طارق شاہ
محفلین
غزل
مِری زَمِیں پہ جو مَوسم کبھی نہیں آیا
یہی بُہت ہے کہ، اُس پر مجھے یقیں آیا
مَیں خود ہی ہِجْر کا موسم، مَیں خود وِصال کا دِن
مِرے لِیے، مِرا روزِ جزا یہیں آیا
تسلِّیوں سے کہاں بارِ زِندگی اُٹھتا!
یَقِیں تو اپنی وَفاؤں پہ بھی، نہیں آیا
اِن آنسوؤں کا سَفر بھی ہے بادَلوں جیسا
بَرس گیا ہے کہیں اور، نَظر کہیں آیا
رَچاؤ درد سا، بھیگا ہُوا دعاؤں سا
کہاں سے ہوکے یہ جَھونکا مِرے قَرِیں آیا
ہم اہلِ ہِجْر، سِتارہ شناس بھی تو نہیں
حَسِیں تھے خواب، سَو ہر خواب پر یقیں آیا
اداؔ جعفری
مِری زَمِیں پہ جو مَوسم کبھی نہیں آیا
یہی بُہت ہے کہ، اُس پر مجھے یقیں آیا
مَیں خود ہی ہِجْر کا موسم، مَیں خود وِصال کا دِن
مِرے لِیے، مِرا روزِ جزا یہیں آیا
تسلِّیوں سے کہاں بارِ زِندگی اُٹھتا!
یَقِیں تو اپنی وَفاؤں پہ بھی، نہیں آیا
اِن آنسوؤں کا سَفر بھی ہے بادَلوں جیسا
بَرس گیا ہے کہیں اور، نَظر کہیں آیا
رَچاؤ درد سا، بھیگا ہُوا دعاؤں سا
کہاں سے ہوکے یہ جَھونکا مِرے قَرِیں آیا
ہم اہلِ ہِجْر، سِتارہ شناس بھی تو نہیں
حَسِیں تھے خواب، سَو ہر خواب پر یقیں آیا
اداؔ جعفری