مونچھیں تراشنا - ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے قلم سے

شمشاد

لائبریرین
مونچھیں تراشنا - ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے قلم سے

مونچھیں تراشنا ایک مشکل فن ہے کہ بندہ ساری زندگی یہ کام کرنے کے بعد بھی اس میں ماہر نہیں ہوتا۔ البتہ وہ متحمل مزاج اور متوازن شخصیت کا مالک ضرور ہو جاتا ہے کہ مونچھیں تراشنا جلد باز اور انتہا پسند شخص کے بس کا روگ نہیں۔ مونچھیں تراشنے والا تو جیب تراش کی طرح ہوتا ہے کہ ذرا سی غلطی ہو جائے، دونوں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔

شروع میں جب انسان کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہ تھی، قدرت نے اس کے سر پر بالون کا جنگل اگا دیا جس میں وہ چھپ گیا۔ جب وہ عمر کے اس حصے میں پہنچا جہاں اسے منہ چھپانے کی ضرورت پیش آئی تو یہ جنگل پھیل کر اس کے چہرے تک آ گیا۔ پھر جب اس نے گارے اور پتھر کی دیواریں اوڑھیں تو وہی بال جنہیں وہ خود کو چھپانے کے لئے استعمال کرتا تھا انہیں تراش کر خود کو نمایاں کرنے کے لئے استعمال کرنے لگا۔ یوں انسانی تہذیب کی بنیاد اس دن پڑی جس روز پہلے انسان نے اپنے بال تراشے۔ شاید اسی لئے ہمارے ہاں ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کو اس مہذب دنیا کا ممبر بنانے کے لئے سب سے پہلے ایک خصوصی تقریب میں اس کے بال ہی تراشے جاتے ہیں۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں آج کے انسان اور جانور میں بس یہی فرق رہ گیا ہے کہ انسان بال تراشتا ہے، جانور نہیں۔

بچپن، معومیت اور جوانی اس سے بغاوت کا نام ہے۔ جب کہ بڑھاپا اس بغاوت کی سزا ہے۔ شاید اسی لئے جب بچہ معصومیت کی "حدود" پھلانگتا ہے اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کے قابل ہوتا ہے تو قدرت اس کے چہرے پر ناک کے نیچے بالوں کی ایک سیاہ لائن لگا دیتی ہے بلکہ ناک تو بنائی ہی مونچھوں کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے۔ یہ لائن اتنی پکی ہوتی ہے کہ آپ ساری زندگی استرا ہاتھ میں رکھیں پھر بھی اسے نہیں مٹا سکتے، لیکن میرا دوست "ف" کہتا ہے "مونچھیں احتجاجی بینر ہیں جو ہم نے بچپن چھن جانے کے خلاف چہروں پر لٹکا رکھے ہیں۔" حالانکہ اس کی مونچھیں دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ یہ بینر اس کے چہرے پر نہیں بلکہ اس کا چہرہ اس بینر پر لٹکایا ہوا ہے۔ کہتا ہے "مچھ نہیں تو کچھ نہیں۔" واقعی اس کی مچھ نہ ہوتی تو کچھ نہیں رہتا۔ ذرا سی ہوا چلے تو اس کی مونچھیں یوں پھڑپھڑانے لگتی ہیں جیسے کوئی پرندہ وزنی چیز اٹھانے کی کوشش میں ہو۔ دور سے دیکھو تو لگتا ہے جیسے اس نے سیاہ کپڑے میں منہ لپیٹ رکھا ہے۔ جب اس کی مونچھیں چھوٹی چھوٹی تھیں تو وہ انہیں اپنے ہاتھ سے گھی اور مکھن کھلاتا۔ اب تو ماشا اللہ اتنی بڑی ہو گئی ہیں کہ یہ کام خود ہی کرنے لگی ہیں۔ اس لئے وہ کھانا کھاتے وقت مونچھیں یوں اٹھائے ہوتا ہے جیسے سہرا اٹھا کر کھانا کھا رہا ہو۔ محلے میں کوئی شرارت کرئے تو سزا کے طور پر اس کا منہ چومتا ہے۔ یہاں تک کہ نومولود پیدائش کے وقت نہ روئے تو فوری طور پر اس کا چہرہ دکھاتے ہیں۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ موصوف میں مونچھیں تراشنے کی صلاحیت نہیں، کہتا ہے، "مونچھیں تراشنے کے لئے صلاحیت کی نہیں بس قینچی کی ضرورت ہوتی ہے۔" اسے کون بتائے کہ اس کام کے لئے قینچی اتنی ضروری نہیں ہوتی جتنی عقل۔ بڑی مونچھیں تو بدمعاشی کا داخلہ فارم ہیں کیونکہ بے ترتیب مونچھوں والا دنیا میں کہاں ترتیب لائے گا۔ وہ امن پسند نہیں ہو سکتا۔

(جاری ہے۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
مونچھیں چہرے کا لباس ہیں، شاید اسی لئے عورتوں کی نہیں ہوتیں۔ مونچھیں تراشنا لباس کو ماحول، مرضی اور مزاج کے مطابق ڈھال کر پہننے کے قابل بنانے کا نام ہے۔ جیسے بچوں کی ساری شخصیت ان کی آنکھوں میں اور عورتون کی دیکھنے والوں کی آنکھوں میں سمٹ آتی ہے۔ ایسے ہی مرد کی پوری شخصیت ان کی مونچھوں کی بناوٹ میں ہوتی ہے۔ یہ مردوں کا شناختی کارڈ ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ پتہ چلے نہ چلے کہ یہ کیا کرتا ہے، یہ ضرور پتہ چل جاتا ہے کہ کیا کرنا چاہتا ہے۔

ہمارے ہاں مونچھ بلوغت کی علامت ہے اور داڑھی بلاغت کی۔ مونچھ کی علیحدہ حیثیت اور شخصیت تو حکومت بھی مانتی ہے۔ جسم کے کسی اور حصے کا الاؤنس اس وقت ملتا ہے جب وہ نہ رہے اور مونچھ الاؤنس اس وقت جب یہ چہرے پر موجود ہو۔ مونچھ مرد کا زیور ہے۔ گاؤں میں تو مونچھیں منڈوا کر پھرنے سے بےپردگی ہوتی ہے۔ بڑے بوڑھے سخت برا مناتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نظریں اتنی کمزور ہو چکی ہوتی ہیں کہ انہوں نے مونچھیں دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ آیا ہے یا آئی ہے۔ اور تو اور جب تک مونچھ نہ ہو کوئی پنجابی فلم نہیں بن سکتی۔ پہلے تو اردو فلموں میں بھی اس کی ضرورت پڑتی تھی اور وہ ہیرو کے ناک کے نیچے یوں لیٹی ہوتی جیسے کسی اہم سطر کو کالی پنسل سے انڈر لائن کیا گیا ہے۔

درخت زمین کے چہرے پر اُگے بال ہیں جو گھنے ہو کر جنگل کی صورت میں زمین کی مونچھیں بناتے ہیں۔جن سے ڈر کر ہوائیں اس علاقے میں مٹی نہیں اڑاتیں اور مٹی سبز چادر اوڑھ کر سامنے آتی ہے۔ بادل ان کے خوف سے اوپر سے گزرتے گزرتے پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں اور جب ان مونچھوں کو تراش لیا جائے تو یہ پارک اور باغ بن جاتی ہیں۔ ایسے ہی چہرے کی مونچھیں تراشنے کے بعد نہ صرف آپ کے چہرے پر بلکہ دیکھنے والے کے چہرے پر بھی ملائمت آ جاتی ہے۔

مونچھیں آپ کے بُرے وقت کی ساتھی ہیں، آپ کسی کی گردن نہیں مروڑ سکتے تو اپنی مونچھیں مروڑ کر غصہ نکال سکتے ہیں۔ آپ پریشان ہیں، کسی کا انتظار کر رہے ہیں تو ان پر ہاتھ پھیرکر وقت گزار لیں۔ آپ کو باغبانی کا شوق ہے تو مونچھوں کی پرورش اور کانٹ چھانٹ کر کے اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں۔ مونچھیں تو مردوں کا ایکسلریٹر ہیں، اس لئے وہ لڑنے سے پہلے مونچھوں کو بل دیتے ہیں

مونچھیں تراشنا میری پسندیدہ ان ڈور گیم ہے۔ اس کھیل میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بندہ اپنی مرضی سے کسی بھی وقت اکیلا کھیل سکتا ہے۔ مگر یہ بچوں کا کھیل نہیں کیونکہ یہ ہار اتنی مہنگی ہے کہ ہارنے والے کو ہفتوں منہ چھپائے رہنا پڑتا ہے۔ اس لئے تو مقابلوں میں بڑی سے بڑی شرط یہی لگائی جاتی ہے کہ ہار گیا تو مونچھیں منڈوا دوں گا۔ شاید اسی لئے شادی کے بعد اکثر لوگ مونچھیں صاف کروا دیتے ہیں۔ میں تو بڑا ڈرتے ڈرتے مونچھوں کو قینچی لگاتا ہوں اور ڈرنے میں برائی ہی کیا ہے؟

مونچھیں تراشنا دراصل توازن برقرار رکھنے کا نام ہے۔ دنیا میں پہلی کلین شیو اس دن ہوئی جب مونچھیں تراشنے والے سے ایک مونچھ چھوٹی ہو گئی اور دوسری بڑی۔ بڑی کو چھوٹی کرنے کی کوشش کی تو چھوٹی بڑی ہو گئی اور یوں ہوتے ہوتے کلین شیو ہو گئی۔ میں جب دنیا کی بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں قینچیاں دیکھتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں۔ کیونکہ ایک بار ہٹلر نے توازن بگاڑا تھا تو مونچھ سکڑ کر مکھی مونچھ بن گئی تھی۔ اگر اب توازن بگڑ گیا تو پھر دنیا کو کلین شیو ہونے سے کوئی نہ بچا سکے گا۔

(ختم شد)
 

خرم

محفلین
ویسے یہ تو درست ہے کہ مونچھیں تراشنا ایک فن ہے۔ اور یہ قدر تو مجھ میں اور ڈاکٹر یونس بٹ میں مزید مشترک نکل آئی کہ ہم دونوں‌ہی اپنی مونچھوں کو ڈرتے ڈرتے قینچی لگاتے ہیں۔:)
 

شمشاد

لائبریرین
اب آپ کی مونچھوں والی تصویر دیکھوں تو کچھ عرض کروں،
کسی کو ڈرانے کے کام بھی آ سکتی ہے کہ نہیں؟
شیر والی تصویر سے تو اب بچے بھی نہیں ڈرتے۔
 

خرم

محفلین
نہ جی ڈرتے تو بالکل بھی نہیں۔ ہم کوئی ڈراؤنے ہیں‌بھلا:)
ماشاء اللہ بچوں کے تو ہم پسندیدہ ہیں۔:cool:
 

تیشہ

محفلین
مونچھیں آپ کے بُرے وقت کی ساتھی ہیں، آپ کسی کی گردن نہیں مروڑ سکتے تو اپنی مونچھیں مروڑ کر غصہ نکال سکتے ہیں۔ آپ پریشان ہیں، کسی کا انتظار کر رہے ہیں تو ان پر ہاتھ پھیرکر وقت گزار لیں۔ آپ کو باغبانی کا شوق ہے تو مونچھوں کی پرورش اور کانٹ چھانٹ کر کے اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں۔ مونچھیں تو مردوں کا ایکسلریٹر ہیں، اس لئے وہ لڑنے سے پہلے مونچھوں کو بل دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


zzzbbbbnnnn.gif
 

شمشاد

لائبریرین
باجو یہ آپ کے لیے تھوڑا ہی ہے، اگر آپ کی صنف پر ایسا وقت آئے تو مونچھوں کی جگہ چوٹی (گُت) پر اپنا غصہ نکال سکتی ہیں۔
 

تیشہ

محفلین
باجو یہ آپ کے لیے تھوڑا ہی ہے، اگر آپ کی صنف پر ایسا وقت آئے تو مونچھوں کی جگہ چوٹی (گُت) پر اپنا غصہ نکال سکتی ہیں۔




mood-emoticons-smileys12.gif

میرے ابھی اتنے لمبے بال نہیں ہوئے کہ گتُ بن سکے ۔ ۔:( جب سے سوئیزر لینڈ سے واپس آئی ہوں ابھی تک کٹینگ نہیں کرائی بڑھا رہی ہوں ۔۔ اب کچھ ذرا سے بڑھے ہیں ۔۔ ۔مگر گتُ پھر بھی نہیں
sssss.gif


یہ پڑھکر مجھے ہنسی آگئی تھی ۔۔ جب میری بات طے ہوئی تو سب گھر والے لڑکے کو دیکھنے ملنے گئے ۔۔ ۔ میرے بڑے بہنوئی کا تبصرہ یہ تھا '' لڑکے کو دیکھ کر کہ '' منہ نکا ِ تے مونچھاں وڈیاں ۔۔ ۔ ۔
zzzbbbbnnnn.gif

مجھ سے سب بولیں اسے کہو مونچھیں ٹھیک سے رکھو رکھنے کا اتنا ہی شوق اگر ہے ورنہ کاٹ دو منہ کا پتا ہی نہیں چلتا کہاں ہے ؟ اور کیسا ہے :(
sssss.gif
 

خرم

محفلین
یہ تو آپ نے قصہ ماضی سُنایا باجو۔ یہ بتایا ہی نہیں کہ پھر آپ نے یہ فرمائش کی یا نہیں؟ اور اگر کی تو اس کا نتیجہ کیا نکلا؟:rolleyes:
 

تیشہ

محفلین
نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے پہل میں نے بڑے پیار سے سمجھایا اتنی بڑی بڑی مونچیں سوٹ نہیں کرتیں ذرا سا تراش خراش کر چھوٹا کرلیں تاکے منہ تو نظر آئے ۔ :( مگر کوئی اثر نہیں کہ جدی مونچھ ُ نہیں تے کچھُ نہیں ۔۔۔
مگر مجھے سب کہیں کہ اسکا منہ نظر نہیں آتا بندے کو مونچھ ہی رکھنی ہے تو طریقے سلیقے سے تو ہو :confused:
پھر اک دن سوتے میں ۔ ۔۔ میں نے قینچی چلا کر بڑے پیار و محبت سے اک طرف کی مونچھ ُ تراش ڈالی ۔۔۔
باقی کی انہوں نے خود تراش خراش کرلی ۔ پھر سب ٹھیک ہوگیا ۔ ۔منہ بھی ۔۔ اور مونچھُ بھی ۔۔۔

sssss.gif
 

تیشہ

محفلین
جی بلکل مجھ سے ایسی ہی امید کی جاسکتی ہے ۔ جب بیوی اپنے شوہر کے رنگ میں خود کو ڈھال لیتیں ہیں اسکی پسند کے کپڑے ۔۔ اسکی پسند کے رنگ ۔ ۔۔ اسکی پسند کے پکوان ۔۔ ۔ اسکی پسند میں بیوی کی پسند ۔۔ تو پھر اتنا تو بیوی کا بھی حق بنتا ہے ناں ۔ ۔۔ ۔ ؟ مونچھ ُ رکھی جائے تو اسکو تراش خراش اس طرح کی ہونی چاہئیے کہ دیکھنے میں اچھی لگے ۔۔۔ ناں کہ منہ ہی ڈھانپ لے ۔



sssss.gif
 

زیور

محفلین
سلام

اچها پچهلے وقتوں میں دو طرح کے مونچھ هواکرتے تهے
اک تو اسٹالن طرز کے بڑے بڑے مونچھ جو اوپر کے ہونٹ
چھپا کر رکھتے تہے یہ زیادہ تر کمیونسٹ یا کمیونسٹ
پسند حضرات رکھا کرتے تھے دیکھنے میں بڑے روب داب والے
لیکن اپنے ھاں چونکہ دال دلیا بھی کھایا جاتاہے سو وه اک عجیب سی
صورت بن جاتی تهی.
اک اسٹائل میاں ھٹلر کا تها وه ایسا لگتا تها جیسے کوی بڑی سی
مکهی یا افریقن نسل کی تتلی اوپری هونٹ پر بیٹهی ہوی هے
اور انتظار کررہی هے کہ دیکھو کب نزلہ زکام شدت اختیار کرلیتے
ہیں اور کب ناک سے جوے نمکین جاری هوتے ہیں
لیکن ان مونچہوں کی خوبی یہ تهی کہ نہ لوگ یہ اعتراض کرسکتے تھے
کہ صاحب زادے کے مونہہ کے حدود اربعہ نظر نہں اتے
اور نہ ہی بیویوں کو راتوں میں حجام بننا پڑتا
بس ایک قسم کی بقاے باہمی کی فضا بن جاتی جس میں لوگ
بجاے خانہ جنگی کے بین الاقوامی قسم کے لڑایاں لڑنے کے لئے
فارغ بلکہ فارغ البال ہوتے.
 

تیشہ

محفلین
:grin:
بالکل بجا ارشاد باجو۔ (بیگم تو نہیں سُن رہیں کہیں):cool:




سنُ بھی لیں تو بچاری کر بھی کیا لے گئیں ۔ ۔ :confused:؟ آپ شوہروں نے تو بیوی بچاری کو بدنام کر رکھا ہے خواہمخواہ کا ڈر ۔ ۔ ۔بھلے نا بھی ڈر ہو ۔ ۔۔ خود گھر میں بھلے شیر ہی ہوتے ہو :grin: پر دوسروں کے سامنے یہ ظاہر کرنا کہ ہمیں تو بہت ڈر ہے ۔

sssss.gif
 
Top