چلیے آپ لوگوں کو احساس تو ہوا کہ سیلیکٹڈ اور اس کی درآمد شدہ ٹیم بھی اسی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، جنھیں ٹماٹر سترہ روپے کلو نظر آتا ہے، انڈے اور مرغی پال کر اکانومی کو سہارا دینا چاہتے ہیں۔
آپ کی مرضی ہے جناب۔ ملکی معیشت کو جگاڑ پر چلا لیں جیسا کہ پچھلے تیس چالیس سال سے ہو رہا ہے۔ یا پھر اس کا معاشی ڈھانچہ مضبوط کریں تاکہ ملک معاشی ترقی کرتے وقت ریکارڈ قرضوں اور خساروں کا بوجھ عوام پر نہ لادھ سکے۔
کیا اسٹیٹ بنک کی آزادی ضروری تھی؟
28/03/2021 ذیشان ہاشم
ایک ملک کی معیشت کا درست اندازہ لگانا ہوا تو سب سے پہلے گروتھ ریٹ دیکھتے ہیں، اور اگر یہ دیکھنا ہو گا کہ اس ملک کی معیشت کتنی مستحکم ہے تو دو اہم انڈیکیٹر دیکھے جاتے ہیں۔ اس ملک کی مونیٹری پالیسی اور فسکل پالیسی میں پوزیشن مستحکم ہے یا نہیں خاص طور پر یہ کہ یہ دونوں پالیسیز اکانومی پر کتنا اثرانداز ہوتے ہیں۔ فسکل پالیسی حکومت بناتی ہے اور مونیٹری پالیسی ایک ملک کا سنٹرل بنک جسے پاکستان میں اسٹیٹ بنک کہتے ہیں۔
ایک ملک کی معیشت میں جہاں حکومت کا کردار اہم ہے وہاں ریگولیٹرز حکومت سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر ریگولیٹرز موجود رہتے ہیں۔ حکومتیں ووٹرز کو مطمئن کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں بغیر کسی بڑی کاسٹ کے، وہ بعض اوقات ایسے فیصلے کر جاتی ہیں جن کے فوائد وقتی مگر نقصان طویل مدت کے لئے ہوتے ہیں۔ ریگولیٹرز مارکیٹ میں شفافیت کو یقینی بناتے ہیں، انہیں ووٹرز کو مطمئن نہیں کرنا ہوتا بلکہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہوتا ہے یوں وہ مستحکم پالیسیز بناتے ہیں۔ اسٹیٹ بنک ایک ریگولیٹر ادارہ ہے۔
پاکستان کا اکنامک ماڈل اپنی بنیاد میں ہی خراب ہے۔ پاکستانی حکومت کی آمدن کم ہے اور اخراجات بہت ہی زیادہ۔ ہونا یہ چاہئے کہ حکومت ایسی اصلاحات کرے کہ جس سے ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھیں، معاشی ترقی ہو اور نتیجے میں حکومت کی آمدن بھی بڑھے۔ مگر اصلاحات کا یہ عمل قدرے مشکل ہے پاکستان کی پولیٹیکل اکانومی کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو۔ اب حکومت کیا کرتی ہے ؟ اس نے عارضی طریقے ڈھونڈھے ہوئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
ایک : باہر سے قرض لے کر گزارہ کرنا خاص طور پر کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لئے۔ اگر حکومت قرض نہ لے تو دیوالیہ ہو جائے۔
دوم : نوٹ چھاپ لینا جب ضرورت پڑے۔ اس سے ظلم یہ ہوتا ہے کہ ملک میں جب پیسے کی سپلائی (منی سپلائی) بڑھتی ہے تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر آپ پاکستان میں مہنگائی کے اسباب کا جائزہ لیں تو آپ کو دو بڑے اسباب ملیں گے
1) حکومت کا زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپ کر اپنے اخراجات پورے کرنا .
2) امپورٹ پر پابندیاں۔ آپ ان تمام چیزوں کی لسٹ بنا لیں جن کی امپورٹ پر پابندی نہیں اور ان اشیاء کی بھی لسٹ بنا لیں جن کی امپورٹ کے لئے آپ کو حکومت کی اجازت لینی پڑتی ہے۔ آپ یہ دیکھیں گے کہ جن اشیاء کی امپورٹ پر پابندی نہیں ان کی اکثریت کی قیمتوں میں استحکام ہے اور جن اشیاء کی امپورٹ پر حکومتی اجازت نامہ مطلوب ہے ان میں سے اکثریت کی قیمتوں میں عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ حکومت امپورٹ پر ٹیرف بھی اس لئے لگاتی ہے کہ امپورٹ ٹیکس کی مد میں پیسے کمائے جائیں۔
سوم : پاکستان میں کچھ سیکٹرز ایسے ہیں جن کی لابنگ بہت اچھی ہے اور وہ حکومت سے مراعات لیتے رہتے ہیں جن میں ایک سستا قرض بھی ہے۔ حکومتیں اپنی اچھی شہرت حاصل کرنے کے لئے بھی کچھ سیکٹرز کے لئے سستے قرضوں کا اعلان کرتی ہے۔ یہ سستے قرض اسٹیٹ بنک دیتا ہے اگر وہ پوری طرح حکومت کے زیر انتظام ہو۔ اس سے ملک میں معاشی طور پر عدم مساوات کی پولیٹیکل اکانومی کو فروغ ملتا ہے اور ہر سیکٹر اپنی لابنگ سے زیادہ سے زیادہ مراعات لینے کی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور یہی پاکستان میں ہو رہا ہے۔
اوپر دیئے گئے دوم اور سوم امور پاکستانی حکومت سنٹرل بنک کے ذریعے سے کرتی ہے جس کے لئے سنٹرل بنک بنا ہی نہیں۔ سنٹرل بنک کے بنیادی طور پر دو اہم کام ہیں۔
ایک : مہنگائی کو کنٹرول کرنا
دوم : اکنامک گروتھ ریٹ کو بہتر شرح سود سے اس طرح boost (بڑھاوا) دینا کہ روزگار میں اضافہ ہو …
پاکستان میں سنٹرل بنک دونوں کام نہیں کر رہا۔ مہنگائی بذات خود جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کا بڑا سبب حکومت کا بہت زیادہ بغیر کسی جواب دہی کے نوٹ چھاپنا اور امپورٹ ٹیکسز کے لئے امپورٹ پر پابندیاں ہیں، جب مہنگائی بہت زیادہ ہوتی ہے تو شرح سود کو کم رکھنا ناممکنات میں سے ہے کیونکہ اس سے ایک طرف مونیٹری ڈسپلن ختم ہو جاتا ہے تو دوسری طرف بینک کھاتے داروں کو مہنگائی کی شرح سے کم سود دے کر اس کے پیسے کی ویلیو (Time value of money ) پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور یہ وعدہ فریب ثابت ہوتا ہے “حامل هذا کو مطالبہ پر ادا کیا جائے گا “۔ اگر شرح سود بہت زیادہ ہو گا تو اس سے معاشی سرگرمیوں میں کمی ہو گی۔
اسٹیٹ بنک کا اپنے اصل کام چھوڑ کر ان کاموں میں پڑ جانا جن کا حکومتیں اس سے تقاضا کرتی ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اسٹیٹ بنک کی صلاحیت انتہائی محدود رہ گئی ہے کہ وہ واقعی میں مہنگائی کو اپنی قابل اعتماد (credible ) پالیسی سے کنٹرول کر سکے اور اسی طرح وہ شرح سود میں کمی یا اضافہ سے گروتھ ریٹ اور روزگار کے عمل میں اضافہ لانے کا بھی زیادہ اہل نہیں رہا۔ جسے ہم ٹیکنیکل الفاظ میں ایسے کہیں گے کہ capacity نہیں build کر سکا۔
اس ساری صورتحال میں اسٹیٹ بنک کو حکومتی مداخلت سے آزاد کرنا مالیاتی نظام میں ایسا ہی ہے جیسا آپ نظام انصاف میں عدالتوں کی آزادی کے حامی ہیں۔ مگر یہاں یہ سوال ہنوز موجود ہے کہ کیا واقعی اسٹیٹ بنک کو آزاد رکھا جا سکے گا؟ اور یہاں میں اس بات کا بھی ذکر کرتا جاؤں کہ بہتر طریقہ کار یہی تھا کہ اسٹیٹ بنک کی آزادی سے متعلق پارلیمان میں مباحثہ ہوتا اور تب ہی یہ قانون متعارف کروایا جاتا نہ کہ اس سلسلے میں آرڈیننس سے کام چلایا جائے۔ حکومت کو پولیٹیکل ڈائیلاگ کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا وگرنہ معاشی پالیسیز بھی دیرپا نہیں رہتیں۔
باقی وہ تمام ممالک جہاں سنٹرل بنکس آزاد ہیں ان میں اکثریت ترقی یافتہ ممالک ہیں، وہاں سنٹرل بنکس ان حکومتوں کو نوٹ چھاپ کر قرض بھی دیتی ہے اور ان سے پیسے واپس بھی لیتی ہے مگر اس شرط پر کہ پیسوں کی چھپائی سے مہنگائی پر منفی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ شرط پاکستان میں بھی موجود رہے گی۔ اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ اب کے بعد اسٹیٹ بنک نوٹ نہیں چھاپے گا۔
باقی کچھ لوگ سنٹرل بنک کی آزادی کی اس لئے بھی حمایت نہیں کر رہے کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت کا کام ہے اس لئے اسے اس کا کریڈٹ کیوں دیا جائے۔ اور کچھ لوگ اس لئے بھی اس کی حمایت نہیں کر رہے کیونکہ انہیں اس کی سمجھ ہی نہیں کہ اصل میں ریگولیٹرز اور حکومت میں فرق کیا ہوتا ہے اور کیوں مارکیٹ میں ریگولیٹری ادارے حکومتی مداخلت سے آزاد ہونا چاہئیں۔ میری رائے یہی ہے کہ اسٹیٹ بنک کی آزادی معاشی اصلاحات کی طرف ایک مثبت قدم ہے اور حکومت کے لئے یہ ترغیب پیدا کرے گا کہ وہ معاشی عمل کو بہتر بنا کر اپنی آمدن میں اضافہ کرے نہ کہ “جگاڑ” لگا کر۔