قرۃالعین اعوان
لائبریرین
حضرت عبیدبن عمرو رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: مومن میں تین خوبیاں ہوتی ہیں۔
عموما ایسی رنج اور تکلیف دہ باتوں کو سن کر ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہم بھی کہنے والے کو خوب سنائیں، برا بھلا کہیں اور اچھی طرح سے بدلہ چکادیں کہ کہنے والے کہ پھر کبھی اتنی ہمت نہ ہوسکے وہ ہمیں دوبارہ کوئی بات کہہ سکے۔۔باتیں شروع ہوتی ہیں۔۔تکرار ہوتی ہے اور ایسی ناپسندیدہ باتوں کا انجام ہمیشہ اللہ رب العزت کی ناراضگی پر ختم ہوتا ہے ۔۔کیونکہ جب ہم لڑنے لگتے ہیں تو پھر ہماری عقلوں پر پردے پڑجاتے ہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا اور دونوں فریقین دل کھول کر ایک دوسرے کا دل دکھاتے ہیں ۔۔۔اور بعض اوقاتاک ناپسندیدہ بات سے شروع ہوجانے والی لڑائی دلوں میں نہ ختم ہونے والی کدورتوں،نفرتوں،رنجشوں کو جنم دیتی ہیں۔۔۔
ایسی باتیں گویا دلوں میں اک دلدل سا اگا دیتی ہیں کہ پھر ساری زندگی ہم اپنے دلوں کو صاف نہیں کرپاتے اور ان دلدلوں میں ہم اپنی تمام اچھائیوں سمیت دفن ہوجاتے ہیں۔۔۔۔
ذرا سوچئیے کتنا جامع نسخہ ہے ناکہ تکلیف دہ بات کو سنو اور بس در گزر کردو صرف یہ ایک قدم ہمیں آگے آنے والی کتنی بلاؤں سے محفوظ کرنے کا سبب ہے کہ تکلیف دہ ،زودورنج کا باعث بننے والی باتوں کو اہمیت نہ دی جائے انہیں وہیں فنا کردیا جائے تو ہمارا یہ تھوڑی سی دیر کا ضبط اور یہ صبر ہمیں بے انتہا راحت اور سکون دے گا ۔
۔
2َِ دوسری خوبی بھی اتنی ہی جامع ہے جتنی پہلی کہ مومن لوگوں کے لیئے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیئے کرتا ہے ۔۔۔
یہ گویا اک پیمانہ دے دیا گیا اب آپ کسی کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کریں گے تو سب سے پہلے میزان میں اپنے آپ کو پیش کریں گے کہ یہ جو بات میں کر رہا ہوں کیا یہ میرے لیئے اتنی ہی قابل قبول ہے جتنی کہ دوسروں کے لیئے۔۔۔یا جیسے ہم اس بات کو یوں سمجھیں کہ ایک تحفہ لیتے ہوئے کچھ دیر کو یہ سوچیں کہ اگر یہ تحفہ مجھے ملتا تو کیا میرا منظورِ نظر ہوتا۔۔۔
زندگی کہ ہر معاملے میں قدم قدم پر یہ جانچنا اور پرکھنا ہمیں ہر طرح کی بے انصافی سے محفوظ کردیتا ہے ۔۔۔لینے اور دینے کے پیمانے اگر یکساں ہوجائیں تو ہم کسی کا حق مارنے کی کبھی کوشش ہی نہ کریں کیونکہ اپنے آپ سے تو ہر ایک کو محبت ہوتی ہے
اپنی ذات تو ہر ایک کے لیئے محترم ہوتی ہے تو بس دوسروں کی ذات کا معاملہ درپیش ہو تو جھٹ سے پیمانہ نکالیئے اور دیکھئے کیا یہ بات
یا فلاں فیصلہ یا فلاں چیز مجھے پسند ہے اگر جواب ہاں میں ہے تو یقینا وہ بات دوسروں کے لیئے انصاف پر مبنی ہوئی۔۔۔
درحقیقت یہ پیمانہ بھی ہماری زندگی کے راستوں کو سہل کرنے میں بے حد معاون ثابت ہوتا ہے ۔۔
3 تیسری خوبی بھی معاملات کو بخوبی نبھانے کے لیئے اکسیر ہے کہ مومن لوگوں سے خواہش کے اسباب کو ختم کردیتا ہے ۔۔۔
دیکھئے کس قدر گہری بات ہے اور کتنا عمدہ نسخہ ہے ۔۔۔
توقعات وابستہ کرنا ، طمع رکھنا اور کوئی بھی کام کرتے ہوئے محض یہ سوچ رکھنا کہ اس کا صلہ لوگ ہمیں دیں گے بے حد عبث بات ہے ۔۔۔یہ ایک سوچ ہماری مثبت اور صاف ستھری راہ کو بالکل آلودہ کرکے رکھ دیتی ہے اور ناامیدی کو جنم دیتی ہے کہ جب ہم اچھائی کرتے ہوئے اللہ پر توکل نہیں کرتے اور لوگوں سے اس کا صلہ مانگتے ہیں اور جب ویسے نتائج نہیں نکلتے جیسی امید اور توقعات ہم لگا بیٹھتے ہیں تو دو باتوں میں سے ایک بات ہو کررہتی ہے ۔۔یا تو ہم بے دل ہو کر وہ اچھائی چھوڑ دیتے ہیں۔۔یا پھر ہم بھکاریوں کی راہ اپنا لیتے ہیں اور لوگوں کی طرف دیکھتے دیکھتے اس ذات اقدس سے دھیان کھودیتے ہیں جو درحقیقت دونوں جہانوں کا بادشاہ ہے
پھر خالی دامن کے سوا ہارے ہاتھ کچھ نہیں آتا ۔۔۔
تو کیوں نہ انسانوں سے خواہشات اور توقعات وابستہ کرنے کے بجائے ابتدا میں ہی اپنی سمت درست کرلی جائے ۔۔جب ہر کام اللہ تعالی کے لیئے ہوگا تو انسانوں سے معاملات تو خود ہی سنور جائیں گے ۔۔۔جب ہم انسانوں سے بے نیاز ہوکر صرف ایک ہی در پر بیٹھ جائیں گے تو ہمارے پاؤں خاک آلود نہیں ہونگے ۔۔در در بھٹکنے کے بجائے ایک چوکھٹ پکڑ لینے سے جو بےنیازی اور سرور حاصل ہوتا ہے یقین جانئیے وہ ہمیں ایسی کشادگی عطاکرتا ہے کہ پھر کوئی اور حاجت رہتی بھی نہیں۔۔۔۔۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان تمام خوبیوں سے ہمیں مزین کردیں اور فلاح کی طرف ہمیں گامزن رکھیں ۔۔۔۔آمین
- جب وہ کوئی ایسا کلمہ یا بات سنتا ہے جو اس کو تکلیف دینے والی ہو،تو وہ اس سے منہ پھیر لیتا ہے گویا کہ اس نے وہ بات سنی ہی نہیں۔
عموما ایسی رنج اور تکلیف دہ باتوں کو سن کر ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہم بھی کہنے والے کو خوب سنائیں، برا بھلا کہیں اور اچھی طرح سے بدلہ چکادیں کہ کہنے والے کہ پھر کبھی اتنی ہمت نہ ہوسکے وہ ہمیں دوبارہ کوئی بات کہہ سکے۔۔باتیں شروع ہوتی ہیں۔۔تکرار ہوتی ہے اور ایسی ناپسندیدہ باتوں کا انجام ہمیشہ اللہ رب العزت کی ناراضگی پر ختم ہوتا ہے ۔۔کیونکہ جب ہم لڑنے لگتے ہیں تو پھر ہماری عقلوں پر پردے پڑجاتے ہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا اور دونوں فریقین دل کھول کر ایک دوسرے کا دل دکھاتے ہیں ۔۔۔اور بعض اوقاتاک ناپسندیدہ بات سے شروع ہوجانے والی لڑائی دلوں میں نہ ختم ہونے والی کدورتوں،نفرتوں،رنجشوں کو جنم دیتی ہیں۔۔۔
ایسی باتیں گویا دلوں میں اک دلدل سا اگا دیتی ہیں کہ پھر ساری زندگی ہم اپنے دلوں کو صاف نہیں کرپاتے اور ان دلدلوں میں ہم اپنی تمام اچھائیوں سمیت دفن ہوجاتے ہیں۔۔۔۔
ذرا سوچئیے کتنا جامع نسخہ ہے ناکہ تکلیف دہ بات کو سنو اور بس در گزر کردو صرف یہ ایک قدم ہمیں آگے آنے والی کتنی بلاؤں سے محفوظ کرنے کا سبب ہے کہ تکلیف دہ ،زودورنج کا باعث بننے والی باتوں کو اہمیت نہ دی جائے انہیں وہیں فنا کردیا جائے تو ہمارا یہ تھوڑی سی دیر کا ضبط اور یہ صبر ہمیں بے انتہا راحت اور سکون دے گا ۔
۔
2َِ دوسری خوبی بھی اتنی ہی جامع ہے جتنی پہلی کہ مومن لوگوں کے لیئے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیئے کرتا ہے ۔۔۔
یہ گویا اک پیمانہ دے دیا گیا اب آپ کسی کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کریں گے تو سب سے پہلے میزان میں اپنے آپ کو پیش کریں گے کہ یہ جو بات میں کر رہا ہوں کیا یہ میرے لیئے اتنی ہی قابل قبول ہے جتنی کہ دوسروں کے لیئے۔۔۔یا جیسے ہم اس بات کو یوں سمجھیں کہ ایک تحفہ لیتے ہوئے کچھ دیر کو یہ سوچیں کہ اگر یہ تحفہ مجھے ملتا تو کیا میرا منظورِ نظر ہوتا۔۔۔
زندگی کہ ہر معاملے میں قدم قدم پر یہ جانچنا اور پرکھنا ہمیں ہر طرح کی بے انصافی سے محفوظ کردیتا ہے ۔۔۔لینے اور دینے کے پیمانے اگر یکساں ہوجائیں تو ہم کسی کا حق مارنے کی کبھی کوشش ہی نہ کریں کیونکہ اپنے آپ سے تو ہر ایک کو محبت ہوتی ہے
اپنی ذات تو ہر ایک کے لیئے محترم ہوتی ہے تو بس دوسروں کی ذات کا معاملہ درپیش ہو تو جھٹ سے پیمانہ نکالیئے اور دیکھئے کیا یہ بات
یا فلاں فیصلہ یا فلاں چیز مجھے پسند ہے اگر جواب ہاں میں ہے تو یقینا وہ بات دوسروں کے لیئے انصاف پر مبنی ہوئی۔۔۔
درحقیقت یہ پیمانہ بھی ہماری زندگی کے راستوں کو سہل کرنے میں بے حد معاون ثابت ہوتا ہے ۔۔
3 تیسری خوبی بھی معاملات کو بخوبی نبھانے کے لیئے اکسیر ہے کہ مومن لوگوں سے خواہش کے اسباب کو ختم کردیتا ہے ۔۔۔
دیکھئے کس قدر گہری بات ہے اور کتنا عمدہ نسخہ ہے ۔۔۔
توقعات وابستہ کرنا ، طمع رکھنا اور کوئی بھی کام کرتے ہوئے محض یہ سوچ رکھنا کہ اس کا صلہ لوگ ہمیں دیں گے بے حد عبث بات ہے ۔۔۔یہ ایک سوچ ہماری مثبت اور صاف ستھری راہ کو بالکل آلودہ کرکے رکھ دیتی ہے اور ناامیدی کو جنم دیتی ہے کہ جب ہم اچھائی کرتے ہوئے اللہ پر توکل نہیں کرتے اور لوگوں سے اس کا صلہ مانگتے ہیں اور جب ویسے نتائج نہیں نکلتے جیسی امید اور توقعات ہم لگا بیٹھتے ہیں تو دو باتوں میں سے ایک بات ہو کررہتی ہے ۔۔یا تو ہم بے دل ہو کر وہ اچھائی چھوڑ دیتے ہیں۔۔یا پھر ہم بھکاریوں کی راہ اپنا لیتے ہیں اور لوگوں کی طرف دیکھتے دیکھتے اس ذات اقدس سے دھیان کھودیتے ہیں جو درحقیقت دونوں جہانوں کا بادشاہ ہے
پھر خالی دامن کے سوا ہارے ہاتھ کچھ نہیں آتا ۔۔۔
تو کیوں نہ انسانوں سے خواہشات اور توقعات وابستہ کرنے کے بجائے ابتدا میں ہی اپنی سمت درست کرلی جائے ۔۔جب ہر کام اللہ تعالی کے لیئے ہوگا تو انسانوں سے معاملات تو خود ہی سنور جائیں گے ۔۔۔جب ہم انسانوں سے بے نیاز ہوکر صرف ایک ہی در پر بیٹھ جائیں گے تو ہمارے پاؤں خاک آلود نہیں ہونگے ۔۔در در بھٹکنے کے بجائے ایک چوکھٹ پکڑ لینے سے جو بےنیازی اور سرور حاصل ہوتا ہے یقین جانئیے وہ ہمیں ایسی کشادگی عطاکرتا ہے کہ پھر کوئی اور حاجت رہتی بھی نہیں۔۔۔۔۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان تمام خوبیوں سے ہمیں مزین کردیں اور فلاح کی طرف ہمیں گامزن رکھیں ۔۔۔۔آمین