طارق شاہ
محفلین
ذرّوں سے باتیں کرتے ہیں، دِیوار و دَر سے ہم
وابستہ کِس قدر ہیں ، تِری رہگُذر سے ہم
دیکھا جہاں بھی حُسن، وہیں لَوٹ ہو گئے!
تنگ آ گئے ہیں اپنے مزاجِ نظر سے ہم
چھیڑَیں کسی سے، اور ہمارے ہی سامنے!
لڑتے ہیں دِل ہی دِل میں، نَسِیمِ سَحر سے ہم
اِتنی سی بات پر ہے بس اِک جنگِ زرگری
پہلے اُدھر سے بڑھتے ہیں وہ، یا اِدھر سے ہم
کیونکر نہ ہو نِظامِ دوعالَم میں ابتری
کُچھ بے خبر سے آپ ہیں، کُچھ بے خبر سے ہم
حیرت خود ایک محشَرِ خاموش بن گئی
بچ کر چلے تھے فتنۂ شام و سَحر سے ہم
ذرّوں کو حُسن و عِشق سے معموُر کردِیا
دامن فشاں گُذر گئے جِس رہگُذر سے ہم
کوئی حَسِیں حَسِیں ہی ٹھہرتا نہیں، جِگؔر !
باز آئے اِس بُلندئ ذَوقِ نظر سے ہم
جِگؔرمُرادآبادی