جوش کی رباعی ہے اور مکمل کچھ یوں ہے، چونکہ رباعی کے اوزان ہیں سو فقط ایک شعر دیکھ کر یقیناً وزن کا نقص محسوس ہوتا ہے جب کہ اصل میں ہے نہیں
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسین
کسی شاعر سے کہہ کر اس شعر نما جملے کو بحر میں فٹ کروا لیجے یا پھر اسے شعر کے انداز میں نہ لکھا جائے۔ ہم ہر بار اسے بار بار پڑھتے ہیں لیکن وزن کا معاملہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔
سمجھ آ گئی تو مجھے بھی بتائیے گارباعی کے اوزان
سمجھ آ گئی تو مجھے بھی بتائیے گا