مولانا فضل الرحمان کا 27 اکتوبر کو حکومت مخالف مارچ کا اعلان

جاسم محمد

محفلین
دراصل یہ احتجاج فوج پر دباؤ بڑھانے کی ایک تدبیر معلوم ہوتا ہے۔ جنرل باجوہ کے خلاف بھی کچھ نہ کچھ کھچڑی اندر کھاتے پک رہی ہو گی۔
آرمی چیف، آئی ایس آئی کے سربراہ اور وزیر اعظم تینوں ایک پیج پر ہیں۔ ماضی میں جب بھی حکومتوں کے خلاف احتجاج ، دھرنے ہوئے تو اس وقت مبصرین کی جانب سے یہی توجیہہ پیش کر دی جاتی تھی کہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر یہ سب ہو رہا ہے۔
اب وہی لوگ مولانا کے دھرنے کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ یعنی اگر اس کے پیچھے فوج ہے تو بھی وہ بغض عمران میں اسی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کر رہے ہیں جسے سابقہ حکومتوں میں گالیاں دیا کرتے تھے۔
بہتر ہوگا کہ ایسے لوگ اپنا کعبہ قبلہ درست کر لیں کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں۔ عوام کو مزید گمراہ نہ کریں۔
 

جاسم محمد

محفلین
دھرنا عوام کی طرف سے غیر مقبول و غیر جمہوری فیصلے کرنے والی حکومت کے خلاف دیا جاتا ہے۔
حکومت جو فیصلے کر چکی ہے عوام کو اسی پر چلنا ہے۔ عوامی احتجاج کے ذریعہ اپنی مرضی کے فیصلے کروا کر حکومت کو ان پر چلانا ہے تو ایسے کوئی ملک نہیں چل سکتا۔
یہ سچ ہے کہ معیشت کے حوالہ سے حکومت نے سخت غیرمقبول فیصلے کئے ہیں جس کی وجہ سے عوام پریشان ہے۔ البتہ مستقبل میں اس کے نتائج مثبت نکلیں گے۔ عوام کو چونکہ ایسی ٹیکنیکل باتوں کا نہیں پتا تو وہ بے صبری کے عالم میں اپوزیشن کو مسیحا سمجھ رہے ہیں۔
ایک زمانہ تھا چین کے حالات پاکستان سے بھی برے تھے۔ ماؤ زتنگ کی معاشی پالیسیوں سے کروڑوں چینی لقمہ اجل بن گئے۔ لیکن چینیوں نے کمیونسٹ پارٹی کے خلاف انقلاب لا کر گھر نہیں بھیجا۔ ماؤزتنگ کے بعد جب اگلا لیڈر ڈنگ شاؤپنگ آیا تو اس نے وہ سخت معاشی ریفارمز کر ڈالے جن کی بدولت آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ محض 30 برس کے عرصہ میں سب سے زیادہ غربت چین میں کم ہوئی ہے۔
OB-XC741_POVERT_E_20130417171914.jpg

عمران خان یہی چینی ماڈل پاکستان میں نافذ کر رہے ہیں۔ جس سے پاکستانی معیشت امپورٹس کی بجائے ایکسپورٹس پر انحصار کرکے بڑھنا شروع ہو جائے گی۔ ظاہر ہے یہ سب ایک سال کے عرصہ میں تو نہیں ہوگا۔ وقت لگے گا اور اس دوران ملک کی معیشت ایک ٹرانزیشن فیس سے گزرے گی۔ جیسے کہ آجکل ہو رہا ہے۔
ان دور رست فائدہ مند پولیسیوں کے خلاف دھرنا دے کر حکومت کو اسی پرانے نظام کیلئے مجبور کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔ بہرحال جیسی ہماری عوام ہے اس سے کچھ بھی بعید نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا کی سیاست اور تحریک نجات
ندا ڈھلوں جمع۔ء 11 اکتوبر 2019
1837370-moulanakisiyasat-1570709358-844-640x480.jpg

تحریک انصاف کی حکومت سے نجات کا بوجھ مولانا نے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیا ہے۔ (فوٹو: فائل)


مولا فضل الرحمٰن جس زور و شور سے آزادی مارچ کی تیاری کررہے ہیں اور ہمارا میڈیا جس طرح پل پل کی کوریج کررہا ہے، مجھے تو ایسے محسوس ہورہا ہے کہ مولانا صاحب آزادی مارچ نہیں بلکہ تحریک انصاف کے خلاف تحریک نجات شروع کرنے جار ہے ہیں۔ کیونکہ مولانا کے اس مارچ کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کسی نے کسی طرح یہ حکومت گرائی جائے۔ اسی لیے تو مولانا بڑے واضح اور دو ٹوک موقف کے ساتھ میدان میں اترے ہیں کہ وہ اب مزید اس حکومت کو برداشت نہیں کرسکتے اور اس سے چھٹکارا نہایت ضروری ہے۔ اگر اس حکومت سے نجات حاصل نہ کی گئی تو نہ جانے پاکستان کا کتنا بڑا نقصان ہوجائے گا۔

یہ بات تو سچ ہے کہ 2018 کے عام انتخابات سے لے کر ابھی تک ایک واحد مولانا ہی ہیں جن سے پی ٹی آئی کی حکومت برداشت نہیں ہورہی۔ الیکشن ہارنے کے بعد سے آج تک ایک بھی لمحہ مولانا نے سکون سے نہیں گزارا۔ پہلے پہل وہ حکومت مخالف محاذ میں اکیلے سامنے نہیں آنا چاہتے تھے۔ اس لیے تو پی پی پی اور مسلم لیگ ن کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ آل پارٹی کانفرنس تک کروائی گئی، مگر جب مولانا نے دیکھا کہ دونوں جماعتیں اس سختی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہیں جس کی اُمید مولانا کو تھی۔ تو ایک سال گزرنے کے بعد وہ ’’اپنی مدد آپ‘‘کے تحت ایک مارچ کرنے جارہے ہیں۔ اب یہ مارچ ناکام ہوگا یا کامیاب؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

مولانا فضل الرحمٰن ایک زیرک سیاست دان ہیں اور پاکستان کی سیاست کا ایک اہم نام بھی۔ اس لیے وہ میدان میں نتائج کی پروا کیے بنا اُتر رہے ہیں۔ اور آج کل وہ جس رفتار سے چل رہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے کشتیاں جلانے کا منصوبہ بناچکے ہیں۔

