سرور عالم راز
محفلین
مرزا غالب ۔استادِ فَن کی حیثیت سے:
راقم الحروف کے پاس 1969ء کی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی (ہندوستان) کی اُردو میگزین کاغالب نمبر ہے جس میں اُس وقت کے ایک ادیب آفتاب شمسی صاحب کا مضمون :مرزا غالب۔استادفَن کی حیثیت سے: شائع ہوا تھا۔ آفتاب شمسی نے نہایت تحقیق اور کاوش سے غالب کے ان خطوط کا مطالعہ اور ادبی تجزیہ کیاہے جومرزا نوشہ نے اپنے شاگردوں کو لکھے تھے اور جن میں فن ِشاعری کے اصول و رُموز پر علم افروز اور نہایت دلچسپ گفتگو کی تھی۔ ان خطوط میں مرزا نوشہ نے اصلاحِ سخن کے موضوع پر بھی اپنے موقف ،ترجیحات اور طریقوں سے متعلق مفصل اور نہایت کارآمد معلومات فراہم کی ہیں ۔ مذکورہ مضمون میں فاضل مصنف نے ان خطوط پر سنجیدہ اور تعمیری بحث کے بعد اصلاحِ سخن سے متعلق غالب کے موقف، ترجیحات اور طریقے سے متعلق اُنتیس (29) ایسے نکات اخذ کئے ہیں جو غالب کی طرز فکر و اصلاح کو سمجھنے میں کلیدی حکم کے حامل ہیں۔ ہم اردو شاعری میں غالب کی شاعرانہ عظمت کے قائل ہیں اور انھیں سند کےطور پر بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ اردو کے اہل شعر و ادب میں کسی کو بھی غالب کی عظمت فن سے انکارنہیں ہے لہذہ اصلاحِ سخن میں ان کے اصول، انداز فکر اور طرز عمل کو سیکھنا، سمجھنا اور حسب توفیق و استعداد استعمال کرنا بھی مستحسن ہے ۔ شاعری کی طرح اصلاح سخن بھی ایک فَن ہے اور فن کی طرح ہی اس کی تعلیم و تربیت ہونی چاہئے۔ کوئی شخص استاد پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ مطالعہ، ذوق و شوق، لیاقت، محنت ، مشق اور کسی صاحب فن استاد کی رہنمائی سے اس فن میں کمال حاصل کر سکتا ہے۔ زیر نظر مضمون آفتاب شمسی صاحب کے مذکورہ بالا مقالہ کا مرہون منت ہے ۔ راقم نے اُن کی تحقیق سے استفادہ کر کے اِسے مرتب کیا ہے اور اردو محفل کے ارباب ذوق کے سامنے پیش کررہا ہے۔ اس کا مقصد کسی کی تنقیص یا تردید مطلق نہیں ہے بلکہ اس سے اپنی تعلیم و تربیت اور ادبی و شعری فلاح و بہتری منظور ہے۔ امید ہے کہ احباب محفل اسی سیاق و سباق میں مضمون کا مطالعہ کریں گے اور اس کی روشنی میں اردو محفل پر نگاہ انتقاد و تفہیم بھی ڈالیں گے ۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ ان صفحات کے ذریعہ سے مرز ا غالب کے ایک نئے پہلو سے روشناس ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ سراسر فائدے کا سودا ہے۔ اس سلسلے میں آپ سے خیال آرائی اور تعمیری گفتگو کی گذارش ہے۔شکریہ۔
اردو شاعری میں اُستاد ی شاگردی کی روایت بہت پرانی ہے۔ نئی نسل اس سے ایسی زیادہ واقف نہیں ہے لیکن ماضی ءقریب تک شعری حلقوں میں اس روایت کی باز گشت گاہے گاہےسنائی دیتی ر ہی ہے۔ اصلاح شعر کا یہ طریقہ کب اور کیسے رائج ہوا اور اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ اس موضوع پر اگر کوئی تحقیقی کام ہوا ہے تو اس کا علم راقم کو نہیں ہے۔ بقول بابائے اُردو مولوی عبد الحق : ہمارے یہاں استادی اور شاگردی کا عجب طریقہ چلا آرہا ہے مگر اب اس کی وہ شان اورآداب باقی نہیں رہے۔ اس وقت مشق سخن اور شاعری کی تربیت کا یہی ایک ذریعہ تھا ۔ با کمال استاد اپنے شاگرد کو بتاتا اور شعر و شاعری کےگروں سے واقف کراتا اور خاص کر الفاظ کے صحیح استعمال ، زبان کی فصاحت ، بول چال کی صفائی ، اسلوبِ بیان اور مضمون ادا کرنے کے ڈھنگ کو سمجھاتا تھا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مدرسہ یہی تھا۔:یہ وہ زمانہ تھا جب عوام میں تعلیم کا چرچا یا انتظام عام نہیں تھا۔ مقامی مسجدوں میں بنیادی دینی تعلیم دی جاتی تھی ۔ مدرسوں کا نام ونشان نہیں تھا اور صاحب حیثیت لوگ اپنی اولاد کو اتالیق یا اساتذہ ملازم رکھ کر واجبی سی تعلیم دلوا دیتے تھے ۔ شعر و اَدب کا چرچا اور بھی کم تھا اور ادبی محفلوں مثلا مشاعروں میں صرف وہی لوگ شرکت کر تے تھے جو اس شوق میں گرفتار تھے یا کچھ پڑھے لکھے تھے۔ بعض اوقات تذکرہ نویس بھی شاعر کے کلام میں اصلاح تجویز کردیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر شاہ مبارک آبرو کے اس شعر کو میر تقی میر نے اپنی کتاب :نکات الشعرا: میں لکھا ہے :
نہیں تارے ، بھرے ہیں شک کے نقط
اس قدر نسخہ ء فلک ہے غلط
اور پھر کہا ہے کہ اگر : اس قدر: کو : کس قدر: سے بدل دیا جائے تو شعر آسمان کو پہنچ جاتا ہے۔ لیکن ایک تو ایسی اصلاحیں شاذ ونادر ہی ہوا کرتی تھیں ، دوسرے ان کے ابلاغ کے وسائل انتہائی محدود تھے چنانچہ بہت ہی کم لوگ ان سے واقف ہوتے تھے۔ استادی شاگردی کے مذکورہ نظام میں جہاں بہت سی اچھائیاں تھیں وہیں اس میں چند خرابیاں بھی تھیں۔ اس سے شاعروں میں گروہ بندی ، معاصرانہ چشمک اور مخاصمت اور ذاتی حسد و عناد کو فروغ ملتا تھا جو گاہے گاہے سر محفل نازیبا صورت اختیار کر لیتا تھا۔ مثال کے طور پر محمد حسین آزاد اپنی مشہور کتاب :آب حیا ت: میں شاہ مبارک آبرو اور مرزا مظہر جان ِجاناں کی نام نہاد ادبی و شعری جھڑپوں کا عبرتناک ذکر کرتے ہیں کہ ایسے بلند پایہ پزرگ اور شاعر اپنی اَنا کی شہ پر غصہ میں آ کر کیسی کیسی فحش اور نازیبا باتیں سر محفل کہہ جاتے تھے کہ انھیں کوی شریف شخص دہرابھی نہیں سکتا۔ اسی طرح مولوی نجم الغنی : بحرالفصاحت: میں میر ضاحک کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اپنے والد صاحب کے دفاع میں موصوف نے مرزا محمد رفیع سوداکی ہجو لکھی تھی جس میں انھوں نے مرزا سودا کے علاوہ ان کے خاندان کی خواتین کوبھی اپنی نا زیبا باتوں کا نشانہ بنانے سے پرہیز نہیں کیا تھا۔ یہ صورت حال نہایت افسوسناک تھی لیکن اس کی اصلاح کی کوئی کوشش کہیں نظر نہیں آتی۔وقت اور حالات کے ساتھ استادی شاگردی کا نظام اب ختم ہو چکا ہے ۔ اس نظام کے اساتذہ عام طور پر شاگردوں سے اپنی خدمات کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے ۔ شاگرد اکثر و بیشتر مختلف طریقوں سے اپنے استاد کا خیال رکھتے تھے البتہ کچھ استاد ایسے بھی تھے جو شاگردوں کے کلام کی اصلاح کا صلہ لیا کرتے تھے۔ راقم الحروف ایسے اساتذہ سے واقف ہے جو شاگردوں سے چند روپے فی شعر لیتے تھے ۔ کچھ استاد غزلیں قیمتا فروخت کیا کرتے تھے چنانچہ مشاعروں سے قبل ان کے شاگرد اور غیر شاگرد آ کر غزلیں خرید کر لے جاتے تھے جن کی قیمت چند روپے فی شعر کے حساب سے وصول کی جاتی تھی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ مشاعرہ میں پڑھنے کے لئے استاد کے پاس کوئی شعر نہیں رہ جاتا تھا اور انھیں نئی غزل کی فکر کرنی پڑتی تھی ۔ شاعری کی سوقیانہ خرید و فروخت کی صورت سے جو خرابیاں پیدا ہو سکتی تھیں وہ سب اس نظام میں موجود تھیں اور اس نظام کے ختم ہونے میں شاید بڑا حصہ اسی تاجرانہ بدعت کا تھا۔ لیکن بہت سے استاد اصلاح کا کام بلا معاوضہ بھی کیا کرتے تھے اور اس کو ادب وشعر کے حق میں کارخیرسمجھتے تھے۔ایک بزرگ نے ایسا نظام بنا رکھا تھا کہ کسی سے ایک پیسہ بھی بطورمعاوضہ نہیں لیتے تھے لیکن چونکہ مالی طور پر وہ ہر ایک کے کلام کی اصلاح شدہ صورت کی واپسی کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے اس لئے ان کی گذارش ہوتی تھی کہ کلام کی واپسی کے لئے جوابی لفافہ شروع میں ہی منسلک کر دیا جائے۔ اس طرح انھوں نے درجنوں شاعروں کی خدمت برسوں کی ۔ ہندوستان پاکستان کا شاید ہی کوئی گوشہ ہوگا جہاں سے شعرا اصلاح کی غرض سے موصوف سے رجوع نہ کرتے ہوں۔ خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
ہماری اردو محفل میں بھی اصلاح سخن کے لئے ایک طریقہ رائج ہے جس کو یاسر شاہ صاحب :صلائے عام ہے یاران ِ نکتہ داں کے لئے: پر مبنی بتاتے ہیں ۔ اس طریقہ کو نظام کا لقب دینا مناسب نہیں ہے کیونکہ نہ یہاں کوئی اس سلسلے کا ناظم ہے اور نہ ہی اصلاح کاروں یا اصلاح کے اصول، شرائط یا قواعد کا تعین نظر آتا ہے۔ کسی شاعر کو جو اصلاح ایک :استاد : دے جاتا ہے دوسرا :استاد: جب اور جیسے جی چاہتا ہے اس اصلاح میں ترمیم و تنسیخ کر نے کا مجاز ہے۔ اس طرح بعض اوقات ایک طرح کی افرا تفری کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے۔ اس طریقہ کا جواز کچھ احباب یہ کہہ کر بھی فراہم کرتے ہیں کہ :کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔: بہر کیف کام کسی طرح چل رہاہے اور اسی طرح چلے گا تا وقتیکہ کہ ارباب حل و عقد کوئی اور اہتمام سوچیں یا ممکن ہے نہ سوچیں اور موجودہ طریقےپر ہی اکتفا کریں۔ واللہ واعلم۔
خطوط کے علاوہ بھی اصلاح سخن کے حوالے سے غالب کی تحریروں سے چند اہم نکات مستنبط کئے جا سکتے ہیں جن کا ذکریہاں غیرمناسب نہیں ہوگا۔چونکہ اصلاح دینے والے استاد کے سامنے ہر طرح کا کلام آتا ہے اور مختلف خیالات و جذبات سے اس کا سابقہ رہتا ہے اس لئے اس کا ادبی مشرب اور نقطہءنظر بہت وسیع اور صلح کل ہونا چاہئے تاکہ وہ ہر شخص کا فطری رجحان سمجھنے کے بعد ہی رہنمائی کر سکے۔یہ بہت ضروری ہے کہ اصلاح کے دوران شاعر کے خیالات نہ بدلیں اور کلام کی فنی، لسانی اور علمی غلطیاں دور ہو جائیں چنانچہ استاد کو زبان وبیان، محاورے اورعلم عروض و قافیہ پر کما حقہ عبور ہونا چاہئے ۔ علاوہ ازیں اس میں اجتہاد ی اہلیت اور خلاقانہ ذہنیت کا ہونا بھی ضروری ہے ورنہ اصلاح لینے والے کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ اچھی اور صحت مند اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ جس رنگ و زبان میں شاعر کا کلام ہو اسی رنگ و زبان میں اصلاح بھی دی جائے یعنی اگر شاعرآسان زبان و بیان کو ترجیح دیتا ہو تو استاد بھی ایساہی کرے اور اگر شاعر مشکل زبان وبیان کی جانب مائل ہو تو استاد کی اصلاح میں بلاغت کا اہتمام حسب ضرورت ہو سکتا ہے ۔بعض استاد شاعر کے کلام میں اپنی طرف سے شعر بڑھادیتے ہیں۔اس بدعت سے پرہیز لازمی ہے کیونکہ اس سے شاگرد کی عادت خراب ہوتی ہے اور وہ استاد سے شعری مدد کا امید وار بن بیٹھتا ہے جس کے نتیجہ میں بجائے فائدہ کے خود اسی کا نقصان ہوتا ہے۔ ہم اساتذہ کو شعر گوئی کے فن میں سند کے طور پر استعما ل کرتے ہیں چنانچہ اصلاح شعر میں ان کے اصولوں اور طریقوں کو سمجھنا اور پھر فکرو تدبر کے ساتھ اپنی اصلاح کے کام میں انھیں استعمال کرنا سراسرفائدہ کا سودا ہے۔ غالب ایسے عظیم شاعر سے اصلاح سخن کی تعلیم لینا عقل مندی کا تقاضا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کے نام خطوط میں جا بجا اصلاح شعر کے رموز اور اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ کھیں وہ الفاظ کے فصیح اور غیر فصیح ہونے کا ذکر کرتے ہیں ، کہیں قافیہ پیمائی اورزود گوئی سے پرہیز کی تلقین کرتے ہیں اور کہیں دلکش تراکیب و بندش اور فکر کی گہرائی کی اہمیت پر زور دیتے ہیں ۔ یہی باتیں ایسی ہیں جو اس راہ میں کام آتی ہیں۔
آفتاب شمسی نے غالب کے خطوط کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد اپنے مضمون میں انتیس ایسے نکات کا ذکر کیا ہے جو غالب کے اصول اصلاح میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کو سمجھ کر ہم بھی اپنی اصلاح کو بہتر اور موثربنا سکتے ہیں۔ان نکات میں کچھ اپنی تعریف اور مقصد میں یکساں اور قریب ہیں چنانچہ طوالت مضمون کے پیش نظر کچھ نکات آپس میں یہاں ضم کردئے گئےہیں اور کچھ جو اپنے مطلب اور استعمال میں مشکل ہیں (مثلا ایطا کا بیان) یہاں بیان نہیں کئے جا رہے ہیں۔ اس طرح دس نکات کی ایک مختصر فہرست مرتب ہو گئی ہے جو یہاں درج کی جاتی ہے۔ اس میں راقم نے کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ سے مطلق کام نہیں لیا ہے البتہ تلخیص اور اختصار سے نفس مضمون میں کوئی تبدیلی کئے بغیر مقصد بر آری کی ہے اور اس طرح غالب کے تقریبا سارے نکات کا احاطہ کر لیا ہے۔
(1) مرزا غالب اپنے ایک عزیز شاگرد ہر گوپال تفتہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ : کیا ہنسی آتی ہے کہ تم مانند اور شاعروں کے مجھ کو بھی سمجھتے ہو کہ استاد کی غزل یا قصیدہ سامنےرکھ لیا اور اس کے قوافی رکھ لئے اوران قافیوں پر لفظ جوڑنے لگے۔ لعنت ہے مجھ پر اگر میں نے کوئی ریختہ یا اس کے قوافی پیش نظر رکھے ہوں۔ صرف بحر اور ردیف قافیہ دیکھ لیا اور غزل لکھنے لگا ۔ بھائی شاعری معنی آفرینی ہے، قافیہ پیمائی نہیں ہے: گویا غالب اس قافیہ پیمائی کے مطلق خلاف تھے جو ہمیشہ سے بیشتر شاعروں کا طریقہء شعر گوئی رہی ہے اور آج بھی ہے۔ اسی حوالہ سے وہ غیرمانوس تراکیب، تنافر لفظی اور نا مستحسن قوافی کو باندھنا پسند نہیں کرتے ہیں ۔ شعر کو الفاظ کا گورکھ دھندا بنانا اور محض الفاظ کا کرتب دکھانا ان کے شاعرانہ مذاق کے یکسر خلاف ہے۔
(2) استاد یا کسی اور کی غزل کو سامنے رکھ کر قافیہ پیمائی کو وہ :عجز شعر: سے تعبیر کرتے ہیں اور رعایت لفظی کے التزام کو (جیسے وفا کے ساتھ جفا، بت کے ساتھ خدا، اسد کے ساتھ شیر لانا ) وہ مطلق نا پسند کرتے ہیں۔یہاں :التزام: کلیدی لفظ ہے ورنہ جہاں تک مناسب اورجائز رعایت لفظی کا تعلق ہے وہ ہر شاعر کے یہاں ملتی ہے اور کوئی عیب نہیں ہے۔ اگر یہ رعایت حد سے بڑھ کر عادت میں داخل ہو جائے تو قابل ترک و مذمت ہے اوریہی مرزا غالب کا مسلک بھی ہے۔
(3 ) اگر شاگرد کا کلام درستی اور صحت کے علمی اورلسانی معیار پر پورا اترتا ہو تو وہ بلا وجہ اس میں ترمیم و اصلاح کرنا شاگرد کی صلاحیت کو مجروح بلکہ ختم کر دینے کے برابر سمجھتے ہیں ۔ ایک خط میں قاضی عبد الجلیل کولکھتے ہیں کہ :فقیر کا قاعدہ ہے کہ اگر کلام میں اسقام و اغلاط دیکھتا ہوں تو رفع کر دیتا ہوں اور اگر سقم سے خالی پاتا ہوں تو تصرف نہیں کرتا:۔ یہ وہی معیار اصلاح ہے جس کا مظاہرہ داغ دہلوی نے اس وقت کیا تھا جب (علامہ) اقبال نےابتدا ئے مشق میں اپنا کلام بغرض اصلاح داغ کے پاس حیدرآباد بھیجا تھا اور داغ نے اقبال کا شعری جوہر ایک نظر میں پہچان لیا تھا چنانچہ انھوں نے کلام اقبال یہ کہہ کر واپس کر دیا تھا کہ :آپ کو اصلاح کی ضرورت نہیں ہے:۔
(4) زبان و بیان، لغت، علم عروض اور صرف و نحو کے قوائد و ضوابط سے مکمل آگاہی کو وہ شعر گوئی کے لئے شرط لازم مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک جو شخص ان علوم سے بے بہرہ ہے وہ کسی کواصلاح نہیں دے سکتا۔
(5 ) مرزا غالب فصیح اور رواں دواں بحروں اور زمینوں کو پسند کرتے تھے۔ ان کے کلام میں طویل بحروں میں غزلوں کا فقدان ہے اور :کبھی نیکی بھی اس کے جی میں جو آ جائے ہے مجھ سے: سے طویل بحر میں کوئی غزل شاذ ہی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے یہاں فصاحت کلا م کے ساتھ شعر کے معنوی پہلو کی بہت اہمیت ہے گویا ہیئت اور موضوع کا امتزاج ان کی نظر میں اچھی شاعری کے لئے ضروری ہے۔یہی خصوصیت ان کی اصلاح میں بھی صاف اور واضح موجود ہے۔
(6 ) مرزا نوشہ اپنے خطوط میں شاگردوں کو غور و فکر، کاوش اور جگر سوزی کے بعد شعر کہنے کی تلقین کرتے ہیں اور ہر ایک سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے کلام پر خود احتسابی کی سخت تنقیدی نگاہ ڈال کر اسے غلطیوں سےپاک رکھنا ضروری سمجھیں گے۔
(7) وہ اساتذہ کو سند مانتے ہیں لیکن آنکھ کان بند کر کے اندھی تقلید کے قایل نہیں ہیں بلکہ تحقیق اور تصدیق کے بعد ہی ایسا کرتے ہیں۔ اردو میں وہ میر تقی میر کے قائل ہی نہیں معتقد بھی ہیں چنانچہ ایک جگہ کہتے ہیں کہ :
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
(8 ) ان کی نظر میں ایسا کلام بے وقعت ہے جو اگرچہ غلطیوں سے پاک ہو لیکن شعریت اور لطف بیان سے بھی یکسر خالی ہو۔ انھوں نے قاضی عبدالجمیل جنون کے ایک خط میں اپنے موقف کی جانب یہ دلچسپ اشارہ کیا ہے کہ : اور جو دو ایک جگہ اصلاح ہے اس کی توجیہہ کی حاجت نہیں۔ فارسی غزل؟ خیر آپ چاہیں تو رہنے دیجئے۔ جس طرح اس میں کوئی سقم نہیں اسی طرح لطف بھی نہیں۔:
(9) مرزا غلب روز مرہ،محاورہ اور فصیح ٹکسالی زبان کے استعمال میں شاگردوں سے اساتذہ کی تقلید کی تاکید کرتے ہیں اور خود بھی اس کے پابند ہیں۔
(10) تعقید لفظی اور تعقید معنوی کو شعر کی مقبولیت کی راہ میں مزاحم سمجھتے ہیں اور عام طور پر ان سے گریز مستحسن جانتے ہیں ہر چند کہ تعقید کی بعض مشکل مثالیں ان کے کلام میں بھی ملتی ہیں مثلا منشی نبی بخش حقیر کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ :
موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آ ئو تو بلا ئے نہ بنے
بھائی مجھ کو تم سے بڑا تعجب ہے کہ اس بیت کے معنی میں تم کو تامل رہا۔ اس میں دو استفہام آ پڑے ہیں کہ وہ بطریق طعن و تعریض معشوق سے کہے گئے ہیں۔: اس کے بعد وہ شعر کی مفصل تشریح لکھتے ہیں۔
اس مختصر مضمون سے مرزا غالب کی اُس طرز فکر اورطریق اصلاح کے بارے میں بیش بہا اور کارآمد معلومات فراہم ہوتی ہیں جن سے عام شاعر نابلد ہیں۔ ان معلومات سے مستفید ہونا ہمارے لئے ضروری ہے کیونکہ یہ مفید مطلب اصولوں پر مبنی ہیں، غالب ایسے عظیم مرتبت شاعر کے استعمال میں رہی ہیں اور وہ ان کی تاکید و تلقین کرتے ہیں۔ غالب کی فکر اور طریق اصلاح کو اپنانے سے ہم ان کے پایہ کی شاعری تو نہیں کر سکتے لیکن اپنا کلام اور اصلاح سخن بہتر ضرور کر سکتے ہیں۔
