مُلّا محمد عمر مجاہد- از مفتی منیب الرحمن مدظلہ

مُلّا محمد عمر مجاہد- از مفتی منیب الرحمن مدظلہ

ملا محمد عمر مجاہد ایک افسانوی کردار ہیں اور ایک ایسی حقیقت بھی جس نے اپنے عہد پر گہرے نُقوش ثَبت کیے۔ وہ امریکہ کو مطلوب افرادمیں سرِ فہرست تھے اور ا ن کی نشاندہی کرنے والے کے لیے بھاری انعام مقرر تھا ۔ ان کی زندگی بلاشبہ عزیمت و استقامت سے عبارت تھی ۔ مبینہ طورپر وسط 2013ء میں اُن کا انتقال ہوا۔ اُن کی وفات سے تحریکِ طالبان اور تنظیم کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے اس خبر کو پوشیدہ رکھا گیا ، لیکن ایسا کرنا زیادہ دیر تک ممکن نہ تھا۔ اس خبر کا اِفشاء ہونا تنظیم کے داخلی اختلافات کا مظہر ہے ۔
مُلا محمد عمر مجاہد نے سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حصہ لیا ، زخمی ہوئے اور ایک آنکھ کی بصارت سے محروم ہو گئے ۔ افغانستان سے سوویت یونین کی ہزیمت اور اِنخلاکے بعد َخلاپیدا ہوا اور خانہ جنگی بر پا ہوئی۔ جہادی قائدین کے درمیان اقتدار کی اس جنگ نے مایوسی کو جنم دیا۔ افغانستان کے مختلف علاقے اور اضلاع مختلف وار لارڈز کے کنٹرول میں آ گئے۔ ملک انارکی اور بد امنی کا شکار ہوا۔ جا بجا بھتہ خوری کے لیے چوکیاں بن گئیں اور مبینہ طور پر غیر ِ شرعی و غیر اخلاقی خرابیاں بھی معاشرے میں در آئیں ۔جو مجاہدین محض اللہ کی رضا کے لیے اور وطن کی آزادی کی خاطر باطل اور غاصب قوتوں کے خلاف جہاد کر چکے تھے ، ان کو اس صورتِ حال نے مایوس کردیا ، ملا محمد عمر مجاہد ان میں سے ایک تھے ۔ انہوں نے چند ساتھی جمع کیے اور اِن وار لارڈز کے خلاف بلوچستان کے شہر چمن کے بالمقابل افغانستان کی پہلی چوکی اِسپین بولدک سے جہاد شروع کیا۔ اسے ہم آپریشن کلین اپ سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ۔ عوام اور مجاہدین کی حمایت بدستور انہیں حاصل ہوتی چلی گئی۔ انہوں نے بہت جلد قندھار پر قبضہ کر کے اپنی اِمارت قائم کر دی۔ فوری طور پر شرعی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا اور عوام میں اسے بے حد پذیرائی ملی ۔
اس تحریک کا نام ''تحریکِ طالبان ‘‘ قرار پایا ، مگر بہت جلد یہ افغانستان کی ایک ''نیشنل اسلامسٹ موومنٹ‘‘ میں تبدیل ہوگئی اور بڑے پیمانے پر قبائل اور معاشرے کے دیگر طبقات اس کا حصہ بنتے چلے گئے ۔ چونکہ شرعی عدالتیں ، اسلامی وضع قطع اور شِعار ان کے مزاج سے مناسبت رکھتا تھا ، اس لیے انہیں اس کو قبول کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ۔ جرائم ‘ لُوٹ مار اور بھتہ خوری کا خاتمہ ہوا اور لوگوں نے سُکون کا سانس لیا‘ چنانچہ بہت جلدطالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا اور ''اِمارت ِ اسلامی افغانستان ‘‘کا قیام عمل میں آیا ۔
1996ء میں اِمارتِ اسلامی کے قیام کے ابتدائی دور میں ہمیں بعض دوستوں کی وساطت سے قندھار جانے کا موقع ملا ۔ اس قافلے میںعلامہ غلام دستگیر افغانی ، علامہ غلام محمد سیالوی اور مفتی محمد رفیق حسنی ہمراہ تھے۔ یہ ہمارے لیے ایک مطالعاتی اور معلوماتی دورہ تھا ۔ کراچی سے ہم ہوائی جہاز کے ذریعے کوئٹہ پہنچے اور وہاں سے ویگن کے ذریعے افغانستان کی جانب روانہ ہوئے ۔ چمن سے آگے قندھار تک سڑک نہایت شکستہ تھی ۔ اسپین بولدک سے قندھار تک سڑک کے دائیں بائیں جو قبرستان آتے تھے، ان میں جہادِ آزادی کے شہداء کی قبور پر ہر جگہ چھوٹے چھوٹے رنگین جھنڈے نظر آرہے تھے۔ راستے میں جا بجا ہم نے یہ بھی دیکھا کہ طالبان کے زخمیوں کو عِلاج کے لیے کوئٹہ لے جایا جارہا تھا ۔
ہم رات کو قندھار پہنچے اور ہمارا قیام سرکاری مہمان خانے میں ہوا ۔ ہنگامی حالات تھے ، بجلی دستیاب نہیں تھی ، ہمیں ایک فرشی دسترخوان پر سب کے ہمراہ کھانا کھلایا گیا ، گورنر قندھار بنفسِ نفیس تواضع کر رہے تھے اور یہ ہمارے لیے ایک غیر معمولی منظر تھا۔ اُ س وقت تک کابل فتح ہو چکا تھا ۔
اگلی صبح دن چڑھے ہماری ملاقات مُلّامحمد عمر سے کرائی گئی۔ اِ س ملاقات کاذریعہ ُملّااحمد متوکل تھے۔ یہ جواں عمر تھے ۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ یہ شخص مجھے نہایت ذہین معلوم ہو رہا ہے۔ آگے چل کر وہ اِمارتِ اسلامی افغانستان کے وزیر ِ خارجہ مقرر ہوئے‘ لیکن اس وقت بھی ان کے رُسوخ کا عالم یہ تھا کہ بلا تاخیر ملا محمد عمر سے ہماری ملاقات کا اہتمام کرا دیا ۔ ملا محمد عمر کا دفتر یا دار الامارت قندھار میں ''جامع مسجد خِرقہ مبارک ‘‘ کے بالمقابل ایک عام سی عمارت میں تھا ۔ ان کا دفتر ایک کمرے پر مشتمل تھا اور وہ فرشی قالین پر کسی امتیازی شان کے بغیر بیٹھے ہوئے تھے ۔ ہم بھی ان کے مقابل فرش پر بیٹھ گئے۔ ہمیں ایسی کئی علامات ملیں جن سے عیاں تھا کہ افغانستان پاکستان کے مسلکی خلافیات سے متاثر نہیں ہے ، مثلاً مُلّا عمر کے دفتر کے باہر ایک بورڈ پر ، دفتر میں ایک طغرے پر اور مسجد خرقہ مبارک کے محراب پر یااللہ یا محمد لکھا ہوا تھا ، جبکہ ہمارے ہاں اس سے اختلاف کرنے والے موجود ہیں۔ اس بات کی نشاندہی میں اس لیے کررہا ہوں کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ مسلکی خِلافیات کے حوالے سے ان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں ، کیونکہ علمائے دیوبند کے ساتھ افغانستان کے جہادی قائدین کے روابط زیادہ رہے ہیں اور یہ ان کی ضرورت تھی کہ کوئی ان کی مدد کے لیے آگے بڑھے اور مسلک ِ دیوبند کے علماء و مدارس نے یقینا آگے بڑھ کر ان کی مدد کی اور وہ بجا طور پر اس کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں ، اس کے بر عکس علمائے اہلِ سنت بالعموم جہادِ افغانستان سے لا تعلق رہے ۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ افغان جہاد کے صفِ اول کے رہنماؤں پروفیسر صبغۃ اللہ مجددی ، مولوی محمدنبی محمدی اور سید سعید احمد گیلانی کے علمائے اہلِ سنت کے ساتھ قریبی روابط اور نظریاتی قربت رہی ہے ۔ عبدالرسول سیاف کے نام سے ہی مسلکی تشخص ظاہر ہو رہا ہے ، لیکن بعد میں سلفی اثرات کے تحت انہوں نے اپنے نام کو بدل کر عبدالرب رسول سیاف کردیا۔
ملامحمد عمر مجاہد سے میں نے اپنے وفد کی طرف سے جو مکالمہ کیا، اس کا لب لباب یہ تھا : ان کو ہم نے ان کو کامیابیوں پر مبارکباد پیش کی، ان سے یہ بھی گزارش کی کہ آپ کو اِمارت اسلامی کا امیر المومنین اتفاق رائے سے مقرر کر دیا گیا ہے ، لیکن حکومت کی ایک انتظامی ہیئت تشکیل دیںاور مختلف آئینی عہدوں پر اپنے معتمد افراد کا تقرر کریں تاکہ یہ اہل مَناصِب باقاعدہ سرکاری حیثیت میں اقوام متحدہ اوردنیا بھر کے ممالک سے مکالمہ، اپنی حکومت کی ترجمانی اور اپنی پالیسیوں اور حکمتِ عملی کی وضاحت کر سکیں۔ واضح رہے کہ امریکہ کے زیرِ اثر اقوام متحدہ اُس وقت بھی پروفیسر برہان الدین ربانی کو افغانستان کی حکومت کا آئینی سربراہ تسلیم کر رہی تھی ۔ میں نے ان کے سامنے انقلاب ِ ایران کا حوالہ پیش کیا کہ انہوں نے بہت جلد اپنا دستوری ڈھانچہ مرتب کر لیا اور مختلف سطح کے آئینی ادارے تشکیل دیدیے ۔ بعد میں ملا عمر نے مختلف مَناصب پر علماء کو فائز کر دیا۔ اسی طرح میں نے ان سے کہا کہ چین اور افغانستان سے وسطی ایشیا اور ترکی تک تمام خطہ فقہ حنفی پر کاربندہے اور مسلکی خلافیات سے بچا ہوا ہے‘ لہٰذا اگر آپ افغانستان کو پاک و ہندکی مسلکی خلافیات اور آویزش سے حسبِ سابق بچا کر رکھیں تو یہ افغانستان کی مذہبی وحدت و سالمیت کے لیے انتہائی مفید ہو گا ۔ وہ انتہائی کم گو تھے۔ انہوں نے ہماری گزارشات کو سنا۔ یہی ان کا شِعار تھا۔
طالبان سے قربت رکھنے والے ایک عالم نے بتایا کہ نائن الیون کے اقدامات پر عمل درآمد سے پہلے یہ منصوبہ ملا محمد عمر کے سامنے پیش کیا گیا،انہوں نے علماء سے مشاورت کی، افغانستان کے سر کردہ علماء نے اس کی مخالفت کی ، لیکن بعض عرب علماء نے اس کی تائید کی۔ ملا محمد عمر نے اس کی اجازت نہیں دی‘ لیکن بعد میں یہ حادثہ رونما ہو گیا اور اُمت نائن الیون کے ما بعد اثرات کو آج تک بھگت رہی ہے اور نہ جانے کب تک اسے یہ نتائج بھگتنا پڑیں گے ۔
نائن الیون کے سانحے کے بعد ملا محمد عمر کے سامنے امریکہ کا یہ مطالبہ آیا کہ شیخ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے اہم رہنماؤں کو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے ۔ پاکستان کے حساس ادارے کے ذمے داران تحریکِ طالبان سے قربت رکھنے والے بعض علماء کے ہمراہ ملا محمد عمر سے جا کر ملے اور اُن کے سامنے یہ مطالبہ رکھا ، مگر انہوں نے اسے پذیرائی نہیں بخشی ۔ اس کے نتیجے میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان پر یلغار کردی ۔ یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے آیا اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم کے لوگ ملا محمد عمر پر حاوی ہو چکے تھے یا یہ اتنا ان کے زیر بار احسان تھے کہ انہوں نے بھاری قیمت ادا کرنے کے باوجود اُن سے جفا نہ کی ،آیا ملا عمر اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کر کے اپنی حکومت کو بچا سکتے تھے ، اگر ایسا آپشن اُن کے پاس موجود تھا تو انہوں نے اسے اختیار کیوں نہ کیا؟۔ یہ سوال تاریخ پر قرض ہے اور شایدمناسب وقت پراس کا جواب مل جائے۔ میں نے تحریک طالبان کے بعض اتنہائی اہم ہمدردوں سے ملاقات میں یہ سوال اٹھایا تو انہوں نے جواب دیا: '' امریکہ کا اصل ہدف ''اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ کو گرانا تھا،لہذا یہ سوال محض نظری ہے ، نتائج کے اعتبار سے اس کی اہمیت نہیں ہے۔ چند مواقع پر افغانستان کے طالبان رہنماؤں سے ملاقات ہوئی تو میں نے اُن کے سامنے ''طالبان پاکستان‘‘ کے بارے میں سوال اٹھایا کہ یہ فساد فی الارض کا ارتکاب کر کے اس کا کریڈٹ لیتے ہیں اور پاکستان کے خلاف مسلح خروج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام حرکات ناپسندیدہ ہیں ، ہمارا یہ شعار نہیں ہے ، لیکن ہم اپنی توجہ ایک محاذ پر مرکوز کیے ہوئے ہیں ۔

- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/mufti-muneeb-ul-rehman/2015-08-08/12218/98089847#tab2
 
ہمیں ایسی کئی علامات ملیں جن سے عیاں تھا کہ افغانستان پاکستان کے مسلکی خلافیات سے متاثر نہیں ہے ، مثلاً مُلّا عمر کے دفتر کے باہر ایک بورڈ پر ، دفتر میں ایک طغرے پر اور مسجد خرقہ مبارک کے محراب پر یااللہ یا محمد لکھا ہوا تھا ، جبکہ ہمارے ہاں اس سے اختلاف کرنے والے موجود ہیں۔ اس بات کی نشاندہی میں اس لیے کررہا ہوں کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ مسلکی خِلافیات کے حوالے سے ان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں
یہ ایک بہت اہم خبر ہے کیونکہ پاکستان میں بہت سے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے تھے مگر یہاں صاف ظاہر ہے کہ افغان طالبان اس فرقہ پرستی میں ملوث نہیں تھے۔
چند مواقع پر افغانستان کے طالبان رہنماؤں سے ملاقات ہوئی تو میں نے اُن کے سامنے ''طالبان پاکستان‘‘ کے بارے میں سوال اٹھایا کہ یہ فساد فی الارض کا ارتکاب کر کے اس کا کریڈٹ لیتے ہیں اور پاکستان کے خلاف مسلح خروج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام حرکات ناپسندیدہ ہیں ، ہمارا یہ شعار نہیں ہے ، لیکن ہم اپنی توجہ ایک محاذ پر مرکوز کیے ہوئے ہیں ۔
یہ بات بھی بہت اہم ہے کیونکہ بہت سے لوگ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے طالبان کو افغان طالبان سے ملا دیتے ہیں اور دونوں کو ایک جیسا ثابت کرتے ہیں مگر حقیقت ظاہر ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروہ افغان طالبان نہیں ہیں۔ اسی لئے میں ان کو جعلی طالبان کہتا ہوں۔
 

Fawad -

محفلین
یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے آیا اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم کے لوگ ملا محمد عمر پر حاوی ہو چکے تھے یا یہ اتنا ان کے زیر بار احسان تھے کہ انہوں نے بھاری قیمت ادا کرنے کے باوجود اُن سے جفا نہ کی ،آیا ملا عمر اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کر کے اپنی حکومت کو بچا سکتے تھے ، اگر ایسا آپشن اُن کے پاس موجود تھا تو انہوں نے اسے اختیار کیوں نہ کیا؟۔ یہ سوال تاریخ پر قرض ہے اور شایدمناسب وقت پراس کا جواب مل جائے۔ میں نے تحریک طالبان کے بعض اتنہائی اہم ہمدردوں سے ملاقات میں یہ سوال اٹھایا تو انہوں نے جواب دیا: '' امریکہ کا اصل ہدف ''اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ کو گرانا تھا،لہذا یہ سوال محض نظری ہے ، نتائج کے اعتبار سے اس کی اہمیت نہیں ہے۔

- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/mufti-muneeb-ul-rehman/2015-08-08/12218/98089847#tab2

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

طالبان اور امريکہ کے مابين روابط، معاہدوں اور تعلقات کے حوالے سے جو بے شمار کہانياں اور قياس آرائياں کی جاتی ہيں اس ضمن میں کچھ دستاويزی حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

مجموعی طور پر امريکہ اور طالبان کے درميان 33 مواقعوں پر رابطہ ہوا تھا جس ميں سے 30 رابطے صدر کلنٹن کے دور ميں ہوئے اور 3 رابطے صدر بش کے ۔

اس کے علاوہ طالبان کے ليڈر ملا عمر کی خواہش پر امريکی اہلکاروں کے ساتھ ان کا ايک براہراست رابطہ ٹيلی فون پر بھی ہوا۔ يہ ٹيلی فونک رابطہ 1998 ميں امريکہ کی جانب سے افغانستان ميں اسامہ بن لادن کے اڈوں پر ميزائل حملوں کے محض دو دنوں کے بعد ہوا تھا۔

يہ تمام روابط اور وہ تمام ايشوز جن پر بات چيت ہوئ ريکارڈ پر موجود ہيں۔ ميں ان ميں سے کچھ روابط کی تفصيل يہاں پوسٹ کر رہا ہوں

http://nsarchive.gwu.edu/NSAEBB/NSAEBB134/Doc 2.pdf

اگست 23 1998 کو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے ملا عمر کی اس درخواست پر يہ جواب بھيجا گيا تھا جس ميں ملا عمر نے امريکی حکومت سے اسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت مانگا تھا۔ اس دستاويز ميں امريکی حکومت نے فوجی کاروائ کی توجيہہ، اسامہ بن لادن کے خلاف امريکی کيس اور ان وجوہات کی تفصيلات پيش کيں جس کی بنياد پر طالبان سے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کيا گيا تھا۔ اس دستاويز ميں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئ کہ اسامہ بن لادن کے نيٹ ورک نے امريکی جہاز تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔

http://nsarchive.gwu.edu/NSAEBB/NSAEBB134/Doc 4.pdf

http://nsarchive.gwu.edu/NSAEBB/NSAEBB134/Doc 5.pdf

http://nsarchive.gwu.edu/NSAEBB/NSAEBB134/Doc 6.pdf

http://nsarchive.gwu.edu/NSAEBB/NSAEBB134/Doc 8.pdf

ان دستاويزات ميں ان تضادات کا ذکر موجود ہے جو طالبان کے جانب سے امريکی اہلکاروں کے ساتھ بيانات ميں واضح ہو رہے تھے۔ طالبان کا يہ دعوی تھا کہ ان کے 80 فيصد قائدين اور افغانوں کی اکثريت افغانستان ميں اسامہ بن لادن کی موجودگی کے مخالف تھی۔ ليکن اس کے باوجود طالبان کا يہ نقطہ نظر تھا کہ افغانستان اور مسلم ممالک ميں اسامہ بن لادن کی مقبوليت کے سبب اگر انھيں ملک سے نکالا گيا تو طالبان اپنی حکومت برقرار نہيں رکھ سکيں گے۔

ايک پاکستانی افسر نے پاکستان ميں امريکی سفير وليم ميلام کو بتايا کہ طالبان دہشت گرد اسامہ بن لادن سے جان چھڑانا چاہتے ہيں اور اس ضمن میں 3 آپشنز ان کے سامنے ہيں۔ اس افسر کا اصرار تھا کہ اس ميں آپشن نمبر 2 سب سے بہتر ہے جس کے توسط سے امريکہ اسامہ بن لادن کو طالبان سے ايک بڑی رقم کر عوض "خريد" لے۔ دستاويز کے مطابق طالبان کے مطابق اسامہ بن لادن کو نکالنے کی صورت ميں ان کی حکومت ختم ہو جائے گی کيونکہ پختون قبائلی روايت کے مطابق اگر کوئ پناہ مانگے تو اس کو پناہ دينا لازم ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
[
 

Fawad -

محفلین
یہ بات بھی بہت اہم ہے کیونکہ بہت سے لوگ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے طالبان کو افغان طالبان سے ملا دیتے ہیں اور دونوں کو ایک جیسا ثابت کرتے ہیں مگر حقیقت ظاہر ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروہ افغان طالبان نہیں ہیں۔ اسی لئے میں ان کو جعلی طالبان کہتا ہوں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس دليل ميں وزن ہوتا اگر ان کے عوامی بيانات اور ان کے اعمال ميں فرق ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے آپ کے مفروضے کے برخلاف حقیقت اس سے مختلف ہے۔ چاہے ان کے ليڈر جيسے مولوی نذير کے انٹرويو ہوں، ان کے ترجمان مسلم خان کے بيانات ہوں يا پھر ان کی پراپيگنڈہ ويڈيوز ہوں جن ميں سر قلم کرنے کے غير انسانی مناظر موجود ہیں۔ ان کا پيغام واضح اور صاف ہے۔

يہ بات باعث حيرت ہے کہ کچھ تجزيہ نگار اور رائے دہندگان اب بھی افغانستان ميں متحرک مسلح گروہوں کے مقاصد اور ارادوں کے حوالے سے اپنی سوچ اور نظريات ميں ابہام اور تذبذب کا شکار ہيں اور تمام تر شواہد کے باوجود بظاہر حالت انکارميں ہيں۔ ان مجرموں کی اصل فطرت کے حوالے سے شک وشہبے کی کيا گنجائش رہ جاتی ہے جبکہ وہ افغانستان ميں بھی وہی خونی مہم جوئ کر رہے ہيں جو پاکستان ميں بھی جاری ہے۔

عظمت اور جرات جيسے الفاظ دہشت گردوں کے ان مجرمانہ افعال کے ضمن ميں استعمال نہيں کيے جا سکتے ہيں جن کی تمام تر حکمت عملی اس امر پر مرکوز ہوتی ہے کہ انتہائ بزدلانہ طريقے سے زيادہ سے زيادہ بے گناہ افراد کو ہلاک کيا جائے، اس بات سے قطع نظر کہ اپنے جرائم کی توجيہہ کے ليے وہ کوئ مقدس تاويل يہ تحريک کے حوالے کيوں نا پيش کريں۔

يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ افغانستان ميں دہشت گرد تنظيميں اور ان کی حمايت کرنے والے بغير کسی منطق کے بدستور افغانستان کو ايک ايسی سرزمين قرار ديتے ہيں جس پر بيرونی قوتوں نے قبضہ کر رکھا ہے، باوجود اس کے کہ اس وقت افغانستان ميں افغانيوں ہی کے زير قيادت ايک فعال حکومت ملک کا نظام اور نظم ونسق چلا رہی ہے۔ تمام تر حکومتی مشينری، وسائل، طرز حکومت اور رياست سے متعلق اہم فيصلہ سازی کے اختيارات افغانستان کے منتخب نمايندوں کے ہاتھوں ميں ہيں۔ امريکہ سميت کوئ بھی بيرونی قوت افغانستان کے علاقوں پر قابض نہيں ہے۔

امريکی اور نيٹو افواج کی موجودگی محض مقامی افغان فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کے ليے ہے جو دہشت گردی کے ان ٹھکانوں کے قلع قمع کی کاوش ميں لگے ہوئے ہيں جو افغانستان ميں جاری عدم استحکام اور افراتفری کے ذمہ دار ہيں۔

ستم ظريفی ديکھيں کہ ملا عمر اور افغانستان ميں عسکری تنظيموں کے ديگر ترجمان اور قائدين بدستور خطے ميں شہری اموات کے بارے ميں تشويش اور تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہيں۔ مگر چاہے وہ بچوں کو خودکش حملہ آور بنا کر انھيں بطور ہتھيار استعمال کرنے کے کا معاملہ ہو يا خود ساختہ بمبوں کا بے دريخ استعمال، ان کے طريقہ واردات سے يہ واضح ہے کہ ان کا واحد مقصد بلاتفريق زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کو ہلاک کرنا ہے تا کہ حملے کی "افاديت" کو بڑھايا جا سکے۔

سرحد کے دونوں جانب متحرک مختلف مسلح گروہوں ميں تفريق کرنے کے ليے مختلف تبصرہ نگاروں اور سکالرز نے جو بھی تاويليں اور دلائل گھڑ رکھے ہيں ان سے قطع نظر دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی ايک ايسا ناقابل ترديد ثبوت ہے جو نا صرف يہ کہ ان گروہوں کے باہمی تعلقات اور فکری ہم آہنگی کو سب پر آشکار کر ديتی ہے بلکہ دہشت اور بربريت پر بنی مہم کے ذريعے سياسی وقعت اور اثرورسوخ کے حصول کی خواہش بھی سب پر عياں ہو چکی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 

رانا

محفلین
اچھے طالبان کو پھر خوش آمدید
روف کلاسرا
ماخذ: دنیا نیوز

جب کابل میں، پچھلے ہفتے ملاعمر کے جانشین ملامنصور کے طالبان کے بدترین حملوں، جن میں پچاس عورتیں اور بچے مارے گئے، پر ماتم ہورہا ہے، پاکستان میں افغان طالبان اور ان کے لیڈر ملاعمر کی شان میں ہمارے کالم نگاروں اور دانشوروں کے درمیان قصیدہ گوئی کا مقابلہ جاری ہے۔
ملاعمر کے حق میں لکھے گئے قصیدوں کے درمیان، دل کو چیرنے والی ایک تصویر نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس دردناک تصویر میں ایک بوڑھا افغان باپ فرش پر اپنی جوان بیٹی کی سفید کفن میں لپٹی لاش کے قریب سر پکڑ کر بیٹھا رو رہا ہے۔ اس بوڑھے افغان کا چند دن کا ایک نواسہ ہے جو اپنی ماں کی نعش کے ساتھ زمین پر پڑا ہے۔ ماں پچھلے ہفتے کابل میں طالبان کے حملوں میں ماری گئی۔ ان حملوں میں کل پچاس افغان شہری مارے گئے، ڈھائی سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں چالیس افغان عورتیں اور تیس افغان بچے بھی شامل ہیں۔ صرف ایک نیٹو فوجی مرا۔ یہ ہے وہ قیمت جو ایک عام افغان شہری ادا کر رہا ہے اور جو پاکستانی کالم نگاروں اور دانشوروں کو نظر نہیں آتی‘ جن کے دل پتھر کے ہو چکے ہیں۔ ان کے نزدیک ملا عمر کی موت وہ خلا ہے جو پُر نہ ہوگا ۔ افغان بچوں اور عورتوں کا کیا ہے، مر بھی گئے تو کچھ اور پیدا ہو جائیں گے۔ ملاعمر تو ایک ہی تھا۔ وہ پریشان نہ ہوں، ملا منصور نے کام وہیں سے شروع کیا ہے جہاں ملا عمر چھوڑ گیا تھا۔ افغانوں نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ شاید اپنے آبائو اجداد کے گناہوں کا کفارہ ادا کر رہے ہیں جنہوں نے ہندوستان پر حملے کر کے ہزاروں بے گناہ مارے تھے۔ اب ان کی باری ہے۔ جو بھی کابل جاتا ہے، وہ لہو کی ندیاں بہانے جاتا ہے۔ روس سے لے کر حکمت یار، احمد شاہ مسعود اور امریکیوں تک، سب نے لاکھوں افغان مارے۔ برسوں سے کابل ایک جہنم کا منظر پیش کرتا ہے۔
میں سمجھا تھا پشاور سکول میں ایک سو چالیس بچوں کی دردناک موت کے بعد ہم نے سبق سیکھا ہو گا کہ ہر قسم کے طالبان بُرے ہوتے ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور لکھاری ہمیںبتاتے رہے کہ جو افغانستان اور بھارت میں دہشت گردی کرتے ہیں وہ اچھے طالبان ہوتے ہیں اور جو پاکستان میں کرتے ہیں وہ بُرے طالبان۔ ہم اسی میں خوش رہے کہ چلیں ہمارے اچھے طالبان نے افغانستان میں بے گناہ لوگوں کو مارنے کا جو سلسلہ شروع کیا، وہ ہمارے لیے بہتر ہے۔ جواباً بھارت اور افغانستان نے بھی پاکستان میں اپنے طالبان پال لیے کہ چلو پاکستانیوں کو مارو۔ پشاور سکول ٹریجڈی کے بعد پاکستانیوں کو طالبان سے نفرت ہونا شروع ہوئی تھی ۔ قوم کو پتہ چل گیا تھا کہ اچھے طالبان کوئی نہیں، وہ سب انسانی لہو بہاتے ہیں ۔ اس سے طالبان کے حمایتی مایوس ہوئے کہ پاکستانی قوم کو کیسے عقل آگئی؟ سب کی دکانیں بند ہونے لگی تھیں۔ اب اچانک ملا عمر کی موت نے انہیں ایک موقع دے دیا ہے۔ ملا عمر کی ایسی ایسی صفات بیان کی جارہی ہیں کہ وہ خود بھی پڑھتا تو حیران ہوتا۔ ان کا خیال ہے کہ پوست ختم کر دینے سے وہ بڑے حکمران بن گئے تھے۔کابل اور قندھار میں عورتوں پر سرعام تشدد کر کے عالم اسلام کے ہیرو بن گئے تھے۔ اسامہ بن لادن کو اپنے ہاں پناہ دے کر انہوں نے اسلام کی خدمت کی تھی ۔ پٹھانوں اور افغانوں کی روایات کی پاسداری کی تھی۔ دس لاکھ افغان مارے گئے۔ افغانوں کے بچے آج پاکستان میں بھیک مانگتے ہیں ۔ افغان عورتوں کی دردناک کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ وہ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ بھیک مانگتے افغان بچے اور عورتیں ہمارے ان لکھاریوں کے نزدیک ملاعمر کی جرأت اور شجاعت کی علامت ہیں۔
اب ہمیں بتایا جارہا ہے کہ افغان طالبان تو پاکستان کے دوست تھے۔ میں بعض ایسے کالم نکال کر دکھا سکتا ہوں جن میں انہوں نے افغان طالبان کے پریس ریلیز شائع کیے کہ پاکستانی طالبان، جو پاکستان کے اندر قتل و غارت کر رہے ہیں، ان کو افغان طالبان کی پوری حمایت حاصل ہے۔ یہ کالم اب بھی اخبارات کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اگر افغان طالبان اچھے تھے اور ملاعمر پاکستان کا دوست تھا تو اس نے اپنے افغان طالبان کے ذمے یہ کام کیوں نہ لگایا کہ پہلے ان پاکستانی طالبان کو ٹھکانے لگائو جو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے اندر دہشت گردی کر رہے ہیں؟ یہ طالبان نیٹو فورسز کے خلاف افغانستان میں لڑسکتے ہیں اور کابل میں معصوم بچوں اور عورتوں کو مار سکتے ہیں تو پھر وہ فضل اللہ کو کیوں نہیں مار سکتے تھے؟
غور کریں، کیسے کیسے ہم نے اپنی بربادی کا سامان کیا ۔ اپنے قاتلوں سے پیار کیا۔گلے سے لگایا ۔ ان کی شان میں کالم لکھے، ٹی وی شوز کیے۔ طالبان نے ہمارے ایک سو چالیس بچوں کوقتل کیا لیکن آج بھی ہمارے دل میں ان کے لیے محبت ہے، پیار ہے، عزت ہے۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ افغان طالبان کسان تھے اور غریب تھے۔ پھر وہ غریب ہمارے ہاتھ لگ گئے۔ ہم نے انہیں پالا پوسا۔ پاکستانیوں کے ٹیکسوں سے ان کو اربوں روپوں کا بجٹ دیا گیا ۔ ہمارے پیسوں سے اسلحہ خرید کر دیا گیا۔ علاج معالجہ کے لیے کوئٹہ اور پشاور میں بندوبست ہوئے۔ کوئٹہ شہر میں پاکستانی سیٹلرز کو مارا گیا اور وہاں افغانوں اور وار لارڈز کو جائیدادیں لے کر دی گئیں۔ ان اچھے طالبان کے خاندانوں کی رہائش، بچوں کی پڑھائی سب کچھ ہمارے ذمے تھا اور ہم نے یہ ذمہ داری خوب نبھائی۔ ہم نے دنیا کو تاثر دیا کہ اگر طالبان تک پہنچنا ہے تو پھر یہ راستہ ہمارے ذریعے کھلتا ہے۔ طالبان نے غیرملکی اغوا کیے تو اس ملک نے ہم سے رابطہ کیا اور ہم نے ڈیل کرائی ۔ کسی کا جہاز وہاں اغوا کر کے لے جایا گیا تو بھی ہم سے رابطہ ہوا۔ بل کلنٹن پاکستان آیا تو جنرل مشرف سے اس نے درخواست کی کہ اسامہ کو طالبان سے کہہ کر واپس کرائیں۔ جنرل معین الدین حیدر اس کام کے لیے قندھار بھی گئے۔ گیارہ ستمبر کے بعد بش نے جنرل مشرف کو یہی کہا تو جنرل محمود کو اس کام کے لیے بھیجا گیا ۔ یوں سب کو پتہ چل گیا کہ طالبان کے اصل گاڈفادر ہم ہیں۔
پھر جب دنیا نے ہمیں دہشت گردوں کا ساتھی کہنا شروع کیا تو ہم حیران ہونا شروع ہوگئے کہ دیکھو یار یہ کتنی زیادتی کی بات ہے۔ اور پھر ایک دن پتہ چلا ہمارے ایک سو چالیس بچوں کے قاتل افغانستان میں بیٹھے ہیں۔ سب کابل دوڑ پڑے۔ وعدے ہوئے، وعید ہوئے، اچھے برے طالبان کی تمیز مٹانے کے دعوے سنے گئے۔ اور پھر پتہ چلا، ملا عمر دو سال پہلے مر چکے ہیں۔
ملاعمر کبھی جرأت نہ کر سکا کہ وہ اسامہ سے پوچھ سکتا کہ یاحبیبی! آپ ہمارے ہاں دہشت گردی کی تربیت کیوں دے رہے ہیں؟ کیوں عالمی قوتوں کو ہمارا دشمن بنا رہے ہیں؟ آپ کے پاس اتنا پیسہ ہے تو یہاں یونیورسٹیاں کیوں نہیں بناتے؟، موٹروے کیوں نہیں بناتے؟، افغانستان کو جدید مسلم ریاست بنانے میں کیوں مدد نہیں کرتے؟
خود کوئی ہمارے گھر کے سامنے کوڑا کرکٹ پھینک جائے تو اس کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ سڑک پر گاڑی کی ٹکر ہوجائے تو فائرنگ شروع کردیتے ہیں لیکن ہم کیسے یہ توقع کیے بیٹھے تھے کہ امریکہ میں تین ہزار بندے مارے جانے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعدبھی اسامہ کے خلاف یورپین کارروائی نہ کرتے؟
جس دن اسامہ نے ویڈیو کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، ملاعمر کو اسی دن اسے ریاست سے نکال دینا چاہیے تھا۔ امریکہ نے طالبان سے یہی کہا تھا کہ ہماری آپ سے لڑائی نہیں، اسامہ سے ہے جس نے حملوں کی ذمہ داری لی ہے۔ وہ ہمارے حوالے کر دیں، کوئی جنگ نہیں ہو گی۔
یہ ہمارے دانشور جو آج ملاعمر کی موت پر غم زدہ ہیں، انہوں نے ہی اس وقت لکھا تھا کہ ملا عمر کمزور نہ پڑنا، اسامہ آپ کا مہمان ہے، دس لاکھ افغانی مروا دینا ، عورتوں اور بچوں سے پاکستان اور ایران میں بھیک منگوا لینا لیکن جھکنا مت۔ ایسی ایسی افسانوی داستانیں سنائی اور لکھی گئیں کہ افغان طالبان سولی پر چڑھنے کے لیے تیار ہوگئے۔ افغانستان میں امن سے ہم سب بیروزگار ہوتے ہیں، ڈالرز ملنے بند ہوتے ہیں، لہٰذا وہاں لہو کا بہتے رہنا ہمارے مفاد میں ہے۔ پشاور سکول سانحہ کے بعد ہم کالم نگاروں اور دانشوروں کی دکان ٹھنڈی پڑی تھی جو ملاعمر کی موت کے بعد نئے سرے سے ہم نے سجا لی ہے ۔ میں بھی کیا رام لیلا لے کر بیٹھ گیا ہوں ۔ اب اتنے بڑے مفادات کے کھیل میں بھلا کس کو اس بوڑھے افغان کی فکر ہوگئی جو اپنے نواسے کو جوان بیٹی کی لاش کے قریب رکھ کر سڑک کنارے بیٹھا رو رہا ہے۔
خوش آمدید ہمارے اچھے طالبان!
 

Fawad -

محفلین
دنیا میں انسانی حقوق کو علم بردار نے :p

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کيسے امریکہ کو مورد الزام قرار دے کر ان قاتلوں کو بری الذمہ سمجھ رہے ہيں جو روزانہ پاکستان اور افغانستان ميں عام شہريوں کا قتل عام کر رہے ہيں؟

يہ امريکی حکومت نہيں بلکہ القائدہ، طالبان اور ان کے چيلے ہيں جو کم سن بچوں کا برين واش کر کے انھيں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھيار استعمال کر رہے ہيں۔ آپ کی دليل اس ليے بھی درست نہيں ہے کہ اسامہ بن لادن اور اس کے حمايتيوں نے دہشت گردی کی جس مہم کا آغاز کيا تھا اس ميں ہزاروں کی تعداد ميں امريکی فوجی اور شہری بھی ہلاک ہو چکے ہيں۔

دانستہ اور بلا کسی تفريق کے شہريوں کا بے دريخ قتل کبھی بھی ہماری پاليسی کا حصہ نہيں رہا لیکن دوسری جانب دہشت گرد تنظيموں نے بارہا مسلمانوں سميت عام شہريوں کے قتل کی توجيہات پيش کی ہيں۔ انھوں نے متعدد بار افغانستان اور پاکستان ميں فوجيوں اور شہريوں کو ہلاک کيا ہے اور مسجدوں پر حملے کيے ہيں۔ کيا ان حملوں کے ليے امريکہ کو قصوروار قرار دينا درست ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 
Top