اس وقت اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی مشکل کا شکار ہیں۔ بھٹو کی پی پی پی کے اہم لیڈران سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ جیل میں مختلف مقدمات بھگت رہے ہیں۔ اور دوسری طرف مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نواز شریف اپنی بیٹی، بھتیجے، اور دوسرے پارٹی رہنماؤں کے ساتھ جیل میں قید ہیں۔ ان کے بارے میں کبھی ڈھیل اور کبھی ڈیل کی باتیں کی جاتی ہیں۔ مگر عوام کے سامنے ابھی تک اس حوالے سے کوئی خاص نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ تیسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی پارٹی ہے، جو بہت لمبے عرصے کے بعد پہلی مرتبہ اقتدار کے مزے بہت تکلیف کے ساتھ لے رہی ہے۔ کیونکہ جن نعروں کے ساتھ اس جماعت نے الیکشن جیتا تھا اُن میں سے ایک بھی وعدے پر عمل نہیں کیا گیا۔

جب سے خان صاحب وزیراعظم بنے ہیں، تب سے پاکستان میں جو چیز بڑھ رہی ہے وہ مہنگائی ہے۔ معاشی چیلنجز دن بدن مزید بڑھتے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ 2018 کے انتخابات سے اب تک بس عوام صبر کے گھونٹ پی رہے ہیں۔ عوام کی امیدیں بس یہی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اُن کی زندگی آسان ہوجائے۔ اور ساتھ ہی عوام میں ڈر بھی پایا جاتا ہے کہ مہنگائی کا طوفان امیدیں، روزگار، سب بہا کر نہ لے جائے۔ کیونکہ اس حکومت کے ایک سال اور چند ماہ کے عرصے میں سیکڑوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ اس افراتفری کے عالم میں مو لانا نے اپنے ناتواں کندھوں پر نئی تبدیلی کا بوجھ اُٹھا لیا ہے اور اس حکومت کے بوجھ کو اُتارنے کے لیے مولانا ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ مولانا کو عوام کا کیا واقعی اتنا خیال ہے کہ وہ اُن کےلیے چند لوگوں کو اسلام آباد کی سڑکوں پر بٹھادیں گے؟ اور کیا مولانا کا شو اتنا پاور فُل ہوگا کہ پی ٹی آئی کی حکو مت کہے گی کہ مولانا چلیں ہم آپ کی مان لیتے ہیں۔ آپ نے کیوں تکلیف کی لوگوں کو اکٹھا کرنے کی۔ ہم کو پیار سے کہہ دیتے ہم خود ہی استعفے دے دیتے۔

اس آزادی مارچ کے حوالے سے میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں کہ اگر مولانا اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اگر حکومت چلی بھی جاتی ہے تو کیا ہمارا ملک نئے انتخابات کا متحمل ہوسکتا ہے؟ پی ٹی آئی کے بعد کون سی ایسی پارٹی ہوگی جو ملک کی باگ ڈور سنبھالے گی؟ اور مولانا کے اس دھرنے سے جمہوریت کو کس حد تک خطرہ ہوسکتا ہے؟ کیونکہ ماضی میں بھی جب ایسا کوئی قدم اُٹھایا گیا تو اس کی یہی کہہ کر مذمت کی گئی ہے کہ ’’یہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے‘‘۔ اصل میں یہ آزادی مارچ مولانا کے اس غصے اور بے بسی کا عملی مظاہرہ ہوگا کہ وہ کیوں اس بار حکومت کا حصہ نہیں ہیں؟ اس وقت مو لانا کی مثال اس بچے کی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے اگر کھیل میں شامل نہیں کیا گیا تو میں کسی کو بھی کھیلنے نہیں دوں گا۔

اب مولانا کو کون سمجھائے اصل قصوروار پی ٹی آئی نہیں بلکہ پاکستانی عوام ہیں۔ کیونکہ عوام نے ہی اس بار آپ پر اعتماد نہیں کیا۔ اس لیے مولانا آپ یہ آزادی مارچ حکومت نہیں عوام کے خلاف کریں۔ مگر مولانا تو اتنے عوام کے خیرخواہ ہیں کہ جنہوں نے ان کو مسترد کیا اُن کی بھلائی کےلیے بندے اکٹھے کررہے ہیں۔ میں مولانا صاحب سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں آپ کے خلوص پر مجھے شک نہیں ہے۔ مگر اب ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہم کسی کے بھی پیچھے اندھادھند چل پڑیں۔ کیونکہ عوام آج کل جس طرح پس رہے ہیں اور جیسے لوگ زندگی کی گاڑی کو چلا رہے ہیں، یہ بہت ہی مشکل عمل ہے۔ اس لیے اب ہماری قوم کو کسی حکومت یا سیاسی پارٹی کے خلاف آزادی مارچ، لانگ مارچ یا پھر کسی دھرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ صرف اور صرف تحریک نجات کی ضرورت ہے۔

ایسی تحریک نجات جس کے ذریعے عوام کو کرپٹ عناصر سے چھٹکارا مل سکے۔ ایسی تحریک نجات جس کے ذریعے ہماری قوم کو ایسے سیاست دانوں سے چھٹکارا مل سکے جو عوام کو اپنے اقتدار کےلیے سبز باغ دکھاتے ہیں۔ ایسی تحریک نجات جس کے ذریعے ہمارے لوگوں کو یہ جو تین وقت کی روٹی کمانے کی فکر ہے اس سے نجات ملے اور عزت دار روزگار مہیا ہوسکے۔ لوگ روزی روٹی کی فکر سے آزاد ہوکر ایک بہترین اور تخلیقی زندگی گزار سکیں۔

تحریک نجات ہی وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ ہم بحیثیت قوم اپنا بہت کچھ لُٹا چکے ہیں اور مزید کچھ باقی نہیں بچا جو لٹایا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
آزادی مارچ کی تیاریاں، مولانا فضل الرحمن کی ڈنڈا بردار فورس کی ریہرسل
52 minutes ago
63FA5C17-E7E1-4444-904B-FEB587B726AD_w1023_r1_s.jpg

