متنازعہ افغان قانون: سماجی مسئلہ مذہبی رنگ
اسلام ازدواجی زندگی میں کسی زبردستی کی اجازت نہیں دیتا۔ افغانستان میں زیر بحث متنازعہ قانون کا تعلق اسلام کے کسی مسلک سے نہیں بلکہ یہ سراسر سماجی معاملہ ہے۔
افغان حکام کے مطابق افغانستان کی پارلیمان میں زیر بحث مذکورہ متنازعہ قانون کا تعلق شعیہ اقلیت سے ہے۔ افغانستان جیسے پدر سری، قدیم اور دقیانوسی روایات پرمشتمل قبائلی معاشرے میں بیوی کو شوہر کی جنسی خواہشات پوری کرنے کے لئے قانونی طور پر پابند کرنے کے عمل کو کسی مکتب فکر یا مسلک یا پھر فقہ سے منسوب کرنا کہاں تک حق بجانب ہے؟ کیا فقہ جعفریہ میں واقعی ایسے قوانین پائے جاتے ہیں۔
اس بارے میں ڈوئچے ویلے کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے آل انڈیا شعیہ پرسنل لاء بورڈ کے صدر مرزا محمد اطہر نے کہا کہ اسلام دین فطرت ہے اور کسی انسان پر زور زبردستی کی اس دین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عورت کو کنیز کی طرح رکھنا اور اسکے ساتھ جبر و زیادتی کرنا سماجی مسئلہ ہے جسے جابجا مذہب کے سرمنڈھ دیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فقہ جعفریہ سے کسی قانون کو منسوب کرنے سے پہلے شعیہ لاء اور قانون کے جو مرجع تقلید علماء ہیں ان کی ویب سائٹس کھلی ہیں ان پر جا کر دیکھا جا سکتا ہے کہ شعیہ فقہ اس مسئلے کے بارے میں کیا کہتا ہے۔
مرزا محمد اطہر کا کہنا ہے کہ شعیہ قانون اور فقہ ساری دنیا میں ایک ہی ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا اور کسی خاص ملک میں خاص دباؤ اور مسائل کے پیش نظر اگر اس قسم کے فیصلے کیے جاتے ہیں تو اسے فقہ جعفریہ سے جوڑ دینا فسق اور غیر مناسب عمل ہے۔ مرزا محمد اطہر نے کہا کہ شعیہ اور سنی فقہ سے قطع نظر اسلام میں بیوی کو شوہر کی خواہشات کا احترام کرنے کو کہا گیا ہے تاہم اس کی غلط تشریح کرنا نا مناسب عمل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نکاح اور طلاق جیسے اہم معا ملات کے بارے میں شعیہ اور سنی فقہ میں چند فقہی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثلا سنی مذہب میں نکاح کے لئے گواہ لازمی ہے اور طلاق کے لئے گواہ کی ضرورت نہیں جبکہ فقہ جعفریہ کے مطابق نکاح بغیر گواہ کے ممکن ہے لیکن طلاق کے لئے گواہ لازمی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان جیسے بہت سے پدر سری معاشروں میں بہت سے ایسی فرسودہ روایات پائی جاتی ہیں جن کا تعلق سماجی اور معیشی بد حالی سے ہوتا ہے مثلا بہت کم عمر یا اکثر نابالغ لڑکی کی شادی ستر اسی برس کے شخص کے ساتھ کر دی جاتی ہے جس کی وجہ غربت اور جہالت ہے۔
مرزا محمد اطہر نے مذید کہا بھارت میں بھی ان دنوں ایسے واقعات آئے دن دیکھنے میں آتے ہیں کہ دولت مند عرب معمر مرد بھارت آکربارہ تیرہ برس کی لڑکی سے شادی کر لیتے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد بھاگ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا :’’غر بت کے شکار گھرانوں کی لڑکیاں ماں، باپ، ماموں، چچا، بھائی اوربہنوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس قسم کا نکاح کر لیتی ہیں۔ یہ سب کچھ سماجی دباؤ اور غربت کا نتیجہ ہے۔ نا اسلام اس کی تعلیم دیتا ہے نا ہی اسے کسی فقہ سے منسوب کیا جانا چاہئے۔‘‘
شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذورہیں، مردان خرد مند
کیا چیزہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادئ نسواں کہ زمرد کا گلو بند
بشکریہ ڈوئچے ویلے شعبہ اردو