سید شہزاد ناصر
محفلین
میاں مٹھّو کا نام تو کچھ بھلا سا ہی تھا، کریم بخش یا رحیم بخش ٹھیک یاد نہیں، ڈھائی ڈھوئی کے مینہ ایسی سخت بارش جس سے مکان گر پڑے تھے۔ سے پہلے کی بات ہے۔ ساٹھ برس سے اوپرہی ہوئے ہوں گے۔ مگر ایک اپنی گلی والے کیا، جو انھیں پکارتا میاں مٹھّو کہہ کر اور انھیں بھیمٹھّو بھٹیارے تھے۔ سرائے کے نہیں۔ دلّی میں محلے محلے جن اسی نام سے بولتے دیکھا۔ میاں مٹھّوکی دکانیں ہوتی ہیں،تنور میں روٹیاں لگتی اور شور با، پائے اور اوجھڑی بکتی ہے۔ نان بائی اور نہاریوالوں سے ان بھٹیاروں کو ذرا نیچے درجے کا سمجھنا چاہیے۔ تنور والے سب ہوتے ہیں۔ نان بائیوں کے ہاں خمیری روٹی پکتی ہے۔ یہ بے خمیر کے پکاتے ہیں۔ ادھر آٹا گندھا اور ادھر روٹیاں پکانی شروع کردیں۔ پراٹھے تو ان کا حصہ ہے۔ بعض تو کمال کرتے ہیں۔ ایک ایک پراٹھے میں دس دس پرت اور کھجلے کی طرح خستہ۔ دیکھنے سے مُنھ میں پانی بھر آئے۔ قورمہ اور کبابوں کے ساتھ کھائیے۔ سبحان اللہ۔ بامن کی بیٹی کلمہ نہ پڑھنے لگے تو ہمارا ذمہ ۔مِٹّھو بھٹیاراکی دکان تھی۔ شیش شاہ تارا کی گلی میں شیش محل کے دروازے سے لگی ہوئی محل کہاں؟ کبھی ہوگا۔ اس وقت تک آثار میں آثار ایک دروازہ وہ بھی اصلی معنوں میں پھوٹاہوا
بہ طور یاد گار۔ اب تو ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ بھی صاف ہوگیا۔اس کی جگہ دوسریباقی تھا۔ نمونتہ عمارتیں بن گئیں۔ دروازہ توکیا رہتا، دروازے کے دیکھنے والے بھی دوچار ہی ملیں گے۔ سنا ہےجاڑے گرمی برسات محلےّ بھر میں سب سے پہلے میاں مٹھو کی دکان کھلتی۔ منھ اندھیرے، بغل میں مصالحہ کی پوٹلی وغیرہ سر پر پتیلا، پیٹھ کے اوپر کچھ چھپٹیاں کچھ جھانکڑ لگنی میں بندھے ہوئے
گنگناتے چلے آتے ہیں۔ آئے دکان کھولی، جھاڑو، بہارو کی، تنور کھولا، ہڈیوں گڈیوں یا اوجھڑی کا ہنڈا نکالا۔ ہڈیاں جھاڑیں۔ اس کوٹھی کے دھان اس کوٹھی میں کیے۔ یعنی گھر سے جو پتیلا لائےتھے۔ ہنڈے کا مال اس میں ڈالا۔ مصالحہ چھڑکا اور اپنے دھندے سے لگ گئے۔ سورج نکلتے نکلتےسالن، نہاری، شروا جو کہو درست کرلیا۔ تندور میں ایندھن جھونکا۔ تندور گرم ہوتے ہوتےغریب غربا کام پر جانے والے روٹی پکوانے یا لگاون کے لیے شروا لینے آنے شروع ہوگئے۔ کسی کے ہاتھ میں آٹے کا طباق ہے تو کوئی مٹّی کا پیالہ لیے چلا آتا ہے اور میاں مٹھّو ہیں کہ جھپاجھپ روٹیاں بھی پکاتے جاتے ہیں اور پتیلے میں کھٹا کھٹ چمچا بھی چل رہا ہے۔مٹھو میاں کی اوجھڑی مشہور تھی۔ دو ر دور سے شوقین منگواتے۔ آنتوں اور معدے کے جس مریض کو حکیم اوجھڑی کھانے کو بتاتے وہ یہیں دوڑا چلا آتا۔ کہتے ہیں کہ پراٹھے بھی جیسے میاں مٹھو پکا گئے پھر دّلی میں کسی کو نصیب نہ ہوئے۔ ہاتھ کچھ ایسا منجھا ہوا تھا، تندور کا تاؤ ایسا جانتے تھے کہ مجال ہے جو کچارہے یا جل جائے۔ سرخ جیسے باقر خانی، سموسے کی طرح ہر پرتی سے زیادہ نرم بالکل ملائی۔ کرارا کہو توپاپڑوں کی تھئی۔ کھجلے کو مات کرے۔ پھر
الگ نرم کہو تو لچھئ گھی کھپانے میں وہ کمال کہ پاؤسیر آٹے میں ڈیڑھ پاؤکھپاویں۔ ہر نوالے میں گھی کا گھونٹ اور لطف یہ کہ دیکھنے میں روکھا۔ غریبوں کے پراٹھے بھی ہم نے دیکھے۔ دو پیسے کے گھی میں تربہ تر۔ بہ ظاہر یہی معلوم ہوتا کہ ڈیڑھ پاؤ گھی والے سے دو پیسے والے پر زیادہ رونق ہے، اس ہنر کی بڑی داد یہ ملتی کہ غریب سے غریب بھی پراٹھا پکوا کر شرمندہ نہ ہوتا۔ پوسیری اور چھٹنکی پراٹھے دیکھنے والوں کو یکساں ہی دکھائی دیتے۔ مال دار اور مفلس کا بھید نہ کھلتا۔پچھلے وقتوں میں ہر آدمی اپنی کھال میں رہتا، جس رنگ میں ہوتا وہی رنگ دکھاتا۔ جس
