جاسم محمد

محفلین
273_091945_reporter.jpg
اعزاز سید

مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا

205303_5748913_updates.jpg


مولانا فضل الرحمٰن نے امریکی سفیر سے پوچھا کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو کیا امریکی حکومت ان سے ڈیل کرے گی؟ امریکی سفیر این پیٹرسن کو مولانا نے خبردار کیا کہ امریکہ اپنے تمام انڈے صرف ایک ہی ٹوکری میں نہ ڈالے۔

وہ دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ امریکی حکومت اپنی ساری توجہ بینظیر بھٹو کی سربراہی میں پیپلز پارٹی پر ہی نہ دے بلکہ ان کی جماعت کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے، یہ واضح طور پر وزیراعظم بننے کے لیے مولانا کی طرف سے امریکہ کو اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ ذمہ دار آدمی ہیں اور دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں، اس لیے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔

20نومبر 2007کو مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے ظہرانے کی دعوت پر ہونے والی اس ملاقات میں مولانا عبدالغفور حیدری، سینیٹر طلحہ اور اعظم سواتی بھی موجود تھے، امریکی سفیر نے مولانا فضل الرحمٰن کی اس مبینہ گفتگو کی روداد 28نومبر 2007کو اپنی حکومت کو بھیجی۔ جو بعد میں وکی لیکس کے ذریعے منظرعام پر آگئی۔

امریکی سفیر کے مطابق بات چیت کا آغاز ہوا تو مولانا عبدالغفور حیدری نے امریکی سفیر کو کہا کہ پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتیں آگے آنے کے لیے امریکی حکومت سے اشیرباد لیتی ہیں، یعنی ان کے خیال میں کوئی بڑی سیاسی جماعت بننے کیلئے حتمی منظوری امریکہ دیتا تھا۔ مولانا نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) ایک بڑی جماعت بننے کی خواہشمند ہے، اس لیے امریکہ سے رابطے میں رہنا چاہتی ہے۔

مولانا غفور حیدری کی بات اس لیے بھی غلط نہ تھی کہ ان دنوں امریکی حکومت واقعی پاکستان کے اندرونی معاملات میں بڑی دلچسپی لے رہی تھی کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری تھی اور امریکہ کے اتحادی پرویز مشرف کا اقتدار اندرونی سازشوں اور وکلا تحریک کے باعث خطرے میں پڑ چکا تھا۔ امریکی سفیر این پیٹرسن لکھتی ہیں کہ انہوں نے مولانا کو بتایا کہ امریکہ کسی رہنما کے سر پر تاج نہیں رکھتا بلکہ جمہوری عوامی فیصلوں کا احترام کرتا ہے۔

ایک طرف امریکی سفیر یہ لکھ رہی تھیں تو دوسری طرف امریکی سفیر کی باس اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس مشرف اور بینظیر کے درمیان مفاہمت کروا چکی تھیں۔ جس کا اعتراف کونڈا لیزا رائس نے اپنی خود نوشت’’No Higher Honor‘‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔ امریکی سفیر سمجھتی تھیں کہ مشرف اور بینظیر بھٹو دونوں ہی مولانا کو پسند کرتے جبکہ مولانا خود کو مستقبل کا وزیراعظم نہیں تو کنگ میکر ضرور سمجھتے ہیں۔

مولانا امریکی سفیر کے لکھے متن کی تردید کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دراصل اس ملاقات میں ان سے پیپلز پارٹی کی حمایت کی درخواست کی گئی تھی اور وہ اس بات پر حیران تھے کہ امریکی پاکستان کے اندرونی معاملات میں کس قدر مداخلت کر رہے ہیں۔

اس واقعے سے قبل اکتوبر 2002میں جنرل مشرف کی چھتری تلے ہونے والے انتخابات کی کہانی بھی سن لیجئے۔ ان انتخابات میں جب کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی تو ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کے وزیراعظم بننے کی بازگشت سنائی دینے لگی تھی۔

مولانا متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل تھے اور انہوں نے وزیراعظم بننے کے جتن بھی کیے تھے مگر اس وقت دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے تناظر میں پاکستان میں کوئی باریش وزیراعظم ناقابل قبول تھا۔ اگر یہ رکاوٹ نہ ہوتی تو شاید مولانا تب ہی وزیراعظم بن کر دنیا کو حیران کر دیتے۔ان دو واقعات کا تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو محض ایک مولوی یا روایتی مذہبی سیاسی رہنما سمجھنے والے جان سکیں کہ مولانا عام سیاسی کھلاڑی نہیں بلکہ وہ طاقت کے ہر متعلقہ شراکت دار سے رابطہ رکھتے ہیں۔ بروقت درست پتے کھیلنے کے فن سے آگاہ ہیں۔

انہیں منطق پر ایسا عبور ہے کہ دلائل ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے ہیں اور وہ ان کا ایسا استعمال کرتے ہیں کہ دوست تو دوست دشمن بھی اَش اَش کر اٹھیں۔

مولانا فضل الرحمٰن پاکستانی سیاست کا وہ کردار ہیں جنہوں نے مذہبی سیاست کو جذباتی نعرے بازی سے نکال کر عقلیت پسندی کی طرف کامیابی سے دھکیلا۔ ان کا اثر و رسوخ پاکستان ہی نہیں بلکہ سرحد پار افغانستان میں بھی موجود ہے۔ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔مولانا فضل الرحمٰن آج کل حکومت کے خلاف مارچ کے اعلانات کر رہے ہیں۔ ان سے راقم کی چار ستمبر کو ایک طویل ملاقات بھی ہوئی۔ جس سے راقم نے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے ہیں۔

اول: مولانا پاکستان میں طاقت کے تمام کرداروں سے مکمل رابطوں میں ہیں۔

دوم: فی الحال مولانا اپنے آزادی مارچ کو کامیابی سے اسلام آباد لانے کیلئے مدد و معاونت کے طلبگار ہیں۔ وہ پانی کی گہرائی کا اندازہ لگا رہے ہیں، اسی لیے ابھی تک آزادی مارچ کی کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔

سوم:مولانا فضل الرحمٰن نے تاریخ کا اعلان کر دیا تو وہ کسی بھی خطرے کی پروا کیے بغیر اسلام آباد آنے کی کوشش کریں گے۔ خود گرفتار ہو بھی گئے تو ان کے کارکن ضرور اسلام آباد پہنچیں گے۔

چہارم:مولانا نے پندرہ لاکھ افراد اسلام آباد لانے کا اعلان کیا ہے، اگر وہ ایک لاکھ افراد بھی کامیابی سے یہاں لے آئے تو مشترکہ اقتدار کی موجودہ دیواروں میں عدم اعتماد کی ایسی دراڑیں پڑیں گی جس کا نتیجہ حکومت کی رخصتی کی صورت میں نکلنا یقینی ہے۔

سچ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کوئی اور نہیں صرف مولانا ہی لا سکتے ہیں اور میری اطلاع یہ ہے کہ وہ کئی اہم شخصیات سے ملاقاتوں میں انہیں کم از کم ایسا سوچنے پرضرور مجبور کر چکے ہیں۔حالات کا تجزیہ کرنے اور سیاست میں ہلچل مچانے کا فن کوئی مولانا فضل الرحمٰن سے سیکھے۔
 

آورکزئی

محفلین
نیازی نے کنٹینرز والوں کو کتنے دیئے تھے ؟؟؟ ویسے نیازی نے خود کہا ہے وہ مہیا کرے گا۔۔۔۔ یا پھر یہاں بھی یو ٹرن ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
 

فلک شیر

محفلین
زمین پر۔۔۔
آسمان چھوڑ دیا میں نے۔ وہاں ایک شیر کی حکومت ہے اور اگر وہ مجھے کھا گیا تو۔۔۔:p
کیسے مزاج ہیں آپ کے۔ آپ عرصےبعد نظر آئے۔۔۔
الحمدللہ
بخیر ہوں ۔ جی کبھی کبھار چکر لگتاہے ۔ امید ہے آپ بھی بخیر ہوں گے ان شاءاللہ :)
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک جمہوری ملک میں موجود متفقہ آئین اور اس آئین کی اسلامی شقوں کا دفاع جبکہ ملک کے مقتدر حلقوں، حکمرانوں، میڈیا اور عدلیہ پر بیرونی دباؤ کے مبینہ الزامات ہو، ایک مشکل کاز ہے۔ مگر اس مشکل کاز کو جمعیت علماء اسلام اور اس کی قیادت کی پارلیمانی جدوجہد، سیاسی زندگی اور حکومتوں کے ساتھ اتحاد یا اختلاف میں ان شقوں کے دفاع کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس کاز کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی حکومتوں میں شامل ہوئے اور حکومتوں میں شامل ہونے کے باوجود اس فریضے سے غفلت نہیں برتی اور برملا اپنے تحفظات کا اظہار کیا

زیادہ پیچھے نہیں جاتے گذشتہ حکومت میں جمعیت علماء اسلام اور مسلم لیگ اتحادی رہے لیکن اس کے باوجود جب کبھی لیگی حکومت نے آئین کے اسلامی دفعات کو چھیڑنے کی کوشش کی جمعیت علماء نے اس کی بھر پور مخالفت کی

جیسے کہ پنجاب اسمبلی میں تحفظ حقوق نسواں بل پیش کیا گیا تو جمعیت علماء نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہارکیا میاں نواز شریف سے قانون سے غیر اسلامی شقیں نکالنے کا مطالبہ کیا اس کے لئے مولانا فضل الرحمان صاحب نے میاں نواز شریف صاحب سے ملاقات کی۔ میاں صاحب نے مولانا صاحب سے گلہ بھی کیا کہ اتحادی ہونے کے ناتے میڈیا پر جانے کی بجائے مجھے براہ راست اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جاتا تو بہتر تھا جس پر مولانا صاحب نے بھی کہا کہ پنجاب حکومت کو بھی بل پاس کرنے سے پہلے ہمارے ساتھ مشاورت کر لینی چاہیے تھی۔

انتخابی اصلاحات بل 2017 میں سال دو ہزار دوکے عام انتخابات میں قادیانی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی دو شقیں سیون بی اورسیون سی خارج ہوگئی تھیں۔ ان شقوں کے خارج ہونے سے قادیانیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔ مولانا صاحب اس موقع پر سفر عمرہ پر تھے وہاں سے پارلیمنٹ میں موجود اپنے اراکین کو ہدایات جاری کی کہ حکومت کو ان شقوں کی بحالی پر مجبور کیا جائے۔ اس حوالے سے سینٹ میں مولانا عبد الغفور حیدری اور حافظ حمد اللہ نے بھر پور جد وجہد کی اور حکومت کو ان شقوں کی بحالی پر مجبور کیا گیا۔ خود مولانا صاحب نے قومی اسمبلی میں اس حوالے سے دلائل سے بھر پور تقریر کی اور بالآخر قومی اسمبلی اور سینٹ سے یہ ترمیمی بل منظور کیا گیا۔ اور ختم نبوت بارے حلف نامہ اپنی اصل صورت میں برقرار رہا۔

اسلامی شقوں کے حوالے سے ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔

ان شقوں کے علاوہ اہم قومی ایشوز پر بھی حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود کھل مخالفت کی۔ قبائل انضمام کا مسئلہ ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ مولانا صاحب نے حتی الوسع اس کی مخالفت کی اور جن تحفظات کا اظہار کیا تھا آج وہ تحفظات حرف حرف درست ثابت ہورہے ہیں

اور اب جبکہ مولانا صاحب نے اسلام آباد آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے اپوزیشن جماعتوں کو اس مارچ میں مذہب کارڈ استعمال کرنے پر تحفظات ہیں اس کے باوجوداپوزیشن کی 9 سیاسی جماعتوں کی رہبر کمیٹی نے آج ہی جن چار نکات پر اتفاق کیا ہے اس میں ایک نکتہ آئین میں موجوداسلامی شقوں کے مکمل دفاع کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ بلاشبہ اپنے کاز کے حوالے سے یہ جمعیت علماء اسلام کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اور اب جبکہ مولانا صاحب نے اسلام آباد آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے اپوزیشن جماعتوں کو اس مارچ میں مذہب کارڈ استعمال کرنے پر تحفظات ہیں اس کے باوجوداپوزیشن کی 9 سیاسی جماعتوں کی رہبر کمیٹی نے آج ہی جن چار نکات پر اتفاق کیا ہے اس میں ایک نکتہ آئین میں موجوداسلامی شقوں کے مکمل دفاع کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ بلاشبہ اپنے کاز کے حوالے سے یہ جمعیت علماء اسلام کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
تحریک انصاف حکومت نےآئین میں موجود اسلامی شقوں کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ کی ہے پہلے اس کو ثابت کریں۔ ایویں ہوا میں تیر نہ چلائیں۔
خالی الزام لگا دینا کہ یہ حکومت یہودیوں، قادیانیوں کی ایجنٹ ہے کافی نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
انتظار کریں آزادی مارچ ثابت کردے گا سب کچھ کہ عمرانی دھرنا جمہوری حق تھا تو آزادی مارچ آئینی حق ہے۔
ایک چھوڑ سو بار دھرنا کریں۔ آئینی و جمہوری حق ہے۔ البتہ جو الزامات وہ حکومت پر لگائیں گے اسے بعد میں عدالت میں ثابت بھی کرنا ہوگا۔
عمران خان نے اپنے دھرنوں میں لگائے گئے الزامات کو بعد میں عدالت میں ثابت کیا تھا۔ الیکشن دھاندلی اور منی لانڈرنگ کے مختلف کیسز میں ن لیگ اور پی پی پی کو تا حال سزا مل رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
انتظار کریں آزادی مارچ ثابت کردے گا سب کچھ کہ عمرانی دھرنا جمہوری حق تھا تو آزادی مارچ آئینی حق ہے۔
یہ لیں مولانا نے دھرنے کی تاریخ بدل دی۔ اب دھرنا 27 کی بجائے 31 اکتوبر یعنی شیطان کی رات "ہالووین" کو منعقد ہو گا :)
Capture.jpg
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
تحریک انصاف کی حکومت کو چاہیے کہ مولانا صاحب کو ایک آدھ کنٹینر فراہم کرے، دھرنے کے ممکنہ انتظامات کرے اور ان کا کیتھارسس ہونے دے۔ پھر، یہ واپس چلے جائیں گے۔ بہتر ہو گا کہ ایف نائن پارک میں انتظام کر دیا جائے۔ تاہم، جس طرح تحریک انصاف کے رہنما سن دو ہزار چودہ میں ڈی چوک آنے پر بضد تھے، اسی مثال کے پیش نظر موجودہ دھرنے باز بھی اسی 'سہولت' کا تقاضا کریں گے۔ کاش، حکومت اور اپوزیشن مل کر احتجاج اور دھرنے کے حوالے سے کوئی معاملہ طے کر لیں تاکہ عوام کو دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بہتر ہو گا کہ مولانا صاحب جلسہ وغیرہ کر کے تشریف لے جائیں۔ یہ ملک ایسے دھرنوں کا متحمل نہیں۔
 
Top