مولوی نواز شریف

صدر اسلامی جہموریہ پاکستان نے ایک تقریر میں کہا ہے کہ مولوی نواز شریف چھپ کر ان سے مل لیں اور زرداری سے سیکھیں۔ انھوں نے انتہائی تلخ زبان استعمال کرتے ہوئے مولوی کا طعنہ دیا۔ مولوی ایک سند ہوتی ہے جو کہ مدرسہ سے فاضل ہونے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ زرداری نے نواز شریف کو لوہار ہونے کا طعنہ بھی دیا۔ افسوس یہ ہے کہ انھوں نے ذاکروں کے انداز میں عورتوں کی طرح طعنےدیے جو کہ بہ طور صدر مملکت مناسب نہیں۔
میرا خیال ہے خیالات کی اس پستی پر پاکستان قوم کو غور کرنا چاہیے۔ شاید پاکستانی قوم کا مذاق ہی اتنا پست ہوگیا ہے جو یہ پست ذہن لوگ مسلط ہوگئے ہیں۔
 

عسکری

معطل
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پچھلے سال آپ زرداری کے پر جوش حامی تھے نا؟ یا میں غلط ہوں؟
 

شمشاد

لائبریرین
تو سینما پر ٹکٹیں بیچنے اور بلیک کرنے والے سے آپ کیسی زبان کی امید رکھتے ہیں۔
 

