خاورچودھری
محفلین
مولانا کی شخصیت خود ان کی تحریراور تقریر سے اجاگر کی گئی ہے
یہ سن نوے کے عشرے کی بات ہے میں جب بھی انڈیا آفس لائبریری جاتا جو اس وقت دریائے ٹیمز کے کنارے اوربٹ ہاؤس کی عمارت میں واقع تھی تو دارالمطالعہ میں ایک صاحب کو ایک میز پر فائلوں کے ڈھیر کے پیچھے نہایت جانفشانی اور لگن کے ساتھ نوٹس لیتا دیکھتا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہال میں بڑے نمایاں انداز سے رکھی ہوئی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہ کی سرخ مخمل والی شاہانہ کرسی کی طرح یہ صاحب بھی اس ہال کی ایک مستقل تنصیب ہیں۔
ان صاحب سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ صابر ارشاد عثمانی ہیں جو مولانا محمد علی جوہر کی زندگی اور ان کی خدمات کے بارے میں ایک کتاب کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔
دس برس کی تحقیق اور مطالعہ کے بعد عثمانی صاحب کی کتاب مقتدرہ قومی زبان پاکستان نے شائع کی ہے اور انہوں نے واقعی ایک ہشت پہلو کارنامہ انجام دیا ہے۔
یوں تو مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت اور ان کی خدمات کے بارے میں اب تک بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن عثمانی صاحب کی یہ کاوش کئی اعتبار سے منفرد ہے۔ انہوں نے مولانا کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو خود ان کی تحریروں اور تقاریر سے اجاگر کیا ہے اور انہی کی زبانی بہت سے ایسے ان سوالات کا جواب دیا ہے جو مولانا کی شخصیت اور ان کی سیاست کے ضمن میں بہت سے لوگوں کے ذہن میں ابھرتے رہے ہیں۔
ایک سوال جو میرے ذہن میں اس زمانہ سے تھا جب میں جامعہ ملیہ میں زیر تعلیم تھا، یہ تھا کہ کیا یہ بات عجیب نہ تھی کہ مولانا نے اس زمانہ میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کے تحفظ کے لیے تحریک چلائی جب کہ خود ترک کمال اتاترک کی قیادت میں اس خلافت کو خیر باد کہہ رہے تھے۔
صابر ارشاد عثمانی نے اس کتاب میں مولانا کی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ اس سوال کا مدلل جواب دیا ہے۔ مولانا محمد علی کے نزدیک تحریک خلافت کا مقصد محض ترکی میں خلافت کا تحفظ نہیں تھا بلکہ وہ عالم اسلام کے لیے ایک ایسی خلافت کے ادارہ کے قیام کے خواہاں اور کوشاں تھے جو خلافت راشدہ کی جانشین ہو۔
مولانا محمد علی جوہر اپنی صحافت کے ناتے سب سے زیادہ یاد رکھے جائیں گے سے جس سے ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ مولانا کو انگریزی اور اردو صحافت دونوں میں یکساں دسترس حاصل تھی اور آج بھی ان کا انگریزی ہفت روزہ کامریڈ اور اردو کا روز نامہ ہمدرد صحافت کی اعلی اقدار کی درخشاں مثال ہے۔
گو بظاہر تحریک خلافت ناکام رہی۔ یہ تحریک نہ تو ترکی میں خلافت برقرار رکھ سکی اور نہ اس کی جگہ حجاز میں ’خلافت راشدہ کی جانشین خلافت‘ قائم کرنے میں کامیاب رہی لیکن اس تحریک کے برصغیر میں اور برصغیر کے مسلمانوں کے مستقبل کے لیے اہم سنگ میل نتائج برآمد ہوئے۔
پاکستان کا قیام اسی تحریک کا راست نتیجہ ہے۔ تحریک خلافت نے ہندوستان کے مسلمانوں میں یہ احساس بیدار کرنے کی کوشش کی کہ بھلے وہ ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں اور صدیوں سے ان کی جڑیں اسی سر زمین میں پیوست ہیں لیکن جغرافیائی حدود سے ماورا ان کی قلبی وفاداری مذہب کے ناتے سے عالم اسلام سے وابستہ ہے۔ اسی دوہرے تشخص کے احساس نے بر صغیر میں دو قومی نظریہ کو جنم دیا۔
سیاسی میدان میں مولانا محمد علی جوہر کی ناکامیوں کے الزامات کے باوجود انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیم کے میدان میں ایک ایسا کام سرانجام دیا جو ایک انقلابی کارنامے کے طور پر یاد رکھا جائےگا۔ یہ کارنامہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام ہے اور جیسا کہ مولانا عبدالماجد دریابادی نے لکھا ہے ’محمد علی زندگی بھر کچھ نہ کرتے صرف جامعہ ہی کی بنیاد ڈال جاتے تو یہ ہی ایک کارنامہ سرمایہ عمل ہونے کے لئے کافی تھا‘۔
مولانا نے جامعہ ملیہ کے تعلیمی نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا ’جامعہ کا پہلا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو حق دوست و خدا پرست مسلمان بنایا جائے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ ان کو وطن دوست و حریت پرور ہندوستانی بنایا جائے- از کلید دین در دنیا کشاد‘۔
ارشاد عثمانی کی یہ کتاب اس اعتبار سے لاجواب ہے کہ اس میں مولانا محمد علی جوہر کی زندگی کے نشیب و فراز، ان کے خاندان کے حالات اور اس دور کے اکابرین کے ساتھ ان کے تعلقات کے علاوہ ان کے سیاسی اور صحافتی سفر کا بھی تفصیل سے ذکر ہے۔
صابر ارشاد عثمانی نے اس کتاب میں بڑے دلچسپ پیرائے میں مولانا محمد علی اور علامہ اقبال کے درمیان توصیف و تنقید کے ملے جلے ان تعلقات کا ذکر کیا ہے جو بڑے نرالے نظر آتے ہیں۔
سنہ1927 میں پنجاب کونسل میں علامہ اقبال کی ایک تقریر پر جس میں انہوں نے بعض عہدوں پر مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقرریوں اور اس کے نتیجہ میں ان عہدوں پر انگریز افسروں کی تخفیف کی شکایت کی تھی ’مولانا نے اپنے اخبار ہمدرد میں چار مضامین کا سلسلہ شائع کیا تھا جس میں علامہ اقبال کی سیاست پر کڑی نکتہ چینی کی گئی تھی۔
مولانا کا کہنا تھا کہ ان کے دو ہی استاد ہیں۔ ایک اقبال اور دوسرے مولانا ابوالکلام آزاد۔ ان کے بقول اسلام سے انہیں جو واقفیت حاصل ہوئی وہ انہی دونوں کے طفیل ہے۔ مولانا لکھتے ہیں’لیکن اس تمام فیضان کے باوجود میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جب امتحان کا وقت آیا اور مسلمانوں نے ترک تعاون کا فیصلہ کیا تو اقبال اس نشان راہ کی طرف ہمیشہ راستہ بتا رہے تھے ہمارے راہنما کی حیثیت سے رخت سفر باندھ کر ہمارے ساتھ دو قدم بھی نہ چلے‘۔
مولانا محمد علی جوہر کی تہہ دار شخصیت تھی۔ سیاست میں انہوں نے اپنے جرات مندانہ بل پر نئے آداب جنوں سکھائے اور استقامت اور پامردگی کے ساتھ برسوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے میدان میں جامعہ ملیہ ایسے ادارے کے قیام کی بدولت ہندوستانی مسلمانوں کو ایک لاجواب جوہر عطا کیا اور گو شاعری میں قدرے سست قدم رہے لیکن ان کی جو بھی تخلیقات سامنے آئیں وہ نشاط آور اور طرب ناک ثابت ہوئیں لیکن مولانا محمد علی جوہر سب سے زیادہ یاد رکھے جائیں گے اپنی صحافت کے ناتے سے جس سے ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ مولانا کو انگریزی اور اردو صحافت دونوں میں یکساں دسترس حاصل تھی اور آج بھی ان کا انگریزی ہفت روزہ کامریڈ اور اردو کا روز نامہ ہمدرد صحافت کی اعلی اقدار کی درخشاں مثال ہے۔
ارشاد عثمانی کی یہ کتاب اس اعتبار سے لاجواب ہے کہ اس میں مولانا محمد علی جوہر کی زندگی کے نشیب و فراز، ان کے خاندان کے حالات اور اس دور کے اکابرین کے ساتھ ان کے تعلقات کے علاوہ ان کے سیاسی اور صحافتی سفر کا بھی تفصیل سے ذکر ہے۔
سنہ 1906 میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے اور مسلم لیگ کی صدارت پر فائز ہونے پھر اس کے بعد کانگریس اور اس کی قیادت سنبھالنے اور پھر آخر کار کانگریس سے علیحدگی کے بارے میں مولانا کے فیصلوں کی وجوہات’ نہایت واضح انداز سے خود مولانا کی زبانی پیش کی گئی ہیں اس لحاظ سے یہ نہ صرف اس زمانہ کی سیاست بلکہ مولانا کے ذہنی اور سیاسی سفر کی صحیح تناظر میں ایک بیش بہا مربوط دستاویز ہے۔
(بہ شکریہ بی بی سی اردو28 جون)
یہ سن نوے کے عشرے کی بات ہے میں جب بھی انڈیا آفس لائبریری جاتا جو اس وقت دریائے ٹیمز کے کنارے اوربٹ ہاؤس کی عمارت میں واقع تھی تو دارالمطالعہ میں ایک صاحب کو ایک میز پر فائلوں کے ڈھیر کے پیچھے نہایت جانفشانی اور لگن کے ساتھ نوٹس لیتا دیکھتا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہال میں بڑے نمایاں انداز سے رکھی ہوئی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہ کی سرخ مخمل والی شاہانہ کرسی کی طرح یہ صاحب بھی اس ہال کی ایک مستقل تنصیب ہیں۔
ان صاحب سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ صابر ارشاد عثمانی ہیں جو مولانا محمد علی جوہر کی زندگی اور ان کی خدمات کے بارے میں ایک کتاب کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔
دس برس کی تحقیق اور مطالعہ کے بعد عثمانی صاحب کی کتاب مقتدرہ قومی زبان پاکستان نے شائع کی ہے اور انہوں نے واقعی ایک ہشت پہلو کارنامہ انجام دیا ہے۔
یوں تو مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت اور ان کی خدمات کے بارے میں اب تک بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن عثمانی صاحب کی یہ کاوش کئی اعتبار سے منفرد ہے۔ انہوں نے مولانا کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو خود ان کی تحریروں اور تقاریر سے اجاگر کیا ہے اور انہی کی زبانی بہت سے ایسے ان سوالات کا جواب دیا ہے جو مولانا کی شخصیت اور ان کی سیاست کے ضمن میں بہت سے لوگوں کے ذہن میں ابھرتے رہے ہیں۔
ایک سوال جو میرے ذہن میں اس زمانہ سے تھا جب میں جامعہ ملیہ میں زیر تعلیم تھا، یہ تھا کہ کیا یہ بات عجیب نہ تھی کہ مولانا نے اس زمانہ میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کے تحفظ کے لیے تحریک چلائی جب کہ خود ترک کمال اتاترک کی قیادت میں اس خلافت کو خیر باد کہہ رہے تھے۔
صابر ارشاد عثمانی نے اس کتاب میں مولانا کی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ اس سوال کا مدلل جواب دیا ہے۔ مولانا محمد علی کے نزدیک تحریک خلافت کا مقصد محض ترکی میں خلافت کا تحفظ نہیں تھا بلکہ وہ عالم اسلام کے لیے ایک ایسی خلافت کے ادارہ کے قیام کے خواہاں اور کوشاں تھے جو خلافت راشدہ کی جانشین ہو۔
مولانا محمد علی جوہر اپنی صحافت کے ناتے سب سے زیادہ یاد رکھے جائیں گے سے جس سے ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ مولانا کو انگریزی اور اردو صحافت دونوں میں یکساں دسترس حاصل تھی اور آج بھی ان کا انگریزی ہفت روزہ کامریڈ اور اردو کا روز نامہ ہمدرد صحافت کی اعلی اقدار کی درخشاں مثال ہے۔
گو بظاہر تحریک خلافت ناکام رہی۔ یہ تحریک نہ تو ترکی میں خلافت برقرار رکھ سکی اور نہ اس کی جگہ حجاز میں ’خلافت راشدہ کی جانشین خلافت‘ قائم کرنے میں کامیاب رہی لیکن اس تحریک کے برصغیر میں اور برصغیر کے مسلمانوں کے مستقبل کے لیے اہم سنگ میل نتائج برآمد ہوئے۔
پاکستان کا قیام اسی تحریک کا راست نتیجہ ہے۔ تحریک خلافت نے ہندوستان کے مسلمانوں میں یہ احساس بیدار کرنے کی کوشش کی کہ بھلے وہ ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں اور صدیوں سے ان کی جڑیں اسی سر زمین میں پیوست ہیں لیکن جغرافیائی حدود سے ماورا ان کی قلبی وفاداری مذہب کے ناتے سے عالم اسلام سے وابستہ ہے۔ اسی دوہرے تشخص کے احساس نے بر صغیر میں دو قومی نظریہ کو جنم دیا۔
سیاسی میدان میں مولانا محمد علی جوہر کی ناکامیوں کے الزامات کے باوجود انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیم کے میدان میں ایک ایسا کام سرانجام دیا جو ایک انقلابی کارنامے کے طور پر یاد رکھا جائےگا۔ یہ کارنامہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام ہے اور جیسا کہ مولانا عبدالماجد دریابادی نے لکھا ہے ’محمد علی زندگی بھر کچھ نہ کرتے صرف جامعہ ہی کی بنیاد ڈال جاتے تو یہ ہی ایک کارنامہ سرمایہ عمل ہونے کے لئے کافی تھا‘۔
مولانا نے جامعہ ملیہ کے تعلیمی نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا ’جامعہ کا پہلا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو حق دوست و خدا پرست مسلمان بنایا جائے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ ان کو وطن دوست و حریت پرور ہندوستانی بنایا جائے- از کلید دین در دنیا کشاد‘۔
ارشاد عثمانی کی یہ کتاب اس اعتبار سے لاجواب ہے کہ اس میں مولانا محمد علی جوہر کی زندگی کے نشیب و فراز، ان کے خاندان کے حالات اور اس دور کے اکابرین کے ساتھ ان کے تعلقات کے علاوہ ان کے سیاسی اور صحافتی سفر کا بھی تفصیل سے ذکر ہے۔
صابر ارشاد عثمانی نے اس کتاب میں بڑے دلچسپ پیرائے میں مولانا محمد علی اور علامہ اقبال کے درمیان توصیف و تنقید کے ملے جلے ان تعلقات کا ذکر کیا ہے جو بڑے نرالے نظر آتے ہیں۔
سنہ1927 میں پنجاب کونسل میں علامہ اقبال کی ایک تقریر پر جس میں انہوں نے بعض عہدوں پر مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقرریوں اور اس کے نتیجہ میں ان عہدوں پر انگریز افسروں کی تخفیف کی شکایت کی تھی ’مولانا نے اپنے اخبار ہمدرد میں چار مضامین کا سلسلہ شائع کیا تھا جس میں علامہ اقبال کی سیاست پر کڑی نکتہ چینی کی گئی تھی۔
مولانا کا کہنا تھا کہ ان کے دو ہی استاد ہیں۔ ایک اقبال اور دوسرے مولانا ابوالکلام آزاد۔ ان کے بقول اسلام سے انہیں جو واقفیت حاصل ہوئی وہ انہی دونوں کے طفیل ہے۔ مولانا لکھتے ہیں’لیکن اس تمام فیضان کے باوجود میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جب امتحان کا وقت آیا اور مسلمانوں نے ترک تعاون کا فیصلہ کیا تو اقبال اس نشان راہ کی طرف ہمیشہ راستہ بتا رہے تھے ہمارے راہنما کی حیثیت سے رخت سفر باندھ کر ہمارے ساتھ دو قدم بھی نہ چلے‘۔
مولانا محمد علی جوہر کی تہہ دار شخصیت تھی۔ سیاست میں انہوں نے اپنے جرات مندانہ بل پر نئے آداب جنوں سکھائے اور استقامت اور پامردگی کے ساتھ برسوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے میدان میں جامعہ ملیہ ایسے ادارے کے قیام کی بدولت ہندوستانی مسلمانوں کو ایک لاجواب جوہر عطا کیا اور گو شاعری میں قدرے سست قدم رہے لیکن ان کی جو بھی تخلیقات سامنے آئیں وہ نشاط آور اور طرب ناک ثابت ہوئیں لیکن مولانا محمد علی جوہر سب سے زیادہ یاد رکھے جائیں گے اپنی صحافت کے ناتے سے جس سے ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ مولانا کو انگریزی اور اردو صحافت دونوں میں یکساں دسترس حاصل تھی اور آج بھی ان کا انگریزی ہفت روزہ کامریڈ اور اردو کا روز نامہ ہمدرد صحافت کی اعلی اقدار کی درخشاں مثال ہے۔
ارشاد عثمانی کی یہ کتاب اس اعتبار سے لاجواب ہے کہ اس میں مولانا محمد علی جوہر کی زندگی کے نشیب و فراز، ان کے خاندان کے حالات اور اس دور کے اکابرین کے ساتھ ان کے تعلقات کے علاوہ ان کے سیاسی اور صحافتی سفر کا بھی تفصیل سے ذکر ہے۔
سنہ 1906 میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے اور مسلم لیگ کی صدارت پر فائز ہونے پھر اس کے بعد کانگریس اور اس کی قیادت سنبھالنے اور پھر آخر کار کانگریس سے علیحدگی کے بارے میں مولانا کے فیصلوں کی وجوہات’ نہایت واضح انداز سے خود مولانا کی زبانی پیش کی گئی ہیں اس لحاظ سے یہ نہ صرف اس زمانہ کی سیاست بلکہ مولانا کے ذہنی اور سیاسی سفر کی صحیح تناظر میں ایک بیش بہا مربوط دستاویز ہے۔
(بہ شکریہ بی بی سی اردو28 جون)