===================
راقم الحروف کے پاس 1969ء کی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی (ہندوستان) کی اُردو میگزین کاغالب نمبر ہے جس میں اُس وقت کے ایک ادیب آفتاب شمسی صاحب کا مضمون :مرزا غالب۔استادفَن کی حیثیت سے: شائع ہوا تھا۔ آفتاب شمسی نے نہایت تحقیق اور کاوش سے غالب کے ان خطوط کا مطالعہ اور ادبی تجزیہ کیاہے جومرزا نوشہ نے اپنے شاگردوں کو لکھے تھے اور جن میں فن ِشاعری کے اصول و رُموز پر علم افروز اور نہایت دلچسپ گفتگو کی تھی۔ ان خطوط میں مرزا نوشہ نے اصلاحِ سخن کے موضوع پر بھی اپنے موقف ،ترجیحات اور طریقوں سے متعلق مفصل اور نہایت کارآمد معلومات فراہم کی ہیں ۔ مذکورہ مضمون میں فاضل مصنف نے ان خطوط پر سنجیدہ اور تعمیری بحث کے بعد اصلاحِ سخن سے متعلق غالب کے موقف، ترجیحات اور طریقے سے متعلق اُنتیس (29) ایسے نکات اخذ کئے ہیں جو غالب کی طرز فکر و اصلاح کو سمجھنے میں کلیدی حکم کے حامل ہیں۔ ہم اردو شاعری میں غالب کی شاعرانہ عظمت کے قائل ہیں اور انھیں سند کےطور پر بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ اردو کے اہل شعر و ادب میں کسی کو بھی غالب کی عظمت فن سے انکارنہیں ہے لہذہ اصلاحِ سخن میں ان کے اصول، انداز فکر اور طرز عمل کو سیکھنا، سمجھنا اور حسب توفیق و استعداد استعمال کرنا بھی مستحسن ہے ۔ شاعری کی طرح اصلاح سخن بھی ایک فَن ہے اور فن کی طرح ہی اس کی تعلیم و تربیت ہونی چاہئے۔ کوئی شخص استاد پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ مطالعہ، ذوق و شوق، لیاقت، محنت ، مشق اور کسی صاحب فن استاد کی رہنمائی سے اس فن میں کمال حاصل کر سکتا ہے۔ زیر نظر مضمون آفتاب شمسی صاحب کے مذکورہ بالا مقالہ کا مرہون منت ہے ۔ راقم نے اُن کی تحقیق سے استفادہ کر کے اِسے مرتب کیا ہے اور اردو محفل کے ارباب ذوق کے سامنے پیش کررہا ہے۔ اس کا مقصد کسی کی تنقیص یا تردید مطلق نہیں ہے بلکہ اس سے اپنی تعلیم و تربیت اور ادبی و شعری فلاح و بہتری منظور ہے۔ امید ہے کہ احباب محفل اسی سیاق و سباق میں مضمون کا مطالعہ کریں گے اور اس کی روشنی میں اردو محفل پر نگاہ انتقاد و تفہیم بھی ڈالیں گے ۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ ان صفحات کے ذریعہ سے مرز ا غالب کے ایک نئے پہلو سے روشناس ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ سراسر فائدے کا سودا ہے۔ اس سلسلے میں آپ سے خیال آرائی اور تعمیری گفتگو کی گذارش ہے۔شکریہ۔
اردو شاعری میں اُستاد ی شاگردی کی روایت بہت پرانی ہے۔ نئی نسل اس سے ایسی زیادہ واقف نہیں ہے لیکن ماضی ءقریب تک شعری حلقوں میں اس روایت کی باز گشت گاہے گاہےسنائی دیتی ر ہی ہے۔ اصلاح شعر کا یہ طریقہ کب اور کیسے رائج ہوا اور اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ اس موضوع پر اگر کوئی تحقیقی کام ہوا ہے تو اس کا علم راقم کو نہیں ہے۔ بقول بابائے اُردو مولوی عبد الحق : ہمارے یہاں استادی اور شاگردی کا عجب طریقہ چلا آرہا ہے مگر اب اس کی وہ شان اورآداب باقی نہیں رہے۔ اس وقت مشق سخن اور شاعری کی تربیت کا یہی ایک ذریعہ تھا ۔ با کمال استاد اپنے شاگرد کو بتاتا اور شعر و شاعری کےگروں سے واقف کراتا اور خاص کر الفاظ کے صحیح استعمال ، زبان کی فصاحت ، بول چال کی صفائی ، اسلوبِ بیان اور مضمون ادا کرنے کے ڈھنگ کو سمجھاتا تھا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مدرسہ یہی تھا۔:یہ وہ زمانہ تھا جب عوام میں تعلیم کا چرچا یا انتظام عام نہیں تھا۔ مقامی مسجدوں میں بنیادی دینی تعلیم دی جاتی تھی ۔ مدرسوں کا نام ونشان نہیں تھا اور صاحب حیثیت لوگ اپنی اولاد کو اتالیق یا اساتذہ ملازم رکھ کر واجبی سی تعلیم دلوا دیتے تھے ۔ شعر و اَدب کا چرچا اور بھی کم تھا اور ادبی محفلوں مثلا مشاعروں میں صرف وہی لوگ شرکت کر تے تھے جو اس شوق میں گرفتار تھے یا کچھ پڑھے لکھے تھے۔ بعض اوقات تذکرہ نویس بھی شاعر کے کلام میں اصلاح تجویز کردیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر شاہ مبارک آبرو کے اس شعر کو میر تقی میر نے اپنی کتاب :نکات الشعرا: میں لکھا ہے :
نہیں تارے ، بھرے ہیں شک کے نقط
اس قدر نسخہ ء فلک ہے غلط
اور پھر کہا ہے کہ اگر : اس قدر: کو : کس قدر: سے بدل دیا جائے تو شعر آسمان کو پہنچ جاتا ہے۔ لیکن ایک تو ایسی اصلاحیں شاذ ونادر ہی ہوا کرتی تھیں ، دوسرے ان کے ابلاغ کے وسائل انتہائی محدود تھے چنانچہ بہت ہی کم لوگ ان سے واقف ہوتے تھے۔ استادی شاگردی کے مذکورہ نظام میں جہاں بہت سی اچھائیاں تھیں وہیں اس میں چند خرابیاں بھی تھیں۔ اس سے شاعروں میں گروہ بندی ، معاصرانہ چشمک اور مخاصمت اور ذاتی حسد و عناد کو فروغ ملتا تھا جو گاہے گاہے سر محفل نازیبا صورت اختیار کر لیتا تھا۔ مثال کے طور پر محمد حسین آزاد اپنی مشہور کتاب :آب حیا ت: میں شاہ مبارک آبرو اور مرزا مظہر جان ِجاناں کی نام نہاد ادبی و شعری جھڑپوں کا عبرتناک ذکر کرتے ہیں کہ ایسے بلند پایہ پزرگ اور شاعر اپنی اَنا کی شہ پر غصہ میں آ کر کیسی کیسی فحش اور نازیبا باتیں سر محفل کہہ جاتے تھے کہ انھیں کوی شریف شخص دہرابھی نہیں سکتا۔ اسی طرح مولوی نجم الغنی : بحرالفصاحت: میں میر ضاحک کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اپنے والد صاحب کے دفاع میں موصوف نے مرزا محمد رفیع سوداکی ہجو لکھی تھی جس میں انھوں نے مرزا سودا کے علاوہ ان کے خاندان کی خواتین کوبھی اپنی نا زیبا باتوں کا نشانہ بنانے سے پرہیز نہیں کیا تھا۔ یہ صورت حال نہایت افسوسناک تھی لیکن اس کی اصلاح کی کوئی کوشش کہیں نظر نہیں آتی۔وقت اور حالات کے ساتھ استادی شاگردی کا نظام اب ختم ہو چکا ہے ۔ اس نظام کے اساتذہ عام طور پر شاگردوں سے اپنی خدمات کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے ۔ شاگرد اکثر و بیشتر مختلف طریقوں سے اپنے استاد کا خیال رکھتے تھے البتہ کچھ استاد ایسے بھی تھے جو شاگردوں کے کلام کی اصلاح کا صلہ لیا کرتے تھے۔ راقم الحروف ایسے اساتذہ سے واقف ہے جو شاگردوں سے چند روپے فی شعر لیتے تھے ۔ کچھ استاد غزلیں قیمتا فروخت کیا کرتے تھے چنانچہ مشاعروں سے قبل ان کے شاگرد اور غیر شاگرد آ کر غزلیں خرید کر لے جاتے تھے جن کی قیمت چند روپے فی شعر کے حساب سے وصول کی جاتی تھی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ مشاعرہ میں پڑھنے کے لئے استاد کے پاس کوئی شعر نہیں رہ جاتا تھا اور انھیں نئی غزل کی فکر کرنی پڑتی تھی ۔ شاعری کی سوقیانہ خرید و فروخت کی صورت سے جو خرابیاں پیدا ہو سکتی تھیں وہ سب اس نظام میں موجود تھیں اور اس نظام کے ختم ہونے میں شاید بڑا حصہ اسی تاجرانہ بدعت کا تھا۔ لیکن بہت سے استاد اصلاح کا کام بلا معاوضہ بھی کیا کرتے تھے اور اس کو ادب وشعر کے حق میں کارخیرسمجھتے تھے۔ایک بزرگ نے ایسا نظام بنا رکھا تھا کہ کسی سے ایک پیسہ بھی بطورمعاوضہ نہیں لیتے تھے لیکن چونکہ مالی طور پر وہ ہر ایک کے کلام کی اصلاح شدہ صورت کی واپسی کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے اس لئے ان کی گذارش ہوتی تھی کہ کلام کی واپسی کے لئے جوابی لفافہ شروع میں ہی منسلک کر دیا جائے۔ اس طرح انھوں نے درجنوں شاعروں کی خدمت برسوں کی ۔ ہندوستان پاکستان کا شاید ہی کوئی گوشہ ہوگا جہاں سے شعرا اصلاح کی غرض سے موصوف سے رجوع نہ کرتے ہوں۔ خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
ہماری اردو محفل میں بھی اصلاح سخن کے لئے ایک طریقہ رائج ہے جس کو یاسر شاہ صاحب :صلائے عام ہے یاران ِ نکتہ داں کے لئے: پر مبنی بتاتے ہیں ۔ اس طریقہ کو نظام کا لقب دینا مناسب نہیں ہے کیونکہ نہ یہاں کوئی اس سلسلے کا ناظم ہے اور نہ ہی اصلاح کاروں یا اصلاح کے اصول، شرائط یا قواعد کا تعین نظر آتا ہے۔ کسی شاعر کو جو اصلاح ایک :استاد : دے جاتا ہے دوسرا :استاد: جب اور جیسے جی چاہتا ہے اس اصلاح میں ترمیم و تنسیخ کر نے کا مجاز ہے۔ اس طرح بعض اوقات ایک طرح کی افرا تفری کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے۔ اس طریقہ کا جواز کچھ احباب یہ کہہ کر بھی فراہم کرتے ہیں کہ :کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔: بہر کیف کام کسی طرح چل رہاہے اور اسی طرح چلے گا تا وقتیکہ کہ ارباب حل و عقد کوئی اور اہتمام سوچیں یا ممکن ہے نہ سوچیں اور موجودہ طریقےپر ہی اکتفا کریں۔ واللہ واعلم۔
خطوط کے علاوہ بھی اصلاح سخن کے حوالے سے غالب کی تحریروں سے چند اہم نکات مستنبط کئے جا سکتے ہیں جن کا ذکریہاں غیرمناسب نہیں ہوگا۔چونکہ اصلاح دینے والے استاد کے سامنے ہر طرح کا کلام آتا ہے اور مختلف خیالات و جذبات سے اس کا سابقہ رہتا ہے اس لئے اس کا ادبی مشرب اور نقطہءنظر بہت وسیع اور صلح کل ہونا چاہئے تاکہ وہ ہر شخص کا فطری رجحان سمجھنے کے بعد ہی رہنمائی کر سکے۔یہ بہت ضروری ہے کہ اصلاح کے دوران شاعر کے خیالات نہ بدلیں اور کلام کی فنی، لسانی اور علمی غلطیاں دور ہو جائیں چنانچہ استاد کو زبان وبیان، محاورے اورعلم عروض و قافیہ پر کما حقہ عبور ہونا چاہئے ۔ علاوہ ازیں اس میں اجتہاد ی اہلیت اور خلاقانہ ذہنیت کا ہونا بھی ضروری ہے ورنہ اصلاح لینے والے کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ اچھی اور صحت مند اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ جس رنگ و زبان میں شاعر کا کلام ہو اسی رنگ و زبان میں اصلاح بھی دی جائے یعنی اگر شاعرآسان زبان و بیان کو ترجیح دیتا ہو تو استاد بھی ایساہی کرے اور اگر شاعر مشکل زبان وبیان کی جانب مائل ہو تو استاد کی اصلاح میں بلاغت کا اہتمام حسب ضرورت ہو سکتا ہے ۔بعض استاد شاعر کے کلام میں اپنی طرف سے شعر بڑھادیتے ہیں۔اس بدعت سے پرہیز لازمی ہے کیونکہ اس سے شاگرد کی عادت خراب ہوتی ہے اور وہ استاد سے شعری مدد کا امید وار بن بیٹھتا ہے جس کے نتیجہ میں بجائے فائدہ کے خود اسی کا نقصان ہوتا ہے۔ ہم اساتذہ کو شعر گوئی کے فن میں سند کے طور پر استعما ل کرتے ہیں چنانچہ اصلاح شعر میں ان کے اصولوں اور طریقوں کو سمجھنا اور پھر فکرو تدبر کے ساتھ اپنی اصلاح کے کام میں انھیں استعمال کرنا سراسرفائدہ کا سودا ہے۔ غالب ایسے عظیم شاعر سے اصلاح سخن کی تعلیم لینا عقل مندی کا تقاضا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کے نام خطوط میں جا بجا اصلاح شعر کے رموز اور اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ کھیں وہ الفاظ کے فصیح اور غیر فصیح ہونے کا ذکر کرتے ہیں ، کہیں قافیہ پیمائی اورزود گوئی سے پرہیز کی تلقین کرتے ہیں اور کہیں دلکش تراکیب و بندش اور فکر کی گہرائی کی اہمیت پر زور دیتے ہیں ۔ یہی باتیں ایسی ہیں جو اس راہ میں کام آتی ہیں۔
آفتاب شمسی نے غالب کے خطوط کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد اپنے مضمون میں انتیس ایسے نکات کا ذکر کیا ہے جو غالب کے اصول اصلاح میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کو سمجھ کر ہم بھی اپنی اصلاح کو بہتر اور موثربنا سکتے ہیں۔ان نکات میں کچھ اپنی تعریف اور مقصد میں یکساں اور قریب ہیں چنانچہ طوالت مضمون کے پیش نظر کچھ نکات آپس میں یہاں ضم کردئے گئےہیں اور کچھ جو اپنے مطلب اور استعمال میں مشکل ہیں (مثلا ایطا کا بیان) یہاں بیان نہیں کئے جا رہے ہیں۔ اس طرح دس نکات کی ایک مختصر فہرست مرتب ہو گئی ہے جو یہاں درج کی جاتی ہے۔ اس میں راقم نے کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ سے مطلق کام نہیں لیا ہے البتہ تلخیص اور اختصار سے نفس مضمون میں کوئی تبدیلی کئے بغیر مقصد بر آری کی ہے اور اس طرح غالب کے تقریبا سارے نکات کا احاطہ کر لیا ہے۔
(1) مرزا غالب اپنے ایک عزیز شاگرد ہر گوپال تفتہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ : کیا ہنسی آتی ہے کہ تم مانند اور شاعروں کے مجھ کو بھی سمجھتے ہو کہ استاد کی غزل یا قصیدہ سامنےرکھ لیا اور اس کے قوافی رکھ لئے اوران قافیوں پر لفظ جوڑنے لگے۔ لعنت ہے مجھ پر اگر میں نے کوئی ریختہ یا اس کے قوافی پیش نظر رکھے ہوں۔ صرف بحر اور ردیف قافیہ دیکھ لیا اور غزل لکھنے لگا ۔ بھائی شاعری معنی آفرینی ہے، قافیہ پیمائی نہیں ہے: گویا غالب اس قافیہ پیمائی کے مطلق خلاف تھے جو ہمیشہ سے بیشتر شاعروں کا طریقہء شعر گوئی رہی ہے اور آج بھی ہے۔ اسی حوالہ سے وہ غیرمانوس تراکیب، تنافر لفظی اور نا مستحسن قوافی کو باندھنا پسند نہیں کرتے ہیں ۔ شعر کو الفاظ کا گورکھ دھندا بنانا اور محض الفاظ کا کرتب دکھانا ان کے شاعرانہ مذاق کے یکسر خلاف ہے۔
(2) استاد یا کسی اور کی غزل کو سامنے رکھ کر قافیہ پیمائی کو وہ :عجز شعر: سے تعبیر کرتے ہیں اور رعایت لفظی کے التزام کو (جیسے وفا کے ساتھ جفا، بت کے ساتھ خدا، اسد کے ساتھ شیر لانا ) وہ مطلق نا پسند کرتے ہیں۔یہاں :التزام: کلیدی لفظ ہے ورنہ جہاں تک مناسب اورجائز رعایت لفظی کا تعلق ہے وہ ہر شاعر کے یہاں ملتی ہے اور کوئی عیب نہیں ہے۔ اگر یہ رعایت حد سے بڑھ کر عادت میں داخل ہو جائے تو قابل ترک و مذمت ہے اوریہی مرزا غالب کا مسلک بھی ہے۔
(3 ) اگر شاگرد کا کلام درستی اور صحت کے علمی اورلسانی معیار پر پورا اترتا ہو تو وہ بلا وجہ اس میں ترمیم و اصلاح کرنا شاگرد کی صلاحیت کو مجروح بلکہ ختم کر دینے کے برابر سمجھتے ہیں ۔ ایک خط میں قاضی عبد الجلیل کولکھتے ہیں کہ :فقیر کا قاعدہ ہے کہ اگر کلام میں اسقام و اغلاط دیکھتا ہوں تو رفع کر دیتا ہوں اور اگر سقم سے خالی پاتا ہوں تو تصرف نہیں کرتا:۔ یہ وہی معیار اصلاح ہے جس کا مظاہرہ داغ دہلوی نے اس وقت کیا تھا جب (علامہ) اقبال نےابتدا ئے مشق میں اپنا کلام بغرض اصلاح داغ کے پاس حیدرآباد بھیجا تھا اور داغ نے اقبال کا شعری جوہر ایک نظر میں پہچان لیا تھا چنانچہ انھوں نے کلام اقبال یہ کہہ کر واپس کر دیا تھا کہ :آپ کو اصلاح کی ضرورت نہیں ہے:۔
(4) زبان و بیان، لغت، علم عروض اور صرف و نحو کے قوائد و ضوابط سے مکمل آگاہی کو وہ شعر گوئی کے لئے شرط لازم مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک جو شخص ان علوم سے بے بہرہ ہے وہ کسی کواصلاح نہیں دے سکتا۔
(5 ) مرزا غالب فصیح اور رواں دواں بحروں اور زمینوں کو پسند کرتے تھے۔ ان کے کلام میں طویل بحروں میں غزلوں کا فقدان ہے اور :کبھی نیکی بھی اس کے جی میں جو آ جائے ہے مجھ سے: سے طویل بحر میں کوئی غزل شاذ ہی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے یہاں فصاحت کلا م کے ساتھ شعر کے معنوی پہلو کی بہت اہمیت ہے گویا ہیئت اور موضوع کا امتزاج ان کی نظر میں اچھی شاعری کے لئے ضروری ہے۔یہی خصوصیت ان کی اصلاح میں بھی صاف اور واضح موجود ہے۔
(6 ) مرزا نوشہ اپنے خطوط میں شاگردوں کو غور و فکر، کاوش اور جگر سوزی کے بعد شعر کہنے کی تلقین کرتے ہیں اور ہر ایک سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے کلام پر خود احتسابی کی سخت تنقیدی نگاہ ڈال کر اسے غلطیوں سےپاک رکھنا ضروری سمجھیں گے۔
(7) وہ اساتذہ کو سند مانتے ہیں لیکن آنکھ کان بند کر کے اندھی تقلید کے قایل نہیں ہیں بلکہ تحقیق اور تصدیق کے بعد ہی ایسا کرتے ہیں۔ اردو میں وہ میر تقی میر کے قائل ہی نہیں معتقد بھی ہیں چنانچہ ایک جگہ کہتے ہیں کہ :
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
(8 ) ان کی نظر میں ایسا کلام بے وقعت ہے جو اگرچہ غلطیوں سے پاک ہو لیکن شعریت اور لطف بیان سے بھی یکسر خالی ہو۔ انھوں نے قاضی عبدالجمیل جنون کے ایک خط میں اپنے موقف کی جانب یہ دلچسپ اشارہ کیا ہے کہ : اور جو دو ایک جگہ اصلاح ہے اس کی توجیہہ کی حاجت نہیں۔ فارسی غزل؟ خیر آپ چاہیں تو رہنے دیجئے۔ جس طرح اس میں کوئی سقم نہیں اسی طرح لطف بھی نہیں۔:
(9) مرزا غلب روز مرہ،محاورہ اور فصیح ٹکسالی زبان کے استعمال میں شاگردوں سے اساتذہ کی تقلید کی تاکید کرتے ہیں اور خود بھی اس کے پابند ہیں۔
(10) تعقید لفظی اور تعقید معنوی کو شعر کی مقبولیت کی راہ میں مزاحم سمجھتے ہیں اور عام طور پر ان سے گریز مستحسن جانتے ہیں ہر چند کہ تعقید کی بعض مشکل مثالیں ان کے کلام میں بھی ملتی ہیں مثلا منشی نبی بخش حقیر کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ :
موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آ ئو تو بلا ئے نہ بنے
بھائی مجھ کو تم سے بڑا تعجب ہے کہ اس بیت کے معنی میں تم کو تامل رہا۔ اس میں دو استفہام آ پڑے ہیں کہ وہ بطریق طعن و تعریض معشوق سے کہے گئے ہیں۔: اس کے بعد وہ شعر کی مفصل تشریح لکھتے ہیں۔
اس مختصر مضمون سے مرزا غالب کی اُس طرز فکر اورطریق اصلاح کے بارے میں بیش بہا اور کارآمد معلومات فراہم ہوتی ہیں جن سے عام شاعر نابلد ہیں۔ ان معلومات سے مستفید ہونا ہمارے لئے ضروری ہے کیونکہ یہ مفید مطلب اصولوں پر مبنی ہیں، غالب ایسے عظیم مرتبت شاعر کے استعمال میں رہی ہیں اور وہ ان کی تاکید و تلقین کرتے ہیں۔ غالب کی فکر اور طریق اصلاح کو اپنانے سے ہم ان کے پایہ کی شاعری تو نہیں کر سکتے لیکن اپنا کلام اور اصلاح سخن بہتر ضرور کر سکتے ہیں۔
===================