ڈنڈا بردار فورس انصار الاسلام پشاور میں تربیت کے دوران مولانا فضل الرحمن کو سلامی دے رہی ہے۔ 13 اکتوبر 2019
پاکستان میں مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچنا ہے لیکن مولانا کی ڈنڈا بردار سیکیورٹی ٹیم ابھی سے حکومتی اہل کاروں کو ڈرائے ہوئے ہے اور خاکی رنگ کے لباس میں ملبوس انصار الاسلام نامی اس سیکیورٹی ٹیم پر حکومت نے مقدمات درج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمن اس وقت پشاور میں ہیں جہاں رنگ روڈ پشاور کے قریب ان کی تربیت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس “تربیتی سیشن”کی تصاویر اس وقت سوشل میڈیا پر زیرگردش ہیں اور ان پر مختلف کمنٹس کیے جا رہے ہیں۔

C042F977-7B9C-4CE1-AB5C-C67B40F865FE_w650_r0_s.jpg

آزادی مارچ کے انتظامات کی ریہرسل
ان تصاویر میں سینکڑوں کی تعداد میں خاکی شلوار قمیض میں ملبوس نوجوان ایک ترتیب کے ساتھ ایک وسیع میدان میں موجود ہیں۔ ڈنڈوں اور جھنڈوں سے لیس ان نوجوانوں نے پریڈ کے انداز میں مارچ کیا اور مولانا فضل الرحمن کو سیلوٹ کیا۔ جمیعت علمائے اسلام کے مطابق انصار الاسلام کے ان سیکیورٹی رضاکاروں کی تعداد 12 ہزار سے زائد تھی جو آزادی مارچ کے دوران سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دیں گے۔ جمعیت علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں سے ایسے ہی پندرہ پندرہ ہزار رضاکار سیکیورٹی فرائض کے لیے موجود ہوں گے۔


اس حوالے سے خیبر پختونخواہ کے وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کے غیرقانونی اقدام کے خلاف ایکشن ہو گا۔ وہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے سے دور رہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنی ملیشیا بنالی ہے جس کی اجازت نہیں دیں گے۔ علماء سے اپیل ہے بچوں کو سیاست کے لیے استعمال نہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈنڈا بردار مجمع دکھا کر سیاست نہیں ہوتی۔ مولانا فضل الرحمٰن اقتدار کے بغیر مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اداروں کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور اس کام میں وہ مدارس کے بچوں کو بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے انصار الاسلام کے کے رضاکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہمیشہ آئین و قانون کا ساتھ دیا ہے اور آج بھی آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ملک کے تمام ادارے اگر آئین کی پاسداری کریں گے تو پھر کوئی جھگڑا نہیں ہو گا۔ ہمارے مینڈیٹ پر جو ڈاکہ ڈالے گا اس کے خلاف جدوجہد کریں گے۔

04F15D27-FC3C-4EA6-AFDB-7F54FBD7296D_w650_r0_s.jpg

آزادی مارچ کے اتتظامات کی ریہرسل، جلوس 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچیں گے۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ہم پر امن لوگ ہیں ہمیں نہ چھیڑا جائے۔ اگر ہمیں چھیڑا گیا تو پھر آپ گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا میدان سیاسی ہے اور عوام کے پاس جانا جمہوریت ہے۔ آج تک ہمارے کسی کارکن نے ماورائے آئین کوئی کام نہیں کیا۔ پوری دنیا میں مذہبی طبقے کو اشتعال دلا کر ریاست کے مقابل کھڑا کیا، مگر پاکستان کے اس نوجوان نے آئین کا ساتھ دیا، ہم آج بھی اس ملک کے ساتھ کھڑے ہیں،

مولانا فضل الرحمن کے مارچ کے لیے ان کارکنوں نے ہزاروں کی تعداد میں ڈنڈے جمع کر رکھے ہیں جو انصار الاسلام کے کارکنوں کے پاس ہوں گے۔ ان ڈنڈوں پر جمعیت علمائے اسلام کے جھنڈے کی طرز پر سفید اور کالے رنگ کی پٹیاں بنائی گئی ہیں۔

تجزیہ کار اور استاد پروفیسر ڈاکٹر شاہد اقبال کامران کہتے ہیں کہ مولانا کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کی تمام تر توجہ اس وقت اس بات پر ہے کہ کس طرح حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے اب تک انہیں وہ حمایت نہیں ملی جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ شاہد اقبال کامران کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کا اس حکومت کے خلاف غصہ عمران خان، ان کے خلاف ہتک آمیز تقاریر کر کے پہلے ہی بڑھا چکے تھے، جن میں انہیں مختلف القاب سے نوازا جاتا تھا۔ اب فی الحال عمران خان تو خاموش ہیں، لیکن ان کے وزرا اور پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم ابھی تک اسی روش پر قائم ہے اور لگاتار ان کی ہتک کر رہی ہے جو جلتی ہوئی آگ پر پٹرول کا کام کر رہی ہے۔

3AA997E4-DE2C-4AA3-AD0F-EB3C5FDD7513_w650_r0_s.jpg

آزادی مارچ کے انتظامات کے لیے ڈنڈے تیار کیے جا رہے ہیں۔
ڈنڈا بردار افراد کی تصاویر اور فوٹیجز پر ان کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مولانا کی جماعت بہت منظم ہے۔ ان کے پاس صرف یہی سیکیورٹی کے انصار الاسلام نہیں بلکہ مدارس میں وسیع انتظامات کا تجربہ رکھنے کی وجہ سے ہزاروں افراد کے لیے بیک وقت کھانے پینے کی فراہمی اور طبی سہولیات کا انتظام بھی ہے۔ ایسے میں ان انتظامات کی جھلک حکومت کو دکھانا دباؤ میں لانے کی کوشش ہے اور حکومت ان سب باتوں کا اثر بھی لے رہی ہے، لیکن ان کا خیال ہے کہ “معاملات کسی اور جگہ سے ٹھیک ہو جائیں گے”۔

آزادی مارچ 31 اگست کو اسلام آباد آنا ہے، لیکن اس کے حوالے سے مولانا حکومت پر دباؤ لگاتار بڑھا رہے ہیں۔ منظم کارکنوں کی یہ کھیپ اسلام آباد پہنچ گئی تو انہیں روکنا اسلام آباد کی پندرہ ہزار پولیس فورس کے لیے شاید ممکن نہ ہو اور ایک بار پھر پی ٹی آئی اور پی ٹی اے کی دھرنے کی یاد تازہ ہو جائے جب انہوں نے ہر چوک پر لگے کنٹینرز کو ہٹاتے ہوئے آبپارہ سے پارلیمنٹ ہاؤس تک کا سفر کیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا جیسا کوئی نہیں!
13/10/2019 وسعت اللہ خان
وسعت اللہ خان - تجزیہ کار

علامہ خادم حسین رضوی کسی کو یاد ہیں؟ کہیں سے ایک جھکڑ آیا اور ہوا ہو گیا۔

علامہ طاہر القادری کسی کی یادداشت میں ہیں؟ انھوں نے دو بار آرڈر پر مال تیار کیا، جہاں ہے اور جیسا ہے، کی بنیاد پر بیچا اور نکل لیے۔

مگر مولانا فضل الرحمان نہ تو کوئی جھکڑ ہیں، نہ ہی آرڈر پر مال تیار کرنے والے بلکہ وہ پہلے ضرورت پیدا کرتے ہیں اور پھر اس ضرورت کے اعتبار سے مال تیار کرتے ہیں اور سارا کا سارا بیچ بھی لیتے ہیں۔

تعجب ہے ہارورڈ بزنس سکول نے اب تک مولانا کو لیکچر سیریز کے لیے کیوں مدعو نہیں کیا۔

مولانا ایک کل وقتی سیاستدان اور ایک سو برس پرانی مذہبی سیاسی جماعت کے قائد ہیں۔ کچھ لوگ تو یہ تک کہتے ہیں کہ اس ملک میں فوج کے بعد اگر کسی کے پاس منظم طاقت ہے تو وہ مولانا ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کیا ہے اور کمزوری کیا، کس موقع پر سیاست کی کونسی کل سیدھی کی جانی چاہیے اور کسے مروڑنا چاہیے اور کتنا، غالباً موجودہ سیاسی قبیلے میں مولانا سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔

بخدا نہ تو یہ قصیدہ ہے نہ تعلی نہ خوشامد نہ طنز۔ میں دل سے یقین رکھتا ہوں کہ مولانا اگر مذہبی سیاسی رہنما کے بجائے ماہرِ طبیعیات ہوتے تو بھی صفِ اول میں ہوتے۔ جرنیل ہوتے تو بنا جنگ کیے دشمن کو نہتا کر کے باندھ دیتے۔پروفیشنل شطرنجی ہوتے تو بورس کیسپروف آپ پر خوشی خوشی مورچھل جھلتا۔ موسیقار ہوتے تو اے آر رحمان فضل الرحمان کی پنڈلیاں دبا رہا ہوتا۔

آپ یہ دیکھیں کہ دو ڈھائی ہفتے سے اس ملک میں ہو کیا رہا ہے۔ مولانا نے ابھی آزادی مارچ کا صرف اعلان کیا ہے اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون جیسی تجربہ کار جماعتوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ مولانا کا کرنا کیا ہے؟ جانا ہے کہ آنا ہے، جا کر آنا ہے کہ آ کر جانا ہے یا تھوڑا سا آگے جا کر آنا ہے یا پھر آنا جانا ہے۔

مولانا بذاتِ خود پارلیمنٹ سے باہر ہیں۔ 342 کی قومی اسمبلی میں ان کی جماعت کی 16 سیٹیں ہے اور 104سیٹوں کے ایوانِ بالا میں چار سینیٹرز ہیں۔ لیکن مولانا کی جماعت سے تگنی چوگنی سیٹیں رکھنے والی پیپلز پارٹی اور نون لیگ تک چندیا کھجا رہے ہیں کہ مولانا کا چہرہ مسلسل اتنا پرسکون اور باڈی لینگویج اتنی بااعتماد کیوں ہے۔

حکومتی وزرا بلاوقفہ اندھیرے میں تیر چلا رہے ہیں کہ مولانا کے ہاتھ میں ایسی کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ کچھ لو کچھ دو اور لچکدار سیاست کا راستہ چھوڑ تصادم کی شاہراہ پر آنا چاہتے ہیں۔

حالانکہ مولانا نے آزادی مارچ شروع نہیں کیا اور ابھی صرف ہتھوڑی سے طبلہ کس کے اس پر بیانیے کا پاؤڈر ہی مل رہے ہیں مگر وزرا نے کورس کی شکل میں تنقیدی کھنگرو باندھ کے تا تا تھئیا شروع کر رکھا ہے۔

بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ کبھی مولانا کی پریس کانفرنس چینلوں سے غائب ہو رہی ہے، کبھی میڈیا کو زبانی کہا جا رہا ہے کہ مارچ اور دھرنے کی کوریج نہیں کرنی۔ کبھی جمیعت علمائے اسلام کے نام سے دھرنے کے شرکا کے لیے جعلی ہدایات تو کبھی آزادی مارچ کی حمایت میں جماعتِ احمدیہ کا جعلی خط سامنے لایا جا رہا ہے۔

نظم و نسق کا زمہ دار وفاقی وزیرِ داخلہ کہہ رہا ہے کہ مولانا کا اسلام آباد میں آنا خود کشی کے برابر ہو گا اور خیبر پختونخوا کا وزیرِ اعلی کہہ رہا ہے کہ میں دیکھتا ہوں جمیعت کا جلوس اٹک کا پل کیسے پار کرتا ہے؟

وزیرِ اعظم عمران خان کو ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی جتنی آسان محسوس ہو رہی ہے، حزب اختلاف سے معاملہ فہمی سے نمٹنا اتنا ہی مشکل لگ رہا ہے ۔

مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ شروع ہو کہ نہ ہو، کامیاب ہو کہ ناکام، پر ایک بات تو بارِ دگر کھل گئی ہے کہ برسراقتدار آنا بچپن کا شوق پورا ہونے جیسا ہو سکتا ہے مگر حکومت چلانا بچوں کا کھیل ہرگز نہیں۔

وہ الگ بات کہ کوئی بھی بچہ باپ کی گود میں بیٹھ کر سٹیرنگ گھما کر کہے بابا دیکھو اور باپ دلارے کا دل رکھنے کے لیے کہتا رہے ہاں بیٹے تو ہی گاڑی چلا رہا ہے اور زبردست چلا رہا ہے ۔
 