قوم کا ہوتا وہی بتاتا۔ یہ نہیں کہ پیٹ سے زیادہ ملا اور اپھر گئے۔ ہیںاوباش اور صورت ایسی اختیار کی کہ لوگ صوفی کہیں۔ تھے مردھوں میں، اللہ نے کام چلا دیا اب مرزا مغل کی اولاد ہونے میں کیا شک رہا۔ اللہ نے جیسا بنادیا۔ جس پیشے میں رزق اتار دیا۔ جو صورت بنا دی۔ اپنی شخصیت کی جھوٹی نمائش انسان کیوں کرے۔ جہاں ہو، کیا وہاں شرافت نہیں دکھا سکتے؟ حلال خور، چمار، کنجڑے، قصائی سب اپنے اپنے درجے میں شریف ہوتے ہیں۔ اچھے کام کرو، دین داری بھل منسائی کے ساتھ، دوسرے سے پیش آؤ، حرام خوری پر کمر نہ باندھو۔ یہی شرافت ہے۔ جنم کا اولیاکرم کا بھوت، پہلے کپوت، دوجے اچھوت، اونچے خاندان میں سبھی تو فرشتے نہیں ہوتے۔ ایک درخت کے بہت سے پھل ِ کڑکھائے بھی نکل آتے ہیں۔ دھول کوٹ کی بعض کچریاں ایسی مزےدار دیکھو گے کہ لکھنؤ کا چتلا پانی بھرے۔کوئی پچاس برس ہوئے کلن نفیری والا، گل زار بھانڈ، اچپل ہیجڑا، ننواں تیلی، اجلا دھوبی، ببی رنگریز، چپوّ قصائی، چھوٹا گھوسی، امیر نائی، شبّو شہدا، بنّوگور کن، کوڑا بھنگی کہنے کو کمین اور پیشےکے لحاظ سے نیچے تھے مگر ان کی شرافت کیا کہنا؟ پھر خدا نے، انُ کو بڑھایا چڑھایا بھی ایسا ہی تھا۔میاں مٹھّو رہے تو بھٹیارے کے بھٹیارے۔ غریب کو مرتے مرتے گھر کامکان تک نہ جڑا۔بھٹیارے سے نان بائی بھی نہ بنے ۔ سدا اپنے ہاتھ ہی سےتندورجھونکا ۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہجیتے جی کوئی انُ کی طرف انگلی نہ اٹھا سکا۔ کیا مجال کہ کسی طور طریق میں بساندآتی۔ نور کے تڑکےسرجھکائے آنا، ہنس کر بات کرنا اپنے کام سے کام رکھنا اور رات کے بارہ بجے آنکھیں بند کیے چلےجانا۔ آدمی کچھ مشینّ نہ تھے۔ معمولی قد، چھریرا بدن، سر گھٹا ہوا، چندی آنکھیں، پلکیں اڑی ہوئی۔ شاید دھوئیں اور آگ نے آنکھوں اور پلکوں کا یہ درجہ بنا دیا تھا۔ ڈاڑھی کیا بتاؤں۔ جب کبھی ہوگی تو بالکل خصی بکرے کی سی۔ تندور میں جھک کر روٹی لگائی جاتی ہے۔ کوئی کیسا ہی چھپا کا کرے آگ کی لپٹ کہاں چھوڑے۔ جھلستے جھلستے لہسن کی پیندی بن کر رہ گئی تھی۔ ڈاڑھی کا یہ حال تو مونچھوں کا کیا ذکر؟ دلّی میں جب تک شاہی رہی، دن عید رات شب برات تھی۔ ایک کماتاکنبہ بھر کھاتا۔نہ ٹیکس تھے نہ اتنی گرانی۔ ہر چیز سستی غدر کے بعد تک روپے کا پچیس سیر آٹا۔ پکا دو سیر ڈھائی سیرگھی۔ بکری کا اچھے سے اچھا گوشت چار یا چھ پیسے سیر، ترکاریاں پڑی سڑتیں۔کون پوچھتا؟ مکانوں کا کرایہ برائے نام۔ اوّل تو غریب یا امیر سب کے مرنے جینے کے ٹھکانے اپنے الگ۔ پکامحل نہ سہی کچی کھپریل سہی، دوسرے غیر جگہ بسے بھی تو مفت برابر۔ آٹھ آنے، روپے دو روپے حد تین، اس سے زیادہ نہ کوئی دیتا نہ لیتا۔ ان فارغ البالیوں اور راحتوں کے بعد مہینے کے تیس دن میں اکتیس میلے کیوں نہ ہوتے؟ روز ایک نہ ایک تہوار رکھا تھا۔ پھر جو تھا رنگیلا۔ بات بات میں دل کے حوصلے دکھانے اور چھٹی منانے کے بہانے ڈھونڈے جاتے۔ عید کے پیچھے ہفتے بھر تک سیریں منائی جاتیں۔ باغوں میں ناچ ہورہے ہیں۔ دعوتیں اڑ رہی ہیں۔ شب برات آئی، آتش بازی بن رہی ہے۔ وزن سے وزن کا مقابلہ ہے۔ بسنتوں کی بہار دیکھنے کے قابل ہوتی، سورج مکھی کے ارد گرد مرہٹی بازوں کے غول ہیں۔ واہ واہ کا شور ہے۔ آج اس مزار پر پنکھا چڑھا کل اسدرگاہ پر۔ محرم میں سبیلیں سجتیں۔ تعزیہ داریاں ہوتیں، براق نکلتے، اکھاڑے جمتے۔دلّی کی دل والی منھ چکنا پیٹ خالی۔غدر کے بعد کی کہاوت ہے۔ گھر بار لٹ گیا، شاہی اجڑ گئی، سفید پوشی ہی سفید پوشی باقی تھی۔ اندر خانہ کیا ہوتا ہے؟ کوئی کیا جانے باہر کی آب رو جہاںتک سنبھالی جاسکتی سنبھالتے۔ مدتوں پرانی وضع داری کو نبھایا۔ شہر آبادی کی رسمیں پوری کرتے رہے۔ سات دن فاقے کرکے آٹھویں روز پلاؤ کی دیگ ضرور چڑھ جاتی۔ اپنے بس تو باپ دادا کی لکیر چھوڑی نہیں۔ اب زمانہ ہی موافق نہ ہوتو مجبور ہیں۔ فاقے مست کا لقب بھی مسلمانوں
کو قلعے کی تباہی کے بعد ہی ملا ہے۔ اللہ اللہ! ایک حکومت نے کیا ساتھ چھوڑا سارے لچھن جھڑ گئے۔ ہر قدم پر مُنھ کی کھانے لگے۔ اگلے روپ اب تو کہاں دیکھنے میں آتے ہیں۔ کچھ بد نصیبی نے بگاڑے تو کچھ نئی تہذیب سے بدلے۔ اور جو کہیں دکھائی بھی دیں گے تو بالکل ایسے جیسے کوئی سانگ بھرتا ہے۔ دل کی امنگ کے ساتھ نہیں صرف رسماً کھیل تماشا سمجھ کر۔ محرم میں سبیلیں آج بھی رکھی جاتی ہیں۔تعزیہ داری بھی ہوتی ہے مگر دلوں کے حوصلے مر گئے تو زندگی کس بات میں؟ پرانی روحوں کو ثواب پہنچانے کے سوا کچھ نہیں۔ میاں مٹھّو دکان کے آگے دو کورے مٹکے رکھ کر سبیل بھی لگاتے اور برابر کی دکان میں تعزیہ بھی رکھتے۔ ان کے تعزیے میں کوئی ندرت تو نہ ہوتی۔ آرا ئش کا۔ ہاں جو چیز دیکھنے کے قابل تھی وہ ان کی عقیدت یا پ ن والوں سے بنوا لیتے۔ معمولی کھپچیوں اور سوگ دار صورت چاند رات سے جو یہ امام حسین علیہ السلام کے فقیر بنتے تو بارھویں کو حلیم کھاکرکہیں نہاتے دھوتے اور کپڑے بدلتے۔دّلی میں پچاس ساٹھ برس پہلے تک منتوں ، مرادوں کا بڑا زور تھا۔ درگاہوں میں چّلے چڑھتے، مسجدوں کے طاق بھرے جاتے بچوں کے گلوں میں اللہ آمین کے گنڈے ڈالتے، جینے
کے لیے طرح طرح سے منتیں مانی جاتیں، کوئی شاہ مدار کے نام کی چوٹی رکھتا، کوئی حسینی فقیر بناتا۔لوگ کچھ کہیں، جہالت کے عیب لگائیں یا عقیدے کا کچا بتائیں سچ پوچھو تو فارغ البالی کے سارے چونچلے تھے۔ وہ جومثل ہے کہ کیا ننگی نہائے گی کیا نچوڑے گی۔ دل ہی افسردہ ہو اورہاتھ ہی خالی ہوگئے تو جس کام میں جتنی چاہوفی نکال لو۔ خیر! وقت وقت کی راگنیاں ہوتی ہیں۔ مطلب یہ کہ میاں مٹھّو بھی فقیر بنتے تھے۔ بچپن میں ماں باپ نے بنایا ہوگا۔ جوانی میں بد صورت پر بھی کچھ نہ کچھ روپ ہوتا ہے۔ سبز پوشی بھاگئی۔ ہر سال فقیر بننے لگے۔ تعزیہ داری کئی پشتوں سے انکے ہاں ہوتی آئی تھی۔ یہ اپنے بڑوں کی سنّت کیوں ترک کرتے۔ اس کے بعد لوگوں کا بیان ہےکہ انھیں کچھ نظر بھی آیا۔ حضرت عباس کی زیارت بھی ہوئی، اور ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی بار۔یہی سبب تھا کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق سچے دل سے تعزیہ نکالتے اور جو کچھ کرتے بناوٹ سےخالی ہوتا۔ جوانی بھر ان کا یہی طور رہا اور مرتے مرتے اور کچھ ہو نہ ہو تو تعزیہ نکالنا اور فقیر بننا نہ چھوڑا۔ آخر میں غریب کی آنکھیں جاتی رہی تھیں۔ دکان پر ایک شاگرد کو بٹھا دیا تھا۔ وہ نالائق نکلا۔ آٹھ آنے روز استاد کو دیتا وہ بھی آٹھ آٹھ آنسو رلاکر۔ تاہم جس طرح بنتا محرم کے لیےانھیں بیس پچیس روپے بچانے لازمی تھے۔ دوستوں کو حلیم کھلاکر فقیری اترتی۔باپ کے مرنے کے بعد میاں مٹھّو نے جب دکان سنبھالی ہے تو ان کی عمر پچیس برس سے کم نہ ہوگی۔ شادی ہوگئی تھی بلکہ دو بچے بھی ہوکر مرگئے تھے۔ باپ کے سامنے بھی یہ گھنٹےدو گھنٹے کے لیے تعزیے کے پاس آکر بیٹھتے لیکن رات کے دس بجے دکان اٹھا کر۔ اب تمام ذمہ داری کا بوجھ ان کے سر پر آپڑا تھا اس لیے چراغ چلتے ہی جلدی جلدی دُکان داری ختم کی۔ پاس کی مسجد میں نہائے۔ سبز تہمد باندھا۔ سبز کرتا پہنا لال، کلاوہ گلے میں ڈالا، جھولی سنبھالی۔ سبز دو پلڑی ٹوپی منڈے ہوئے سر پر جمائی اور تعزیے کے پہلو میں دوزانو آبیٹھے۔ ملنے والوں میں جو سوز، نوحہ، مرثیہ پڑھنے والے ہوتے، آتے اور ثواب کے لیے کچھ پڑھ کر چلے جاتے۔ اب جہاں جہاں اس قسم کی تعزیے داری ہوتی ہے یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ انھیں خود بھی سوز پڑھنے کا شوق تھا۔ شوق کیا تعزیہ داری، سبیل لگانے، حسینی فقیر بننے اور تعزیے کے آگے آگے کچھ پڑھنے کو نجات کا باعث سمجھتے تھے۔ آواز تو جیسی بھونڈی تھی، تھی ہی۔ طرہ یہ کہ سلام یا بین جو چیز حضرت پڑھتے وہ بھی سنا گیا کہ آپ ہی کی تصنیف ہوتی۔ لیکن پڑھتے وقت صورت کچھ ایسی سچ مچ کی رونی بناتے اور ایسے جذبے کے ساتھ ادا کرتے کہ سننے والے حضرت امام کی بے کسی کو بھول کر ان پر ترس کھانے لگتے۔محلےّ میں کئی جگہ تعزیے نکلتے اور بڑی کاری گری کے ہوتے۔ مرثیے بھی وہاں خوب خوب پڑھے جاتے مگر بھیڑ جتنی ان کی دکان کے آگے رہتی کہیں نہ رہتی۔ بڈھوں کو رقت چاہیے اوربچوں کو دل لگی۔ یہ دونوں باتیں میاں مٹھّو میں موجود تھیں۔ بڑے بوڑھے تو انھیں کچھ اور ہی سمجھنے لگے تھے۔ جاگتے یا سوتے یہ سقائے سکینہ کی زیارت کرچکے تھے۔ سبز عمامہ باندھے، نقاب ڈالے، نیزہ ہاتھ میں لیے، گھوڑے پر سوار سید الشہدا حضرت امام حسین کو بھی انھوں نے اپنےتعزیے کے سامنے دیکھا تھا۔ یہ اپنا گھڑا ہوا سلام الاپتے اور وہ بیٹھے سر دھنا کرتے۔ لڑکے بالےکچھ توریوڑیوں یا کھیلوں کے لالچ میں جمے رہتے یا ان کی حرکات وسکنات کا تماشا دیکھنے کے لیے۔بے چارے شاعر تو کیا تھے بلکہ کلام مجید بھی پورا نہیں پڑھا تھا۔ جوانی میں چاؤڑی بازاربھی دو چار ہی مرتبہ گئے ہوں گے ورنہ مرثیے کے دوچار بند، سلام کے پانچ سات شعر یا کوئی سوز وہیں سے یاد کر لاتے۔ اب شوق پورا کرنا ٹھہرا۔ گھڑ گھڑا کر ایک سلام بنالیا۔ میرا حافظہ کم بخت ایسا خراب ہے کہ کئی دفعہ سنا اور یاد نہیں رہا۔ حالاں کہ میاں مٹھو اسی سلام کی بدولت بنے۔سلام کہو یا مرثیہ، سوز کہو یا نوحہ کوئی ایسی چیز تھی جس میں بار بار ؎’’نبی جی کے لاڈلوں پر بھیجو سلام‘‘ آتا تھا۔ اور اسی کو وہ سب سے زیادہ لہک لہک کر ادا کرتے تھے۔ اس سے بحث نہیں کہ یہ ناپ تول کے حساب سے کوئی مصرعہ ہے یا کیا۔ افسوس میں نے لکھ کیوں نہ لیا۔ اور اب جسسے پوچھتا ہوں اسی ایک مصرعہ کے سواکچھ نہیں بتاتا۔ اچھا اس مصرعے سے اور میاں مٹھّو کےخطاب سے کیا نسبت؟ آہ دلّی مرحوم! دلّی والوں کی دور بلا، میاں دلّی والے ہی نہ رہے۔ دّلی کا چھ برس کا بچہ تک سمجھ جاتا۔ آخر کریم بخش یارحیم بخش پر میاں مٹھّو کی پھبتی بھی تو بچوں ہی نے کہی تھی۔ ’’نبی جی کے لاڈلوں پر بھیجو سلام‘‘ والا سلام پڑھتے انھیں دوسرا دن تھا کہ محلے کا ایک لڑکا روٹی پکوانے آیا۔ اتفاق سے رات کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ لڑکا انھیں دیکھتا اور مسکراتا رہا۔اکیلا تھا کچھ کہنے کا، ہباؤ نہ پڑا۔ اتنے میں اس کا ایک یار بھی آپہنچا۔ ایک نے دوسرے کو دیکھا۔ میاں مٹھّو کی طرف اشارہ کیا اور دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ ہنستے ہنستے ایک بولا ’’میاں مٹھو ہیں‘‘ دوسرا کہنے لگا۔ ’’میاں مٹھّو نبی جی بھیجو۔‘‘ دکان پر کھڑے ہونے والے، لونڈوں کی باتوں پر لوٹ لوٹ گئے۔ اب کیا تھا ساری گلی میں ’’میاں مٹھو نبی جی بھیجو‘‘ شروع ہوگیا۔ اس دن سے یہ ایسے میاں مٹھّو بنے کہ لوگوں کو ان کا اصلی نام ہی یاد نہ رہا۔ لیکن اللہ بخشے کبھی برانہ مانا اور نہ اپنی وضع بدلی۔ مرتے مرتے اپنا وہی سلام پڑھا۔
بہ طور یاد گار۔ اب تو ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ بھی صاف ہوگیا۔اس کی جگہ دوسریباقی تھا۔ نمونتہ عمارتیں بن گئیں۔ دروازہ توکیا رہتا، دروازے کے دیکھنے والے بھی دوچار ہی ملیں گے۔ سنا ہےجاڑے گرمی برسات محلےّ بھر میں سب سے پہلے میاں مٹھو کی دکان کھلتی۔ منھ اندھیرے، بغل میں مصالحہ کی پوٹلی وغیرہ سر پر پتیلا، پیٹھ کے اوپر کچھ چھپٹیاں کچھ جھانکڑ لگنی میں بندھے ہوئے
گنگناتے چلے آتے ہیں۔ آئے دکان کھولی، جھاڑو، بہارو کی، تنور کھولا، ہڈیوں گڈیوں یا اوجھڑی کا ہنڈا نکالا۔ ہڈیاں جھاڑیں۔ اس کوٹھی کے دھان اس کوٹھی میں کیے۔ یعنی گھر سے جو پتیلا لائےتھے۔ ہنڈے کا مال اس میں ڈالا۔ مصالحہ چھڑکا اور اپنے دھندے سے لگ گئے۔ سورج نکلتے نکلتےسالن، نہاری، شروا جو کہو درست کرلیا۔ تندور میں ایندھن جھونکا۔ تندور گرم ہوتے ہوتےغریب غربا کام پر جانے والے روٹی پکوانے یا لگاون کے لیے شروا لینے آنے شروع ہوگئے۔ کسی کے ہاتھ میں آٹے کا طباق ہے تو کوئی مٹّی کا پیالہ لیے چلا آتا ہے اور میاں مٹھّو ہیں کہ جھپاجھپ روٹیاں بھی پکاتے جاتے ہیں اور پتیلے میں کھٹا کھٹ چمچا بھی چل رہا ہے۔مٹھو میاں کی اوجھڑی مشہور تھی۔ دو ر دور سے شوقین منگواتے۔ آنتوں اور معدے کے جس مریض کو حکیم اوجھڑی کھانے کو بتاتے وہ یہیں دوڑا چلا آتا۔ کہتے ہیں کہ پراٹھے بھی جیسے میاں مٹھو پکا گئے پھر دّلی میں کسی کو نصیب نہ ہوئے۔ ہاتھ کچھ ایسا منجھا ہوا تھا، تندور کا تاؤ ایسا جانتے تھے کہ مجال ہے جو کچارہے یا جل جائے۔ سرخ جیسے باقر خانی، سموسے کی طرح ہر پرتی سے زیادہ نرم بالکل ملائی۔ کرارا کہو توپاپڑوں کی تھئی۔ کھجلے کو مات کرے۔ پھر
الگ نرم کہو تو لچھئ گھی کھپانے میں وہ کمال کہ پاؤسیر آٹے میں ڈیڑھ پاؤکھپاویں۔ ہر نوالے میں گھی کا گھونٹ اور لطف یہ کہ دیکھنے میں روکھا۔ غریبوں کے پراٹھے بھی ہم نے دیکھے۔ دو پیسے کے گھی میں تربہ تر۔ بہ ظاہر یہی معلوم ہوتا کہ ڈیڑھ پاؤ گھی والے سے دو پیسے والے پر زیادہ رونق ہے، اس ہنر کی بڑی داد یہ ملتی کہ غریب سے غریب بھی پراٹھا پکوا کر شرمندہ نہ ہوتا۔ پوسیری اور چھٹنکی پراٹھے دیکھنے والوں کو یکساں ہی دکھائی دیتے۔ مال دار اور مفلس کا بھید نہ کھلتا۔پچھلے وقتوں میں ہر آدمی اپنی کھال میں رہتا، جس رنگ میں ہوتا وہی رنگ دکھاتا۔ جس
