موچی سے سر سِلاتے ہیں!!

اعتراض کرنا عشق کی علامت ہے، اور 'عشق کی علامت' خود علالت کا نام ہے۔ معترض مرد ہو کہ عورت، اعتراض ہمیشہ مذکر رہتا ہے۔ یعنی کھڑا رہتا ہے۔ لوگ اسے جگرسوزی کا ردِ عمل سمجھتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جگرسوزی کوئی عمل نہیں! ایک جگہ کسی پر تنقید کرتے ہوئے حضرتِ جوش ملیح آبادی نے فرمایا تھا کہ غیرشاعر کا شاعر پر تنقید کرنا ظلم ہے۔ شاعر کی دنیا مختلف ہوتی ہے۔ اسکے خیالات مختلف دھارے پر بہتے ہیں اور وہ جہانِ خداداد کو اوچھی ترچھی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اس لیے شاعری پر تنقید کرنے کے لیے معترض کا شاعر ہونا از نظرِ جوش واجب ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے پر اعتراض کرنے کے لیے معترض کا کم از کم انسان ہونا ضروری ہے۔ پھر آج تک شعرا سے زیادہ معاشرے کو باریک بینی سے کس نے دیکھا ہے! اس معاملے میں میرا اپنا طریقہ ہے۔ بقول یوسفی نیکی کا کام ایسے کرتا ہوں جیسے عیب ہو۔ معاشرے پر اعتراض اگر شاعر کی طرف سے ہو تو اسے یقینا جگرسوزی کہا جائے گا۔ تخلص کا دم چھلا لگانے والے حضرات لطیف مزاج و دلسوز ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ شاعر ہوں۔ انسانیت کے لیے دلسوزی یقینا نیکی کا کام ہے۔ اس بات کے تو مسلمان بھی منکر نہیں۔
عرض مطلب تھا کہ آج کل لوگوں میں ایک عجیب سی وبا منتشر ہو گئی ہے۔ یعنی قلم سے ازاربند ڈال لیتے ہیں اور ازاربند ڈالنے والے کو تراش کر اس سے خطاطی کرتے ہیں۔ حضرتِ علامہ سے کہتے ہیں آپ ہمیں دنیا کی ترقی کی راہیں دکھائیے اور علوم تجربی کے علم برداروں کو کہتے ہیں کہ ذرا "میٹا فیزکس" کے ذریعے بات سمجھائیے۔ شاعروں کے نظریات سے دین اخذ کر لیتے ہیں۔ تاریخ دانوں سے "ماڈرن ہسٹری" کے بارے میں دریافت کرتے ہیں! ہر انسان کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح ہر فن کے اکابر کو اپنے فرقے سے منسوب کر لے۔ پزشک جراحوں سے توقع رکھتے ہیں ھوالشافی پڑھ کر پھونک دیں۔ اور بقول ہمارے والدِ بزرگوار کے موچی سے سر سلاتے ہیں!!
 
اعتراض کرنا عشق کی علامت ہے، اور 'عشق کی علامت' خود علالت کا نام ہے۔ معترض مرد ہو کہ عورت، اعتراض ہمیشہ مذکر رہتا ہے

بہت خوب :)
بہت شگفتہ تحریر
لطف آیا پڑھ کر شاد و آباد رہیں
 
اعتراض کرنا عشق کی علامت ہے، اور 'عشق کی علامت' خود علالت کا نام ہے۔ معترض مرد ہو کہ عورت، اعتراض ہمیشہ مذکر رہتا ہے

بہت خوب :)
بہت شگفتہ تحریر
لطف آیا پڑھ کر شاد و آباد رہیں

آپ کی نیک تمناؤں کا شکریہ۔ خوش رہیے۔
 
قلم سے ازار بند ڈالنے پر کسی مسخرے کی بات یاد آئی کہ ہمارے یہاں لوگ دانت مانجنے والے برش کو کئی کئی سال استعمال کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اس کے سارے دندانے مڑ کر پست ہو جاتے ہیں۔ اس کی جان پھر بھی نہیں چھوڑتے اور مشینوں میں تیل لگانے یا رنگ روغن کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب بے چارہ برش اس کام کے لیے بھی ناکارہ ہو جاتا ہے تو اس کا ٹیڑھا حصہ تراش کر بقیہ کو ازار بند ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ :) :) :)
 
قلم سے ازار بند ڈالنے پر کسی مسخرے کی بات یاد آئی کہ ہمارے یہاں لوگ دانت مانجنے والے برش کو کئی کئی سال استعمال کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اس کے سارے دندانے مڑ کر پست ہو جاتے ہیں۔ اس کی جان پھر بھی نہیں چھوڑتے اور مشینوں میں تیل لگانے یا رنگ روغن کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب بے چارہ برش اس کام کے لیے بھی ناکارہ ہو جاتا ہے تو اس کا ٹیڑھا حصہ تراش کر بقیہ کو ازار بند ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ :) :) :)

عجیب بات ہے جبکہ ہم سے گئے گزرے بھی اب 20 25 دن بعد برش کو ڈسٹبن کی نذر کر دیتے ہیں۔ ہاں البتہ اس سے ہمیں یہ بات یاد آ گئی کہ کسی زمانے میں ہمارے نئے 'ٹی شرٹس' کو پوچا بنا کر سالوں تک استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے دوگنا زیادہ جسے ہم پہن کر استعمال کر لیتے!
 
قلم سے ازار بند ڈالنے پر کسی مسخرے کی بات یاد آئی کہ ہمارے یہاں لوگ دانت مانجنے والے برش کو کئی کئی سال استعمال کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اس کے سارے دندانے مڑ کر پست ہو جاتے ہیں۔ اس کی جان پھر بھی نہیں چھوڑتے اور مشینوں میں تیل لگانے یا رنگ روغن کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب بے چارہ برش اس کام کے لیے بھی ناکارہ ہو جاتا ہے تو اس کا ٹیڑھا حصہ تراش کر بقیہ کو ازار بند ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ :) :) :)
انڈیا میں بھی ایسا ہوتا ہے ؟ :)
 
عجیب بات ہے جبکہ ہم سے گئے گزرے بھی اب 20 25 دن بعد برش کو ڈسٹبن کی نذر کر دیتے ہیں۔ ہاں البتہ اس سے ہمیں یہ بات یاد آ گئی کہ کسی زمانے میں ہمارے نئے 'ٹی شرٹس' کو پوچا بنا کر سالوں تک استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے دوگنا زیادہ جسے ہم پہن کر استعمال کر لیتے!
کیا یاد دلا دیا :)
 
حضرت آپ کے زمانے میں بھی شفیق مائیں اپنے بچوں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتی تھیں؟!
بہت سی یادیں ہیں جو ماں جی سے وابستہ ہیں :)
اگر ہمارے پسندیدہ کپڑے کثرت استعمال کے باعث بوسیدہ ہو جاتے اور ہم پھر بھی ان کو پہننے سے باز نہ آتے تو ان کے ساتھ یہ ہی سلوک کیا جاتا تھا
 
عجیب بات ہے جبکہ ہم سے گئے گزرے بھی اب 20 25 دن بعد برش کو ڈسٹبن کی نذر کر دیتے ہیں۔ ہاں البتہ اس سے ہمیں یہ بات یاد آ گئی کہ کسی زمانے میں ہمارے نئے 'ٹی شرٹس' کو پوچا بنا کر سالوں تک استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے دوگنا زیادہ جسے ہم پہن کر استعمال کر لیتے!
انڈیا میں بھی ایسا ہوتا ہے ؟ :)

اس بات کا تعلق کسی مخصوص ملک سے نہیں۔ دیہاتوں میں جہاں وسائل کی قلت ہو اور لوگ حفظان صحت کے اصولوں سے نا بلد ہوں وہاں ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ ویسے خیال رکھیں کہ یہ ایک مسخرے کا بڑھا چڑھا کر پیش کردہ لطیفہ ہے۔ :) :) :)
 
بہت سی یادیں ہیں جو ماں جی سے وابستہ ہیں :)
اگر ہمارے پسندیدہ کپڑے کثرت استعمال کے باعث بوسیدہ ہو جاتے اور ہم پھر بھی ان کو پہننے سے باز نہ آتے تو ان کے ساتھ یہ ہی سلوک کیا جاتا تھا

ہاں لیکن آپ کے زمانے سے ہمارے موجودہ زمانے تک آتے آتے ماؤں میں اتنی تبدیلی ضرور آئے ہے کہ پہلے بوسیدہ کپڑوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا تھا اب اس کی تفریق ختم کر دی گئی ہے!!
 
اس بات کا تعلق کسی مخصوص ملک سے نہیں۔ دیہاتوں میں جہاں وسائل کی قلت ہو اور لوگ حفظان صحت کے اصولوں سے نا بلد ہوں وہاں ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ ویسے خیال رکھیں کہ یہ ایک مسخرے کا بڑھا چڑھا کر پیش کردہ لطیفہ ہے۔ :) :) :)

جناب من۔ مسخروں کی باتیں بڑی قیمتی ہوا کرتی ہیں۔ انہوں نے دنیا کو بہت نزدیک سے دیکھا ہوتا ہے۔
 
Top