فاروق سرور خان
محفلین
صاحبو، موضوع بہت ہی نازک ہے، اس کو خالصتاَ سیاسی نکتہ نگاہ سے پڑھیں، دینی نکتہ نگاہ سے نہیں۔
اس کے لئے بہت ہی احتیاط سے لکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس آرٹیکل کی ابتداء ہم سوالات سے کریںگے اور ان سوالات کہ مدد سے یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آیا کہ
1۔ کیا دینی نظریات اور کتب کا سیاسی استعمال ہوا؟
2۔ اور اگر ہوا تو کیا استعمال ہونا چاہئیے تھا اور کیا ہوا؟
تو آئیے دیکھتے ہیں۔
مثال نمبر 1۔ ہمارے معاشرے میں ناظرہ قرآن ہربچے کو پڑھایا جاتا ہے۔ درست؟ اور قرآن فہمی کی حتی الامکان حوصلہ شکنی ہے۔
سوال نمبر 1 - ناظرہ قران کی روایت کس نظام نے قایم کی اور کیوں؟ کیا قرآن فہمی کی حوصلہ شکنی کا یہ طریقہ درست ہے؟
سوال نمبر 2::قرآن فہمی کی کمی کا اثر مسلمانوںکے سیاسی نظام پر کیا پڑا؟
مثال نمبر 2: عموماَ ہماری مزید مقدس کتب جن کو 'صحاح ستہ' اور 'احادیث' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، پڑھانے پر زور رہا۔ جس کی علمی اہمیت اپنی جگہ ثابت ہے۔ لیکن ان کتابوںسے اس سیاسی نظام نے کیا سیاسی مفاد حاصل کیا؟
سوال نمبر 3: کیا ان کتبِ روایات کو صرف علم کے لئےپڑھایا گیا یا یہ مقاصد سیاسی تھے؟
میرے خیالات:
سوال نمبر 1 - ناظرہ قران کی روایت کس نظام نے قایم کی اور کیوں؟ کیا یہ طریقہ درست ہے؟
سوال نمبر 2::قرآن فہمی کی کمی کا اثر مسلمانوںکے سیاسی نظام پر کیا پڑا؟
سب سے پہلے تو یہ بھلا دیجئے کہ کسی شخص کی طرف اشارہ ہے۔ آپ کسی محلے کی مولوی سے پوچھ لیجئے۔ مندرجہ بالاء دونوں مثالوں کی نمائندہ مثال ہے۔ بہت آسانی سے ہم اس کو جاہل قرار دینے کی غلطی کرسکتے ہیں۔ اور اس کو ایک فرد واحد کا عمل کہہ سکتے ہیں۔ لیکن کیا سب مولوی یہی نہیں کہتے جو اوپر مثال نمبر 1 میںموجود ہے۔ تو سب کا یہ اجتماعی خیال کہاں سے آیا؟ کسی نظام سے؟ کیوں کہ یہ ہمارا ایمان تو نہیں کہ اجتماعی و عوامی قران فہمی کی حوصلہ شکنی کی جائے؟
اب آپ سب اس سوال کا جواب دیجئے کہ کیا قرآن فہمی ضروری ہے؟
یقیناَ آپ کا جواب ہوگا ۔ ضروری ہے۔ تو پھر برعکس عادت پڑی کیوں؟
آسان جواب یہ ہوگا، قرآن کے سیاسی نظام سے دور رکھنے کے لئے۔ یہ سیاسی نظام بادشاہت یا مملکت کے لئے مضر تھا۔
قرآن ایک شورائی نظام کی ، عوامی دولت کی ریاست میں مناسب روانی اور عام آدمی کو اپنا نمائندہ چننے کا تعلیم دیتا ہے۔ جدید علوم حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے، اور جدید علم کو استعمال کنے کی تلقین کرتا ہے۔
قرآن فہمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی یہ آگہی معاشرے میں ترقی کی ضامن تو ہے، لیکن بادشاہت کے لئے نامناسب ہے۔ وہ کس طرح؟
وہ اس طرح کے بادشاہ عوام کی دولت پر حاکم ہوتا ہے اور اس حق حاکمیت کو وہ حق ملکیت بہت جلد سمجھنے لگتا ہے۔ قرآن فہمی، ان دو حقوق، حق ملکیت اور حق حاکمیت کا فرق عوام الناس کو بتاتی ہے۔ بادشاہ کے لئے اس حق ملکیت کو قائم رکھنے کے لئے اور عوام کی دولت کو اپنی اولاد میں ورثہ کی صورت منتقل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو قرآن فہمی سے دور رکھا جائے۔
اس مقصد کے لئے کن لوگوں نے قرآن کی سیاسی تعلیم کو ناظرہ تعلیم سے تبدیل کیا، اور سیاسی مقاصد کے لئے قائم 'سیاسی نظام' کب 'دینی نظام' میں نفوذ کر گیا۔ ہمیں پتہ نہ چلا۔ لیکن آج بادشاہت ختم ہوجانے کے بعد بھی قرآن فہمی کی تعلیم عام نہیں ہوئی۔ اور اس کی حوصلہ شکنی جاری ہے۔
آپ کچھ بنیادی سوال اپنے چند دوستوںسے کیجئیے اور دیکھیے کہ آیا وہ جانتے ہیں کی قرآن معاشرے میں عدل کے نظام کو تعلیم کن آیات میں کرتا ہے۔ یا قرآن معاشرے میں عوام کی دولت کی حاکمیت اور اس کی ملکیت میں تفریق کرتا ہے یا نہیں؟