آورکزئی

محفلین
ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاسم صاحب ویسے یہی بقول اپ کے ڈنڈا بردار فورس کافی نہیں اسلام آباد لاک ڈاون کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
 

جاسم محمد

محفلین
نہیں ان شاء اللہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اب سپین چرگ کو بھی تھوڑا سبق سیکھانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد اور گرد و نواح میں جناتی تبدیلیاں
عمران خان کی حکومت آبپارہ اور پنڈی سے بہترین تعلقات کی وجہ سے مکمل طور پر محفوظ سمجھی جا رہی ہے۔ مگر مولانا فضل الرحمان ایک بھونچالی سیاستدان کی صورت میں ایسے نمودار ہوئے ہیں کہ طاقتور حکومت کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔

سید طلعت حسین
تجزیہ کار @TalatHussain12
سوموار 14 اکتوبر 2019 7:00

46196-706245341.jpg



2018 کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو متعدد حلقوں میں حیران کن شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور یہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے وہ عمران خان کی سونامی کی زد میں آ کر ریزہ ریزہ ہو گئے ہیں۔ (اےا یف پی)

جب سے بنی گالہ کی پہاڑی پر تجلیات کا نزول ہوا ہے اور اسلام آباد میں نیک لوگوں کی حکمرانی قائم کی گئی ہے تمام ملک ایک جناتی کیفیت میں مبتلا ہو گیا ہے۔ یعنی آپ سوچتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ ہے۔ تاریخ کچھ اور بتاتی ہے اور حال کی اڑان کسی اور رخ نظر آتی ہے۔ غیر معمولی تبدیلیوں کی بھرمار ہے۔ ہمارے بیشتر مشاہدے، توقعات اور تجربات آندھی میں تنکے کی طرح ہر روز اڑ اور بکھر رہے ہیں۔

لیڈروں کے مشہور خوائص اور قابلیت کے بارے میں قصے کہانیوں کو ہی لے لیجیے۔ کیا سے کیا ہو گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان ہمیشہ سے پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا چھپا ہوا دایاں ہاتھ سمجھے جاتے تھے۔ تمام تر مسجدی، مدرسی، تبلیغی اور دینی قوت رکھنے کے باوجود انہوں نے اپنی جماعت اور ذاتی اقتدار کی کرسی کو ڈگمگاتی کشتیوں میں سنبھال کے رکھا۔ عموماً ہر حکومت کے ساتھ رہے۔ افغانستان اور جہاد جیسے موضوعات پر جب جب ریاست نے ان کو خط لکھا تب تب وہ دوڑے چلے آئے۔ عمران خان نے اپنی ذاتی مخالفت کو جب حضرت مولانا پر کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ میں تبدیل کیا تو بہت سے لوگوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ مولانا ڈیزل سے چلتے ہیں۔ جس دن یہ ترسیل بند ہو گئی اس دن ان کا تمام کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔ 2018 کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو متعدد حلقوں میں حیران کن شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور یہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے وہ عمران خان کی سونامی کی زد میں آ کر ریزہ ریزہ ہو گئے ہیں۔

مگر اب دیکھیے کہ عمران خان کی حکومت مرکز اور صوبوں میں قائم ہے اور آبپارہ اور پنڈی سے بہترین تعلقات کی وجہ سے مکمل طور پر محفوظ بھی سمجھی جا رہی ہے۔ مگر مولانا فضل الرحمان پارہ پارہ ہونے کے بجائے ایک بھونچالی سیاستدان کی صورت میں ایسے نمودار ہوئے ہیں کہ طاقتور حکومت کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ ایک ایسا سیاستدان جو بیچ کا رستہ نکالنے کا ماہر اور کھڑکی کے ذریعے اندر سے دروازے کھولنے کے حوالے سے جانا جاتا تھا اس وقت حزب اختلاف کے افضل ترین معیار پر پورا اتر رہا ہے۔ نہ ڈگمگا رہا ہے، نہ پسپا ہونے کی طرف مائل ہے۔

بڑی جماعتوں سے حکومتوں میں حصہ مانگنے والی جماعت بڑے بڑے لیڈران کو روزانہ شرمندہ کر کے حوصلہ دیتی ہے۔ جن کی گردنوں میں سریا تھا وہ مولانا فضل الرحمان کی ریڑھ کی ہڈی کی سختی کے باعث پریشان نظر آ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی جو خود کو پاکستان کی سب سے منظم دینی و سیاسی جماعت کا تاج پہناتی ہے اس وقت جے یو آئی کے سامنے ایسے ہی ہے کہ جیسے پاکستان کی کرکٹ ٹیم سری لنکا کے کھلاڑیوں کے مد مقابل حاضر ہونے کے باوجود غائب تھی۔ اس وقت جیل سے باہر تمام سیاستدانوں میں سے صرف ایک موجودہ نظام کا حقیقی مدِمقابل نظر آتا ہے اور وہ ہے مولانا فضل الرحمان۔ اس وقت حقیقی اپوزیشن کا تصور جے یو آئی کی امامت میں نیت باندھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ تمام تر صعوبتیں کاٹنے والے نواز شریف کو بھی مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے برابر یا شاید ایک قدم پیچھے رہ کر آگے بڑھنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ وہ جماعتیں بھی جو نظریاتی طور پر مذہب اور سیاست کو علیحدہ رکھنا چاہتی ہیں مولانا کی چارہ سازی کی محتاج ہیں۔ کیا جناتی تبدیلی ہے۔

کچھ ایسی ہی صورت حال نواز شریف، شہباز شریف اور عمران خان کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہے۔ میاں محمد نواز شریف کے نقاد ان کی تقریر اور سوچ کے حوالے سے ان کو ہمیشہ سے ہدفِ تمسخر بناتے رہے ہیں۔ بولنے چالنے میں گھبراہٹ اور گہری سوچ سے اجتناب کے الزامات سہتے سہتے میاں محمد نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم تو بنے مگر ان کے نقادوں نے یہ تصور قائم رکھا کہ میاں صاحب منہ کھول کر اپنا نقصان کرنے میں بے نظیر ہیں۔ اپنے آخری دور حکومت میں ان کی سرکاری ملاقاتوں میں لکھے ہوئے نکات کے ذریعے بات چیت پاکستان تحریک انصاف کے لیے موثر پروپیگنڈے کا پسندیدہ زاویہ بنا۔ پاکستانی عوام کو یہ باور کروایا جاتا رہا کہ نواز شریف دو سطریں بھی تحریری ہدایت کے بغیر نہیں پڑھ سکتے۔ فی البدیہہ سخن وری و فنِ بیان تو ناممکن ہے۔

ان کے مقابلے میں عمران خان کی قابلیت، ان کے گرج دار بیانات اور تھرڈ ڈویژن والی مگر آکسفورڈ سے حاصل کی ہوئی ڈگری کے حوالوں سے بیان کی جاتی تھی۔ یہ بتایا جاتا تھا کہ عمران خان دانشمندی اور معلومات کا سر چشمہ ہیں اور سیدھے سادے انداز میں الفاظ ادا کر کے قوم کی روح کو بیدار کرنے کی یکتا خصوصیت رکھتے ہیں۔

زبانی کلام کے زاویے سے میاں شہباز شریف نے بھی خوب شہرت کمائی۔ کئی زبانوں پر عبور، لمبی انقلابی نظموں کی زیر زبر کی غلطی کے بغیر پر جوش ادائیگی، انگشت شہادت کی ہوا میں کاٹ اور مشت سے سامنے دھرے مائیکس کی تباہی نے شہباز شریف کو بہترین مقرر کی شہرت سے نوازا۔

مگر اب دیکھیے کیا ہو رہا ہے۔ شہباز شریف کی فصاحت و بلاغت کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ گلا پھاڑ کر بولنے والا اب بیان جاری کرنے سے پہلے کمرہ جماعت کی پچھلے بینچ پر بیٹھے ہوئے بچے کی طرح درجنوں مرتبہ ساتھیوں کی طرف دیکھتا اور جملہ تراشنے میں ان کی مدد کا طلب گار نظر آتا ہے۔ نا مکا گھومتا ہے نا انگلی گردش میں ہے۔ کئی زبانیں بولنے والا قومی زبان میں قومی سیاست اور جماعت کی احتجاجی پالیسی کے بارے میں چار الفاظ ادا کرنے میں ہفتے بلکہ مہینے لگا دیتا ہے۔

شہباز شریف کے سیاسی رقیب مگر تقریر اور تکرار میں ان کے ہم عصر، وزیراعظم عمران خان کی شہرت میں بھی حیرت انگیز تغیر رونما ہوا ہے۔ کہاں ان کی تقاریر اور انٹرویوز صحافتی سوغات کی طرح سنے اور دیکھے جاتے تھے۔ کہاں ان کے نعروں اور بیانات سے گہرے اندھیروں میں امید کی کرن رونما ہوتی تھی اور کہاں نوبت یہ ہو گئی ہے کہ ہر دوسرے روز اپنے ادا کیے ہوئے جملوں سے ملک، قوم، حکومت اور جماعت کو خفت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ نہ تاریخ ان کے قابو میں ہے نہ سفارت کاری۔ دین کے معاملات بھی زبان سے پھسل کر کیا سے کیا بن جاتے ہیں اور پھر اپنے کہے کو واپس لینے کی تو بس عادت ہی ہو گئی ہے۔ وہ لیڈر جو الفاظ کی سیڑھی کو استعمال کر کے طاقت کی چوٹی پر پہنچا اب اپنے بیانیے کی زد میں آ کر روزانہ بھس بن جاتا ہے۔

اور وہ نواز شریف جس کی زبان کو زنگ آلودہ اور سوچ کو دائمی تساہل کا شکار قرار دیا جاتا تھا اب ایسے نکتے پر کھڑا ہے کہ جہاں سے اس کا بیان کیا ہوا ایک لفظ طاقت کے موجودہ نظام پر رعشہ طاری کر دیتا ہے۔ اس کی زبان بندی کے لیے منصفی کے اصولوں کو روندھنا معمول بن چکا ہے۔ جس کی پرچی سے پڑھی ہوئی تحریر کو تحقیر آمیز طعنوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا اب چار جملے بول کر توپوں کے رخ موڑ دیتا ہے۔ وہ جو الفاظ سے عاری تھا اب الفاظ سے سیاسی شکار کا ماہر ہو گیا ہے۔

نواز شریف نے پانچ مہینے تک کچھ نہ بول کر اپنی جماعت اور ملکی سیاست میں ابہام اور سرگوشیوں کی نہ ختم ہونے والی صنعت کو جنم دیا اور پھر دو منٹ بات کرکے مستقبل کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو یکسر ختم بھی کر دیا۔ یقیناً عزت اور ذلت خدا وند تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ مگر اسیری میں قدرت، طاقت میں ذلت، چھوٹے عہدے میں بڑا قد اور بڑی کرسی میں چھوٹا پن ایسی تبدیلیاں ہیں جو اصولوں کو پامال کرنے سے جنم لیتی ہیں۔ ہوا کے ساتھ بدلنے والے سمت اور پَر دونوں کھو دیتے ہیں۔ بادِ مخالف کا سامنا بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ یہ جناتی حقائق ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر خلائی مخلوق سے غلطی ہوئی ہے تو تسلیم کرلے اور نئے انتخابات کرائے جائیں، فضل الرحمان
ویب ڈیسک پير 14 اکتوبر 2019
1841845-fazalx-1571067469-298-640x480.jpg

موجودہ دھرنا روکنا حکومت کے بس کی بات نہیں، ہمیں روکنا سیلاب کو روکنے کے مترادف ہوگا، سربراہ جے یو آئی (فوٹو: فائل)


چارسدہ: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ موجودہ دھرنا روکنا حکومت کے بس کی بات نہیں، ہمیں روکنا سیلاب کو روکنے کے مترادف ہوگا۔

چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ حکومت میں بیٹھے لوگ خود ہماری تحریک کو اٹھا رہے ہیں اور ہمارے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں آزادی مارچ کی حمایت کررہی ہیں۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ مشکل حالات کا مقابلہ کرنا ہماری تاریخ بھی اور ثابت بھی کریں گے، دھرنے کو روکنا حکومت کے بس کی بات نہیں، ہمیں روکنا سیلاب کو روکنے کے مترادف ہوگا، حکومت کو مسئلہ حل کی طرف لے جانا چاہیے نہ کہ اشتعال پیدا کرے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ہونے والے الیکشن بدترین دھاندلی زدہ ہیں، 25 جولائی 2018ء کے بعد ہمارا جو مؤقف تھا وہی آج بھی ہے، نئے انتخابات کرائے جائیں، اگر خلائی مخلوق سے غلطی ہوئی ہے تو تسلیم کرلے، ہم پورے ملک کو بند گلی سے نکالنے جا رہے ہیں اور تمام ممالک کی قیادت بھی سن لے کہ عمران خان ہمارا نمائندہ نہیں اس سے بات چیت نہ کی جائے۔

اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی کا کہنا تھا کہ 27 اکتوبر کے حوالے سے ہمارا مؤقف واضح ہے ہم آزادی مارچ والوں کے ساتھ ہیں اور دھرنے میں شریک ہوں گے، اگر حکومت نے ردعمل دیا تو اے این پی میدان میں نکلے گی اور اگر مولانا کو دھرنے پر گرفتار کیا گیا تو پھرتحریک کی قیادت خود کروں گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا اکتوبر ہی میں مارچ پر بضد کیوں؟
Oct 14, 2019

news-1571005699-4893.jpg


مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ مارچ یا دھرنے کے اہداف اور طریقہ کار کے خلاف بے تحاشہ دلائل سوچے جاسکتے ہیں۔ان کی اکثریت بہت معقول بھی سنائی دے گی۔ خدا کا واسط دیتے ہوئے مگر التجا کروں گا کہ یہ دلیل نہ گھڑیں کہ مذکورہ مارچ یا دھرنے کا اصل مقصد مقبوضہ کشمیر پر 5اگست 2019سے نازل ہوئی اذیت سے توجہ ہٹانا ہے۔منافقت کے موسم میں بھی تھوڑے سچ کی گنجائش ہمیشہ موجودرہتی ہے اور تلخ حقیقت ہے تو فقط اتنی کہ بحیثیت قوم ہم 5اگست 2019کے بعد سے اپنی ’’شہ رگ‘‘ کے تحفظ کے لئے مؤثر آواز بلند نہ کر پائے۔

ہماری پارلیمان کا اس ضمن میں فقط دو دن کے لئے ایک مشترکہ اجلاس ہوا تھا۔ اس اجلاس کے دوران ہمارے مابین اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم جس انداز میں عیاں ہوئی اسے یاد کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔کشمیریوں سے یک جہتی کے اظہار کے لئے ہر جمعہ کے روز گھروں سے باہر آنے کا اعلان بھی ہوا تھا۔اس اعلان پر مؤثر عمل درآمد نہ ہوپایا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک تقریر ہوئی۔مقبوضہ کشمیر پر مسلط ہوا کمیونی کیشن لاک ڈائون اس تقریر کے چار اہم نکات میںسے ایک تھا۔موسموں کی خوفناک تبدیلی، منی لانڈرنگ اور مغرب میں پھیلی اسلام دشمنی کے بعد لاک ڈائون کا تذکرہ ہوا تھا۔

80لاکھ کشمیریوں پر جو قیامت نازل ہوئی ہے اسے نام نہاد ’’عالمی ضمیر‘‘ کے روبرو بنیادی طورپر بھارت کے وہ صحافی لائے جنہوں نے ’’غداری‘‘ کی تہمت کا سامنا کرتے ہوئے بھی اپنے خرچے پر مقبوضہ وادی کے دورے کئے اور وہاں کے حالات کو ا نٹرنیٹ پر چلائے اخبارات اور جرائد کی بدولت دُنیا کے سامنے لائے۔بی بی سی اور الجزیرہ نے بروقت فوٹیج حاصل کیں۔انہیں دُنیا کو دکھایا۔ان سب کے علاوہ اہم ترین کردار کشمیر سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں نے ادا کیا۔’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں کئی ایسے مضامین شائع ہوئے جسے کل کے مورخ حوالوں کے لئے استعمال کریں گے۔کشمیری لکھاریوں کے لکھے ان مضامین نے امریکی پارلیمان کے کئی اہم اراکین کو متحرک کیا۔انہوں نے امریکی صدر کو خط لکھے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک اہم عہدے دار ایلس ویلز شاید ان کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے ذکر کو مجبورہوئی۔

بنیادی طورپر امریکی دبائو کے نتیجے میں پیر کی دوپہر سے مقبوضہ کشمیر میں موبائل فونز جزوی طورپر کھول دئیے جائیں گے۔انٹرنیٹ تک رسائی مگر اب بھی میسر نہیں ہوگی۔ ’’نالے لمبی تے نالے کالی‘‘ سردیوں کی راتیں اب مقبوضہ کشمیر پر اُترنا شروع ہوگئی ہیں۔ امید کی کرن پھوٹنے میں بہت عرصہ لگے گا۔

دریں اثناء ہمارے حکمرانوں کو فکر یہ لاحق ہوچکی ہے کہ ایران اور سعودی عرب میں صلح کے راستے ڈھونڈے جائیں۔ شاید اس ’’صلح‘‘ کو ممکن بنانے کے لئے امریکی صدر نے تین ہزار تازہ دم فوجی سعودی عرب بھیج دئیے ہیں۔ اگرچہ اس سے قبل مختلف ٹویٹس کے ذریعے اسی نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے جاری ’’مضحکہ خیز‘‘ مگر مسلسل جاری جنگوں میں حصہ ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کی دانست میں یہ جنگیں بنیادی طورپر ’’قبائلی‘‘ نفرتوںکی بنیاد پر جاری ہیں۔امریکہ کو کسی ایک فریق کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے وسائل ضائع نہیں کر نا چاہیے۔

یہ اعلان کرنے کے بعد اس نے ترکی کو یہ حق بھی تفویض کردیا کہ وہ اپنی سرحد کو ’’محفوظ‘‘ بنانے کے لئے شام میں جو چاہے کرے۔شمال مشرقی شام کے شہروں میں کردجو گزشتہ 8سالوں سے امریکی امداد ومعاونت کے ساتھ داعش کے خلاف ’’تخت یا تختہ‘‘ والی جنگ لڑرہے تھے اب ترکی کے رحم وکرم پر چھوڑدئیے گئے ہیں۔شاید ہمیں یاد نہ ہو مگر کرد بھی مسلمان ہی ہوتے ہیں۔صلاح الدین ایوبی بھی کردہی تھے۔ ان کے بارے میں ہمیں سوچنے کی فرصت نہیں۔یمن میں بھوک سے مرتے بچوں کا تذکرہ بھی ہمارے ہاں نہیں ہوتا۔کشمیر بھی بتدریج عالمی میڈیا کی توجہ سے محروم ہورہا ہے۔حتیٰ کہ ہمارا اپنا میڈیا بھی اب پوری توجہ مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ مارچ یا دھرنے پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ وجوہات اس توجہ کی یکسرمقامی ہیں۔ اس میں چسکہ فروشی کے بے پناہ امکانات ہیں۔ Ratingsکی دوڑ میں نمبرون آنے کی خواہش کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔

ایک دھرنا 2014میں بھی ہوا تھا۔مجھ بدنصیب نے اپنے تئیں انتہائی غیر جانب دارانہ دیانت داری کے ساتھ اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔بارہامتنبہ کرتا رہا کہ اگر منتخب حکومتوں کو پارلیمان کو بے وقعت بناتے دھرنوں کے ذریعے غیر مستحکم کرنے کا چلن متعارف ہوگیا تو پاکستان میں کسی حکومت کو بھی استحکام نصیب نہیں ہوپائے گا۔مجھ جیسے افراد کو ایسے دلائل بیان کرنے کی وجہ سے ’’لفافہ‘‘ پکارا گیا۔

مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ۔ مارچ یا دھرنے کے خلاف بات کرتے ہوئے لہذا خوف آتا ہے۔اب کی بار دھرنے کے متمنی اس کے خلاف ہوئے میرے دلائل کو بھی ’’لفافہ‘‘ کا شاخسانہ قرار دیں گے۔صحافیوں کی ساکھ کو 2014کے ’’انقلابیوں‘‘ نے تباہ وبرباد کردیا تھا۔ یہ صحافی اگر اپنے کالموں کے ذریے اب مولانا فضل الرحمن کے مارچ یا دھرنے کی مخالفت میں ایمان دارانہ دلائل بھی پیش کریں گے تو قاری اسے سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔ ٹی وی سکرینوں کی ’’حق گوئی‘‘ تو عرصہ ہوا اپنی اصل ’’اوقات‘‘ دکھاچکی ہے۔ یوٹیوب کے ذریعے بتائے ’’سچ‘‘ کی محدودات بھی عیاں ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

عمر کے آخری حصے میں ’’لفافہ‘‘ کی راحت سے محروم ہوامیں لفظ فروش ان دنوں بہت خواہش مند ہوں کہ دربار بنی گالہ تک کسی صورت رسائی نصیب ہوجائے۔ یہ میسر ہوتی تو بہت مہارت سے میں یہ چورن بیچ سکتا ہوں کہ نواز شریف کو جیل سے باہر نکال کر احتساب عدالت کے روبرو ایک اور کیس کے لئے پیش کرنا حکومت کے خلاف ایک ’’گہری سازش‘‘ تھی۔نواز شریف کی پیشی نے ان کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ رہ نمائوں کے لئے یہ گنجائش ہی باقی نہ رکھی کہ وہ خود کو مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ مارچ یا دھرنے سے کسی نہ کسی صورت لاتعلق دکھائیں۔ سابق وزیر اعظم نے واضح الفاظ میں مولانا کی حمایت کردی۔ایک لکیر کھینچ دی۔ بہتر ہوتا کہ نواز شریف کو عدالت لانے کے بجائے جیل ہی میں مزید تفتیش کی راہ نکالی جاتی۔

وہ عدالت نہ آتے تو ہمارے عوام کی اکثریت اس امر سے بے خبر رہتی کہ جمعرات کے روز ہوئی ملاقاتوں میں نواز شریف اپنے ’خونی رشتوں‘‘ کو مولانا کے اعلان کردہ مارچ یا لانگ مارچ کی بابت کیا بتارہے ہیں۔کیپٹن صفدر سچے ہیں یا شہباز شریف صاحب کی مدبرانہ سوچ کی تائید ہورہی ہے۔نواز شریف کی پیشی نے کنفیوژن کی جڑ اکھاڑدی ہے۔

اس کنفیوژن کے خاتمے کے بعد اب مسلم لیگ (نون) میں تقسیم کی خبریں ہیں۔اس ’’تقسیم‘‘ کو ’’اندر کی خبروں‘‘ کی بدولت عیاں کرنے والے مگر یہ سمجھانے سے قاصر ہیں کہ جب یہ ’’تقسیم‘‘ نہیں تھی تب بھی خواجہ سعد رفیق،رانا ثناء اللہ اور شاہد خاقان عباسی کو اسکی بدولت کیا فائدہ ہوا؟ حمزہ شہباز شریف بھی بدستورجیل میں ہیں۔ ’’متحد‘‘ رہتے ہوئے بھی نون کے لاحقے والی مسلم لیگ اپنے ساتھیوں کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کرپائی تھی۔ ’’تقسیم‘‘ ہوکر مگر عمران حکومت کے کام بھی نہیں آپائے گی۔

ہماری حکمران اشرافیہ میں اس وقت جو کھینچا تانی جاری ہے اس کی اصل وجوہات اور کرداروں کا تعین کرنے کے لئے بہت مشاہدے اور تھوڑی تحقیق کی ضرورت ہے۔ٹھوس معلومات تک رسائی بھی درکار ہے۔واٹس ایپ اس ضمن میں کام نہیں آئے گا۔ ہم تو اب تک اس سوال کا جواب ہی حاصل نہیں کرپائے ہیں کہ مولانا بلھے شاہ کے مصرعہ والی ’’بھیناں تے بھرجائیاں‘‘ کے سمجھانے بجھانے کے باوجود اکتوبر2019ہی میں اپنا مارچ یا دھرنا دینے پر بضد کیوں رہے۔’’بھیناں تے بھرجائیاں‘‘ انہیں ’’دسمبر‘‘ تک انتظار کا مشورہ کیوں دے رہی تھیں۔ ’’اکتوبر ہی کیوں؟‘‘ میری دانست میں مولانا کے اعلان کردہ مارچ یا دھرنے کا ٹھوس تجزیہ کرنے کے لئے ایک کلیدی سوال ہے۔ اس کا جواب ڈھونڈیں گے تو مستقبل کا زائچہ بنانے میں آسانی ہوگی۔
 
Top