مہدی نقوی حجاز
محفلین
خوبصورت تحریر بھیا۔ آپ پر اللہ کی سلامتی ہو
تعریف کے لیے ممنون ہوں۔ نیک تماناؤں کے لیے شکریہ!
خوبصورت تحریر بھیا۔ آپ پر اللہ کی سلامتی ہو
تاریخ دانوں سے "ماڈرن ہسٹری" کے بارے میں دریافت کرتے ہیں! ہر انسان کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح ہر فن کے اکابر کو اپنے فرقے سے منسوب کر لے۔ پزشک جراحوں سے توقع رکھتے ہیں ھوالشافی پڑھ کر پھونک دیں۔ اور بقول ہمارے والدِ بزرگوار کے موچی سے سر سلاتے ہیں!!
ماشاءاللہ۔ خوب لکھتے ہیں آپ اور موضوع بھی خوب چُنتے ہیں۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
لاجواب مہدی نقوی حجاز بھائی۔ کوزے میں دریا قید کرنے کی کئی مثالیں سنی تھیں۔ آج 8 سطروں میں معاشرت کے ہر زاویہ ، ہر سمت، ہر سوچ کا احاطہ پہلی مرتبہ دیکھا۔ ڈھیر ساری دعائیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
آداب بجا لاتا ہوں محترم۔ ذرہ نوازی سے بیش نہیں!
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس درجہ اعلیٰ فکر سے مفت میں فیض یاب ہو رہے ہیں اللہ خوش رکھے ہمیشہ۔
انشااللہ۔ جناب اسے آپ ہماری خوش نصیبی سمجھیے کہ دنیا میں ہم سے شاعروں بلکہ کسی بھی شاعر کو یہیں سنا جاتا ہے۔ البتہ سنا تو سب جگہ جاتا ہے لیکن نوازا یہاں جاتا ہے!
خوبصورت تحریر ہے۔
مزید کی فرمائش ہے۔
گو اس موضوع سے وابستہ نہیں ہے لیکن نہ جانے کیوں یہ نقل آپ تک پہنچانے کو مَن کررہا ہے۔اعتراض کرنا عشق کی علامت ہے، اور 'عشق کی علامت' خود علالت ہی کا نام ہے۔ معترض مرد ہو کہ عورت، اعتراض ہمیشہ مذکر رہتا ہے۔ یعنی کھڑا رہتا ہے(حضور بڑا ذومعنی فقرہ ہے)۔ لوگ اسے جگرسوزی کا ردِ عمل سمجھتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جگرسوزی کوئی عمل نہیں! ایک جگہ کسی پر تنقید کرتے ہوئے حضرتِ جوش ملیح آبادی نے فرمایا تھا کہ غیرشاعر کا شاعر پر تنقید کرنا ظلم ہے۔ شاعر کی دنیا مختلف ہوتی ہے۔ اسکے خیالات مختلف دھارے پر بہتے ہیں اور وہ جہانِ خداداد کو اوچھی ترچھی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اس لیے شاعری پر تنقید کرنے کے لیے معترض کا شاعر ہونا از نظرِ جوش واجب ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے پر اعتراض کرنے کے لیے معترض کا کم از کم انسان ہونا ضروری ہے۔ پھر آج تک شعرا سے زیادہ معاشرے کو باریک بینی سے کس نے دیکھا ہے! اس معاملے میں میرا اپنا طریقہ(شعار) ہے۔ بقول یوسفی نیکی کا کام ایسے کرتا ہوں جیسے عیب ہو۔ معاشرے پر اعتراض اگر شاعر کی طرف سے ہو تو اسے یقینا جگرسوزی کہا جائے گا۔ تخلص کا دم چھلا لگانے والے حضرات لطیف مزاج و دلسوز ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ شاعر ہوں۔ انسانیت کے لیے دلسوزی یقینا نیکی کا کام ہے۔ اس بات کے تو مسلمان بھی منکر نہیں۔ (اس حقیقت کو تو کوئی مسلمان نظر انداز نہیں کرسکتا ہے)
عرض مطلب تھا کہ آج کل لوگوں میں ایک عجیب سی وبا منتشر(درایں مقام پھیلنا قرین قیاس است) ہو گئی ہے۔ یعنی قلم سے ازاربند ڈال لیتے ہیں اور ازاربند ڈالنے(سے مؤقلم میں جو گھساو آجاتا ہے اس کو تیز دھار آلے سے تراش خراش کر اس کی نوک پلک سنوار کراس سے خطاطی کرتے ہیں) والے کو تراش کر اس سے خطاطی کرتے ہیں۔ حضرتِ علامہ سے کہتے ہیں آپ ہمیں دنیا کی ترقی کی راہیں دکھائیے اور علوم تجربی(تجربی بہت اچھی ترکیب ہے) کے علم برداروں کو کہتے ہیں کہ ذرا "میٹا فیزکس" کے ذریعے بات سمجھائیے۔ شاعروں کے نظریات سے دین اخذ کر لیتے ہیں۔ تاریخ دانوں سے "ماڈرن ہسٹری" کے بارے میں دریافت کرتے ہیں! ہر انسان کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح ہر فن کے اکابر کو اپنے فرقے سے منسوب کر لے۔ پزشک جراحوں سے توقع رکھتے ہیں ھوالشافی پڑھ کر پھونک دیں۔ اور بقول ہمارے والدِ بزرگوار کے موچی سے سر سلاتے ہیں!!
گو اس موضوع سے وابستہ نہیں ہے لیکن نہ جانے کیوں یہ نقل آپ تک پہنچانے کو مَن کررہا ہے۔
دلی میں مشاعرہ ہورہا تھا کسی شاعر نے مصرع طرع باندھ دیا
رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں
کافی دیر گزر گئی کوئی بھی موزوں و مناسب مصرعہ نہ باندسکا اچانک ایک من چلا اٹھا اور باآوز بلند کہا
سنا ہے دلی میں چند الو کے پٹھے
رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں
بہت عمدہ لکھا ہے بھائی۔۔۔ ۔۔
بہت اچھی تحریر ہے۔۔۔ ۔خوش رہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
شاندار مہدی بھائی بہت شاندار بہت اچھا لکھا ہے ۔۔
۔۔پڑھ کے طبیعت خوش ہو گئی ۔۔۔
۔۔ڈھیر وں دعائیں۔۔۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
واہ جناب خوب لکھا،اعتراض کرنا عشق کی علامت ہے، اور 'عشق کی علامت' خود علالت کا نام ہے۔ معترض مرد ہو کہ عورت، اعتراض ہمیشہ مذکر رہتا ہے۔ یعنی کھڑا رہتا ہے۔ لوگ اسے جگرسوزی کا ردِ عمل سمجھتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جگرسوزی کوئی عمل نہیں! ایک جگہ کسی پر تنقید کرتے ہوئے حضرتِ جوش ملیح آبادی نے فرمایا تھا کہ غیرشاعر کا شاعر پر تنقید کرنا ظلم ہے۔ شاعر کی دنیا مختلف ہوتی ہے۔ اسکے خیالات مختلف دھارے پر بہتے ہیں اور وہ جہانِ خداداد کو اوچھی ترچھی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اس لیے شاعری پر تنقید کرنے کے لیے معترض کا شاعر ہونا از نظرِ جوش واجب ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے پر اعتراض کرنے کے لیے معترض کا کم از کم انسان ہونا ضروری ہے۔ پھر آج تک شعرا سے زیادہ معاشرے کو باریک بینی سے کس نے دیکھا ہے! اس معاملے میں میرا اپنا طریقہ ہے۔ بقول یوسفی نیکی کا کام ایسے کرتا ہوں جیسے عیب ہو۔ معاشرے پر اعتراض اگر شاعر کی طرف سے ہو تو اسے یقینا جگرسوزی کہا جائے گا۔ تخلص کا دم چھلا لگانے والے حضرات لطیف مزاج و دلسوز ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ شاعر ہوں۔ انسانیت کے لیے دلسوزی یقینا نیکی کا کام ہے۔ اس بات کے تو مسلمان بھی منکر نہیں۔
عرض مطلب تھا کہ آج کل لوگوں میں ایک عجیب سی وبا منتشر ہو گئی ہے۔ یعنی قلم سے ازاربند ڈال لیتے ہیں اور ازاربند ڈالنے والے کو تراش کر اس سے خطاطی کرتے ہیں۔ حضرتِ علامہ سے کہتے ہیں آپ ہمیں دنیا کی ترقی کی راہیں دکھائیے اور علوم تجربی کے علم برداروں کو کہتے ہیں کہ ذرا "میٹا فیزکس" کے ذریعے بات سمجھائیے۔ شاعروں کے نظریات سے دین اخذ کر لیتے ہیں۔ تاریخ دانوں سے "ماڈرن ہسٹری" کے بارے میں دریافت کرتے ہیں! ہر انسان کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح ہر فن کے اکابر کو اپنے فرقے سے منسوب کر لے۔ پزشک جراحوں سے توقع رکھتے ہیں ھوالشافی پڑھ کر پھونک دیں۔ اور بقول ہمارے والدِ بزرگوار کے موچی سے سر سلاتے ہیں!!