زیرک
محفلین
ملک میں خریداری کے نظام میں پائی جانے والی پیچیدگیوں سے ٹیکس ریونیو بہت زیادہ گرا ہے، سیلز ٹیکس کی جگہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس ہی اس کا بہترین حل ہے، سیلز ٹیکس کو پیداواری و کاروباری طبقہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا آیا ہے کہ یہ ہمارا دیا ہوا ٹیکس ہے، افسوس (نوازشریف تو اپنے دورِ حکومت میں اسمبلی کے فلور پہ کھڑے ہو کر اسے اپنی طرف سے دیا ٹیکس قرار دے چکا ہے)۔ سب سے پہلے اسے ختم کر کے ویلیو یڈڈ ٹیکس لگائیں جو براہِ راست خریدار خریداری کے وقت ادا کرے گا۔ خریداری نظام کا بیڑہ غرق کرنے والی 25 یا 50 ہزار کی خریداری کے وقت خریدار سے شناختی کارڈ کی کاپی کی قدغن یا شرط کو ختم کرنا ہو گا وگرنہ اس فیلڈ میں ریونیو مزید گرے گا۔شناختی کارڈ کی کاپی کی قدغن ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے لگائی گئی ہے، خریدار بڑا سیانا ہے وہ 20 کی خریداری ایک دکان سے کرے گا، 20 کے کسی دوسری سے، پھر نقصان کس کا ہوا، حکومت کا۔ سیدھا سادا حل ہے پہلے سال ٪25 ویلیو ایڈڈ ٹیکس، اگلے سال ٪23 پھر ہر سال ٪1 مزید کم کر دیں لیکن اس کے لیے یورپ اور یو کے کی طرح سینٹرالائزڈ ٹِل یعنی خریداری کا سسٹم لانا ہو گا، ڈراوا دھمکاوا لگانے سے آپ خریدار کو خوفزدہ تو کر لو گے لیکن ٹیکس ریونیو نہیں بڑھا سکو گے۔ اب حکومت نے سوچنا ہے کہ وہ ڈنگ ٹپاؤ فیصلے لیتی ہے یا معیشت کو بحال کرتی ہے۔وسائل بڑھانے کیلئے ماضی کی پالیسی کے تحت درآمداد بڑھنے دی جائیں تو ملک دیوالیہ پن کی طرف چلا جائے گا۔ اس لئے یہ کڑوی گولیاں نگلنا ناگزیر ہے۔
آخری تدوین: