مولانا عبد الرشید غازی شہید

سید ابرار

محفلین
’مسجد میں پتے کھا کھا کر گزارا کیا‘

رفیعہ ریاض
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

’ہم نے فورسز کو اللہ کا واسطہ دیا کہ ہمیں بے پردہ نہیں کریں‘
لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران منگل کو باہر آنے والی طالبات کا کہنا ہے کہ آٹھ روزہ آپریشن کے دوران انہوں نے ہر لمحہ موت کا ذائقہ چکھا ہے اور انہیں درختوں کے پتے کھاکر گزارا کرنا پڑا۔

گزشتہ ایک سال سے اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ جامعہ حفصہ میں زیر تعلیم نزہت جمیل نے بتایا کہ مدرسوں میں تو وہ پہلے بھی پڑھتی رہی ہیں مگر اس طرح کی صورتحال کا سامنا انہیں پہلی مرتبہ ہوا۔
ہمارے کھانے کے سٹور پر انہوں نے گولہ باری کی تو ہمارے پاس پتے کھانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ بعد میں مجاہد بھائی کہیں سے اسی من شہد لے آئے۔ہم اس کا شربت بنا کر درختوں کے پتوں کے ساتھ پیتے رہے۔سات دن اسی طرح گزرے۔
آپریشن کے دوران یہ طالبات کیسے اور مدرسے کے کس حصے میں قیام کئے ہوئے تھیں اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کمروں کی بجائے چھوٹے چھوٹے سٹورز میں چلے گئے تھے۔ ہر سٹور میں تقریبا پندرہ پندرہ لڑکیاں تھیں ۔لیٹنے کی جگہ نہیں تھی ہم بس سیدھی بیٹھی رہتی تھیں۔باہر دھماکوں کی آوازیں سن کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہم فلسطین میں ہوں۔ تیسرے دن پانی بجلی اور گیس سب کچھ بند ہوگیا تھا لہذا مشکل اور بڑھ گئی تھی۔‘

جامعہ حفصہ میں موجود یتیم بچیوں کے بارے میں نزہت جمیل کا کہنا تھا ’ہمیں اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں۔ البتہ باقی جو چھوٹی بچیاں ہمارے ساتھ تھیں وہ کچھ بھی نہیں بولتی تھیں۔ نہ کھانے کو کچھ مانگتی تھیں اور نہ ہی پینے کو۔ان کا بڑا حوصلہ تھا۔ پولیس والوں کو جب بھی کہیں برقعہ نظرآتا تھا تو وہ بہت بمباری شروع کر دیتے تھے۔
غسل خانوں کی سہولت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پانی نہیں آرہا تھا اور صفائی نہ ہونے کی بناء پر بہت بدبو پھیلی ہوئی ہوتی تھی لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
یہ پوچھنے پر کہ کیا آپریشن کے دوران طالبات جاں بحق ہوئیں اور کیا انہیں مدرسے کے احاطے میں دفن کیا گیا، کشمیر کے علاقے باغ سے تعلق رکھنے والی نزہت نے کہا کہ ’تیس شہید طالبات کو بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں ڈال دیا گیا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے کشمیر میں زلزلہ آنے کے بعد کیا گیا تھا۔‘ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی قبر نہیں ملی۔
’ہمیں ان کے جنازے کے حوالے سے کچھ پتہ نہیں ۔ہمیں تو مجاہد بھائیوں کا بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کہاں کہاں ہیں ۔کبھی کبھی ایک دو نظر آجاتے اور پھر غائب ہو جاتے تھے۔‘

عائشہ لیاقت جامعہ حفصہ کی معلمہ ہیں اور ان کا تعلق ملتان سے ہے۔ آٹھ روز مسلسل محاصرے میں رہنے کے بعد اب وہ اپنے گاؤں روانہ ہو چکی ہیں۔رابطہ کرنے پر ان کی آواز سے ان کے رتجگوں کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہ تھا۔
جامعہ حفصہ کے اندر گزری آخری رات کا حال بتا تے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ بڑی خاموش رات تھی۔کوئی گولہ باری نہیں ہوئی۔جب یہ سلسلہ طویل ہوا تو میں نے اپنی ساتھی طالبات کو یہ مصرع سنایا
جو آج کی شب سکوں سے گزری تو کل کا موسم خراب ہوگا۔