قوم کا ہوتا وہی بتاتا۔ یہ نہیں کہ پیٹ سے زیادہ ملا اور اپھر گئے۔ ہیںاوباش اور صورت ایسی اختیار کی کہ لوگ صوفی کہیں۔ تھے مردھوں میں، اللہ نے کام چلا دیا اب مرزا مغل کی اولاد ہونے میں کیا شک رہا۔ اللہ نے جیسا بنادیا۔ جس پیشے میں رزق اتار دیا۔ جو صورت بنا دی۔ اپنی شخصیت کی جھوٹی نمائش انسان کیوں کرے۔ جہاں ہو، کیا وہاں شرافت نہیں دکھا سکتے؟ حلال خور، چمار، کنجڑے، قصائی سب اپنے اپنے درجے میں شریف ہوتے ہیں۔ اچھے کام کرو، دین داری بھل منسائی کے ساتھ، دوسرے سے پیش آؤ، حرام خوری پر کمر نہ باندھو۔ یہی شرافت ہے۔ جنم کا اولیاکرم کا بھوت، پہلے کپوت، دوجے اچھوت، اونچے خاندان میں سبھی تو فرشتے نہیں ہوتے۔ ایک درخت کے بہت سے پھل ِ کڑکھائے بھی نکل آتے ہیں۔ دھول کوٹ کی بعض کچریاں ایسی مزےدار دیکھو گے کہ لکھنؤ کا چتلا پانی بھرے۔کوئی پچاس برس ہوئے کلن نفیری والا، گل زار بھانڈ، اچپل ہیجڑا، ننواں تیلی، اجلا دھوبی، ببی رنگریز، چپوّ قصائی، چھوٹا گھوسی، امیر نائی، شبّو شہدا، بنّوگور کن، کوڑا بھنگی کہنے کو کمین اور پیشےکے لحاظ سے نیچے تھے مگر ان کی شرافت کیا کہنا؟ پھر خدا نے، انُ کو بڑھایا چڑھایا بھی ایسا ہی تھا۔میاں مٹھّو رہے تو بھٹیارے کے بھٹیارے۔ غریب کو مرتے مرتے گھر کامکان تک نہ جڑا۔بھٹیارے سے نان بائی بھی نہ بنے ۔ سدا اپنے ہاتھ ہی سےتندورجھونکا ۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہجیتے جی کوئی انُ کی طرف انگلی نہ اٹھا سکا۔ کیا مجال کہ کسی طور طریق میں بساندآتی۔ نور کے تڑکےسرجھکائے آنا، ہنس کر بات کرنا اپنے کام سے کام رکھنا اور رات کے بارہ بجے آنکھیں بند کیے چلےجانا۔ آدمی کچھ مشینّ نہ تھے۔ معمولی قد، چھریرا بدن، سر گھٹا ہوا، چندی آنکھیں، پلکیں اڑی ہوئی۔ شاید دھوئیں اور آگ نے آنکھوں اور پلکوں کا یہ درجہ بنا دیا تھا۔ ڈاڑھی کیا بتاؤں۔ جب کبھی ہوگی تو بالکل خصی بکرے کی سی۔ تندور میں جھک کر روٹی لگائی جاتی ہے۔ کوئی کیسا ہی چھپا کا کرے آگ کی لپٹ کہاں چھوڑے۔ جھلستے جھلستے لہسن کی پیندی بن کر رہ گئی تھی۔ ڈاڑھی کا یہ حال تو مونچھوں کا کیا ذکر؟ دلّی میں جب تک شاہی رہی، دن عید رات شب برات تھی۔ ایک کماتاکنبہ بھر کھاتا۔نہ ٹیکس تھے نہ اتنی گرانی۔ ہر چیز سستی غدر کے بعد تک روپے کا پچیس سیر آٹا۔ پکا دو سیر ڈھائی سیرگھی۔ بکری کا اچھے سے اچھا گوشت چار یا چھ پیسے سیر، ترکاریاں پڑی سڑتیں۔کون پوچھتا؟ مکانوں کا کرایہ برائے نام۔ اوّل تو غریب یا امیر سب کے مرنے جینے کے ٹھکانے اپنے الگ۔ پکامحل نہ سہی کچی کھپریل سہی، دوسرے غیر جگہ بسے بھی تو مفت برابر۔ آٹھ آنے، روپے دو روپے حد تین، اس سے زیادہ نہ کوئی دیتا نہ لیتا۔ ان فارغ البالیوں اور راحتوں کے بعد مہینے کے تیس دن میں اکتیس میلے کیوں نہ ہوتے؟ روز ایک نہ ایک تہوار رکھا تھا۔ پھر جو تھا رنگیلا۔ بات بات میں دل کے حوصلے دکھانے اور چھٹی منانے کے بہانے ڈھونڈے جاتے۔ عید کے پیچھے ہفتے بھر تک سیریں منائی جاتیں۔ باغوں میں ناچ ہورہے ہیں۔ دعوتیں اڑ رہی ہیں۔ شب برات آئی، آتش بازی بن رہی ہے۔ وزن سے وزن کا مقابلہ ہے۔ بسنتوں کی بہار دیکھنے کے قابل ہوتی، سورج مکھی کے ارد گرد مرہٹی بازوں کے غول ہیں۔ واہ واہ کا شور ہے۔ آج اس مزار پر پنکھا چڑھا کل اسدرگاہ پر۔ محرم میں سبیلیں سجتیں۔ تعزیہ داریاں ہوتیں، براق نکلتے، اکھاڑے جمتے۔دلّی کی دل والی منھ چکنا پیٹ خالی۔غدر کے بعد کی کہاوت ہے۔ گھر بار لٹ گیا، شاہی اجڑ گئی، سفید پوشی ہی سفید پوشی باقی تھی۔ اندر خانہ کیا ہوتا ہے؟ کوئی کیا جانے باہر کی آب رو جہاںتک سنبھالی جاسکتی سنبھالتے۔ مدتوں پرانی وضع داری کو نبھایا۔ شہر آبادی کی رسمیں پوری کرتے رہے۔ سات دن فاقے کرکے آٹھویں روز پلاؤ کی دیگ ضرور چڑھ جاتی۔ اپنے بس تو باپ دادا کی لکیر چھوڑی نہیں۔ اب زمانہ ہی موافق نہ ہوتو مجبور ہیں۔ فاقے مست کا لقب بھی مسلمانوں
کو قلعے کی تباہی کے بعد ہی ملا ہے۔ اللہ اللہ! ایک حکومت نے کیا ساتھ چھوڑا سارے لچھن جھڑ گئے۔ ہر قدم پر مُنھ کی کھانے لگے۔ اگلے روپ اب تو کہاں دیکھنے میں آتے ہیں۔ کچھ بد نصیبی نے بگاڑے تو کچھ نئی تہذیب سے بدلے۔ اور جو کہیں دکھائی بھی دیں گے تو بالکل ایسے جیسے کوئی سانگ بھرتا ہے۔ دل کی امنگ کے ساتھ نہیں صرف رسماً کھیل تماشا سمجھ کر۔ محرم میں سبیلیں آج بھی رکھی جاتی ہیں۔تعزیہ داری بھی ہوتی ہے مگر دلوں کے حوصلے مر گئے تو زندگی کس بات میں؟ پرانی روحوں کو ثواب پہنچانے کے سوا کچھ نہیں۔ میاں مٹھّو دکان کے آگے دو کورے مٹکے رکھ کر سبیل بھی لگاتے اور برابر کی دکان میں تعزیہ بھی رکھتے۔ ان کے تعزیے میں کوئی ندرت تو نہ ہوتی۔ آرا ئش کا۔ ہاں جو چیز دیکھنے کے قابل تھی وہ ان کی عقیدت یا پ ن والوں سے بنوا لیتے۔ معمولی کھپچیوں اور سوگ دار صورت چاند رات سے جو یہ امام حسین علیہ السلام کے فقیر بنتے تو بارھویں کو حلیم کھاکرکہیں نہاتے دھوتے اور کپڑے بدلتے۔دّلی میں پچاس ساٹھ برس پہلے تک منتوں ، مرادوں کا بڑا زور تھا۔ درگاہوں میں چّلے چڑھتے، مسجدوں کے طاق بھرے جاتے بچوں کے گلوں میں اللہ آمین کے گنڈے ڈالتے، جینے
کے لیے طرح طرح سے منتیں مانی جاتیں، کوئی شاہ مدار کے نام کی چوٹی رکھتا، کوئی حسینی فقیر بناتا۔لوگ کچھ کہیں، جہالت کے عیب لگائیں یا عقیدے کا کچا بتائیں سچ پوچھو تو فارغ البالی کے سارے چونچلے تھے۔ وہ جومثل ہے کہ کیا ننگی نہائے گی کیا نچوڑے گی۔ دل ہی افسردہ ہو اورہاتھ ہی خالی ہوگئے تو جس کام میں جتنی چاہوفی نکال لو۔ خیر! وقت وقت کی راگنیاں ہوتی ہیں۔ مطلب یہ کہ میاں مٹھّو بھی فقیر بنتے تھے۔ بچپن میں ماں باپ نے بنایا ہوگا۔ جوانی میں بد صورت پر بھی کچھ نہ کچھ روپ ہوتا ہے۔ سبز پوشی بھاگئی۔ ہر سال فقیر بننے لگے۔ تعزیہ داری کئی پشتوں سے انکے ہاں ہوتی آئی تھی۔ یہ اپنے بڑوں کی سنّت کیوں ترک کرتے۔ اس کے بعد لوگوں کا بیان ہےکہ انھیں کچھ نظر بھی آیا۔ حضرت عباس کی زیارت بھی ہوئی، اور ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی بار۔یہی سبب تھا کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق سچے دل سے تعزیہ نکالتے اور جو کچھ کرتے بناوٹ سےخالی ہوتا۔ جوانی بھر ان کا یہی طور رہا اور مرتے مرتے اور کچھ ہو نہ ہو تو تعزیہ نکالنا اور فقیر بننا نہ چھوڑا۔ آخر میں غریب کی آنکھیں جاتی رہی تھیں۔ دکان پر ایک شاگرد کو بٹھا دیا تھا۔ وہ نالائق نکلا۔ آٹھ آنے روز استاد کو دیتا وہ بھی آٹھ آٹھ آنسو رلاکر۔ تاہم جس طرح بنتا محرم کے لیےانھیں بیس پچیس روپے بچانے لازمی تھے۔ دوستوں کو حلیم کھلاکر فقیری اترتی۔باپ کے مرنے کے بعد میاں مٹھّو نے جب دکان سنبھالی ہے تو ان کی عمر پچیس برس سے کم نہ ہوگی۔ شادی ہوگئی تھی بلکہ دو بچے بھی ہوکر مرگئے تھے۔ باپ کے سامنے بھی یہ گھنٹےدو گھنٹے کے لیے تعزیے کے پاس آکر بیٹھتے لیکن رات کے دس بجے دکان اٹھا کر۔ اب تمام ذمہ داری کا بوجھ ان کے سر پر آپڑا تھا اس لیے چراغ چلتے ہی جلدی جلدی دُکان داری ختم کی۔ پاس کی مسجد میں نہائے۔ سبز تہمد باندھا۔ سبز کرتا پہنا لال، کلاوہ گلے میں ڈالا، جھولی سنبھالی۔ سبز دو پلڑی ٹوپی منڈے ہوئے سر پر جمائی اور تعزیے کے پہلو میں دوزانو آبیٹھے۔ ملنے والوں میں جو سوز، نوحہ، مرثیہ پڑھنے والے ہوتے، آتے اور ثواب کے لیے کچھ پڑھ کر چلے جاتے۔ اب جہاں جہاں اس قسم کی تعزیے داری ہوتی ہے یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ انھیں خود بھی سوز پڑھنے کا شوق تھا۔ شوق کیا تعزیہ داری، سبیل لگانے، حسینی فقیر بننے اور تعزیے کے آگے آگے کچھ پڑھنے کو نجات کا باعث سمجھتے تھے۔ آواز تو جیسی بھونڈی تھی، تھی ہی۔ طرہ یہ کہ سلام یا بین جو چیز حضرت پڑھتے وہ بھی سنا گیا کہ آپ ہی کی تصنیف ہوتی۔ لیکن پڑھتے وقت صورت کچھ ایسی سچ مچ کی رونی بناتے اور ایسے جذبے کے ساتھ ادا کرتے کہ سننے والے حضرت امام کی بے کسی کو بھول کر ان پر ترس کھانے لگتے۔محلےّ میں کئی جگہ تعزیے نکلتے اور بڑی کاری گری کے ہوتے۔ مرثیے بھی وہاں خوب خوب پڑھے جاتے مگر بھیڑ جتنی ان کی دکان کے آگے رہتی کہیں نہ رہتی۔ بڈھوں کو رقت چاہیے اوربچوں کو دل لگی۔ یہ دونوں باتیں میاں مٹھّو میں موجود تھیں۔ بڑے بوڑھے تو انھیں کچھ اور ہی سمجھنے لگے تھے۔ جاگتے یا سوتے یہ سقائے سکینہ کی زیارت کرچکے تھے۔ سبز عمامہ باندھے، نقاب ڈالے، نیزہ ہاتھ میں لیے، گھوڑے پر سوار سید الشہدا حضرت امام حسین کو بھی انھوں نے اپنےتعزیے کے سامنے دیکھا تھا۔ یہ اپنا گھڑا ہوا سلام الاپتے اور وہ بیٹھے سر دھنا کرتے۔ لڑکے بالےکچھ توریوڑیوں یا کھیلوں کے لالچ میں جمے رہتے یا ان کی حرکات وسکنات کا تماشا دیکھنے کے لیے۔بے چارے شاعر تو کیا تھے بلکہ کلام مجید بھی پورا نہیں پڑھا تھا۔ جوانی میں چاؤڑی بازاربھی دو چار ہی مرتبہ گئے ہوں گے ورنہ مرثیے کے دوچار بند، سلام کے پانچ سات شعر یا کوئی سوز وہیں سے یاد کر لاتے۔ اب شوق پورا کرنا ٹھہرا۔ گھڑ گھڑا کر ایک سلام بنالیا۔ میرا حافظہ کم بخت ایسا خراب ہے کہ کئی دفعہ سنا اور یاد نہیں رہا۔ حالاں کہ میاں مٹھو اسی سلام کی بدولت بنے۔سلام کہو یا مرثیہ، سوز کہو یا نوحہ کوئی ایسی چیز تھی جس میں بار بار ؎’’نبی جی کے لاڈلوں پر بھیجو سلام‘‘ آتا تھا۔ اور اسی کو وہ سب سے زیادہ لہک لہک کر ادا کرتے تھے۔ اس سے بحث نہیں کہ یہ ناپ تول کے حساب سے کوئی مصرعہ ہے یا کیا۔ افسوس میں نے لکھ کیوں نہ لیا۔ اور اب جسسے پوچھتا ہوں اسی ایک مصرعہ کے سواکچھ نہیں بتاتا۔ اچھا اس مصرعے سے اور میاں مٹھّو کےخطاب سے کیا نسبت؟ آہ دلّی مرحوم! دلّی والوں کی دور بلا، میاں دلّی والے ہی نہ رہے۔ دّلی کا چھ برس کا بچہ تک سمجھ جاتا۔ آخر کریم بخش یارحیم بخش پر میاں مٹھّو کی پھبتی بھی تو بچوں ہی نے کہی تھی۔ ’’نبی جی کے لاڈلوں پر بھیجو سلام‘‘ والا سلام پڑھتے انھیں دوسرا دن تھا کہ محلے کا ایک لڑکا روٹی پکوانے آیا۔ اتفاق سے رات کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ لڑکا انھیں دیکھتا اور مسکراتا رہا۔اکیلا تھا کچھ کہنے کا، ہباؤ نہ پڑا۔ اتنے میں اس کا ایک یار بھی آپہنچا۔ ایک نے دوسرے کو دیکھا۔ میاں مٹھّو کی طرف اشارہ کیا اور دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ ہنستے ہنستے ایک بولا ’’میاں مٹھو ہیں‘‘ دوسرا کہنے لگا۔ ’’میاں مٹھّو نبی جی بھیجو۔‘‘ دکان پر کھڑے ہونے والے، لونڈوں کی باتوں پر لوٹ لوٹ گئے۔ اب کیا تھا ساری گلی میں ’’میاں مٹھو نبی جی بھیجو‘‘ شروع ہوگیا۔ اس دن سے یہ ایسے میاں مٹھّو بنے کہ لوگوں کو ان کا اصلی نام ہی یاد نہ رہا۔ لیکن اللہ بخشے کبھی برانہ مانا اور نہ اپنی وضع بدلی۔ مرتے مرتے اپنا وہی سلام پڑھا۔
آخری تدوین: