مولانا مودودی

موجو

لائبریرین
انہوں نے ایک انجمن شہریان لاھور بنا رکھی تھی۔ ان دنوں سیاست میں آنے والے اپنا آغاز سماجی اور تہذیبی سرگرمیوں سے کرتے تھے۔ یہ انجمن ان دنوں اتنی فعال تھی کہ لگتا تھا کہ شہر کی نمائندہ یہی ھے۔ سید ابوالاعلی مودودی ان دنوں شام کو ھوا خوری کے لیے رانا الللہ داد کی گاڑی میں نکلا کرتے تھے۔ اس دن رانا نذر الرحمان بھی ھمراہ تھے جو اکثر ساتھ ھو لیا کرتے تھے۔ رانا صاحب نے بڑی خوشی خوشی اطلاع دی کہ مولانا اس طرح آج انجمن شہریان لاھور قائم ھوئی ہے۔ رانا اللہ داد اس کے صدر اور میں سیکرٹری ھوں۔ مولانا نے مسکرا کر وہ فقرہ کہا جو جوش کے ساتھ ان کی فقرہ بازی کے بعد سب سے زیادہ مشہور ھوا اور جو اسیری کی حس مزاح کا آئینہ دار ھے، مسکرائے اور کہا" تو گویا اب لاھور کے شہری دورانوں کے درمیان ھوں گے"-(سجاد میر کے کالم شہر کی روح شہر کی پہچان سے ایک اقتباس)
 

موجو

لائبریرین
ایوب خان نے مولانا مودودی سے پوچھا کہ
آج تک میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ " سیاست کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟"
مولانا نے برملا جواب دیا
یہ تو صرف آپ کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن پوری قوم کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ
"فوج کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟"
 

عرفان سعید

محفلین
چوہدری اکبر صاحب مولانا مودودی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ تفہیم القرآن کا انگریزی ترجمہ چوہدری صاحب ہی کے مرہونِ منت ہے۔
ایک بار ایک طویل سفر کے دوران چوہدری صاحب کو فطرت کے بلاوے نے آ لیا۔ مجبورا گاڑی سڑک کے ایک طرف روکنا پڑی۔ چوہدری صاحب نے کھیتوں کا رخ کیا اور جب کچھ دیر بعد لوٹے تو مولانا مودودی نے پوچھا:
"سنائیے چوہدری صاحب ! پانی ملا کیا؟"
چوہدری صاحب: "پانی تو نہیں ملا، دوسری طرح کام چلانا پڑا"
مولانا مودودی: "تو یوں کہیے کہ آپ نے ڈرائی کلیننگ کی ہے"
 
Top