مُضطرخیرآبادی ::::: نہ کسی کی آنکھ کا نُور ہُوں، نہ کسی کے دِل کا قرار ہُوں ::::: Muztar Khairabadi

طارق شاہ

محفلین

غزل



نہ کسی کی آنکھ کا نُور ہُوں، نہ کسی کے دِل کا قرار ہُوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غُبار ہُوں

میں نہیں ہُوں نغمۂ جاں فِزا، مجھے سُن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہُوں صدا، میں بڑے دُکھی کی پُکار ہُوں

میرا رنگ رُوپ بِگڑ گیا، مِرا یار مجھ سے بِچھڑ گیا
جو چمن خِزاں سے اُجڑ گیا، میں اُسی کی فصلِ بہار ہُوں

پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پُھول چڑھائے کیوں
کوئی آکے شمع جَلائے کیوں میں وہ بے کسی کا مزار ہُوں

نہ میں مُضطر اُن کا حبِیب ہُوں، نہ میں مُضطر اُن کا رقِیب ہُوں
جو بِگڑ گیا وہ نصیب ہُوں، جو اُجڑ گیا وہ دیار ہُوں


مُضطرخیرآبادی
(شاعر جانثار اختر کے والد)
http://search.jang.com.pk/JangDetail.aspx?ID=206605
 
ایک معروف پبلشنگ کمپنی (شاید فیروزسنز) نے مشہور شعراء کے کلام سے انتخاب بچوں کے لیے شائع کیا تھا جس میں یہ غزل بہادر شاہ ظفر کے کلام میں شائع تھی۔ یقینا" غلطی سے چھپی ہوگی۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک معروف پبلشنگ کمپنی (شاید فیروزسنز) نے مشہور شعراء کے کلام سے انتخاب بچوں کے لیے شائع کیا تھا جس میں یہ غزل بہادر شاہ ظفر کے کلام میں شائع تھی۔ یقینا" غلطی سے چھپی ہوگی۔
یہ غزل بہادر شاہ ظفر کے نام سے ہی مشہور لیکن پہلے بھی اس پر شک کیا گیا تھا، اور اب جاوید اختر نے اپنے دادا مضطر خیر آبادی کی کلیات چھپوائی ہے تو خود ان کو علم ہوا کہ یہ غزل ان کے دادا کے اپنے ہاتھ سے ان کی بیاض میں لکھی ہوئی ملی تھی۔
 
Top