اور پھر میں نے کہا ’مجھے اس خاموشی کے بعد کے کل سے ڈر لگ رہا ہے۔اور پھر اگلی صبح ٹھیک پونے چار بجے ہماری آنکھ سیکیورٹی فورسز کے حملے سے کھلی۔گولوں کی آوازیں بہت قریب سے آرہی تھیں۔‘
’میں تو بس دروازے کے سے لگ کر بیٹھ گئی۔چھ بجے مجھے لگا کہ فوجی اندر آگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مجاہد بھائیوں کی آوازیں بھی آئیں کہ اندر مت آؤ ورنہ گولی مار دیں گے۔ آخر کار ہمیں باہرآنے کو کہا گیا اور فورسز نے ہمیں کہا کہ اب نقاب الٹ دیں۔ ہم نے ان کو اللہ کا واسطہ دیا کہ ہمیں بے پردہ مت کریں ۔شکر ہے انہوں نے پھر زیادہ زور نہیں دیا۔‘

مصباح طارق کی عمر اٹھارہ سال ہے وہ پچھلے پانچ سال سے جامعہ حفصہ میں زیرتعلیم تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ شہادت کے جذبے سے سرشار آخری وقت تک جامعہ حفصہ کے اندر رہنا چاہتی تھیں لیکن اندر رہنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔انہوں نے بتایا ’ہمارے کھانے کے سٹور پر انہوں نے گولہ باری کی تو ہمارے پاس پتے کھانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ بعد میں مجاہد بھائی کہیں سے اسی من شہد لے آئے۔ہم اس کا شربت بنا کر درختوں کے پتوں کے ساتھ پیتے رہے۔سات دن اسی طرح گزرے۔‘

’آخری دن ہمارا کمرہ دھوئیں سے بھر چکا تھا ۔ہمارا دم گھٹ رہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ گھٹ کر مرنے سے بہتر ہے کہ ہم سینے پر گولی کھا کر مر جائیں۔مگر مجاہد بھائیوں نے ہمیں باہر نکلنے سے منع کر دیا۔ بعد میں پولیس والوں نے کہا کہ باہر آجاؤ ورنہ دب کر مر جاؤگے تو تب ہم باہر نکل آئے۔میں تو اب بھی یہ کہتی ہوں کہ یہ دن مجھے کبھی نہیں بھولیں گے۔‘
 
اے کاش وہ اپنے کاز سے مخلص ہوتے

اور تا دم مرگ اپنے مطالبات پر ڈٹے رہتے لیکن یہاں تو یہ عالم تھا کہ وہ سب کچھ بھول بھال کر صرف اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ راستے کی تلاش میں تھے اور اس خود غرضی میں انہوں نے کئی معصوم جانوں کے ساتھ ساتھ اپنی والدہ ماجدہ کو بھی اپنے اخلاص کی بھینٹ چڑھا دیا
قوم نہ تو اندھی ہے اور نہ ہی بہری قوم نے خود رشید غازی کے میڈیا کے ساتھ مذکرات سنے آخری تین دنوں میں ان کا ایک ہی کاز تھا جسے دنیا محفوظ راستے کے نام سے جانتی ہے


میاں مٹھو جو ذاکر حق تھے ہر گھڑی ذکر حق کا کرتے تھے
گربہ موت نے جو آ دابا کچھ نہ نکلا سوائے ٹے ٹے ٹے

اللہ سب کے دلوں کا حال جانتا ہے
اللہ ان پر رحم فرمائے
اور ان کی مغفرت فرمائے

شاکر صاحب ،

مقصد میں مخلص ہونے کے ثبوت کے لیے کیا غازی صاحب کو ایک دفعہ پھر زندہ ہو کر دوبارہ جان دینی ہوگی کہ وہ آپ کو یقین دلائیں کہ وہ اپنے مقصد کے لیے کتنے مخلص تھے۔ تادم مرگ کیا کہہ رہے تھے وہ یہ اے آر وائے ، آج اور جیو ٹی وی پر بھی آیا ہے اور ان کا یہی کہنا تھا
کہ میری شہادت یقینی ہے اور میں عوام سے کہوں گا کہ وہ میرے خون کا بدلہ ضرور لیں اور اس نظام کو بدل دیں جو صرف طاقتوروں کو حقوق دیتا ہے اور ان کے لیے ہی کام کرتا ہے۔
محفوظ راستہ اپنے لیے نہیں سب کے لیے مانگا تھا جس میں اپنے آبائی گاؤں جانا اور جن طلبا پر غیر ملکی ہونے کا شک تھا انہیں تشویش کے لیے روکنے کا بارہا کہا اور یہ بات آپریشن شروع ہونے سے چند منٹ پہلے ہونے والے مذاکرات میں دستاویز بھی ہوئی۔ اسی پر حکومت مان کر پھر ایوان صدر سے پورا معاہدہ بدلوا کر لے آئی اور فورا آپریشن شروع کر دیا تاکہ کہیں حقائق باہر نہ آجائیں۔ خود غرض تو بہت تھے ، اپنی جان دے دی خود غرضی میں اور اپنی والدہ اور بیٹے کی بھی جو غازی صاحب جتنے ہی خود غرض ثابت ہوئے۔ دنیا میں دو رشتے انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں ایک والدین ، دوسرا اولاد کا رشتہ۔ غازی صاحب نے دونوں رشتے اپن جان سمیت پیش کیے اور آپ کو ابھی بھی اخلاص میں یقین کے لیے ثبوت درکار ہیں۔

قوم واقعی نہ اندھی ہے نہ بہری اور جانتی ہے کہ غازی صاحب آخر تک کیا کہتے رہے اور لوگوں کی جان بچانے کے لیے سب کچھ وفاق المدارس کے حوالے کرکے خود اور طلبا کو باعزت طور پر باہر لانا چاہتے تھے کیونکہ حکومت نے تذلیل اور دین کا نام لینے والوں کو بدنام کرنے کا جو شرمناک کاروبار شروع کر رکھا تھا اور ہے اس سے وہ بچانا چاہتے تھے۔ طاقت کے اندھے استعمال کو ساری قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور غازی صاحب کا یہ مطالبہ اپنے کانوں سے بار بار سنا ہے کہ میڈیا کو اندر آنے دیا جائے وہ آ کر خود حقائق دیکھ لیں۔ قوم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ حکومت کے مسلسل جھوٹ کی قلعی کس طرح کھلی ہے اور دو دن تک ڈرامہ سٹیج کرنے کے بعد بھی ان کا جھوٹ سب کے سامنے ہے۔ جان تو سب کی جانی ہے مگر جس انداز سے جس کی جاتی ہے اسی طرح سے یاد رکھی جاتی ہے۔ اپنی جان حکومت کے سپرد کرنے کی بجائے خالق حقیقی کے سپرد کردی جو سب سے بڑا منصف اور عادل ہے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
اس جان کی تو کوئی بات نہیں یہ جان تو آنی جانی ہے
 
غیر ملکیوں کا معاملہ حکومت نے بڑا اٹھایا کہ غیرملکیوں کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے۔۔۔۔۔ لیکن حکومت کسی غیرملکی کو زندہ یا مردہ پیش کرنے سے ناکام رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمان وزارتِ داخلہ نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ کسی غیر ملکی کی شناخت نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔
تو وہ غیر ملکی جن کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہونے کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے، وہ لوگ کون تھے؟؟؟؟
 

ساجداقبال

محفلین
راہبر بھائی جو ہونا تھا وہ ہو چکا، غیر ملکی ہونے نہ ہونے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ مشرف دلیلوں سے شرمندہ ہو کر جان چھوڑ دیگا تو خاطر جمع رکھیے۔ ایسا کبھی ممکن نہیں، جس شخص نے یہ پورا قتل عام اپنے اقتدار کے دوام کیلیے کیا، اس سے ایسی کسی بات کو تسلیم کرنے کی توقع احمقانہ پن سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔اور ویسے بھی غیرملکیوں کے معاملے پر انکی ڈھٹائی اب بھی جاری ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ترجمان وزارتِ داخلہ نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ کسی غیر ملکی کی شناخت نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔
تو وہ غیر ملکی جن کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہونے کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے، وہ لوگ کون تھے؟؟؟؟
براہ کرم یہ بات کچھ واضح‌کر دیں‌کہ غیر ملکیوں کی شناخت نہیں‌ ہوئی سے مراد یہ ہے کہ شناخت کرنے والے نہیں ملے اور نہ ہی کوئی کاغذات ان کے پاس تھے
 

دوست

محفلین
میرے خیال میں تو نقصان معصوم طلباء کا ہوا ہے۔ باقی سب ڈرامہ ہے غازی برادران جعع حکومت۔
لیکن اس کا ردعمل بہت خوفناک ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی، ایک غیر ملکی جو انہوں نے دریافت کیا تھا وہ یہ ہے۔
اسی لنک سے یہ اقتباس ہے

ادھر وزارتِ داخلہ کے ترجمان بریگیڈئر جاوید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ لال مسجد آپریشن میں ہلاک ہونے والے افراد میں سے دس کو ان کے خدوخال کی بناء پر غیر ملکی قرار دیا گیا تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے تسلیم کیا کہ حکومت کے پاس ان افراد کے بارے میں کوئی حتمی معلومات نہیں تھیں۔

بریگیڈئر چیمہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن افراد کی تصاویر شائع کی گئی ہیں، اگر وہ پاکستانی ہیں تو ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ان کی لاشیں ورثاء کے حوالے کر دی جائیں گی۔
 

ساجداقبال

محفلین
اسی لنک سے یہ اقتباس ہے

ادھر وزارتِ داخلہ کے ترجمان بریگیڈئر جاوید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ لال مسجد آپریشن میں ہلاک ہونے والے افراد میں سے دس کو ان کے خدوخال کی بناء پر غیر ملکی قرار دیا گیا تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے تسلیم کیا کہ حکومت کے پاس ان افراد کے بارے میں کوئی حتمی معلومات نہیں تھیں۔

بریگیڈئر چیمہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن افراد کی تصاویر شائع کی گئی ہیں، اگر وہ پاکستانی ہیں تو ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ان کی لاشیں ورثاء کے حوالے کر دی جائیں گی۔

قیصرانی بھائی آپ اسی اقتباس میں کچھ مضحکہ خیز باتیں دیکھ سکتے ہیں۔ پہلے یہ کہ خدوخال سے کسی کو غیرملکی قرار دینا اور وہ بھی اتنے اہم معاملے میں؟ ایرانی سرحد پر واقع بلوچیوں کے خدوخال ایرانیوں سے ملتے ہیں، بلتستان میں رہنے والے اکثر چینیوں کی طرح ہوتے ہیں تو کیا وہ غیر ملکی ہو گئے؟ دوسری بات یہ کہ یہ "غیر ملکی" ابھی تک میڈیا کے سامنے کیوں نہیں لائے گئے؟ تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے کہ ان پر کیمیکل ہتھیار استعمال کیے گئے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
دوسری بات یہ کہ یہ "غیر ملکی" ابھی تک میڈیا کے سامنے کیوں نہیں لائے گئے؟ تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے کہ ان پر کیمیکل ہتھیار استعمال کیے گئے۔
ساجد بھائی، پہلی بات کا جواب کاغذات سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس شناختی کاغذات نہ ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا شناخت کنندہ موجود ہو تو پھر ظاہر ہے کہ شکل کی بنیاد پر ہی عارضی فیصلہ کیا جاتا ہے

دوسرا آپ کا سوال سمجھ نہیں‌ آیا۔ جن کو غیر ملکی سمجھا گیا، ان کی تصاویر چھاپ دی گئیں تو شناخت ہوئی کہ یہ ایک یا دو یا چند افراد پاکستانی تھے نا؟
 

ساجداقبال

محفلین
ساجد بھائی، پہلی بات کا جواب کاغذات سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس شناختی کاغذات نہ ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا شناخت کنندہ موجود ہو تو پھر ظاہر ہے کہ شکل کی بنیاد پر ہی عارضی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
دوسرا آپ کا سوال سمجھ نہیں‌ آیا۔ جن کو غیر ملکی سمجھا گیا، ان کی تصاویر چھاپ دی گئیں تو شناخت ہوئی کہ یہ ایک یا دو یا چند افراد پاکستانی تھے نا؟
بالکل ایسا ہی کیا جاتا ہے لیکن ایسے معاملوں میں تصدیق بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ ایک بہت بڑا نکتہ اس قتل عام میں۔ تصاویر کم از کم میری نظر سے نہیں گزریں، پتہ نہیں کس اخبار میں چھاپی گئیں؟ مجھے تو وہ خبر نظر آئی صرف۔ اخبارات میں یہانتک چھپا ہے صرف کہ بتائے گئے دس غیر ملکیوں میں سے تین کی بحیثیت پاکستانی شناخت ہو چکی ہے۔ بہرحال جو بھی غیر ملکیوں کا مشکوک جواز بتا کر ہزاروں لوگوں کے قتل عام کو جائز نہیں قرار دیا جا سکتا۔
 
Top