سید لبید غزنوی
محفلین
حقیقت سے پر اس تحریر کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔۔۔۔مولوی نامہ سہیل باوا صاحب کی تحریر ہے ۔۔۔اسمیں کچھ اضافے میں نے کر کے اسکی نوک پلک درست کی ہے ۔۔۔تحریر پڑھنےکے بعد اپنی قیمتی آراء سے ضرور مطلع فرمائیں۔۔۔جزاک اللہ
مولوی نامہ۔۔۔
تحریر سہیل باوا (لندن)
ایک گاؤں کا قصہ ہے، ایک مولوی صاحب قصائی کی دکان سے گوشت لے کر گھر آرہے تھے، راستے میں کوے نے ان کا گوشت اچک لیا ، مولوی صاحب فوراً چلائے، اے کوے، اگراپنی خیریت نیک مطلوب چاہتاہے تو فوراً گوشت واپس کردے ورنہ مسجد میں اعلان کردوں گا کہ کواحلال ہے، اب اس بارے میں کوئی روایت موجود نہیں ہے کہ اس کوے نے گوشت کا کیا کیا، چونکہ ا ب تک کوا حرام ہے اس لیے گمان کیا جاسکتا ہے کہ اس شریف النفس کوے نے گوشت واپس کردیاہوگاورنہ کوے ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم کی عملی تفسیربنے ہوئے ہوتے۔
مولویوں کے کارناموں کی فہرستیں زبان زد عام ہیں، ان کے لطیفے، حماقتیں، بیچارگی، غربت، کم مائیگی، جہالت ہر چیز کو عیاں کرنا ہماری محفلوں کا ایک لازمی جزو بنتا جارہاہے، معاشرے کے لیے غیرموزوں ، کفر کے فتوے لگانے والا، غیراہم اور دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ کہلانے والے یہ مولوی مسلمان معاشرے کا چارلی چپلن اور مسٹر بین ہے، جس کا کسی پر بس نہ چلے، اس کا مولوی پر چلتا ہے، مولوی پر رائے دینا سب سے آسان ہے، اس پر طعنہ زنی سب سے دلچسپ لگتی ہے، یہ ایک کھلونا ہے، جس سے ہرکوئی کھیل سکتا ہے، ایک بچہ اپنے قاری صاحب کی نقل اتارنے سے یہ سلسلہ شروع کرتاہے، باپ اس کی ادا پر مسکراتا ہے اور ماں صدقے واری جاتی ہے اور یوں مولوی فٹبال بن جاتا ہے اور مختلف عمروں کے ڈیوڈ بیکھم ،میرا ڈونا ، پیلے رونالڈو اس سے کھیلتے رہتے ہیں، سویڈن کے عارف کسانہ نے کچھ دن قبل مسلم معاشرے کے اس رجحان سے متاثرہوکر اس قومی کھیل کو کھیلا اور علمائے سوء کی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے دل کے پھپھولے خوب پھوڑے، کسانہ صاحب کے قلم کی کسک سے راقم کے دل میں یہ خیال جاگاکہ اس مولوی فوبیا معاشرے کو مولوی کی ایک اور تصویر دکھائی جائے، خدانخواستہ مولوی کی شان میں قصیدہ خوانی کا ارادہ نہیں ہے کہ آپ حضرات کے قلوب و اذہان پر گراں گزرے ، بس یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ مضحکہ خیز اورمعاشرے کا غیر موزوں طبقہ تمام تر تیر ونشتر سہنے کے باوجود کتنا مضبوط ہے۔
سلطنت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی مولوی نامہ کھل گیاتھا، پہلے پہل تو چندلوگوں کو بنیاد بنا کرسب کی تحقیر کی جاتی تھی، پھر علماکی تضحیک کی جانے لگی اور اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ جس نے داڑھی رکھ لی، وہ مولوی ہے اور اس کا تمسخر اڑانا لازمی۔۔۔مگریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صدی بیت گئی ، مولوی کی ہجو میں کیا کیانہیں کہاگیا، مولوی آج بھی اسی آن بان اور شان سے مسجد میں آذان دیتا ہے، اسی آن بان سے جمعے کا خطبہ دیتاہے، نہ اس کے معمول میں فرق آیا ہے اور نہ انداز میں۔۔۔بقول قدرت اللہ شہاب یہ مولوی ہی ہے جس نے گاؤں کی ٹوٹی مسجد میں بیٹھ کر چند ٹکڑوں کے عو ض عوام کا رشتہ اسلام سے جوڑا ہوا ہے۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی فنڈ ہے اور نہ کوئی تحریک۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کا چراغ ،کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔
ملاں و مولوی نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔۔ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد،ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملاں و مولوی کے دم سے آباد ہیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا رہتا ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھاہے۔ کوئی شخص وفات پا جاتا ہے ، تو یہ اسکا جنازہ پڑھا دیتا ہے ، نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دے دیتا ہے ، کوئی شادی طے ہوتی ہے تو نکاح پڑھوا دیتا ہے۔اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی اسے جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درودی کہتاہے، یہ مولوی ہی کا فیض ہے کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہیں ،برصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً مولویوں کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔
اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ لو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں محلے کی تنگ مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ نکاح اور جنازے کا مسئلہ ہوتو تمسخر اڑانے والوں کے لہجوں کا سارا جھاگ بیٹھ جاتاہے، انگلیاں و آنکھیں ٹیڑھی کرکر کے مذاق اڑانے والے منہ جھکا کرمولوی صاب مولوی صاب کررہے ہوتے ہیں اور یہ مولوی کا ظرف ہے کہ اس نے معاشرے کے ان نابالغوں کی نادانیوں کو ہمیشہ نظراندا زکیا ہے کیو نکہ اس کو پتہ ہے کہ اس کا نعم البدل کوئی نہیں، وہ انمول ہے ۔عارف کسانہ صاحب نے اپنی تحریرمیں لکھا ہے کہ مولویوں کے کفرکے فتووں کی وجہ سے مسلمانوں کا خون سب سے زیادہ بہاہے، کسانہ صاحب نے کسی تاریخی واقعے کی جانب اشارہ نہیں کیااور تیر بھی چلادیا، شاید ہٹلر کے مشیرخاص گوئبلز نے اسی انداز گفتگوکو پروپیگنڈے سے تعبیر کیاہے، علامہ اقبال اور قائداعظم پر مولویوں نے کفرکے فتوے لگائے مگرکوئی ان کفرکے فتوے لگانے والے مولویو ں کے نام بھی جانتاہے؟ لوگ تو اشرف علی تھانوی کو جانتے، سلیمان ندوی کو جانتے ہیں، شبیر احمد عثمانی کو جانتے ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان میں قائداعظم کا ساتھ دیا، اگرکوئی شعبدے باز، مفادپرست، چال باز، دشمن ایجنٹ مولوی کے روپ میں کوئی ایسا کام کرے جو مسلم اُمہ کے مفاد میں نہ ہو تو بجائے یہ کے اس کام پر تنقید کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی نشان دہی کرکے صفوں سے باہرکیاجائے، اپنے ہی علماپر تنقید نابالغی اور مضحکہ خیزی کے زمرے میں آتاہے، مولویوں کاتشخص استعمال کرکے لوگوں کو گمراہ کرنا اسلام دشمن قوتوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہاہے، ہم لارنس آف عربیہ جیسے کرداروں کو کیسے بھول سکتے ہیں، اگر کوئی استاد کرپشن کرے تو پورے نظام تعلیم کو ہی کیوں داغدار نہیں کیاجاتا، ایک فوجی کرپشن کرکے خود کرپٹ ہے،ایک سرکاری افسرمال ہڑپ کرنے میں خود اکیلا مجرم ہے مگر یہ کیسا معاشرہ ہے جو ایک مولوی کے جر م کی سزاپورے نظام کودینا شروع کردیتاہے،علمامیں اختلاف ہیں،فرقے موجود ہیں مگرسیاسی اختلا ف کی موجودگی کے باوجود سیاسی جماعتوں کی موجودگی قابل اعتراض نہیں تو مختلف مذہب میں مختلف مکاتب فکر پر اعتراض کیوں؟ کیا رائے کا اختلا ف بھی مولویوں کا حق نہیں ہے؟ اگرشیعہ سنی اختلاف ہے تو اس میں بہت سے تاریخی اور علمی مسائل ہیں اور ان مسائل پر اختلاف ایک فطری تقاضہ ہے، دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث علمی بنیادوں پر ایک دوسرے سے ا ختلاف کر تے ہیں، ان کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں اور علمی اختلاف ہونا تو باعث رحمت ہے، جاہلوں کی طرح ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے تو اچھا ہے کہ خلافت وامامت، حاضر ناظراور تقلید جیسے مسائل پر اختلاف کرلیا جائے، کم از کم یہ اختلاف فکر ی ترقی کا باعث تو بنتاہے، انسان کی ذہنی نشونما اور تحقیق وجستجوکی تونمو کرتاہے اور ایسے میں اگرکوئی انتہاپسندی پر اتر آئے تو یہ اس کااسی طرح ذاتی فعل ہے جیسے ستونت سنگھ نے اندراگاندھی کوگولی ماردی تھی، اس کے گولی ماردینے سے پوری ہندوستانی فوج قاتل قرارنہیں دی گئی تھی۔
ہمارے یہا ں ایک اصطلاح عام ہے، علمائے سوءکی۔۔۔علمائے سوء کے فریم میں فٹ کرکے مولویوں کو جو بولنا ہے بول ڈالیے، کوئی پوچھے تو کہہ دیں گے کہ علمائے حق الگ ہیں، یہ بہانے بازیاں دراصل ہمارے احساس کمتری کی نشانیاں ہیں، ایک فوجی ہی عسکری معاملات میں رائے دینے کا اہل ہوتاہے، علماکے بارے میں بھی رائے دینا اہل علم کا کام ہے، ہر ایراغیرانتھوخیرا درانتی اٹھائے مولویوں کی جانب دوڑاچلاآرہاہے، جناب اپنی علمی حیثیت تو جانچیں۔۔چارالفاظ لکھنے کاعلم کسی کو ارسطونہیں بنادیتا!
تحریر سہیل باوا (لندن)
ایک گاؤں کا قصہ ہے، ایک مولوی صاحب قصائی کی دکان سے گوشت لے کر گھر آرہے تھے، راستے میں کوے نے ان کا گوشت اچک لیا ، مولوی صاحب فوراً چلائے، اے کوے، اگراپنی خیریت نیک مطلوب چاہتاہے تو فوراً گوشت واپس کردے ورنہ مسجد میں اعلان کردوں گا کہ کواحلال ہے، اب اس بارے میں کوئی روایت موجود نہیں ہے کہ اس کوے نے گوشت کا کیا کیا، چونکہ ا ب تک کوا حرام ہے اس لیے گمان کیا جاسکتا ہے کہ اس شریف النفس کوے نے گوشت واپس کردیاہوگاورنہ کوے ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم کی عملی تفسیربنے ہوئے ہوتے۔
مولویوں کے کارناموں کی فہرستیں زبان زد عام ہیں، ان کے لطیفے، حماقتیں، بیچارگی، غربت، کم مائیگی، جہالت ہر چیز کو عیاں کرنا ہماری محفلوں کا ایک لازمی جزو بنتا جارہاہے، معاشرے کے لیے غیرموزوں ، کفر کے فتوے لگانے والا، غیراہم اور دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ کہلانے والے یہ مولوی مسلمان معاشرے کا چارلی چپلن اور مسٹر بین ہے، جس کا کسی پر بس نہ چلے، اس کا مولوی پر چلتا ہے، مولوی پر رائے دینا سب سے آسان ہے، اس پر طعنہ زنی سب سے دلچسپ لگتی ہے، یہ ایک کھلونا ہے، جس سے ہرکوئی کھیل سکتا ہے، ایک بچہ اپنے قاری صاحب کی نقل اتارنے سے یہ سلسلہ شروع کرتاہے، باپ اس کی ادا پر مسکراتا ہے اور ماں صدقے واری جاتی ہے اور یوں مولوی فٹبال بن جاتا ہے اور مختلف عمروں کے ڈیوڈ بیکھم ،میرا ڈونا ، پیلے رونالڈو اس سے کھیلتے رہتے ہیں، سویڈن کے عارف کسانہ نے کچھ دن قبل مسلم معاشرے کے اس رجحان سے متاثرہوکر اس قومی کھیل کو کھیلا اور علمائے سوء کی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے دل کے پھپھولے خوب پھوڑے، کسانہ صاحب کے قلم کی کسک سے راقم کے دل میں یہ خیال جاگاکہ اس مولوی فوبیا معاشرے کو مولوی کی ایک اور تصویر دکھائی جائے، خدانخواستہ مولوی کی شان میں قصیدہ خوانی کا ارادہ نہیں ہے کہ آپ حضرات کے قلوب و اذہان پر گراں گزرے ، بس یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ مضحکہ خیز اورمعاشرے کا غیر موزوں طبقہ تمام تر تیر ونشتر سہنے کے باوجود کتنا مضبوط ہے۔
سلطنت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی مولوی نامہ کھل گیاتھا، پہلے پہل تو چندلوگوں کو بنیاد بنا کرسب کی تحقیر کی جاتی تھی، پھر علماکی تضحیک کی جانے لگی اور اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ جس نے داڑھی رکھ لی، وہ مولوی ہے اور اس کا تمسخر اڑانا لازمی۔۔۔مگریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صدی بیت گئی ، مولوی کی ہجو میں کیا کیانہیں کہاگیا، مولوی آج بھی اسی آن بان اور شان سے مسجد میں آذان دیتا ہے، اسی آن بان سے جمعے کا خطبہ دیتاہے، نہ اس کے معمول میں فرق آیا ہے اور نہ انداز میں۔۔۔بقول قدرت اللہ شہاب یہ مولوی ہی ہے جس نے گاؤں کی ٹوٹی مسجد میں بیٹھ کر چند ٹکڑوں کے عو ض عوام کا رشتہ اسلام سے جوڑا ہوا ہے۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی فنڈ ہے اور نہ کوئی تحریک۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کا چراغ ،کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔
ملاں و مولوی نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔۔ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد،ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملاں و مولوی کے دم سے آباد ہیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا رہتا ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھاہے۔ کوئی شخص وفات پا جاتا ہے ، تو یہ اسکا جنازہ پڑھا دیتا ہے ، نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دے دیتا ہے ، کوئی شادی طے ہوتی ہے تو نکاح پڑھوا دیتا ہے۔اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی اسے جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درودی کہتاہے، یہ مولوی ہی کا فیض ہے کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہیں ،برصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً مولویوں کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔
اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ لو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں محلے کی تنگ مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ نکاح اور جنازے کا مسئلہ ہوتو تمسخر اڑانے والوں کے لہجوں کا سارا جھاگ بیٹھ جاتاہے، انگلیاں و آنکھیں ٹیڑھی کرکر کے مذاق اڑانے والے منہ جھکا کرمولوی صاب مولوی صاب کررہے ہوتے ہیں اور یہ مولوی کا ظرف ہے کہ اس نے معاشرے کے ان نابالغوں کی نادانیوں کو ہمیشہ نظراندا زکیا ہے کیو نکہ اس کو پتہ ہے کہ اس کا نعم البدل کوئی نہیں، وہ انمول ہے ۔عارف کسانہ صاحب نے اپنی تحریرمیں لکھا ہے کہ مولویوں کے کفرکے فتووں کی وجہ سے مسلمانوں کا خون سب سے زیادہ بہاہے، کسانہ صاحب نے کسی تاریخی واقعے کی جانب اشارہ نہیں کیااور تیر بھی چلادیا، شاید ہٹلر کے مشیرخاص گوئبلز نے اسی انداز گفتگوکو پروپیگنڈے سے تعبیر کیاہے، علامہ اقبال اور قائداعظم پر مولویوں نے کفرکے فتوے لگائے مگرکوئی ان کفرکے فتوے لگانے والے مولویو ں کے نام بھی جانتاہے؟ لوگ تو اشرف علی تھانوی کو جانتے، سلیمان ندوی کو جانتے ہیں، شبیر احمد عثمانی کو جانتے ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان میں قائداعظم کا ساتھ دیا، اگرکوئی شعبدے باز، مفادپرست، چال باز، دشمن ایجنٹ مولوی کے روپ میں کوئی ایسا کام کرے جو مسلم اُمہ کے مفاد میں نہ ہو تو بجائے یہ کے اس کام پر تنقید کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی نشان دہی کرکے صفوں سے باہرکیاجائے، اپنے ہی علماپر تنقید نابالغی اور مضحکہ خیزی کے زمرے میں آتاہے، مولویوں کاتشخص استعمال کرکے لوگوں کو گمراہ کرنا اسلام دشمن قوتوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہاہے، ہم لارنس آف عربیہ جیسے کرداروں کو کیسے بھول سکتے ہیں، اگر کوئی استاد کرپشن کرے تو پورے نظام تعلیم کو ہی کیوں داغدار نہیں کیاجاتا، ایک فوجی کرپشن کرکے خود کرپٹ ہے،ایک سرکاری افسرمال ہڑپ کرنے میں خود اکیلا مجرم ہے مگر یہ کیسا معاشرہ ہے جو ایک مولوی کے جر م کی سزاپورے نظام کودینا شروع کردیتاہے،علمامیں اختلاف ہیں،فرقے موجود ہیں مگرسیاسی اختلا ف کی موجودگی کے باوجود سیاسی جماعتوں کی موجودگی قابل اعتراض نہیں تو مختلف مذہب میں مختلف مکاتب فکر پر اعتراض کیوں؟ کیا رائے کا اختلا ف بھی مولویوں کا حق نہیں ہے؟ اگرشیعہ سنی اختلاف ہے تو اس میں بہت سے تاریخی اور علمی مسائل ہیں اور ان مسائل پر اختلاف ایک فطری تقاضہ ہے، دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث علمی بنیادوں پر ایک دوسرے سے ا ختلاف کر تے ہیں، ان کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں اور علمی اختلاف ہونا تو باعث رحمت ہے، جاہلوں کی طرح ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے تو اچھا ہے کہ خلافت وامامت، حاضر ناظراور تقلید جیسے مسائل پر اختلاف کرلیا جائے، کم از کم یہ اختلاف فکر ی ترقی کا باعث تو بنتاہے، انسان کی ذہنی نشونما اور تحقیق وجستجوکی تونمو کرتاہے اور ایسے میں اگرکوئی انتہاپسندی پر اتر آئے تو یہ اس کااسی طرح ذاتی فعل ہے جیسے ستونت سنگھ نے اندراگاندھی کوگولی ماردی تھی، اس کے گولی ماردینے سے پوری ہندوستانی فوج قاتل قرارنہیں دی گئی تھی۔
ہمارے یہا ں ایک اصطلاح عام ہے، علمائے سوءکی۔۔۔علمائے سوء کے فریم میں فٹ کرکے مولویوں کو جو بولنا ہے بول ڈالیے، کوئی پوچھے تو کہہ دیں گے کہ علمائے حق الگ ہیں، یہ بہانے بازیاں دراصل ہمارے احساس کمتری کی نشانیاں ہیں، ایک فوجی ہی عسکری معاملات میں رائے دینے کا اہل ہوتاہے، علماکے بارے میں بھی رائے دینا اہل علم کا کام ہے، ہر ایراغیرانتھوخیرا درانتی اٹھائے مولویوں کی جانب دوڑاچلاآرہاہے، جناب اپنی علمی حیثیت تو جانچیں۔۔چارالفاظ لکھنے کاعلم کسی کو ارسطونہیں بنادیتا!
مدیر کی آخری تدوین: