یوسف-2
محفلین
مولانا طارق جمیل معروف مذہبی اسکالر ہیں علم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں خطابت اور گفتگو کا فن بھی عطا کر رکھا ہے۔ مولانا یکم جنوری 1953ء کو میاں چنوں میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر بنتے بنتے زندگی نے ایسی کروٹ لی کہ مذہبی اسکالر بن گئے اور نہ صرف غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کرنے کی سعادت حاصل کی بلکہ مسلمانوں کو بھی ’’مسلمان‘‘ کیا۔ ماضی کے معروف سنگر جنید جمشید کے علاوہ معروف کرکٹرز انضمام الحق، ثقلین مشتاق، مشتاق احمد اور سعید انور نے گلیمر سے بھرپور زندگی کے باوجود اپنا وقت دین کے لئے گزارنا شروع کر دیا جبکہ قومی کرکٹ میں یوسف یوحنا کے نام سے پہچانے جانے والے کھلاڑی اپنا مذہب چھوڑ کر دین اسلام میں داخل ہونے کے بعد محمد یوسف بن گئے۔
مولانا طارق جمیل کی ایک گفتگو کا کچھ حصہ گزشتہ کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پر چل رہا ہے جو بھارتی فلم انڈسٹری کے ایک معروف اداکار عامر خان سے ملاقات کے حوالے سے ہے۔ جو اپنی والدہ کو حج کرانے سعودی عرب گئے ہوئے تھے جبکہ مولانا طارق جمیل، جنید جمشید اور شاہد آفریدی بھی اسی سال حج کے لئے سعودی عرب میں تھے یہ ملاقات مکہ میں ہوئی تھی۔ ملاقات کا احوال مولانا طارق جمیل کی زبانی کچھ اس طرح سے ہے۔
’’عامر خان سے میری ملاقات ہوئی تو اسے کوئی دین کی بات نہیں کی صرف محبت تھی، جس کی وجہ سے اب تک عامر خان کے میسجز آتے ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ میں زندگی میں کبھی کسی سے متاثر نہیں ہوا تم پہلے آدمی ہو جس سے متاثر ہوا ہوں میں نے اس پر کوئی جادو نہیں کیا تھا بلکہ صرف محبت تھی اور اللہ تعالیٰ نے بڑی مشکل سے ملاقات کا راستہ پیدا کیا تھا کیونکہ ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے اور کوئی موقعہ نہیں مل رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے شاہد آفریدی کے ذریعے اس ملاقات کو آسان بنا دیا اور ملاقات طے ہوگئی اور ہمیں آدھ گھنٹے کا وقت ملا اور زیادہ سے زیادہ پون گھنٹہ، جب ملاقات کے لئے گیا تو عامر خان کا سہما ہوا چہرہ تھا کہ مولانا معلوم نہیں کیا کہیں گے کہ تو یہ کیا کر رہا ہے۔ سب حرام کر رہا ہے، ناچ رہا ہے۔ فوراً توبہ کر ورانہ ابھی تیرے لیے دوزخ کا فیصلہ ہو جاتا ہے اس لیے وہ ڈرا اور سہما ہوا تھا۔
میرا اپنا ایک دور بھی کالج کا تھا جب تبلیغ سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ان لوگوں سے متاثر تھا کہ اپنے ایک دوست کے زبردستی لے جانے پر تبلیغ پر چلا گیا اور یوں وہ پنجابی میں کہتے ہیں ناں کہ ’’کبے کو لت راس آگئی‘‘ یعنی کبڑے کو کس کی لات لگی تو اس کا کبڑا پن دور ہوگیا۔ میں آج دوست کی نسلوں کو بھی دعائیں دیتا ہوں حالانکہ میں اسکول اور کالج کے زمانے کا بہترین سنگر تھا۔ سب کچھ کیا کرتے تھے۔لیکن ملاقات کے وقت عامر خان گھبرایا ہوا تھا میں نے بیٹھتے ہی اس سے فلموں کی گفتگو شروع کر دی اور میں نے محسوس کیا کہ 1960ء سے 1972ء تک کے عرصہ کے دوران جتنا میں فلم انڈسٹری کو جانتا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔ تو اس پر میرے علم کا رعب پڑھ گیا۔ کیونکہ یہ اس کی لائن کا علم تھا وہ تو حیران پریشان ہوگیا کہ وعظ تو ہو ہی نہیں رہا میں کبھی دلیپ کمار تو کبھی راج کمار کی بات کرنے لگا اور کبھی مدھن موھن کے بارے میں گفتگو کی۔ یوں آدھا گھنٹہ تو ایسے ہی گزر گیا، ہم کھانے کی میز پر تھے تو گفتگو پچاس منٹ تک پہنچ گئی تھی اور ہم نے کھانے کی میز چھوڑ کر نشستیں تبدیل کیں، عامر خان کا سارا خوف دور ہو چکا تھا۔ تو میں نے کہا عامر بھائی ہم حج کرنے آئے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو نبیؐ کا حج سنائوں اور اس کے بعد میں سوا گھنٹہ بولتا رہا، عامر خان نے ایک لمحہ کے لیے بھی بوریت ظاہر نہ کی اور نہ پہلو بدلا یہ اس کی محبت تھی کیونکہ لوگ محبت کرتے ہیں اور ہم ہیں کہ فتوے دینا شروع کر دیتے ہیں۔ دو گھنٹے کے بعد وہ ہمیں نیچے تک چھوڑنے آیا جبکہ میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ حج کے بعد ایک ملاقات اور ہونی چاہیے تو اس نے جواب دیا ضرور ہوگی لیکن بعد میں اس کا پیغام آ یا کہ معذرت چاہتا ہوں میں مکہ سے مدینہ آگیا ہوں۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں میں مدینے آجائوں گا۔ حالانکہ میں پہلے مدینے ہو آیا تھا۔ تو اس نے کہا کہ آپ 14 تاریخ کو آجائیں، 4 سے 6 بجے تک ٹائم رکھا گیا۔ میں جنید جمشید اور ایک ساتھی ملاقات کے لئے چلے گئے۔ سوا چار بجے ہماری ملاقات شروع ہوئی تو سوا دس بجے تک جاری رہی اور اس چھ گھنٹے کی ملاقات کے بعد بھی اس کا جی نہیں چاہ رہا تھا کہ ہم اٹھیں۔ ملاقات کے بعد ایک روز میں رائیونڈ اجتماع پر تھا کہ ایک امتحان میں پڑ گیا۔ مجھے عامر خان کا میسج ملا کہ میری نئی فلم تلاش آرہی ہے اس کی کامیابی کی دعا کریں۔ مولانا صاحب ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اے چنگی گل اے‘‘ یہ اچھی بات ہے کیونکہ جواب دینا بھی ضروری تھا اور دعا بھی نہیں ہوسکتی تھی۔ جب میسج آیا تو میرے سامنے دس بارہ علماء بیٹھے ہوئے تھے تو ان سے پوچھا کیا کروں تو وہ کہنے لگے بھئی یہ تمہاری ہی فیلڈ ہے تم ہی جانو میں سارا دن سوچتا رہا۔ اگلا روز بھی گزر گیا کہ عصر کے وقت وضو کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں ایک مضمون ڈال دیا اور میں نے عامر خان کو یہ میسج بھیجا کہ عامر بھائی جو تخلیقی ذہن ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کسی کسی کو دیتا ہے۔ ہمارا تمہارے ساتھ جتنا وقت گزرا ہے یہ محسوس ہوا ہے کہ تم ایک تخلیقی شخص ہو اور جو کریٹو ہوتا ہے وہ کامیابی اور ناکامی کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ فوراً اس کا جواب آیا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
اسی دوران مولانا فون کرنے کے آداب کے حوالے سے بھی تھوڑی گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عامر خان کو فون کرنے سے پہلے ہمیشہ ایس ایم ایس کے ذریعے پوچھا کہ کیا بات ہوسکتی ہے کبھی وہ خود کال کر لیتا اور کبھی ہاں کہہ دیتا اور اسی دوران اس کو کئے ہوئے ایس ایم ایس کے تھوڑی دیر بعد اس کی کال آگئی اور کہنے لگا میں دہلی میں ہوں اور جب آپ کا پیغام ملا تو میں دہلی کانفرنس میں تھا۔ اب باہر نکل کر آپ کو کال کر رہا ہوں اور پھر مولانا ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس نے باتوں باتوں میں کہا کہ مولانا آپ کی دعا سے فلم کامیاب ہوگئی ہے حالانکہ میں نے کہاں دعا کی تھی۔مولانا اپنی اس گفتگو کے آخر میں کہتے ہیں کہ بھائیو محبتیں بانٹو نفرتیں تو بہت پھیل چکی ہیں۔
اور کہتے ہیں کہ
نشہ پلا کر گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو تب ہے کہ گرنے والے کو تھام لے ساقی
یہ تھا مولانا کی گفتگو کا خلاصہ اور مولانا نے اپنے انداز اور حکمت عملی سے ایک فلم ایکٹر کو خود سے دور بھگانے کی بجائے محبت کا اسیر بنا لیا۔مولانا صاحب سے میری درخواست ہے کہ مولانا صاحب اللہ تعالیٰ نے آپ کو گفتگو اور علم کا جو خزانہ عطا کیا ہے۔ اس کو ان لوگوں پر بھی آزمانے کی کوئی تدبیر کریں جو خودکش دھماکوں سے اور بم پھاڑ کر اپنے ہی ملک کے لوگوں کو مار رہے ہیں ، لوگوں کو اپاہج بنا رہے ہیں اور بچوں کو یتیم بنا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے آپ جب بھی ایسا ارادہ کریں گے تمام ریڈیو اور ٹی وی چینلز آپ کو ایسے لوگوں سے خطاب کرنے کے لئے خصوصی وقت دیں گے۔ اور آپ ان علاقوں میں ایف ایم ریڈیو کے ذریعے جو آپ خود قائم کرسکتے ہیں۔ امن کے قیام اور اپنے ہی لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کے کھیل کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
علی معین نوازش کا کالم مطبوعہ روزنامہ جنگ 28 نومبر 2013 ء
twitteram_nawazish
مولانا طارق جمیل کی ایک گفتگو کا کچھ حصہ گزشتہ کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پر چل رہا ہے جو بھارتی فلم انڈسٹری کے ایک معروف اداکار عامر خان سے ملاقات کے حوالے سے ہے۔ جو اپنی والدہ کو حج کرانے سعودی عرب گئے ہوئے تھے جبکہ مولانا طارق جمیل، جنید جمشید اور شاہد آفریدی بھی اسی سال حج کے لئے سعودی عرب میں تھے یہ ملاقات مکہ میں ہوئی تھی۔ ملاقات کا احوال مولانا طارق جمیل کی زبانی کچھ اس طرح سے ہے۔
’’عامر خان سے میری ملاقات ہوئی تو اسے کوئی دین کی بات نہیں کی صرف محبت تھی، جس کی وجہ سے اب تک عامر خان کے میسجز آتے ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ میں زندگی میں کبھی کسی سے متاثر نہیں ہوا تم پہلے آدمی ہو جس سے متاثر ہوا ہوں میں نے اس پر کوئی جادو نہیں کیا تھا بلکہ صرف محبت تھی اور اللہ تعالیٰ نے بڑی مشکل سے ملاقات کا راستہ پیدا کیا تھا کیونکہ ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے اور کوئی موقعہ نہیں مل رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے شاہد آفریدی کے ذریعے اس ملاقات کو آسان بنا دیا اور ملاقات طے ہوگئی اور ہمیں آدھ گھنٹے کا وقت ملا اور زیادہ سے زیادہ پون گھنٹہ، جب ملاقات کے لئے گیا تو عامر خان کا سہما ہوا چہرہ تھا کہ مولانا معلوم نہیں کیا کہیں گے کہ تو یہ کیا کر رہا ہے۔ سب حرام کر رہا ہے، ناچ رہا ہے۔ فوراً توبہ کر ورانہ ابھی تیرے لیے دوزخ کا فیصلہ ہو جاتا ہے اس لیے وہ ڈرا اور سہما ہوا تھا۔
میرا اپنا ایک دور بھی کالج کا تھا جب تبلیغ سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ان لوگوں سے متاثر تھا کہ اپنے ایک دوست کے زبردستی لے جانے پر تبلیغ پر چلا گیا اور یوں وہ پنجابی میں کہتے ہیں ناں کہ ’’کبے کو لت راس آگئی‘‘ یعنی کبڑے کو کس کی لات لگی تو اس کا کبڑا پن دور ہوگیا۔ میں آج دوست کی نسلوں کو بھی دعائیں دیتا ہوں حالانکہ میں اسکول اور کالج کے زمانے کا بہترین سنگر تھا۔ سب کچھ کیا کرتے تھے۔لیکن ملاقات کے وقت عامر خان گھبرایا ہوا تھا میں نے بیٹھتے ہی اس سے فلموں کی گفتگو شروع کر دی اور میں نے محسوس کیا کہ 1960ء سے 1972ء تک کے عرصہ کے دوران جتنا میں فلم انڈسٹری کو جانتا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔ تو اس پر میرے علم کا رعب پڑھ گیا۔ کیونکہ یہ اس کی لائن کا علم تھا وہ تو حیران پریشان ہوگیا کہ وعظ تو ہو ہی نہیں رہا میں کبھی دلیپ کمار تو کبھی راج کمار کی بات کرنے لگا اور کبھی مدھن موھن کے بارے میں گفتگو کی۔ یوں آدھا گھنٹہ تو ایسے ہی گزر گیا، ہم کھانے کی میز پر تھے تو گفتگو پچاس منٹ تک پہنچ گئی تھی اور ہم نے کھانے کی میز چھوڑ کر نشستیں تبدیل کیں، عامر خان کا سارا خوف دور ہو چکا تھا۔ تو میں نے کہا عامر بھائی ہم حج کرنے آئے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو نبیؐ کا حج سنائوں اور اس کے بعد میں سوا گھنٹہ بولتا رہا، عامر خان نے ایک لمحہ کے لیے بھی بوریت ظاہر نہ کی اور نہ پہلو بدلا یہ اس کی محبت تھی کیونکہ لوگ محبت کرتے ہیں اور ہم ہیں کہ فتوے دینا شروع کر دیتے ہیں۔ دو گھنٹے کے بعد وہ ہمیں نیچے تک چھوڑنے آیا جبکہ میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ حج کے بعد ایک ملاقات اور ہونی چاہیے تو اس نے جواب دیا ضرور ہوگی لیکن بعد میں اس کا پیغام آ یا کہ معذرت چاہتا ہوں میں مکہ سے مدینہ آگیا ہوں۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں میں مدینے آجائوں گا۔ حالانکہ میں پہلے مدینے ہو آیا تھا۔ تو اس نے کہا کہ آپ 14 تاریخ کو آجائیں، 4 سے 6 بجے تک ٹائم رکھا گیا۔ میں جنید جمشید اور ایک ساتھی ملاقات کے لئے چلے گئے۔ سوا چار بجے ہماری ملاقات شروع ہوئی تو سوا دس بجے تک جاری رہی اور اس چھ گھنٹے کی ملاقات کے بعد بھی اس کا جی نہیں چاہ رہا تھا کہ ہم اٹھیں۔ ملاقات کے بعد ایک روز میں رائیونڈ اجتماع پر تھا کہ ایک امتحان میں پڑ گیا۔ مجھے عامر خان کا میسج ملا کہ میری نئی فلم تلاش آرہی ہے اس کی کامیابی کی دعا کریں۔ مولانا صاحب ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اے چنگی گل اے‘‘ یہ اچھی بات ہے کیونکہ جواب دینا بھی ضروری تھا اور دعا بھی نہیں ہوسکتی تھی۔ جب میسج آیا تو میرے سامنے دس بارہ علماء بیٹھے ہوئے تھے تو ان سے پوچھا کیا کروں تو وہ کہنے لگے بھئی یہ تمہاری ہی فیلڈ ہے تم ہی جانو میں سارا دن سوچتا رہا۔ اگلا روز بھی گزر گیا کہ عصر کے وقت وضو کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں ایک مضمون ڈال دیا اور میں نے عامر خان کو یہ میسج بھیجا کہ عامر بھائی جو تخلیقی ذہن ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کسی کسی کو دیتا ہے۔ ہمارا تمہارے ساتھ جتنا وقت گزرا ہے یہ محسوس ہوا ہے کہ تم ایک تخلیقی شخص ہو اور جو کریٹو ہوتا ہے وہ کامیابی اور ناکامی کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ فوراً اس کا جواب آیا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
اسی دوران مولانا فون کرنے کے آداب کے حوالے سے بھی تھوڑی گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عامر خان کو فون کرنے سے پہلے ہمیشہ ایس ایم ایس کے ذریعے پوچھا کہ کیا بات ہوسکتی ہے کبھی وہ خود کال کر لیتا اور کبھی ہاں کہہ دیتا اور اسی دوران اس کو کئے ہوئے ایس ایم ایس کے تھوڑی دیر بعد اس کی کال آگئی اور کہنے لگا میں دہلی میں ہوں اور جب آپ کا پیغام ملا تو میں دہلی کانفرنس میں تھا۔ اب باہر نکل کر آپ کو کال کر رہا ہوں اور پھر مولانا ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس نے باتوں باتوں میں کہا کہ مولانا آپ کی دعا سے فلم کامیاب ہوگئی ہے حالانکہ میں نے کہاں دعا کی تھی۔مولانا اپنی اس گفتگو کے آخر میں کہتے ہیں کہ بھائیو محبتیں بانٹو نفرتیں تو بہت پھیل چکی ہیں۔
اور کہتے ہیں کہ
نشہ پلا کر گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو تب ہے کہ گرنے والے کو تھام لے ساقی
یہ تھا مولانا کی گفتگو کا خلاصہ اور مولانا نے اپنے انداز اور حکمت عملی سے ایک فلم ایکٹر کو خود سے دور بھگانے کی بجائے محبت کا اسیر بنا لیا۔مولانا صاحب سے میری درخواست ہے کہ مولانا صاحب اللہ تعالیٰ نے آپ کو گفتگو اور علم کا جو خزانہ عطا کیا ہے۔ اس کو ان لوگوں پر بھی آزمانے کی کوئی تدبیر کریں جو خودکش دھماکوں سے اور بم پھاڑ کر اپنے ہی ملک کے لوگوں کو مار رہے ہیں ، لوگوں کو اپاہج بنا رہے ہیں اور بچوں کو یتیم بنا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے آپ جب بھی ایسا ارادہ کریں گے تمام ریڈیو اور ٹی وی چینلز آپ کو ایسے لوگوں سے خطاب کرنے کے لئے خصوصی وقت دیں گے۔ اور آپ ان علاقوں میں ایف ایم ریڈیو کے ذریعے جو آپ خود قائم کرسکتے ہیں۔ امن کے قیام اور اپنے ہی لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کے کھیل کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
علی معین نوازش کا کالم مطبوعہ روزنامہ جنگ 28 نومبر 2013 ء
twitteram_nawazish