سویدا

محفلین
ایک غیر صدارتی تقریر
عطاء الحق قاسمی

آج صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے ”مولوی“ نواز شریف کے حوالے سے جو بیان دیا ہے وہ پڑھ کر دل خوش ہو گیا ہے کیونکہ ان ”مولوی صاحب“ کو تھوڑا بہت میں بھی جانتا ہوں اور یوں مجھے خوشی ہوئی ہے کہ زرداری صاحب نے انہیں ٹھیک پہچانا ہے۔ میاں نواز شریف پاکستانی عوام کی بہت بڑی اکثریت کی طرح نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ موسیقی بھی سنتے ہیں۔ فلم بھی دیکھتے ہیں۔ انہیں مصوری اور فن تعمیر سے بھی گہری دلچسپی ہے۔ مسلک کے لحاظ سے وہ بریلوی عقیدے کے حامل ہیں اور یوں پیروں فقیروں کے ماننے والے ہیں لیکن دیو بندی، اہل حدیث اور شیعہ مسالک کے حامل افراد کو بھی خود سے الگ نہیں سمجھتے۔ وہ ان سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جس طرح وہ ان سے محبت کرتے ہیں۔ تاہم زرداری صاحب کے بیان کے حوالے سے مجھے ایک ہلکا سا مغالطہ یہی ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے میاں صاحب کو ”مولوی“ قرار دے کر کہیں ان پر پھبتی نہ کسی ہو کیونکہ مے نوشوں کے حلقے میں اس شخص کو ”مولوی“ کہا جاتا ہے جو مے نوش نہ ہو۔ ڈانس نہ کرتا ہو۔ حسینوں کے جھرمٹ میں نہ رہتا ہو۔ جس نے ایک پورا ”حرم“ آباد نہ کیا ہو۔ جو موسیقی کی لہروں پر نرم و نازک بازوؤں میں جھومتا نہ ہو۔ تو اگر یہ پھبتی اس حوالے سے ہے تو پھر زرداری صاحب نے صحیح کسی ہے، کیونکہ میاں صاحب ایسے معاملات میں واقعی ”زاہد خشک“ واقع ہوئے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کے زرداری صاحب نے ”مولوی“ کے لفظ کو اتنے تحقیر آمیز لہجے میں کیوں استعمال کیا ہے، تو یہ معاملہ مولوی صاحبان اور زرداری صاحب کے مابین ہے۔ امید ہے مولانا فضل الرحمن زرداری صاحب کا یہ مسئلہ بھی حل کر دیں گے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب نے اپنے بیان میں یہ بھی فرمایا ہے کہ ان کے 35 ہزار بچے مر گئے ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت پانے والے 35 ہزار پاکستانیوں کو اپنے بچے قرار دیا ہے لیکن ان کے یہ بچے زیادہ تر انہی کے دور حکومت میں مارے گئے ہیں اور وہ ابھی تک ان ہلاکتوں کا راستہ روکنے کی بجائے اندھا دھند امریکی پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں مشغول ہیں۔ میاں نواز شریف صحیح کہتے ہیں کہ یہ جنگ ہماری نہیں، امریکہ کی جنگ تھی لیکن اسے ہماری جنگ بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ جناب زرداری اپنے بچوں کی شہادتوں کا راستہ روکنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 20 اکتوبر 2008ء کو پارلیمنٹ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ایک متفقہ قرارداد منظور کی۔ صرف قرارداد منظور نہیں کی بلکہ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ رضا ربانی تھے۔ اس کمیٹی کے اجلاس چھ مہینے تک جاری رہے اور پھر بالآخر کمیٹی کے تمام ارکان نے متفقہ طور پر دہشت گردی کو روکنے کے لئے 63 اقدامات تجویز کئے لیکن تین سال گزرنے کے بعد بھی یہ سفارشات نہ کابینہ کے اجلاس میں پیش ہوئیں اور نہ قوم کو اس حوالے سے کچھ بتایا گیا۔ جناب زرداری اگر شہید ہونے والوں کو واقعی اپنے بچے سمجھتے تو کیا ان کی سرد مہری کا یہی عالم ہوتا؟
مجھے لگتا ہے صدر مملکت نے متذکرہ تقریر فی البدیہہ ارشاد فرمائی ہے اور کسی اسپیچ رائٹر یا اپنے کسی سیاسی مشیر سے بھی مشورہ نہیں کیا، ورنہ انہیں بتایا جاتا کہ میاں صاحب کو ”مولوی“ قرار دینے سے امریکہ تو ان سے دور ہو جائے گا جو پہلے سے ہی ہے لیکن پاکستانی عوام انہیں مزید اپنے قریب محسوس کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں انہیں ”مولوی“ کیوں کہا جا رہا ہے۔ انہوں نے اگر کسی سے مشورہ کیا ہوتا تو وہ انہیں یہ بھی بتاتا کہ میاں صاحب پر جرنیلوں اور فوج کے سپاہیوں کو لڑانے کا الزام ”گھر جا کے شکیت لاواں گی“ کے زمرے میں آنے کے علاوہ اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ خود فوج بھی اس پر یقین نہیں کرے گی کہ وہ جانتی ہے یہ شخص کٹر پاکستانی ہے اور فوج کے ادارے سے اسے کوئی شکایت نہیں۔ اسے صرف ان جرنیلوں سے شکایت ہے جو ملک میں بار بار مارشل لاء لگاتے رہے جس کے نتیجے میں ملک آج اس حال کو پہنچا ہے کہ بے حال نظر آ رہا ہے۔ صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے میاں صاحب کو ”لوہار“ ہونے کا طعنہ بھی دیا ہے۔ یہ سوچ ایک ترقی پسند صدر کی ہے جس کی جماعت خود کو محنت کشوں کا نمائندہ قرار دیتی ہے۔ چنانچہ پاکستان بھر کے محنت کشوں کو ایک بار پھر اندازہ ہو جائے گا کہ یہ جماعت انہیں اتنا حقیر سمجھتی ہے کہ محنت کش کے لفظ کو گالی کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
جناب زرداری نے اپنی تقریر میں میڈیا پر بھی اپنا غصہ اتارا ہے۔ اپنی ناکامیوں کا جائزہ لینے کی بجائے میڈیا پر برسنا اور یہ کہنا کہ وہ وقت جلد آئے گا جب چینلز پر اداکار نہیں، دانشور بیٹھیں گے۔ ”انہیں خصوصی غصہ ”جیو“ پر ہے چنانچہ ایک خبر کے مطابق مبینہ طور پر ان اداکاروں کو خریدنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، لیکن ان دانشوروں میں سے کسی ایک نے بھی ابھی تک کمزوری نہیں دکھائی۔ یہ زرداری صاحب کو مشورہ ہے کہ وہ دوسروں کو اپنی شاگردی میں لینے کی خواہش ترک کریں اور خود اپنے لئے کوئی استاد تلاش کریں جو انہیں بتائے کہ ایک صدر مملکت کو کسی بھی حالت میں ایک سطح سے نیچے اتر کر بات نہیں کرنا چاہئے۔ صدارت ایک باوقار منصب ہے اور اس کے کچھ تقاضے ہیں۔ بدقسمتی سے صدر مملکت ان تقاضوں کیحرمت برقرار نہیں رکھ سکے۔
اور اب آخر میں ایک بات یہ کہ مجھے یہ کالم لکھ کر خوشی نہیں ہوئی میں بھی میاں نواز شریف کی طرح اس سوچ کا حامل رہا ہوں کہ یہ حکومت جیسی بری بھلی ہے اسے اپنی مدت ضرور پوری کرنا چاہئے چنانچہ میں دوستوں سے اس موضوع پر لمبی لمبی بحثیں کرتا رہا ہوں اور بارہا یہ بات اپنے کالموں میں بھی لکھی ہے۔ آپ ریکارڈ چیک کر لیں میں نے گزشتہ تمام عرصے میں پی پی پی کی حکومت کے خلاف ایک کالم بھی نہیں لکھا بلکہ زرداری صاحب کے حوالے سے جو توہین آمیز میسج ملک بھر سے آتے ہیں میں انہیں سخت ناپسند کرتا رہا ہوں اور اب بھی کرتا ہوں کہ بہرحال وہ صدر مملکت ہیں لیکن ان کی حالیہ تقریر کسی ملک کے صدر کی نہیں، بلکہ کسی ایسے شخص کی لگتی ہے جو اس منصب کے تقاضوں سے واقف نہیں ہے۔ یہ ایک غیر صدارتی تقریر تھی جو کسی چھچھورے شخص سے بھی کرائی جا سکتی تھی۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=538518
 

ساجد

محفلین
استاد محترم قاسمی صاحب بہت نرم مزاج اور سیاست کے بکھیڑوں سے دور رہنے والے ادبی مشاہیر میں سے ایک ہیں۔ اگر ان کو جناب صدر کی اس بات پہ قلم اٹھانا پڑا ہے تو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سیاستدانوں کی زبان وبیان کی خرابی اب کہاں تک پہنچ گئی ہے۔ اللہ ہدایت دے ان کج فہموں کو۔ ملک کو نہیں دیکھتے۔ ایک سے بڑھ کر ایک خوفناک بحران عوام کا ستیاناس کر رہا ہے۔ سونے کے بھاؤ ملنے والی بجلی اب لاہور جیسے بڑے شہر میں 14 گھنٹے تک بند ہونے لگ گئی ہے۔ پٹرول نایاب ،گیس ندارد ، امن و امان عنقا ، سیکورٹی اداروں کے اہلکار خود رسہ گیری میں ملوث ، تعلیم لا وارث ، ذخیرہ اندوز بے فکر ۔ کیا کیا لکھا جائے کہ شاہینوں کا مسکن کس قسم کے کرگسوں کے تصرف میں آ چکا ہے۔ اور یہ جو اپنی زبان پہ کنٹرول نہیں رکھ سکتے ملک کو خاک کنٹرول کریں گے!!!۔
 

شعیب صفدر

محفلین
میں کچھ کہہ نہیں سکتا وجہ مولوی لفظ کو ابھی 24 گھنٹے قبل میں نے بحی طعنے کے طور پر استعمال کیا ہے!
 

حماد

محفلین
استاد محترم قاسمی صاحب بہت نرم مزاج اور سیاست کے بکھیڑوں سے دور رہنے والے ادبی مشاہیر میں سے ایک ہیں۔
محترم ساجد بھائی. بصد احترام آپ کیساتھ اختلاف کی جرات کرونگا . میں خود جناب قاسمی صاحب کی شگفتہ تحریروں کا مداح ہوں . لیکن یہ ایک کھلا راز ہے کہ محترم قاسمی صاحب نواز شریف کی حمایت میں عرصۂ دراز سے لکھتے چلے آ رہے ہیں جس کے صلہ میں انہیں نواز شریف نے اپنی خلافت کے زمانے میں سفیر ناروے مقرر کر کے انکی خدمات کا اعتراف بھی کیا ہے . قاسمی صاحب کے کالم باقاعدہ پڑھنے والے انکی سیاسی جانبداری سے بخوبی واقف ہیں .
 

سویدا

محفلین
قطع نظر اس کے کہ عطاء الحق قاسمی اپنے دل میں نواز شریف کے لیے کئی نرم گوشے رکھتے ہیں لیکن زرداری صاحب نے جو زبان استعمال کی ہے بطور صدر جو کہ وفاق کے اتحاد کی علامت ہوتا ہے وہ انتہائی ناشائستہ تھی
حامد میر کو دیکھیے وہ کیا لکھتے ہیں اس بارے میں :

مولوی نواز شریف اور خلیفہ زرداری

حامد میر
کیا نواز شریف غلطی پر تھے؟ یہ ہے وہ سوال جو نوڈیرو میں صدر آصف علی زرداری کی تقریر کے بعد بار بار دل و دماغ میں گونج رہا ہے۔ صدر صاحب نے فرمایا ہے کہ مولوی نواز شریف کی سوچ نے ان کی اہلیہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جان لی۔ صدر صاحب کے الفاظ نے مجھے وہ منحوس شام یاد دلا دی جب محترمہ بینظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا۔ ان کی لاش کو تابوت میں بند کیا جا رہا تھا اور نواز شریف آنسو بہا رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کے کارکن نواز شریف کے گلے لگ کر رو رہے تھے اور ”قاتل مشرف قاتل“ کے نعرے لگا رہے تھے ۔ پیپلز پارٹی کے کارکن وہی کہہ رہے تھے جو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں مارک سیگل کے نام ای میل میں لکھا تھا۔ انہوں نے اس ای میل میں کسی سوچ کو نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف کو اپنے قاتل کے طور پر نامزد کیا تھا۔ نواز شریف قاتل کو اس کے انجام تک پہنچانا چاہتے تھے۔ انہوں نے پرویز مشرف کو ایوان صدر سے نکالنے کیلئے آصف علی زرداری کا بھر پور ساتھ دیا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ آصف علی زرداری صدر بننے کے بعد پرویز مشرف کو نہیں بلکہ نواز شریف کی سوچ کو شہید بی بی کا قاتل قرار دے دیں گے۔ نواز شریف کی سوچ تو وہی تھی جسے میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا اور جس پر شہید بی بی نے بھی لندن میں 2006ء میں دستخط کر دیئے تھے لیکن افسوس کہ شہید بی بی کے جانے کے بعد میثاق جمہوریت کو مذاق جمہوریت بنا دیا گیا ہے۔ اس میثاق جمہوریت میں لکھا گیا تھا کہ خفیہ اداروں پر منتخب حکومت کا کنٹرول ہونا چاہئے اور خفیہ اداروں کو سیاست میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہئے۔ جب یہی بات نواز شریف کرتے ہیں تو آصف علی زرداری فرماتے ہیں کہ مولوی نواز شریف ہمیں فوج سے لڑانا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ ہم سے سیاست سیکھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آصف علی زرداری اپنے آپ کو سیاست کا سب سے بڑا استاد سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نواز شریف بھی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی طرح ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے دن آصف علی زرداری کی تقریر سن کر مجھے وہ دن یاد آیا جب لاہور میں نواز شریف اور شہباز شریف اپنے کچھ قریبی ساتھیوں کی محفل میں بیٹھے تھے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ ق لیگ والے پیغامات بھجوا رہے ہیں ہم ان کے ساتھ اتحاد کرلیں تو بہتر ہے ورنہ آصف علی زرداری کا کوئی پتہ نہیں کہ ق لیگ کو اپنے ساتھ ملا لے۔ نواز شریف خاموش رہے۔ پوچھا گیا کہ آپ نے آصف علی زرداری کو ایک خط میں ملکی حالات سدھارنے کیلئے کچھ مشورہ دیئے ہیں کیا ایوان صدر سے کوئی جواب آیا ہے؟ نواز شریف نے جواب میں بڑے امید افزا انداز میں کہا کہ زرداری صاحب نے بڑا مثبت جواب دیا ہے۔ یہ سن کر شہباز شریف نے بڑے ادب سے کچھ کہنے کی اجازت مانگی۔ اجازت پر کہنے لگے کہ میاں صاحب آپ میرے بڑے بھائی بھی ہیں اور میرے لیڈر بھی ہیں لیکن جان کی امان پاؤں تو عرض کرتا ہوں کہ آصف علی زرداری اپنے سر پر قرآن اٹھا کر بھی کوئی وعدے کرے تو اس پر کبھی اعتبار نہ کیجئے گا۔ یہ سن کر سہیل ضیا بٹ، عابد شیر علی، پرویز ملک اور کئی دوسروں نے شہباز شریف کی تائید کی لیکن نواز شریف کے چہرے پر ناگوار تاثرات ابھر آئے۔ وہ چند لمحے خاموش رہے پھر شہباز شریف سے کہا کہ آپ کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں ہمیں پرانی سیاست چھوڑ کر نئی روایات قائم کرنے کی ضرورت ہے آصف علی زرداری پانچ سال کیلئے صدر اور یوسف رضا گیلانی پانچ سال کے لئے وزیر اعظم بنے ہیں انہیں اپنی مدت پوری کرنی چاہئے اور ہم ان کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ پھر وہ موقع بھی آیا جب ایم کیو ایم اور جمعیت علماء اسلام حکومت سے نکل گئی۔ وزیر اعظم گیلانی کی اکثریت ختم ہوگئی اور مسلم لیگ (ن) آگے بڑھ کر مسلم لیگ (ق) کو گلے لگا لیتی تو گیلانی حکومت ختم ہوسکتی تھی لیکن مولوی نواز شریف نے سازش نہیں کی اور میڈیا نے انہیں فرینڈلی اپوزیشن قرار دیا۔
فرینڈلی اپوزیشن کے طعنوں سے تنگ آ کر نواز شریف نے حکومت کی کرپشن کے خلاف بولنا شروع کیا تو آصف علی زرداری فٹا فٹ صدر مملکت سے پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بن گئے 1973ء کے آئین کی دفعہ 41 کے مطابق صدر مملکت ریاست کے اتحاد کی علامت ہوتا ہے لیکن نو ڈیرو میں آصف علی زرداری نے جو تقریر کی وہ ریاست کے صدر کے شایان شان نہیں تھی۔ ان کا ہدف مسلم لیگ (ن) اور میڈیا تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے ذریعہ ان جرنیلوں کو خوش کرنے کی کوشش کی جو آجکل مسلم لیگ (ن) اور میڈیا کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں۔ آصف علی زرداری کی اس تقریر سے سیاسی صورتحال بڑی واضح ہوگئی ہے۔ زرداری صاحب کی اصل طاقت ان کی سیاست نہیں بلکہ پرویز مشرف کے پرانے ساتھی ہیں۔ مشرف کے ساتھیوں میں گھرے آصف علی زرداری دراصل فوجی قیادت کے اتحادی بن کر سامنے آئے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ایبٹ آباد اور مہران بیس کراچی کے واقعات کے بعد فوجی جرنیلوں کو مسلم لیگ (ن) اور میڈیا کے سوالات سے کوئی بچا سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف استادوں کا استاد خلیفہ آصف علی زرداری ہے۔ اپنی تقریر میں خلیفہ آصف علی زرداری نے یہ دھمکی بھی لگا دی ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب ٹی وی چینلز پر سیاسی اداکار نہیں بلکہ دانشور بیٹھیں گے۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بہت جلد ٹی وی چینلز سے ان تمام چہروں کو ہٹا دیا جائے گا جو حکومت اور فوجی جرنیلوں کے بارے میں وہ سوالات اٹھاتے ہیں جن کا جواب عوام مانگتے ہیں۔ آصف علی زرداری کی تقریر میں ان کی تکلیف بڑی واضح تھی۔ ان کی تکلیف کا تعلق عوام کی تکالیف سے نہیں بلکہ ان کی تکلیف یہ تھی کہ میڈیا عوام کی تکالیف کو سامنے کیوں لاتا ہے۔ صدر صاحب نے کہا کہ برطانیہ اور بھارت میں بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے لیکن میڈیا لوڈ شیڈنگ کی خبر نہیں دیتا۔ تو معاملہ صاف ہوگیا… صدر آصف علی زرداری چاہتے ہیں کہ نواز شریف ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور میڈیا لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری اور امن و امان کی خراب صورتحال پر خاموش ہوجائے۔ زرداری صاحب نے یہ سب باتیں بڑے بارعوب انداز میں کی ہیں اور تاثر دیا ہے کہ ہم سے پنگا نہ لو کیونکہ جرنیل ہمارے ساتھ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم قلم اور کیمرے والے لوگ بندوق اور ٹینک کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یہ بھی درست ہے کہ تمام دنیاوی طاقتیں آپ کے ہاتھ میں ہیں لیکن خلیفہ آصف علی زرداری صاحب پاکستان کے آزاد منش صحافی عوام کے مسائل اور تکالیف پر خاموش نہیں رہیں گے۔ آپ پرویز مشرف کی طرح ہمیں ٹی وی اسکرین سے غائب تو کرسکتے ہیں لیکن ہمیں اپنا غلام نہیں بنا سکتے۔ آپ کو پرویز مشرف کے ساتھی اور پرویز مشرف کا راستہ مبارک ہو ہم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے راستے پر چلیں گے یہ راستہ مولویوں کا راستہ نہیں شہیدوں کا راستہ ہے۔
 

طالوت

محفلین
قاسمی صاحب نے تو کچھ زیادہ ہی طرف داری کا مظاہرہ کر دیا تاہم چھچھوروں والی بات درست ہے اس کے لئے الطاف حسین ، بابر اعوان یا فوزیہ وہاب کا استعمال زیادہ مناسب ہوتا پر زرداری بھی کسی سے کم نہیں۔
 

عسکری

معطل
ان دو ٹکے کے بھانڈوں سے امید لگانا کیکر پر آم لگنے کی امید ہو گی ۔ کیا بد نصیبی ہے اے مملکت پاکستان تیری تیرے حاکم دنیا کے ذلیل بدنام مجرم جاھل اور کم ظرف ہیں
 

راشد احمد

محفلین
جب سے آصف زرداری کی حکومت آئی ہے نواز شریف اور شہباز شریف کی کلاس ہوتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ بھی ان کی اپنی نادانیاں ہیں۔
کبھی ان کی کلاس چوہدری لیتے ہیں ، کبھی عمران خان ان کی کلاس لیتا ہے، کبھی پی پی تو کبھی جماعت اسلامی، ایم کیو ایم نے تو ان کی کافی مرتبہ خوب کلاس لی ہے۔

اور یہ اس کے حقدار ہیں کیونکہ ان کی حرکتیں ہی ایسی ہیں۔
نواز شریف جب سے سعودی عرب سے واپس آیا ہے۔ اس کے اپنے لوگ اسے قائداعظم سے بڑا لیڈر بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔کسی دوسری جماعت کو خاطر میں نہیں لاتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میں تو کہتا ہوں یہ سب ایک ہیں اور سب کے سب ہی اس حمام میں ننگے ہیں۔ یہ جو ان میں تلخیاں جنم لیتی ہیں تو صرف اور صرف بندر بانٹ پر۔ ان سب میں سے کوئی بھی پاکستان اور پاکستانی عوام کے متعلق نہین سوچتا۔
 

راشد احمد

محفلین
میں تو کہتا ہوں یہ سب ایک ہیں اور سب کے سب ہی اس حمام میں ننگے ہیں۔ یہ جو ان میں تلخیاں جنم لیتی ہیں تو صرف اور صرف بندر بانٹ پر۔ ان سب میں سے کوئی بھی پاکستان اور پاکستانی عوام کے متعلق نہین سوچتا۔
کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں میں فہم وفراست آجاتی ہے اور انہیں سیاست کے آداب آجاتے ہیں لیکن ہمارے لیڈروں کا الٹا حال ہے
وقت کے ساتھ ساتھ ان کی عقلوں پر پردے پڑتے جاتے ہیں اور یہ سب کھلے عام ایک دوسرے کو ننگے کرنے کے چکروں میں ہیں۔ ٹی وی چینلز پر ان کا حال دیکھیں انتی چیخ وپکار کرتے ہیں کہ کسی کی بات سمجھ نہیں آتی، ایسی نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں کہ کچھ عرصے کے بعد ٹاک شوز بھی بھارتی فلموں کی طرح فیملی میں بیٹھ کر نہیں دیکھے جاسکیں گے۔

میرا خیال ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں والی اصطلاح ان سیاستدانوں پر ختم ہوتی جارہی ہے کیونکہ اب کسی کو ننگا کرنے کے لئے کسی حمام کی نہیں بلکہ کسی ٹاک شو کی ضرورت ہوگی۔
 
Top