اس علم کو ایک مخصوص طبقہ تک محدود رکھا گیا، جو کہ اس نظام کا خاصہ ہے کہ زیادہ تعلیم 'سرکار' کے لئے مصیبت کا باعث ہوتی ہے۔ البتہ شخصی عبادتوں کو فروغ دیا گیا تاکہ عوام صرف شخصی عبادتوں تک محدود رہیں۔
قرآن فہمی کی اس کمی کی وجہ سے، مسلمانوں نے کبھی اپنی حکومت سے۔ ایک شوری کونسل بنانے کا تقاضا نہ کیا۔ ایک عالمگیر عدلیہ کے قیام کا تقاضا نہ کیا۔ تعلیم اور ریسرچ کے میدان میں اچھے اداروں کا تقاضا نہ کیا، اور ایک مکمل اور مربوط کمیونیکشن (اتصالات) کے نظام کا مطالبہ نہ کیا۔ جبکہ مسلمان مسجدوں کی مدد سے ایک ایسا کمیونیکیشن کا نظام کی مثالیں، مشرق وسطی میں قائم کرچکے تھے کہ انتظامی خبریں ملک کے بیشتر حصوں میں رات بھر میں پہنچ جاتی تھیں۔
سوال نمبر 3: کیا ان کتبِ روایات کو صرف علم کے لئےپڑھایا گیا یا یہ مقاصد سیاسی تھے؟
کتب روایات کی دینی اور علمی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ لیکن ان کی ایک سیاسی حیثیت بھی ہے۔ جب بھی بات ہوتی ہے، تو 'مولویت' کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ صرف دینی حیثیت کی بات ہو، سیاسی حیثیت زیر بحث نہ آئے۔ ہم صرف اس کا سیاسی پہلو دیکھیںگے کہ دینی اور علمی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
قرآن تو بادشاہت 'ملوکیت' اور اس کو سپورٹ کرنے والی مکمل تنظیم (انسٹی ٹیوشن) 'مولویت' کے لئے سیاسی طور پر مناسب نہ تھا، جس کی وجہ اوپر آچکی ہے۔ لہذا اب ضرورت تھی کتب کے ایک ایسے سیٹ کی جس پر مسلمانوں کو مناسب اعتقاد ہو اور جس کی مدد سے 'ملوکیت' (فرد واحد کی حکومت) کو 'مولویت' مکمل سیاسی سپورٹ فراہم کرتی رہے۔
چونکہ یہ سیاسی سپورٹ ایک شخص یا ایک گروپ کے لئے ہوتی تھی، لہذا لازم ہے کے یہ معاشرے کے دوسرے حصوں (سیگمینٹ) کے حق میں جبر و ناانصافی کو جنم دیتی تھی۔ اس ناانصافی کو دینی کتب کی مدد سے 'انصاف' ثابت کرنا بذات خود ایک بہت بڑی ناانصافی تھی۔
نظام 'مولویت' چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے، ایسے قوانین، اصول، اور فیصلے کرتا رہا جو معاشرہ کے تمام لوگوںکے لئے قابل قبول نہ تھے اور صرف اس فرد واحد اور اس کے حامیوں کے لئے قابل قبول تھے۔ زیادہ تر سیاسی فیصلے مذہب کے پردہ میں کئے گئے۔
اس کی سب سے بڑی مثال حق حاکمیت کو حق ملکیت میں بدلنا ہے۔ عموماَاس کی توجیح و توضیح بس اتنی ہوتی تھی کہ " شرع تو یہی کہتی ہے " بعد میں ان "شرعی" فیصلوں کا نتیجہ جنگوں کی صورت میں نکلا۔
۔ کیا دینی نظریات اور کتب کا سیاسی استعمال ہوا؟
میرے حساب سے تو ہوا۔ توجیہات پیش کرچکا ہوں۔
2۔ اور اگر ہوا تو کیا استعمال ہونا چاہئیے تھا اور کیا ہوا؟
استعمال ہونا چاہئیے تھا قرآن کی روشنی میں نہ کہ خوفِ ملوکیت میں۔ لہذا زیادہ تر مناسب نہ ہوا۔
اب میں اگلا سوال کرتا ہوں۔
کیا اس سب کی ذمہ دار 'مولویت' ہے؟ اگر ہاں تو کیسے؟
جی اس کی ذمہ دار 'مولویت ہے'۔ اس لئے کہ 'مولویت' ہی ایک آرگنایزڈ عوامی ادارہ یا تنظیم تھی، اس نے اپنے تحفظ کے لئے مکمل اقدامات کئے۔ مسلمان عوام اپنے ایمان کی وجہ سے 'مولویت' کے اداروں اور شخصیات کو حد درجہ سپورٹ فراہم کرتے تھے۔ روز مرہ کے قوانین اور ضروریات کے لئے 'مولویت' کے ایک فرد سے ہی رجوع کیا جاتا تھا۔ 'مولویت' کے ذمہ داروں نے انفرادی فیصلے تو ہمیشہ درست کئے کہ ان کو حکومتی اور تنظیمی تحفظ حاصل تھا۔ لیکن سیاسی فیصلے، صرف تلوار کےخوف سے کئے۔ اور قرآنی احکامات کو بلا خوف کہنے اور پھیلنے سے روکنے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔
سند کیا ہے؟
'مولویت' نے اپنا تحفظ ایک شائستہ 'سندی' نظام سے کیا۔ 'مولویت' کے ادارے ایک مسجد کے امام سے لے کر مفتی اعظم تک کی تنظیمی درجہ بندی رکھتے تھے۔ یہ درجہ بندی صرف سیاسی خدمات کے لئے تھی۔ اس لئے کہ عام آدمی کے لئے ایک مسجد کا امام ہی کافی تھا۔ اس قسم کی سند کی ایک آرگنائزڈ تعلیمی نظام میں کوئی مناسب حیثیت نہیں۔ لیکن مدرسوں پر مشتمل یہ سندی نظام، کسی دوسری یونیورسٹی کی سند کو تسلیم نہیں کرتا۔
بنیادی طور پر یہ طریقہ ڈایریکٹ انتخابات سے بچنے کے لئے اور عوام کو اپنی رائے کے اظہار سے روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاکہ 'مولویت' کا انسٹی ٹیوشن محفوظ رہے۔ اور لوگ صرف اندد ہی اندر 'ترقی' کریں۔ اس میں اظہار رائے سے کسی کے انتخاب کی گنجائش نہیں۔
یہ سب ڈھکی چھپی 'تعلیمات' نہیں، بلکہ یہی تعلیمات، مدارس میں صرف پیرایہ بدل کر مکمل تاویلات کے ساتھ پڑھائی جاتی ہیں تاکہ ان تعلیمات، جیسے سند کا نظام، قانون سازی اور فتوی کا نظام اور فتوی کے لیئے سند درکار ہونے کا نظام۔ بغیر سند کے کسی بھی قسم کی قانون سازی کے باطل ہونے کی وجوہات۔ عوام سے ان کا اظہار رائے کا حق چھین لینے کی تعلیم، قرآن کوعوام میں ناظرہ رکھنے کی تعلیم، آج بھی کچھ اس طرح سکھائی جاتی ہیں کہ بالکل درست لگتی ہیں۔ آپ دیکھئے گا کہ ان تمام تاویلات کا دفتر پیش کیا جائے گا اس آرٹیکل کے جواب میں۔
'تارک حدیث' ، 'تارک رسول' ، 'قرانی' کیا ہے۔
ایک سیاسی ہتھیار۔
'تارک حدیث' ، 'تارک رسول' ، 'قرانی' وغیرہ کے القابات 'قران فہمی' کی ع۔۔۔ام تعلیم کی طرف اشارہ کرنے والوں کے لئے عام ہیں تاکہ 'مولویت' کے سیاسی نظام کا دفاع کیا جاسکے، جس کی ضرورت برِصغیر میں کم از کم 1857 کے بعد سے ختم ہو چکی ہے۔ 'برصغیر کے تاریک دور مولویت' میں ان ہی القابات کا استعمال بطور ہتھیار کیا جاتا تھا تاکہ 'مولویت' کے انسٹی ٹیوشن یا تنظیم کی حفاظت کی جائے۔ عموماَ ایسے لوگوں کی جو اس نتیجے میں 'تارک حدیث' یا 'تارک رسول' قرار پائے جاتے تھے، 'ملوکیت'، مولویت کو سپورٹ کرنے کے لئے عموماَ ان الزامات کو مرتد سے تبدیل کرکے حسب ضرورت سزا دیتی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کبھی کسی کو 'تارک قرآن' کا الزام نہیں دیا جاتا تھا۔ یہی طریقہ اجماع کے لئے بھی مخصوص تھا، مولوی یا مفتی کا خطبہ یا فتوی، یا تو تعلیم کی کمی کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آتا تھا، ( آئندہ جمعہ کو اپنے محلے کی مسجد میں خظبہ کو سمجھنے کی کوشش کریں )، لہذا مخالفت کرنے والے چند ہی ہوتے تھے، جن کا مقصد موجودہ دینی قیادت کو چیلنج کرنا ہوتا تھا یا سیاسی مخالف یا کوئی ایسا شخص، جو کسی سیاسی مخالف کا کارندہ ہوتا تھا، ایسے مخالف شخص کا انٹرویو الگ لیا جاتا تھا اور عموماَ فیصلہ جلد ہی کردیا جاتا تھا، اس طرح وہ شخص شہر سے غائب ہوجاتا تھا۔ یہی روایت آج بھی چلی آرہی ہے، آپ دو چار سوال کیجئے مولویت کے شکار لوگوں سے۔ آپ پر پہلی فرصت میں 'تارک حدیث'، 'تارک رسول' کا فتوی تھوپ دیا جائے گا۔ جبکہ علمی و دینی طور پر یہ علم و اعلام مسملمانوں کی میراث ہیں۔ بس سیاسی مقصد ان کے الگ ہیں۔ کہ مشکل سوالوں کا جواب، سوال کرنے والے کی کردار کشی سے دیا جائے اور سوالوں کو فتنہ میں بدل دیا جائے۔ عموماَ یہ قدم قراں فہمی کی تعلیم عام کرنے والے کے لئے اٹھایا جاتا ہے تاکہ 'مولویت' کا سیاسی نظام قائم رہے، 'مولویت' کی ضرورت، 'ملوکیت' اور عوام میں یکساں قائم رہے۔ اور اس طرح 'مولویت' کا ایک متوازی (پیرالیل) ٹیکسیشن، متوازی قانون سازی، متوازی عدلیہ اور متوازی انتظامیہ کا سیاسی و معاشی نظام حکومت کے ساتھ ساتھ چلتا رہے، جوکہ چلتا رہا ہے اور چل رہا ہے۔ اس کے نظام کے مخالف 'تارک رسول' اور 'تارک حدیث' کے القابات سے نوازے جاتے رہے۔ مولویت کی طرف سے، ایسے ناجائز القابات پانے والوں میں سب سے بڑا نام سرسید احمد خان کا ہے، جو برصغیر کئ مسلمانوں میں علم کا پیامبر اور سیاسی سوچ بیدار کرنے کا خالق ہے۔
اس کی قیمت؟
اس معاشرتی ناانصافی کی ہم نے کیا قیمت ادا کی؟ ابتدائی سیاسی فتوحات کے نتیجے میں جب لوگوں نے اسلام کا عدل سے بھرپور سیاسی نظام دیکھا اور اس نظام میں اپنی ضرورت کا احساس کیا تو کفر ترک کرکے اسلام قبول کرنے کا رحجان عام رہا۔ لیکن ہندوستان میں 'مولویت' پر مبنی سیاسی نظام سے غیر مسلم، اسلام اور مسلمان دونوں سے نفرت کرتے رہے۔ اس لئے کے مدرسی درجہ بندی کی وجہ سے غیر مسلموں کو اس نئے سیاسی انسٹی ٹیوشن میں شامل ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ اس معاشرتی ناانصافی کے نتیجے میں مسلموں اور غیر مسلموں میں دشمنی، جبر، نفرت اور عداوت کی وہ فضا قائم ہوئی جس کی نظیر دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی ۔ جبکہ مسلمان عرب، ترکی، بلقان، لبنان ، شام اور ایران میں اپنی سیاسی فتوحات کے بعد، عدل و انصاف، امن و آشتی اور آسان طرز عمل سے لوگوں کے دل جیت کر ان کو مسلمان کر چکے تھے۔ اس وجہ سے برصغیر کا 'مولویت' کا سیاسی نظام ایک مکمل فیلیور ہے۔ اس کا دوبارا تجربہ کرنا ایک مکمل بیوقوفی ہوگا۔ اس کا ثبوت ہم اپنی ترقی سے پچھلے 60 سالوں میں دے چکے ہیں۔ تمامتر خرابیوں کے باوجود، ہماری ترقی، کسی بھی مسلم ملک کی ترقی سے زیادہ۔ اس نظام کو ترک کرنے کے بعد، اللہ کی ہم پر برکت کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی؟
اس میں قصور کس کا ہے؟
موجودہ 'مولویت' کی تنظیمیں صرف تقلیدی روش اختیار کرتی ہیں اور مناسب لیڈر شپ سے محروم ہیں۔ گو کہ 'ملوکیت' ختم ہوگئی لیکن 'مولویت' چونکہ ایک نظام ہے۔ اور ہر نظام و تنظیم کا اپنا ایک مومینٹم ہوتا ہے۔ لہذا اس کا پہیہ گھومے جارہا ہے اور مناسب لیڈر شپ کی کمی کی وجہ سے اس کا دھارا اسی سمت میں ہے جس سمت میں 200 برس پہلے تھا۔ وہ ضرورت گو کہ آج کے دور میں ' بادشاہت' ختم ہونے سے، ختم ہوگئی جس کے لئے دینی کتب کا سیاسی استعمال کیا گیا لیکن توجیہات آج بھی وہی دی جاتی ہیں اور اس سسٹم کو جس سے محرومیاں، تعلیم کے انحطاط اور جبر نے جنم لیا، آج بھی اس کو درست سمجھا جاتا ہے۔
مولوی ہے کون؟
ایک ایسا شخص جو اس سیاسی نظام کے مومینٹم کی وجہ سے اپنی ایسی رائے اس نظام کے حق میں رکھتا ہے، کہ قرآن فہمی عام نہ ہو، جدید تعلیم قرآن کے مخالف ہے، 'ملوکیت' یعنی حق حاکمیت کو حق ملکیت کی تاویلات 'شریعت' سے پیش کی جائیں۔ تمامتر علم و اعلام کا استعمال ان سیاسی مقاصد کے لئے کرتا ہو۔
ایسا شخص جو اپنے علم و اعلام کا استعمال صرف تعلیم فکر تک محدود رکھتا ہے، اور مفکریں اور علماء کرام کی صف میں کھڑا ہوتا ہے، 'مولویت' کی سیاسی نظام میں مبتلا نہیں ہوتا۔
نیاہدف، نیا خورشید: دین سب کے لئے
ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن 2، 3 پارے کرکے پہلی سے بارہویں تک اختیاری نصاب کا حصہ بنایا جائے، جو کہ معنی کے ساتھ پڑھایا جائے۔ دینی مدرسوںکے نصاب کا معائینہ کیا جائے، خطابت ( پبلک سپیکنگ)، امامت (لیڈرشپ) اور اسی طرح دوسرے علوم دینیہ کو اسکولوں میں بھی پڑھایا جائے اور سنت، روایات، اقوال پر مبنی اعلی درجہ کے قانون سازی کی تعلیم یونیورسٹیز کے اعلی شعبوں میں منتقل کردی جائے۔ اس طرح مدرسوں کی ضروری تعلیم ہر شخص کے لئے عام ہو اور جو لوگ ان شعبوں کا انتخاب کریں وہ اسے حاصل کرسکیں۔ اپنے دین کو چند لوگوں پر چھوڑنے کی روش ترک کردی جائے۔ تاکہ ہر شخص اس معاشرہ میں اپنے کردار کا اندازہ کرسکے اور اسلامی و دینی تعلیم چند لوگوں کے لئے صرف ذریعہ معاش ہی نہ رہ جائے۔
تاکہ جدید تعلیم اور قرآن و سنت کی روشنی میں آزادی سے ایک نئے سیاسی نظام کا اغاز ہو سکے۔ تاکہ خوشیاں، تحفظات، فلاح وبہبود ، معاشی ترقی، شہری آزادی ، عدل و انصاف، قانون کا نفاذ، علمی ترقی، ایجادات، بہترین مالیاتی نظام اور سب سے بڑھ کر خوف خدا اور اس کے نتیجے میں امن و سکون ہمارے معاشرے میں قائم ہو۔
والسلام
اس کے لئے بہت ہی احتیاط سے لکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس آرٹیکل کی ابتداء ہم سوالات سے کریںگے اور ان سوالات کہ مدد سے یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آیا کہ
1۔ کیا دینی نظریات اور کتب کا سیاسی استعمال ہوا؟
2۔ اور اگر ہوا تو کیا استعمال ہونا چاہئیے تھا اور کیا ہوا؟
تو آئیے دیکھتے ہیں۔
مثال نمبر 1۔ ہمارے معاشرے میں ناظرہ قرآن ہربچے کو پڑھایا جاتا ہے۔ درست؟ اور قرآن فہمی کی حتی الامکان حوصلہ شکنی ہے۔
سوال نمبر 1 - ناظرہ قران کی روایت کس نظام نے قایم کی اور کیوں؟ کیا قرآن فہمی کی حوصلہ شکنی کا یہ طریقہ درست ہے؟
سوال نمبر 2::قرآن فہمی کی کمی کا اثر مسلمانوںکے سیاسی نظام پر کیا پڑا؟
مثال نمبر 2: عموماَ ہماری مزید مقدس کتب جن کو 'صحاح ستہ' اور 'احادیث' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، پڑھانے پر زور رہا۔ جس کی علمی اہمیت اپنی جگہ ثابت ہے۔ لیکن ان کتابوںسے اس سیاسی نظام نے کیا سیاسی مفاد حاصل کیا؟
سوال نمبر 3: کیا ان کتبِ روایات کو صرف علم کے لئےپڑھایا گیا یا یہ مقاصد سیاسی تھے؟
میرے خیالات:
سوال نمبر 1 - ناظرہ قران کی روایت کس نظام نے قایم کی اور کیوں؟ کیا یہ طریقہ درست ہے؟
سوال نمبر 2::قرآن فہمی کی کمی کا اثر مسلمانوںکے سیاسی نظام پر کیا پڑا؟
سب سے پہلے تو یہ بھلا دیجئے کہ کسی شخص کی طرف اشارہ ہے۔ آپ کسی محلے کی مولوی سے پوچھ لیجئے۔ مندرجہ بالاء دونوں مثالوں کی نمائندہ مثال ہے۔ بہت آسانی سے ہم اس کو جاہل قرار دینے کی غلطی کرسکتے ہیں۔ اور اس کو ایک فرد واحد کا عمل کہہ سکتے ہیں۔ لیکن کیا سب مولوی یہی نہیں کہتے جو اوپر مثال نمبر 1 میںموجود ہے۔ تو سب کا یہ اجتماعی خیال کہاں سے آیا؟ کسی نظام سے؟ کیوں کہ یہ ہمارا ایمان تو نہیں کہ اجتماعی و عوامی قران فہمی کی حوصلہ شکنی کی جائے؟
اب آپ سب اس سوال کا جواب دیجئے کہ کیا قرآن فہمی ضروری ہے؟
یقیناَ آپ کا جواب ہوگا ۔ ضروری ہے۔ تو پھر برعکس عادت پڑی کیوں؟
آسان جواب یہ ہوگا، قرآن کے سیاسی نظام سے دور رکھنے کے لئے۔ یہ سیاسی نظام بادشاہت یا مملکت کے لئے مضر تھا۔
قرآن ایک شورائی نظام کی ، عوامی دولت کی ریاست میں مناسب روانی اور عام آدمی کو اپنا نمائندہ چننے کا تعلیم دیتا ہے۔ جدید علوم حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے، اور جدید علم کو استعمال کنے کی تلقین کرتا ہے۔
قرآن فہمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی یہ آگہی معاشرے میں ترقی کی ضامن تو ہے، لیکن بادشاہت کے لئے نامناسب ہے۔ وہ کس طرح؟
وہ اس طرح کے بادشاہ عوام کی دولت پر حاکم ہوتا ہے اور اس حق حاکمیت کو وہ حق ملکیت بہت جلد سمجھنے لگتا ہے۔ قرآن فہمی، ان دو حقوق، حق ملکیت اور حق حاکمیت کا فرق عوام الناس کو بتاتی ہے۔ بادشاہ کے لئے اس حق ملکیت کو قائم رکھنے کے لئے اور عوام کی دولت کو اپنی اولاد میں ورثہ کی صورت منتقل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو قرآن فہمی سے دور رکھا جائے۔
اس مقصد کے لئے کن لوگوں نے قرآن کی سیاسی تعلیم کو ناظرہ تعلیم سے تبدیل کیا، اور سیاسی مقاصد کے لئے قائم 'سیاسی نظام' کب 'دینی نظام' میں نفوذ کر گیا۔ ہمیں پتہ نہ چلا۔ لیکن آج بادشاہت ختم ہوجانے کے بعد بھی قرآن فہمی کی تعلیم عام نہیں ہوئی۔ اور اس کی حوصلہ شکنی جاری ہے۔
آپ کچھ بنیادی سوال اپنے چند دوستوںسے کیجئیے اور دیکھیے کہ آیا وہ جانتے ہیں کی قرآن معاشرے میں عدل کے نظام کو تعلیم کن آیات میں کرتا ہے۔ یا قرآن معاشرے میں عوام کی دولت کی حاکمیت اور اس کی ملکیت میں تفریق کرتا ہے یا نہیں؟
اس علم کو ایک مخصوص طبقہ تک محدود رکھا گیا، جو کہ اس نظام کا خاصہ ہے کہ زیادہ تعلیم 'سرکار' کے لئے مصیبت کا باعث ہوتی ہے۔ البتہ شخصی عبادتوں کو فروغ دیا گیا تاکہ عوام صرف شخصی عبادتوں تک محدود رہیں۔
قرآن فہمی کی اس کمی کی وجہ سے، مسلمانوں نے کبھی اپنی حکومت سے۔ ایک شوری کونسل بنانے کا تقاضا نہ کیا۔ ایک عالمگیر عدلیہ کے قیام کا تقاضا نہ کیا۔ تعلیم اور ریسرچ کے میدان میں اچھے اداروں کا تقاضا نہ کیا، اور ایک مکمل اور مربوط کمیونیکشن (اتصالات) کے نظام کا مطالبہ نہ کیا۔ جبکہ مسلمان مسجدوں کی مدد سے ایک ایسا کمیونیکیشن کا نظام کی مثالیں، مشرق وسطی میں قائم کرچکے تھے کہ انتظامی خبریں ملک کے بیشتر حصوں میں رات بھر میں پہنچ جاتی تھیں۔
سوال نمبر 3: کیا ان کتبِ روایات کو صرف علم کے لئےپڑھایا گیا یا یہ مقاصد سیاسی تھے؟
کتب روایات کی دینی اور علمی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ لیکن ان کی ایک سیاسی حیثیت بھی ہے۔ جب بھی بات ہوتی ہے، تو 'مولویت' کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ صرف دینی حیثیت کی بات ہو، سیاسی حیثیت زیر بحث نہ آئے۔ ہم صرف اس کا سیاسی پہلو دیکھیںگے کہ دینی اور علمی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
قرآن تو بادشاہت 'ملوکیت' اور اس کو سپورٹ کرنے والی مکمل تنظیم (انسٹی ٹیوشن) 'مولویت' کے لئے سیاسی طور پر مناسب نہ تھا، جس کی وجہ اوپر آچکی ہے۔ لہذا اب ضرورت تھی کتب کے ایک ایسے سیٹ کی جس پر مسلمانوں کو مناسب اعتقاد ہو اور جس کی مدد سے 'ملوکیت' (فرد واحد کی حکومت) کو 'مولویت' مکمل سیاسی سپورٹ فراہم کرتی رہے۔
چونکہ یہ سیاسی سپورٹ ایک شخص یا ایک گروپ کے لئے ہوتی تھی، لہذا لازم ہے کے یہ معاشرے کے دوسرے حصوں (سیگمینٹ) کے حق میں جبر و ناانصافی کو جنم دیتی تھی۔ اس ناانصافی کو دینی کتب کی مدد سے 'انصاف' ثابت کرنا بذات خود ایک بہت بڑی ناانصافی تھی۔
نظام 'مولویت' چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے، ایسے قوانین، اصول، اور فیصلے کرتا رہا جو معاشرہ کے تمام لوگوںکے لئے قابل قبول نہ تھے اور صرف اس فرد واحد اور اس کے حامیوں کے لئے قابل قبول تھے۔ زیادہ تر سیاسی فیصلے مذہب کے پردہ میں کئے گئے۔
اس کی سب سے بڑی مثال حق حاکمیت کو حق ملکیت میں بدلنا ہے۔ عموماَاس کی توجیح و توضیح بس اتنی ہوتی تھی کہ " شرع تو یہی کہتی ہے " بعد میں ان "شرعی" فیصلوں کا نتیجہ جنگوں کی صورت میں نکلا۔
۔ کیا دینی نظریات اور کتب کا سیاسی استعمال ہوا؟
میرے حساب سے تو ہوا۔ توجیہات پیش کرچکا ہوں۔
2۔ اور اگر ہوا تو کیا استعمال ہونا چاہئیے تھا اور کیا ہوا؟
استعمال ہونا چاہئیے تھا قرآن کی روشنی میں نہ کہ خوفِ ملوکیت میں۔ لہذا زیادہ تر مناسب نہ ہوا۔
اب میں اگلا سوال کرتا ہوں۔
کیا اس سب کی ذمہ دار 'مولویت' ہے؟ اگر ہاں تو کیسے؟
جی اس کی ذمہ دار 'مولویت ہے'۔ اس لئے کہ 'مولویت' ہی ایک آرگنایزڈ عوامی ادارہ یا تنظیم تھی، اس نے اپنے تحفظ کے لئے مکمل اقدامات کئے۔ مسلمان عوام اپنے ایمان کی وجہ سے 'مولویت' کے اداروں اور شخصیات کو حد درجہ سپورٹ فراہم کرتے تھے۔ روز مرہ کے قوانین اور ضروریات کے لئے 'مولویت' کے ایک فرد سے ہی رجوع کیا جاتا تھا۔ 'مولویت' کے ذمہ داروں نے انفرادی فیصلے تو ہمیشہ درست کئے کہ ان کو حکومتی اور تنظیمی تحفظ حاصل تھا۔ لیکن سیاسی فیصلے، صرف تلوار کےخوف سے کئے۔ اور قرآنی احکامات کو بلا خوف کہنے اور پھیلنے سے روکنے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔
سند کیا ہے؟
'مولویت' نے اپنا تحفظ ایک شائستہ 'سندی' نظام سے کیا۔ 'مولویت' کے ادارے ایک مسجد کے امام سے لے کر مفتی اعظم تک کی تنظیمی درجہ بندی رکھتے تھے۔ یہ درجہ بندی صرف سیاسی خدمات کے لئے تھی۔ اس لئے کہ عام آدمی کے لئے ایک مسجد کا امام ہی کافی تھا۔ اس قسم کی سند کی ایک آرگنائزڈ تعلیمی نظام میں کوئی مناسب حیثیت نہیں۔ لیکن مدرسوں پر مشتمل یہ سندی نظام، کسی دوسری یونیورسٹی کی سند کو تسلیم نہیں کرتا۔
بنیادی طور پر یہ طریقہ ڈایریکٹ انتخابات سے بچنے کے لئے اور عوام کو اپنی رائے کے اظہار سے روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاکہ 'مولویت' کا انسٹی ٹیوشن محفوظ رہے۔ اور لوگ صرف اندد ہی اندر 'ترقی' کریں۔ اس میں اظہار رائے سے کسی کے انتخاب کی گنجائش نہیں۔
یہ سب ڈھکی چھپی 'تعلیمات' نہیں، بلکہ یہی تعلیمات، مدارس میں صرف پیرایہ بدل کر مکمل تاویلات کے ساتھ پڑھائی جاتی ہیں تاکہ ان تعلیمات، جیسے سند کا نظام، قانون سازی اور فتوی کا نظام اور فتوی کے لیئے سند درکار ہونے کا نظام۔ بغیر سند کے کسی بھی قسم کی قانون سازی کے باطل ہونے کی وجوہات۔ عوام سے ان کا اظہار رائے کا حق چھین لینے کی تعلیم، قرآن کوعوام میں ناظرہ رکھنے کی تعلیم، آج بھی کچھ اس طرح سکھائی جاتی ہیں کہ بالکل درست لگتی ہیں۔ آپ دیکھئے گا کہ ان تمام تاویلات کا دفتر پیش کیا جائے گا اس آرٹیکل کے جواب میں۔
'تارک حدیث' ، 'تارک رسول' ، 'قرانی' کیا ہے۔
ایک سیاسی ہتھیار۔
'تارک حدیث' ، 'تارک رسول' ، 'قرانی' وغیرہ کے القابات 'قران فہمی' کی ع۔۔۔ام تعلیم کی طرف اشارہ کرنے والوں کے لئے عام ہیں تاکہ 'مولویت' کے سیاسی نظام کا دفاع کیا جاسکے، جس کی ضرورت برِصغیر میں کم از کم 1857 کے بعد سے ختم ہو چکی ہے۔ 'برصغیر کے تاریک دور مولویت' میں ان ہی القابات کا استعمال بطور ہتھیار کیا جاتا تھا تاکہ 'مولویت' کے انسٹی ٹیوشن یا تنظیم کی حفاظت کی جائے۔ عموماَ ایسے لوگوں کی جو اس نتیجے میں 'تارک حدیث' یا 'تارک رسول' قرار پائے جاتے تھے، 'ملوکیت'، مولویت کو سپورٹ کرنے کے لئے عموماَ ان الزامات کو مرتد سے تبدیل کرکے حسب ضرورت سزا دیتی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کبھی کسی کو 'تارک قرآن' کا الزام نہیں دیا جاتا تھا۔ یہی طریقہ اجماع کے لئے بھی مخصوص تھا، مولوی یا مفتی کا خطبہ یا فتوی، یا تو تعلیم کی کمی کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آتا تھا، ( آئندہ جمعہ کو اپنے محلے کی مسجد میں خظبہ کو سمجھنے کی کوشش کریں )، لہذا مخالفت کرنے والے چند ہی ہوتے تھے، جن کا مقصد موجودہ دینی قیادت کو چیلنج کرنا ہوتا تھا یا سیاسی مخالف یا کوئی ایسا شخص، جو کسی سیاسی مخالف کا کارندہ ہوتا تھا، ایسے مخالف شخص کا انٹرویو الگ لیا جاتا تھا اور عموماَ فیصلہ جلد ہی کردیا جاتا تھا، اس طرح وہ شخص شہر سے غائب ہوجاتا تھا۔ یہی روایت آج بھی چلی آرہی ہے، آپ دو چار سوال کیجئے مولویت کے شکار لوگوں سے۔ آپ پر پہلی فرصت میں 'تارک حدیث'، 'تارک رسول' کا فتوی تھوپ دیا جائے گا۔ جبکہ علمی و دینی طور پر یہ علم و اعلام مسملمانوں کی میراث ہیں۔ بس سیاسی مقصد ان کے الگ ہیں۔ کہ مشکل سوالوں کا جواب، سوال کرنے والے کی کردار کشی سے دیا جائے اور سوالوں کو فتنہ میں بدل دیا جائے۔ عموماَ یہ قدم قراں فہمی کی تعلیم عام کرنے والے کے لئے اٹھایا جاتا ہے تاکہ 'مولویت' کا سیاسی نظام قائم رہے، 'مولویت' کی ضرورت، 'ملوکیت' اور عوام میں یکساں قائم رہے۔ اور اس طرح 'مولویت' کا ایک متوازی (پیرالیل) ٹیکسیشن، متوازی قانون سازی، متوازی عدلیہ اور متوازی انتظامیہ کا سیاسی و معاشی نظام حکومت کے ساتھ ساتھ چلتا رہے، جوکہ چلتا رہا ہے اور چل رہا ہے۔ اس کے نظام کے مخالف 'تارک رسول' اور 'تارک حدیث' کے القابات سے نوازے جاتے رہے۔ مولویت کی طرف سے، ایسے ناجائز القابات پانے والوں میں سب سے بڑا نام سرسید احمد خان کا ہے، جو برصغیر کئ مسلمانوں میں علم کا پیامبر اور سیاسی سوچ بیدار کرنے کا خالق ہے۔
اس کی قیمت؟
اس معاشرتی ناانصافی کی ہم نے کیا قیمت ادا کی؟ ابتدائی سیاسی فتوحات کے نتیجے میں جب لوگوں نے اسلام کا عدل سے بھرپور سیاسی نظام دیکھا اور اس نظام میں اپنی ضرورت کا احساس کیا تو کفر ترک کرکے اسلام قبول کرنے کا رحجان عام رہا۔ لیکن ہندوستان میں 'مولویت' پر مبنی سیاسی نظام سے غیر مسلم، اسلام اور مسلمان دونوں سے نفرت کرتے رہے۔ اس لئے کے مدرسی درجہ بندی کی وجہ سے غیر مسلموں کو اس نئے سیاسی انسٹی ٹیوشن میں شامل ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ اس معاشرتی ناانصافی کے نتیجے میں مسلموں اور غیر مسلموں میں دشمنی، جبر، نفرت اور عداوت کی وہ فضا قائم ہوئی جس کی نظیر دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی ۔ جبکہ مسلمان عرب، ترکی، بلقان، لبنان ، شام اور ایران میں اپنی سیاسی فتوحات کے بعد، عدل و انصاف، امن و آشتی اور آسان طرز عمل سے لوگوں کے دل جیت کر ان کو مسلمان کر چکے تھے۔ اس وجہ سے برصغیر کا 'مولویت' کا سیاسی نظام ایک مکمل فیلیور ہے۔ اس کا دوبارا تجربہ کرنا ایک مکمل بیوقوفی ہوگا۔ اس کا ثبوت ہم اپنی ترقی سے پچھلے 60 سالوں میں دے چکے ہیں۔ تمامتر خرابیوں کے باوجود، ہماری ترقی، کسی بھی مسلم ملک کی ترقی سے زیادہ۔ اس نظام کو ترک کرنے کے بعد، اللہ کی ہم پر برکت کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی؟
اس میں قصور کس کا ہے؟
موجودہ 'مولویت' کی تنظیمیں صرف تقلیدی روش اختیار کرتی ہیں اور مناسب لیڈر شپ سے محروم ہیں۔ گو کہ 'ملوکیت' ختم ہوگئی لیکن 'مولویت' چونکہ ایک نظام ہے۔ اور ہر نظام و تنظیم کا اپنا ایک مومینٹم ہوتا ہے۔ لہذا اس کا پہیہ گھومے جارہا ہے اور مناسب لیڈر شپ کی کمی کی وجہ سے اس کا دھارا اسی سمت میں ہے جس سمت میں 200 برس پہلے تھا۔ وہ ضرورت گو کہ آج کے دور میں ' بادشاہت' ختم ہونے سے، ختم ہوگئی جس کے لئے دینی کتب کا سیاسی استعمال کیا گیا لیکن توجیہات آج بھی وہی دی جاتی ہیں اور اس سسٹم کو جس سے محرومیاں، تعلیم کے انحطاط اور جبر نے جنم لیا، آج بھی اس کو درست سمجھا جاتا ہے۔
مولوی ہے کون؟
ایک ایسا شخص جو اس سیاسی نظام کے مومینٹم کی وجہ سے اپنی ایسی رائے اس نظام کے حق میں رکھتا ہے، کہ قرآن فہمی عام نہ ہو، جدید تعلیم قرآن کے مخالف ہے، 'ملوکیت' یعنی حق حاکمیت کو حق ملکیت کی تاویلات 'شریعت' سے پیش کی جائیں۔ تمامتر علم و اعلام کا استعمال ان سیاسی مقاصد کے لئے کرتا ہو۔
ایسا شخص جو اپنے علم و اعلام کا استعمال صرف تعلیم فکر تک محدود رکھتا ہے، اور مفکریں اور علماء کرام کی صف میں کھڑا ہوتا ہے، 'مولویت' کی سیاسی نظام میں مبتلا نہیں ہوتا۔
نیاہدف، نیا خورشید: دین سب کے لئے
ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن 2، 3 پارے کرکے پہلی سے بارہویں تک اختیاری نصاب کا حصہ بنایا جائے، جو کہ معنی کے ساتھ پڑھایا جائے۔ دینی مدرسوںکے نصاب کا معائینہ کیا جائے، خطابت ( پبلک سپیکنگ)، امامت (لیڈرشپ) اور اسی طرح دوسرے علوم دینیہ کو اسکولوں میں بھی پڑھایا جائے اور سنت، روایات، اقوال پر مبنی اعلی درجہ کے قانون سازی کی تعلیم یونیورسٹیز کے اعلی شعبوں میں منتقل کردی جائے۔ اس طرح مدرسوں کی ضروری تعلیم ہر شخص کے لئے عام ہو اور جو لوگ ان شعبوں کا انتخاب کریں وہ اسے حاصل کرسکیں۔ اپنے دین کو چند لوگوں پر چھوڑنے کی روش ترک کردی جائے۔ تاکہ ہر شخص اس معاشرہ میں اپنے کردار کا اندازہ کرسکے اور اسلامی و دینی تعلیم چند لوگوں کے لئے صرف ذریعہ معاش ہی نہ رہ جائے۔
تاکہ جدید تعلیم اور قرآن و سنت کی روشنی میں آزادی سے ایک نئے سیاسی نظام کا اغاز ہو سکے۔ تاکہ خوشیاں، تحفظات، فلاح وبہبود ، معاشی ترقی، شہری آزادی ، عدل و انصاف، قانون کا نفاذ، علمی ترقی، ایجادات، بہترین مالیاتی نظام اور سب سے بڑھ کر خوف خدا اور اس کے نتیجے میں امن و سکون ہمارے معاشرے میں قائم ہو۔
والسلام