اختر شیرانی مِری شامِ غم کو وہ بہلا رہے ہیں ۔ اختر شیرانی

فاتح

لائبریرین
مِری شامِ غم کو وہ بہلا رہے ہیں​
لکھا ہے یہ خط میں کہ ہم آ رہے ہیں​
وہ بے اختیار آج یاد آ رہے ہیں​
ہمارے تصور کو مہکا رہے ہیں​
محبّت کے جلوے نظر آ رہے ہیں​
نگاہوں سے پردے اُٹھے جا رہے ہیں​
نہیں شکوۂ تشنگی مے کشوں کو​
وہ آنکھوں سے مے خانے برسا رہے ہیں​
غمِ عاقبت ہے نہ فکرِ قیامت
پیے جا رہے ہیں، جیے جا رہے ہیں
انھیں کون کہتا ہے ابرِ خراماں​
یہ جو مے کدے سے اُڑے آ رہے ہیں​
ٹھہَر جا ذرا اور اے دردِ فرقت​
ہمارے تصور میں وہ آ رہے ہیں​
وہ جانِ بہار آج آئے گی اخترؔ​
کنول حسرتوں کے کِھلے جا رہے ہیں​
 

فاتح

لائبریرین
ہی ہی ہی سوری بھیا اتنی سنجیدہ غزل پڑھ کر بھی ہنسی آ گئی۔
مجھے معلوم ہے تمھیں ہنسی کیوں آ رہی ہے۔۔۔ ہمارے تکیہ کلام "پیے جا رہے ہیں، جیے جا رہے ہیں" پر۔۔۔ اور یہی وجہ رہی یہ غزل ارسال کرنے کی۔ :)

محمد وارث ، سید زبیر اور محمد بلال اعظم صاحبان! آپ کی کرم فرمائیوں پر ممنون ہوں۔
 
Top