طارق شاہ
محفلین
غزل
مِری طلب، مِری رُسوائیوں کے بعد کُھلا
وہ کم سُخن، سُخن آرائیوں کے بعد کُھلا
وہ میرے ساتھ ہے، اور مُجھ سے ہمکلام بھی ہے
یہ ایک عمُر کی تنہائیوں کے بعد کُھلا
میں خود بھی تیرے اندھیروں پہ مُنکشف نہ ہُوا
تِرا وجُود بھی ، پرچھائیوں کے بعد کُھلا
عجب طلسمِ خموشی تھا گھر کا سنّاٹا!
جو بام و در کی شناسائیوں کے بعد کُھلا
میں آب و خاک سے مانُوس تھا، پر کیا کرتا
دَرِ قفس مِری بینائیوں کے بعد کُھلا
مجھے یہ جنگ بہرحال جیتنی تھی، مگر
نیا محاذ ہی، پسپائیوں کے بعد کُھلا
مجھے بھی تنگئ آفاق کا گِلہ ہے، سلؔیم !
یہ بھید مجھ پہ بھی، گہرائیوں کے بعد کُھلا
سلؔیم کوثر