طارق شاہ
محفلین
اب کہاں زمانے میں دُوسرا جواب اُن کا
فصلِ حُسن ہے اُن کی، موسمِ شباب اُن کا
اوج پر جمال اُن کا، جوش پر شباب اُن کا
عہدِ ماہتاب اُن کا، دَورِ آفتاب اُن کا
عرضِ شوق پر میری پہلے کُچھ عتاب اُن کا
خاص اِک ادا کے ساتھ اُف وہ پِھر حجاب اُن کا
رنگ و بُو کی دُنیا میں اب کہاں جواب اُن کا
عِشق فرشِ بزم اُن کا، حُسن فرشِ خواب اُن کا
ہم سے پُوچھ اے ناصح ! دِل گرفتگی اُن کی
ہم نے چُھپ کے دیکھا ہے عالمِ پُر آب اُن کا
پُھول مُسکراتے ہیں، دِل پہ چوٹ پڑتی ہے
ہائے وہ رُخِ خنداں، اُف رے وہ شباب اُن کا
یونہی کُھلتے جاتے ہیں حُسن و عِشق کے اسرار
اِک نفس سوال اپنا ، اِک نفس جواب اُن کا
کیا اِسی کو کہتے ہیں ربط و ضبطِ حُسن و عشق!
شوقِ نارسا اپنا، نازِ کامیاب اُن کا
اِس طرح سے ہُوں غارت، ہائے عشق کی غفلت!
جاں ، کہ ہے صدا اُن کی، دِل کہ ہے رُباب اُن کا
رنگ و بُو کے پردے میں کون پُھوٹ نِکلا ہے؟
چُھپ سکا چُھپائے سے کیا کہِیں شباب اُن کا
ضبط کا جنھیں دعویٰ عِشق میں رہا اکثر
ہم نے حال دیکھا ہے بیشتر خراب اُن کا
اور کِس کی یہ طاقت، اور کِس کی یہ جُرأت
عِشق ،آپ آڑ اپنی، حُسن خود حجاب اُن کا
کہیے حالِ دِل لیکن، دیکھیے کِن آنکھوں سے
ہر سُکوں کے پردے میں حشرِ اِضطراب اُن کا
عِشق ہی کے ہاتھوں میں کُچھ سکت نہیں رہتی
ورنہ چیز ہی کیا ہے گوشۂ نقاب اُن کا
جیسے حُسن کی دیوی جھانکتی ہو چِلمن سے
نیم وا سی آنکھوں میں ، اُف وہ کیفِ خواب اُن کا
عرضِ غم نہ کر اے دل! دیکھ ہم نہ کہتے تھے
رہ گئے وہ "اُٹھ" کہہ کر، سُن لِیا جواب اُن کا
تُو جگؔر جو رُسوا ہے، تُو ہی آہ رُسوا رہ
نام تو نہ کر رُسوا خانماں خراب اُن کا
تُو جگؔر سے مستوں پر طعن نہ کر اے واعظ !
تُو غرِیب کیا جانے مسلکِ شراب اُن کا
.
جِگؔر مُرادآبادی
آخری تدوین: