مٹي کي مونا ليزا - اے حمید

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ماوراء

محفلین
مٹي کي مونا ليزا

دور حاضر کے نامور ناول نگار اے حميد نئي نسل کے پسنديدہ قلمکار ہيں۔ ان کي کہانياں اور ناول بڑي شہرت کے حامل ہوتے ہيں۔ اے حميد انيس سو اٹھائيس کو امر تسر بھارت ميں پيدا ہوئے۔ انہوں نے بچوں کے سينکڑوں ناول لکھے اور قلم کو بذريعہ معاش کے طور پر اپنايا۔افسانہ نگاري کے صنف ميں انہیں اہم مقام حاصل ہے۔ انہوں نے اردو شعر کي داستاں ، اردو نثر کي داستاں ، مرزا غالب لاہور مين، داستاں امير حمزہ اور سنگ دوست شخصيات جيسي معرکتہ الارا کتابيں لکھيں۔ٹي وي کيلئے بھي کئي مقبول پلے لکھے ۔ جس میں عينک والا جن، غبر ناگ ماريہ بہت پسند کئے گئے۔ موت کا تعاقب ، تين سو ناولوں پر مشتمل اردو ميں بچوں کے لئے طويل ترين کہاني بھي انکے کريڈٹ پر ہے۔ان کے معاشرتي ناولوں ميں بھارت کے فرعون، کمانڈو کي بيٹي اور جبرو کو بھي لوگوں نے بے حد پسند کيا۔ اردو ادب ميں انہیں معتبر مقام حاصل ہے۔
مٹي کي مونا ليزا
مونا ليزا کي مسکراہٹ ميں بھيد ہے؟
اس کے ہونٹوں پر يہ شفق کا سونا، سورج کا جشن طلوع ہے يا غروب ہوتے ہوئے آفتاب کا گہرا ملال؟ ان نيم دا مستبم ہونٹوں کے درميان يہ باريک سي کالي لکير کيا ہے؟ يہ طلوع و غروب کے دين بيچ میں اندھيرے کي آبشار کہاں سے گر رہي ہے؟ ہرے ہرے طوطوں کي ايک ٹولي شور مچاتي امرود کے گھنے باغوں کے اوپر سے گزرتي ہے۔ ويران باغ کي جنگلي گھاس میں گلاب کا ايک زرد شگوفہ پھوٹتا ہے۔ آم کے درختوں میں بہنے والي نہر کي پليا پر سے ايک تنگ دھڑنگ کالا لڑکا رتيلے ٹھنڈے پاني ميں چھلانگ لگاتا ہے اور پکے ہوئے گھرے بسنتي آموں کا ميٹھا رس مٹي پر گرنے لگتا ہے۔
سنيما ہال کے بک اسٹال پر کھڑے ميں اس ميٹھے رس کي گرم خوشبو سونگھتا ہوں اور ايک آنکھ سے انگريزي رسالے کو ديکھتے ہوئے دوسري آنکھ سے ان عورتوں کو ديکھتا ہوں جنہیں ميں نے فلم شروع ہونے سے پہلے سب سے اونچے درجے کي ٹکٹوں والي کھڑکي پر ديکھا تھا۔ اس سے پہلے انہیں سبز رنگ کي لمبي کار ميں سے نکلتے ديکھا تھا اور اس سے پہلے بھي شايد انہیں کسي خواب کے ويرانے ميں ديکھا تھا۔ ايک عورت موٹي بھدي ، جسم کا ہر خم و گوشت ميں ڈوبا ہوا، آنکھوں ميں کاجل کي موتي تہہ، ہونٹوں پر لپ اسٹک کا ليپ، کانوں ميں سونے کي بالياں ، انگليوں پر نيل پالش ، کلائيوں ميں سونے کے کنگن ، گلے ميں سونے کا ہار، سينے ميں سونے کا دل، ڈھلي ہوئي جواني، ڈھلا ہوا جسم، چال ميں زيادہ خوشحالي ، اور زيادہ خوش وقتي کي بيزاري، آنکھوں ميں پر خوري کا خمار اور پيٹ کے ساتھ لگايا ہوا بھاري زرتار پرس۔۔دوسري لڑکي۔ل الٹرا ماڈرن ، الٹرا اسمارٹ ، سادگي بطور زيور اپنائے ہوئے، دبلي پتلي، سبز رنگ کي چست قميض کٹے ہوئے سنہرے بال ، کانو ں ميں چمکتے ہوئے سبز نگينے کلائي ميں سونے کي زنجير والي گھڑاي اور دوپٹے کي رسي گلے ميں ، گہرے شيڈ کي پنسل کے ابرو، آنکھوں ميں پر کار سحر کاري، گردن کھلے گريبان ميں سے اوپر اٹھي ہوئي ، دائيں جانب کو اس کا ہلکا سا مگرور خم ، ڈورس ڈے کٹ کے بال، بالون ميں يورپي عطر کي مہک، دماغ گزري ہوئي کل کے ملال سے نا آشنا، دل آنے والي کل وسوسوں سے بے نياز زندگي کي بھر خوشبوئوں اور مسرتوں سے لبريز جسم ، کچھ رکا رکا سا متحرک سا، کچھ بڑ بڑاتا ہوا۔ اس دودھ کي طرح جسے ابال آنے ہي والا ہو۔ سر انيگلو ، پاکستاني، لباس، پنجابي زبان انگريزي اور دل نہ تيرا نہ ميرا۔
بک اسٹال والا انہیں اندر داخل ہوتے ديکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور کٹھ پتلي کي طرح ان کے آگے پيچھے چکر کھانے لگا۔ اس نے پنکھا تيز کر ديا۔ کيونکہ لڑکي بار بار اپنے ننھے ريشمي رومال سے ماتھے کا پسينہ پونچھ رہي تھي۔ موتي عورت نے مسکرا کر پوچھا۔ آپ نے "لک" اور وہ "ٹر اسٹوري" نہيں بھجوائے۔ اسٹال والا احمقوں کي طرح مسکرانے لگا۔ وہ جب اب کے ہمارا مال راستے ميں رک گيا ہے۔ بس اس ہفتے کے اندر اندر سرئنلي بھجوا دوں گا۔ موٹي عورت نے کہا۔ پليز ضرور بھجواديں۔ لڑکي نے فوٹو گرافي کا ارسالہ اٹھا کر کہا۔ پليز اسے پيک کر کے گاڑي ميں رکھوا ديں۔ بک اسٹال والا بولا۔ کيا آپ انٹرويل ميں ہي جا رہي ہيں۔ موٹي عورت بولي ۔يس پکچر بڑي بور ہے۔
انہوں نے ساڑھے تين روپے کے ٹکٹ لئے تھے۔ پکچر پسند نہیں آئي ۔ لمبي کار کار دروازہ کھول ديا اور کار ديرا کي پر سکون لہر کي طرح سات روپوں کے اوپر سے گزر گئي۔ وہ سات روپے جن کے اوپر سے لوہاري دروازےکے ايک کنبے کے پورے ساتہ دن گزرتے ہيں۔ اور لوہاري دروازے کے باہر ايک گندہ نالہ بھي ہے۔ اگر آپ کو اس کنبے سے ملنا ہو تو اس گندے نالے کے ساتھ ساتھ چلے جائيں۔ ايک گلي دائيں ہاتھ کو ملے گي۔ اس گلي ميں سورج کبھي نہيں آيا ۔ ليکن بدبو بہت آتي ہے۔ يہ بدبو بہت حيرت انگيز ہے۔ اگر آپ يہاں رہ جائيں تو يہ غائب ہو جائے گي۔ يہاں صغرا بي بي رہتي ہے۔ ايک بوسيدہ مکان کي کوٹھري مل گئي ہے۔ دروازے پر ميلا چکٹ بوريا لٹک رہا ہے، پردہ کرنے کے لئے۔۔ جس طرح نئے ماڈل کي شيو ر ليٹ کار ميں سبز پردے لگے ہوتے ہيں۔ صحن کچا اور نم دار ہے۔ ايک چارپائي پڑي ہے۔ ايک طرف چولھا ۔۔کپڑوں کا ڈھير ہے۔ ديوار کے ساتھ پکانے والي ہنڈيا مٹي کا ليپ پھيرنے والي ہنڈيا اور دست پناہ لگے پرے ہيں۔ ايک سيڑھي چڑھ کر کوٹھري کا دروازہ ہے۔ کوتھري کا کچا فرش سيلا ہے۔در ديوار سے نم دار اندھيرا رس رہا ہے۔ سامنے دو صندوق کے اوپر صغرا بي بي نے پرانا کھيس ڈال رکھا ہے۔ کونے ميں ايک ٹوکرا الٹا رکھا ہے جس کے اندر دو مرغياں بند ہيں۔ ديوار ميں دو سلاخيں ٹھونک کر اوپر لکري کا تحفہ رکھا ہے۔ اس تختے پر صغرا بي بي نے اپنے ہاتھ سے اخبار کے کاغذ کاٹ کر سجائے ہيں۔ اور تين گلاس اور چار تھالياں ٹکا دي ہيں۔ اندر بھي ايک چارپائي بچھي ہے۔ اس چارپائي پر صغرا بي بي کے دو بچے سو رہے ہيں۔ دو بچے اسکول پڑھنے گئے ہيں۔ صغرا بي بي بڑي گھريلو عورت ہے باکل آئيڈيل قسم کي مشرقي عورت۔ خاوند مہينے کي آخر ي تاريخوں ميں پٹائي کرتا ہے تو رات کو اس کي مٹھياں بھرتي ہے۔ وہ لات مارتا ہے تو صغرا بي بي اپنا جسم ڈھيلا چھوڑ ديتي ہے۔ کہيں خاوند کے پاؤں کو چوٹ نہ آجائے۔ کتني آئيڈيل عورت ہے يہ صغرا بي بي يقينا ایسي ہي عورتوں کے سر کے اوپر دوزخ اور پاؤں کے نيچے جنت ہوتي ہے۔ خاوند ڈاکيہ ہے۔ ساٹھ روپے کي کثير رقم ہر مہينے کي پہلي کو لاتا ہے۔ پانچ روپے کوٹھري کا کرايہ۔ پانچ روپے دونوں بچوں کے اسکول کي فيس، بيس روپے دودھ والے کے اور تيس روپے مہينے بھر کے راشن پاني کے۔ باقي جو پيسے بچتے ہيں ان ميں يہ لوگ بڑے مزے سے گزر بسر کرتے ہيں۔ کبھي کبھي صغرا بي بي ساڑھے تين روپے والي کلاس میں بيٹھ کر فلم بھي ديکھ آتي ہے اور اگر پکچر بور ہو تو انٹر ول ميں ہي اٹھ کر لمبي کار ميں بيٹھ کر اپنے گھر آجاتي ہے۔ بک اسٹال والا ہر مہينے انگريزي رسالہ ، لک اور لائف اسے گھر پر ہي پہنچا ديتا ہے۔ وہ کھانے کے بعد ميٹھي چيز ضرور کھاتي ہے۔ دودھ کي کريم ميں ملے ہوئے انناس کے قتلے صغرا بي بي اور اس کے ڈاکيے خاوند کو بہت پسند ہيں۔ کريم کو محفوظ رکھنے کے لئے انہوں نے اپني کوٹھڑي کے اندر ايک ريفريجريٹر بھي لا رکھا ہوا ہے۔ صغرا بي بي کا خيال ہے کہ وہ اگلي تنخواہ پر کوٹھري کو ايئر کنڈيشنڈ کروا لے کيونکہ گرمي حبس اور گندے نالے کي بدبو کي وجہ سے اس کے سارے بچوں کے جسموں پر دانے نکل آتے ہيں اور وہ رات بھر انہيں اٹھ اٹھ کر پنکھا جھلتي رہتي ہے ۔ صغرا نے ايک ريڈيو گرام کا آڈر بھي دے رکھا ہے۔
 

ماوراء

محفلین
مائي گاڈ وٹ اے لولي ہوم از دس
ہوم سويٹ ہوم
صغرا بي بي کا رنگ ہلدي کي طرح ہے اور ہلدي ٹي بي کے مرض میں سے بے حد مفيد ہے۔ اس کے ہاتھوں ميں کانچ کي چوڑيا ں ہيں ۔ مہينے کے آخر میں جب اس کا خاوند اسے پيٹتا ہے تو ان میں سے اکثر ٹوٹ جاتي ہیں۔ چنانچہ اب اوہ اس ہر ماہ کے مستقل خرچ سے بچنے کے لئے سونے کے موٹے کنگن بنوا رہي ہے۔ کم از کم وہ ٹوٹ تو نہیں سکيں گے۔ صغرا بي بي کے چاروں بچوں کا رنگ بھي زرد ہے اور ہڈياں نکلي ہوئي ہيں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے انہیں کيلثيم کے ٹيکے لگاؤ۔ ہر روز صبح مکھن ، پھل انڈے ، گوشت اور سبزياں دو۔ شام کو اگر يخني کا ايک ايک پيالہ مل جائے تو بہت اچھا ہے اور ہاں انہیں جس قدر ممکن ہو گندے کمروں ، بدبودار محلون اور اندھيري کوٹھڑيوں سے دور رکھو۔ صغرا بي بي کا خيال ہے کہ وہ اگلي سے اگلي تنخواہ پر گلبرگ يا کينال پارک میں کسي جگہ ان بچوں کے لئے زمين کا چھوٹا سا ٹکڑا لے کر وہاں ايک چھوٹا سا تين چار کمروں والا مکان بنوالے گي۔ دو چھوٹے بچے ابھي اسکون نہیں جاتے ليکن انشاء اللہ وہ بھي ايک دن اسکول جانا شروع کر ديں گے اور جو دو بچے مزيد پيدا ہوں گے وہ بھي اسکول ضرور جائيں گے۔ اب کي دفعہ وہ انہیں کانونٹ ميں داخل کروانے کا ارادہ رکھتي ہے جہاں وہ ہر صبح خدا کے بيٹے کي دعا پڑھی ۔ صغرا بي بي کو ممي کہیں ، فر فر انگريزي بولیں اور اردو فارسي پڑھ کر تيل بيچنے کي بجائے مقابلے کے امتحان ميں بيٹھيں اور اونچا مرتبہ اور لمبي کار اور چوڑے لان والي کوٹھي پائيں۔
کيلثيم کے ٹيکوں کا پورا سيٹ بيس روپے ميں آتا ہے۔ يہ تو معمولي بات ہے۔ اب کي وہ اپنے خاوند سے کہے گي کہ ڈاک خانے سے پہلي تاريخ کو گھر آتے ہوئی دو سيٹ ليتے آئے۔ اپني کوٹھڑي والا ريفريجريٹر اس نے لال لال سيبون ، سرخ اناروں ، موٹے انگوروں ، مکھن کي ٹکيوں تازہ انڈوں اور گوشت کے قتلوں سے بھر ديا ہے۔ بچے سارا مہينہ مزے سے کھائيں گے اور موج اڑائيں گے۔ ليکن خدا کي دي ہوئي ہر نعمت کے ہوتے ہوئے بھي صغرا کے رخسار کي ہڈياں باہر کو نکلي ہوئي ہيں۔ کمر میں مستقل درد رہتا ہے ،چہرہ کمزور ہو کر پيلا پڑ گيا ہے، آنکھيں پھٹي پھٹي سي، ويران ويران سي رہتي ہيں۔ ان آنکھوں نے کيا ديکھ ليا ہے؟ اس کي عمر پچيس سال سے زيادہ نہیں ۔ مگر اس کا جسم ڈھل گيا ہے اندر ہي اندر گھل گيا ہے۔ ہاتھ کي نسيں ابھر آئي ہيں۔ کنگھي کرتے ہوئے ڈھيروں بال جھڑتے ہيں۔ ہاتھ پير ہر وقت ٹھنڈے رہتے ہيں جس طرح ريفريجريٹر ميں کريم پھل اور گوشت ٹھنڈا رہتا ہے۔
صغرا بي بي کي شادي کو پانچ سال ہو گئے ہيں اور خاوند نے اسے صرف چار بچے عطا کئے ہيں ۔ خدا اسے سلامت رکھے ابھي اور بچے پيد اہوں گے۔ ہر پہلي تاريخ کو اس کے خاوند کو صغرا بي بي سے محبت ہو جاتي ہے۔ جب بيس روپے دودھ والا لے جاتا ہے تو محبت کے اس تاج کا ايک برج گرتا ہے۔ پانچ روپے کرايہ جاتا ہے تو دوسرا برج گرتا ہے۔ پھر بچوں کي فيس، کاپياں، پنسليں، کتابيں ، راشن ، دال ، آٹا ، نمک، مرچ ، ہلدي ، اوپلے ، کپڑا ، پريساني ، تفکرات ، وسوسے ، ملال اور نا اميدياں ار يہ تاج محل گنبد سميت زمين کے ساتھ آن لگتا ہے اور خاوند اپني محبت کي پتاري ميں سے ڈنڈا نکال کر اپني پہلي تاريخ کي محبوبہ کي پٹائي شروع کر ديتا ہے۔
ونڈر فل ہوم
ڈيڈي آج آپ کامک نہيں لائے۔
او ممي يہ جيلي گندي ہے اسے پھينک ديں۔
کم ان ڈارلنگ صغرا بي بي ۔ آج الحمراء ميں کلچرل شو ديکھيں۔ ڈانس، ميوزک اووٹ اےتھرل ۔ ہني۔ بس يہ وائيٹ ساڑھي خوب ميچ کرے گي اور اس کے ساتھ بالوں ميں سفيد ماتے کے پھولوں کا گجرا۔۔۔۔مائي مائي يو آر سويٹ مائي ڈارلنگ صغرا بي بي۔۔
ندي کنارے يہ کاٹج کس قدر خوبصورت ہے۔ سر سبز لان، ترشي ہوئي گھاس قطار میں لگے ہوئے پھولوں کے پودے۔ ايک ملازم غسل خانے ميں لکس صابن سے کتے کو نہلا رہا ہے۔ اس کے بعد توليے سے اس کا جسم خشک کيا جائے گا۔ کنگھي پھيري جائے گي۔ گلے ميں ایپرین باندھا جائے گا اور اسے دو آدميوں کا کھانا کھلايا جائے گا اور پھر فورڈ کار میں بيٹھ کر مال روڈ کي سير کروائي جائے گي۔ آج اگر گوتم بدھ زندہ ہوتا تو وہ جانوروں کے ساتھ انسانوں کي اتني شديد محبت کو ديکھ کر کتنا خوش ہوتا۔ آج اسے انساني دکھوں اور مصيبتوں کو ديکھ کر محل چھوڑ کر جنگل ميں جا بيٹھنے کي کبھي ضرورت محسوس نہ ہوتي ۔ بلکہ وہ محل ہي ميں اپني بيوي بچے اور لونڈيوں کے ساتھ رہتا ۔ کتوں کي ايک پوري فوج رکھتا، شام کو کلب ميں جا کر دوستوں کے ساتھ تاس کھيلتا ، سنيما ديکھتا اور بچوں کو ساتھ لے کر انہیں کار ميں سير کرواتا۔ اس کے بچے رنگ دار قميض اور جينز پہن کر گردن اکڑا کر ، چھوٹي سي چھاتي پھلا کر ، پتلي سي کمر مٹکا کر کالج والے بس اسٹاپوں ، اعلي ہوٹلوں ناچ گھروں کے چکر لگاتے۔ وہ رات کو ايک بچے سوتے اور صبح منہ اندھيرے گيارہ بچے اٹھتے اور دانت صاف کئے بغير چائے پيتے اخبار ميں فلموں کا پروگرام ديکھتے۔گرمياں کبھي مري اور کبھي سوئٹرزلينڈ ميں بسر کرتے اور اپنے باپ کا نام روشن کرتے اور اسے کبھي بال منڈوا کر شاہي لبادہ پھينک کر ننگے پائوں نروان حاصل کرنے کے لئے جنگل کا رخ نہ کرنے ديتے۔
اف مائي گڈ نس لوہاري دروازے کي اس گندي گلي ميں کس قدر حبس ہے۔ يہ لوگ کيسے چارپائي گندي ناليوں پر ڈال کر سو رہے ہيں۔ وٹ اے پٹي مجھے ان لوگوں سے بڑي گہري ہمدردي ہے۔ميں ان کے تمام مسائل سے واقف ہوں ۔ ميں ہر ہفتے ان کي پھيکي اور بے رس زندگي پر ايک افسانہ لکھتا ہوں ۔ ميرا خيال ہے کہ ميں ان لوگوں کي زندگي پر ايک پر مغز تحقيقي مقالہ لکھ کر سب مٹ کروا دوں۔ بڑا ونڈر فل ميجکٹ ہے ۔ ڈاکٹريٹ تو وہ پڑي ہے۔ جس طرح وہ کھري چارپائي پڑي ہے، جس پر تين پھنسيوں زدہ بچے اور ايک بچہ زدہ ماں سو رہي ہے۔ ميں ناک پر رومال رکھے۔ پرنالون سے اپنے اجلے کپڑے بچاتا ، ان لوگوں کا گہرا مطالعہ کرتا بدبو دار گلي میں سے باہر نکل آتا ہوں۔لاہور ميں قيامت کي گرمي پڑي رہي ہے ۔ ليکن اس ہوٹل کي فضا کس قدر خشک ہے، ايئر کنڈيشننگ بھي خدا کي کتني بڑي نعمت ہے۔ آج ہوٹل ميں بڑي رونق ہے۔ سايہ دار دھيمے قمقموں کي ملائم روشني ميں لوگوں کے چہرے کتنے خواب آور دکھائي دے رہے ہيں۔ يہ کہيں خواب ہي تو نہیں۔ميرا خواب۔۔صغرا بي بي کا خواب۔ اس کے ڈاکيے خاوند کا خواب، ہري اوم وہ پوني ٹيل والي لڑکي کتني پياري ہے اور وہ بليک ٹيشو کي چست قميض والي دوشيزہ جس کے بالوں ميں ريل کے گجرے ہيں۔ کانون ميں زہريلے رنگ کے نگينے ہيں اور جس کا چہرہ باقاعدہ اور قوت بخش غذاؤں کے اثر سے کھانا کھانے والے چاندي کے چمچ کي طرح چمک ہرا ہے ۔اور وہ مرغن چہرے والي موٹي عورت جس کي آدھي آستينوں والي قميض بازوؤں پر گوشت کے اندر دھنس گئي ہے اس عورت کا چہرہ سوم کے بت کي طرح ہے۔ بے حس اور ٹھنڈا۔ اس کي گاڑي چودہ گز لمبي ہے اور غسل خانے کا فرش بارہ مربع گز ہے اس نے ريڈيو گرام جرمني سے منگوايا ہے۔ قالين ايران سے، عطر فرانس سے، کيمرہ امريکہ سے خاوند پاکستان سے حاصل کيا ہے۔ جتنے پيسوں کا صغرا بي بي کے ہفتے بھر کا راشن آتا ہے اتنے پيسے يہ بيرے کو ٹپ کر ديتي ہے۔ اس کے بنگلے ميں چار کتے اور سات بيرے رہتے ہيں۔ يہ ہميشہ چاندي کے کافي سيٹ ميں کافي پيتي ہے۔ چاندي کے برتنوں ميں بڑي خوبي يہ ہوتي ہے کہ ايک تو انہیں زنگ نہیں لگتا دوسرے وہ نان پوائزنس ہوتے ہيں۔ ايک سيٹ اپنے گھريلوں استعمال کے لئے لوہاري دروازے کي گلي والے ڈاکيے کو بھي خريد لينا چاہيے۔
 

ماوراء

محفلین
يہ ہوٹل تو بالکل جنت ہے۔ ايک جوڑا سب سے الگ بيٹھا ہے۔ کڑکي دبلي پتلي سي ہے۔ چست کپڑوں نے اسے اور دبلا بنا ديا ہے۔ بال ماتھے پر ہیں۔ ناخنوں پر ريڈ انڈين گلابي رنگ کا پالش چمک رہا ہے۔ اس شيڈکي لپ اسٹک کي ہلکي سي تہہ پتلے پتلے ہونٹوں پر ہے۔چہرے پر نسواني نزاکت کے ساتھ ساتھ جذبات کا دھيما دھيما ہيجان سا ہے۔ کان اپنے ساتھي کي باتوں پر ہیں اور بے چين آنکھيں موقع ملنے پر ايک ايک ميز کا جائزہ لے رہي ہيں۔ لڑکےکي گردن کالي بو اور بارڈر کالر ميں بري طرح پھنسي ہوئي ہے۔ ان کے سامنے کولڈ کافي کے گلاس ہيں۔ روشي ڈارلنگ ميں پرومس کرتا ہوں کل سے صنوعي کے ساتھ کوئي کنسرن نہيں رکھو گا۔
شٹ اپ يو بگ لائر، تم مجھ سے فلرٹ کر رہے ہو۔ فار گاڈ سيک ڈونٹ تھنک لائيک ويٹ ۔ آئي نو يو ڈارلنگ ۔ ۔لائي ۔۔۔جھوٹ بالکل جھوٹ ۔ميں يو کے سے واپس آتے ہي تم سے شادي کر لوں گا۔ تم وہاں شادي کر کے آؤ گے۔ نو ۔۔نيور۔۔تمخود ديکھ لو گي۔ پھر ہم دونوں يو کے چلے جائيں گے ۔ او وہيں جا کر سيٹل ہو جائيں گے۔ ميں اس گندے شہر سے بور ہو گيا ہو۔۔ بيرا۔۔۔
يس سر۔۔
ايک کريم پف۔
يس سر
ووڈ يو لائيک مور ڈارلنگ؟
نو تھينک يو۔
ميں بھي سوچ رہا ہون کہ يو کے جا کے سيٹل ہو جائوں۔ ميں بھي اپني گندي گليوں سے نور ہو گيا ہوں۔ شايد میں صغرا بي بياور اس کي گلي ميں کھڑي چارپائي پر ماں کے ساتھ سونے والے پھنسي زردہ بچوں کو بھي ليتا جائوں۔
بيرا تھري اسکويش مور۔
اوپر گيلري کو جانے والي سيڑھيوں کے پاس والي ميز پر تين ميڈيکل اسٹوڈنٹ بيٹھے باتيں کر رہے ہيں۔ گفتگو برجي باردو، کے کالھوں ،ايگا تھاکر سٹي کے ناولوں اور پکاڈلي کي پر اسرار گليوں سے ہو کر ميڈيکل پيشے میں آکر ٹھر گئي ہے۔ يار ميں تو فائنل سے نکل کر سيدھا لندن چلا جاؤں گا۔ يہاں کوئي فيوچر نہیں ہے۔ بالکل ۔۔ميں بھي وہيں جا کر پريکٹس کروں گا۔ برادر وہاں پيسہ بھي ہے اور مريض بھي برے پالشڈ ہوتے ہں۔ ۔
يار ميں تو يو کے جا کر کينسر ٹريٹمنٹ سپشلائيز کروں گا۔ يہاں کينسر اسپيشلسٹ کے بڑے چانسز ہيں۔ بيس روپے فيس رکھو گا اور ايک سال بعد اپنا کريم کلر کي ففٹي ايٹ ماڈل شو ہوگي اور گلبرگ ميں ايک کوٹھي۔
بھئي يار تم نے ہل مين بيچ کيوں دي؟
چھکڑا ہوگئي تھي۔ آئل بڑا کھناے لگي تھي۔
شي۔مس قريشي آرہي ہے۔
صديقي تم نے اس کي بڑي بہن مسز ارشاد کو پرسوں گرفن ميں ديکھا تھا؟ ارے بھئي۔ تم ساتھ ہي تو تھے کيا کلاس ون عورت ہے۔
نو ڈاؤٹ ۔۔بالکل لولوبريجڈا۔
سب لوگ پاکستان سے باہر جا رہے ہيں ۔کوئي برجي باردو کے پاس، کوئي لولوبريجيڈا کے پاس، کسي کو بيوي کے لئے جا رہي ہے کوئي بيوي کو لئے جا رہا ہے۔ کسي کو پيس کھپينچ رہا ہے اور کسي کو پالشڈ قسم کے مريض۔ ہم لوگ کہان جائيں گے؟ ميرا بھائي ڈاکيہ کہا جائے گا؟ صغرا بي بي کہاں جائے گي؟ اس کے بيمار بچوں کا علاج کون کرے گا؟ مثانے کي بيماري ميں نيم حکيم سے گردے کي درد کي دوا کھانے والے ديہاتي کہاں جائيں گے؟ ان لوگوں کا علاج پاکستان ميں کون کرے گا؟ کونے والي ميز پر ايک پاکستاني آدمي امريکيوں کي طرح کندھے اچکا کر اپنے ساتھي سے کہہ رہا ہے۔ بڑي پرابلم بن گئي ہے۔ کيسي پرابلم ؟بے بي نے تين سال لوئر کے جي ميں لگائے ہيں۔ کراچي سے يہاں تبديل وہ کر آگيا ہون۔ يہاں کسي انگريزي اسکول ميں داخلہ نہیں مل رہا ۔ کارپوريشن کے اسکول والے بي بے کو پھر سے دوسري جماعت ميں لے رہے ہيں۔ کہتے ہیں بچے کو اردو نہیں آتي۔ بھئي وہ تو سوائے انگريزي کے اور کچھ بولتا ہي نہیں۔ اب سمجھ میں نہیں آ رہا کيا کروں؟ اردو کو گولي مارو ۔۔اب اسے فرانسيسي پڑھاؤ گھر پر۔۔
ہوٹل ميں بڑي رونق ہو گئي ہے۔ يہ بڑي رومانٹک جگہ ہے او گيلري تو بڑي پر سکون جگہ ہے۔ ميں انشاء اللہ پرسوں اس گيلري میں بيتک کر لوہاري دروازے کي بوسيدہ گلي والي بيمار صغرا بي بي پر ايک کہاني ضرور لکھوں گا۔ پاکر کر قلم ، کرو کسلے کا پيڈ، کولڈ کافي کا گلاس ، تھري کاسل کا سگڑيٹ ، کائونٹر کے گلدان میں لگي يو کلپٹس کي پتيوں اور ہوٹل ميں بيٹھي خوبصورت نازک عورتوں کے کپڑوں کي يورپي مھک اور صغرا بي بي کا ونڈر فل ميجسکٹ ايسا افسانہ تو بس اسي جگہ بيٹھ کر لگا جا سکتا ہے۔
ميں گيلري ميں تھا جھانک کر نيچے ديکھتا ہوں۔ تين ہم شکل، ہم لباس لڑکياں گردنيں اٹھائے سينہ تانے ، آنکھوں میں مغرور چمک لئے داخل ہو رہي ہيں۔ گردنيں موڑے بغير آنکھيں اٹھائے بغير ہر شخص کا جائزہ لينے لگا ہے۔ يہ دور شجاعت کے انگريزي ناولوں کي ہيروئنيں معلوم ہو رہي ہيں جو کبھي پھولدار بيلوں سے نصف ڈھکي ہوئي بالکونيوں ميں کھڑے ہو کر چاندني راتوں ميں اپنے محبوب کا انتظار کرتي تھيں اور نوکيلي رنگيں چونچوں والے پرندوں کے پروں ميں انتہائي جذبات، محبت نامے باندھ کر انہیں چوم کر فضا ميں چھوڑ ديا کرتي تھيں۔ جو اپنے محبوب کي بے وفائي کا حال سن کر زہر کھا ليا کرتي تھيں۔ ليکن اس ايٹمي دور ميں عشق فورڈ کار کي چابي گھمانے سے اسٹارٹ ہوتا ہے اور محبت نامے بنک کي چيک بک پر لکھے جاتے ہيں۔ اب يہ لڑکياں محبوب کي بے وفائي کا سن کر زہر کھانے کي بجاے چکن سينڈوچ کھا کر رومال سے منہ پونچھتي ہيں اور دوسرے محبوب کي تلاش میں دوسري کار کي تلاش میں، دوسرے کيرئير کي تلاش میں نکل پڑتي ہیں۔ محبت کے جذبات آج کل اسپرو کي ايک ٹکيہ کھا کر غائب ہو جاتےہيں اور عشق کا ہيجان فروٹ سلات کے ايک ہي چمچ سے بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے ۔ شادي زندگي کے کاؤنٹر پر مستقل سودا ہے اور محبت شادي کي گاڑي کے پيچھے لٹکتا ہوا جوتا ہے۔
 

ماوراء

محفلین
فضا ميں ايئر کنڈيشنگ پلانٹ کي سونفي مہک کے ساتھ باريک ريشمي کپڑوں کي لطيف سرسراہٹ ، بجلي کي دھيمي روشني ميں روغني چہروں کي جھلملاہٹ ، چاندي کے سر پوش والي چٹني مربہ کي شيشيوں کي چمک دمل اور مختلف قسم کے کھانون کي خوشبوئيں گھل مل رہي ہيں۔ دھيمي دھمي باتوں کي بھنبھناہٹ ہے۔ مسرت اندوزي کے منصوبے ہیں۔ خود اطميناني کي ہلکي ہلکي ہنسي ہے ، خود پرستي کي ادائیں ہیں۔ گہرے اسرا رو رموز والي پر اسرا نگاہيں ہيں اور خواب ہیں صحت مند دھلے دھلائے چہرے ہیں۔ رگڑ رگڑ کر داڈھي مونڈھے گال ہيں۔ گردن ، کندھے اور نظرو ں کے غير ملکي ٹکسال ميں ڈھلے ڈھلائے اشارے ہیں۔ پھنسي پھنسائي گردنيں ہیں۔ گھٹي گھٹي باتيں ہيں۔ برجي باردو کے ہونٹ ہیں ، لولو بريجنڈا کے باوں ہيں ، ڈورس ڈے کے بال ہیں، امريکي ٹائياں ہيں۔ فرانسيسي عطر ہیں، انگريزي جوتے ہيں، سوئٹرزلينڈ، جرمني ، سيلون اور سنگا پور کي باتيں ہيں۔ کہيں چک 92 ايف کي دوپہر ميں ہل چلاتا کاشتکار نہيں۔ کہیں حلوائي کي دکان کے پھٹے پر بيٹھ کر پيا جانے والا لسي کا گلاس نہيں، کہیں دور افتادہ گاؤں ميں غوثيہ يونيورسٹي کي بنياد رکھنے والا ڈاکٹر فريد نہيں، کہیں تاريک افريقہ کے جنگلون ميں انسانوں کي بھلائي کے لئے زندگي وقف کر دينے والا الرٹ شويٹرز نہیں۔ کہیں صغرا بيبي کے زرد گالوں اور کمر کي مستقل درد کے لئے کيلثيم نہيں۔ کہیں مشرقي پاکستان کے درياؤں کے سيلاب سے برسر پيکار رہنے والے ماہي گير نہيں۔ وہ اداس آنکھيں نہیں، وہ ناريل کے تيل لگے گہرے سياہ بال نہیں، کہيں وہ پہلي کي پہلي بيوي سے محبت کرنے والا اور مہينے کے آخر ميں اس کي پٹائي کرنے والا مفلوک الحال ڈاکيہ نہیں، کوئي سيل زدہ ديوار نہیں جس پر صرف تانبے کے چار گلاس اور تين تھالياں لگي ہون۔ کھيتوں کي کڑھکتي دھوپ ميں اپني ہير کي راہ ديکھنے والا کوئي رانجھا نہیں۔ سب ڈرائينگ روم لورز ہیں، ٹھنڈي نشست گاہوں ميں انناس کےقتلے اور کولڈ کافي کا گلاس سامنے رکھ کر محبت کي سرد آہيں بھرنے والے عاشق ہيں۔ يوکلپٹس کي پتيوں کو فرنچ عطر کانوں پر لگا کر کہانياں لکھنے والے افسانہ نگا ہیں۔ قوم، مذہب ، ملت او سياست کے نام پر اپني گاڑيوں ميں پٹرول ڈلوانے والے اور اپني کوٹھيوں ميں نئے کمرے بنوانے والے درد منداں قوم ہیں۔ عشرت انگيزي ہے، تصنع آميزي ہے۔ سر پرستي ہے، خود پسندي ہے، جعلي سکے ہيں کہ ايک کے بعد بنتے چلے جا رہے ہيں۔ روشني کے داغ ہيں کہ ايک کے بعد ايک ابھرتے چلے جا رہے ہيں۔ انہیں صغرا بي بي کے بچوں کي پھنسيوں سے کوئي سروکار نہیں۔ انہيں اس کے ڈاکیے خاوند کے تاج محل کي بربادي کا کوئي علم نہيں۔ انہیں کھري چرپائي پر گندے نالے کے پاس رات بسر کرنے والوں سے کوئي دلچسپي نہیں۔ دھان زمين ميں اگتا ہے يا درختوں پر لگتا ہے انہيں کوئي خبر نہيں۔يہ اپنے ملک ميں اجنبي ہيں۔ يہ اپنےگھر ميں مسافر ہيں۔ يہ اپنوں ميں بيگانے ہيں۔ چيک بک ، پاسپورٹ ، کار کي چابي کوٹھي اور لائسنس ۔۔يہي ان کي منزل ہے ،يہي ان کا محور ہے، يہي ان کا مرکز ہے، يہي ان کا مذہب ہے اور يہي ان کا پاکستان ہے۔يہ وہ باسي کھانے ہيں جن کي تازگي ريفريجريٹر بھي برقرار نہ رکھ سکا۔ يہ دو سورجوں کے درميان کا پردہ ہيں۔ يہ کھلے ہوئے متبسم لبون کے درميان کي تاريک لکير ہيں يہ اس غار کے منہ پر تنا ہوا جالا ہيں جہاں چاند طلوع ہو رہا ہے۔اب رات آسمان کي راکھ می سے تاروں کے انگارے کريدنے لگي ہے۔ لوہاري دروازے کي تنگ و تاريک گلي میں حبس ہے بدبو ہے، گرمي ہے ، مچھر ہیں ، پسينہ ہے، ٹوٹي پھوٹي کھري چارپايوں کي سيدھي ٹيڑھي قاريں ہیں ، ناليوں ميں جمي ہوئي گندگي ہے۔ چارپايوں سے نيچے لتکتي ہوئي گلي کے فرش پر لگي ہوئي ٹانگيں ہيں۔ کمزور باسي چہرے ہيں پھٹے پھٹے ہونٹ ہيں۔ صغرا بيبي اپنے چاروں بچوں کو پنکھا جھل رہي ہے، کوتھري ميں حبس کے مارے دم گھتا جا رہا ہے۔ گندے نالے والي کھڑکي ميں گرم ايشيائي رات کے سبز چاند کي جگہ اوپلو کا ڈھير پرا سلگ رہا ہے ۔ اس کا ڈاکيہ خاوند پاس ہي پرا خراٹے لے رہا ہے۔ پنکھا جھلتے جھلتے اب صغرا بي بي بھي اونگھنے لگي ہے۔ اب پنکھا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نيچے گر پڑا ہے ۔ اب کمرے ميں اندھيرا ہے۔ خاموشي ہے۔ چار بچوں کے درميان سوئي ہوئي مٹي کي مونا ليزا کے ہونٹ نيم وا ہيں۔ چہرہ کھنچ کر بھيانک ہو گيا ہے۔آنکھوں کے حلقے گہرے ہو گئے ہيں اور رخساروں پر موت کي زردي چھا گئي ہے۔ اس پر کسي ايسے بوسيدہ مقبرے کا گمان ہو رہا ہے ، جس کے گنبد ميں دراڈيں پڑ گئي ہوں جس کے تعويذ پر اگر کوئي بتي نہ سلگتي ہو اور جس کے صحن ميں کوئي پھول نہ کھلتا ہو۔
 

راجہ صاحب

محفلین
مٹی کی مونا لیزا

مونا ليزا کي مسکراہٹ ميں بھيد ہے؟
اس کے ہونٹوں پر يہ شفق کا سونا، سورج کا جشن طلوع ہے يا غروب ہوتے ہوئے آفتاب کا گہرا ملال؟ ان نيم دا مستبم ہونٹوں کے درميان يہ باريک سي کالي لکير کيا ہے؟ يہ طلوع و غروب کے دين بيچ میں اندھيرے کي آبشار کہاں سے گر رہي ہے؟ ہرے ہرے طوطوں کي ايک ٹولي شور مچاتي امرود کے گھنے باغون کے اوپر سے گزرتي ہے۔ ويران باغ کي جنگلي گھاس میں گلاب کا ايک زرد شگوفہ پھوٹتا ہے۔ آم کے درختون مین بہنے والي نہر کي پليا پر سے ايک تنگ دھڑنگ کالا لڑکا رتيلے ٹھنڈے پاني ميں چھلانگ لگاتا ہے اور پکے ہوئے گھرے بسنتي آموں کا ميٹھا رس مٹي پر گرنے لگتا ہے۔
سنيما ہال کے بک اسٹال پر کھڑے ميں اس ميٹھے رس کي گرم خوشبو سونگھتا ہوں اور ايک آنکھ سے انگريزي رسالے کو ديکھتے ہوئے دوسري آنکھ سے ان عورتوں کو ديکھتا ہوں جنہیں ميں نے فلم شروع ہونے سے پہلے سب سے اونچے درجے کي ٹکٹوں والي کھڑکي پر ديکھا تھا۔ اس سے پہلے انہیں سبز رنگ کي لمبي کار ميں سے نکلتے ديکھا تھا اور اس سے پہلے بھي شايد انہیں کسي خواب کے ويرانے ميں ديکھا تھا۔ ايک عورت موٹي بھدي ، جسم کا ہر خم و گوشت ميں ڈوبا ہوا، آنکھوں ميں کاجل کي موتي تہہ، ہونٹوں پر لپ اسٹک کا ليپ، کانوں ميں سونے کي بالياں ، انگليوں پر نيل پالش ، کلائيوں ميں سونے کے کنگن ، گلے ميں سونے کا ہار، سينے ميں سونے کا دل، ڈھلي ہوئي جواني، ڈھلا ہوا جسم، چال ميں زيادہ خوشحالي ، اور زيادہ خوش وقتي کي بيزاري، آنکھوں ميں پر خوري کا خمار اور پيٹ کے ساتھ لگايا ہوا بھاري زرتار پرس۔۔دوسري لڑکي۔ل الٹرا ماڈرن ، الٹرا اسمارٹ ، سادگي بطور زيور اپنائے ہوئے، دبلي پتلي، سبز رنگ کي چست قميض کٹے ہوئے سنہرے بال ، کانو ں ميں چمکتے ہوئے سبز نگينے کلائي ميں سونے کي زنجير والي گھڑاي اور دوپٹے کي رسي گلے ميں ، گہرے شيڈ کي پنسل کے ابرو، آنکھوں ميں پر کار سحر کاري، گردن کھلے گريبان ميں سے اوپر اٹھي ہوئي ، دائيں جانب کو اس کا ہلکا سا مگرور خم ، ڈورس ڈے کٹ کے بال، بالون ميں يورپي عطر کي مہک، دماغ گزري ہوئي کل کے ملال سے نا آشنا، دل آنے والي کل وسوسوں سے بے نياز زندگي کي بھر خوشبوئوں اور مسرتوں سے لبريز جسم ، کچھ رکا رکا سا متحرک سا، کچھ بڑ بڑاتا ہوا۔ اس دودھ کي طرح جسے ابال آنے ہي والا ہو۔ سر انيگلو ، پاکستاني، لباس، پنجابي زبان انگريزي اور دل نہ تيرا نہ ميرا۔
بک اسٹال والا انہیں اندر داخل ہوتے ديکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور کٹھ پتلي کي طرح ان کے آگے پيچھے چکر کھانے لگا۔ اس نے پنکھا تيز کر ديا۔ کيونکہ لڑکي بار بار اپنے ننھے ريشمي رومال سے ماتھے کا پسينہ پونچھ رہي تھي۔ موتي عورت نے مسکرا کر پوچھا۔ آپ نے "لک" اور وہ "ٹر اسٹوري" نہيں بھجوائے۔ اسٹال والا احمقوں کي طرح مسکرانے لگا۔ وہ جب اب کے ہمارا مال راستے ميں رک گيا ہے۔ بس اس ہفتے کے اندر اندر سرئنلي بھجوا دوں گا۔ موٹي عورت نے کہا۔ پليز ضرور بھجواديں۔ لڑکي نے فوٹو گرافي کا ارسالہ اٹھا کر کہا۔ پليز اسے پيک کر کے گاڑي ميں رکھوا ديں۔ بک اسٹال والا بولا۔ کيا آپ انٹرويل ميں ہي جا رہي ہيں۔ موٹي عورت بولي ۔يس پکچر بڑي بور ہے۔
انہوں نے ساڑھے تين روپے کے ٹکٹ لئے تھے۔ پکچر پسند نہیں آئي ۔ لمبي کار کار دروازہ کھول ديا اور کار ديرا کي پر سکون لہر کي طرح سات روپوں کے اوپر سے گزر گئي۔ وہ سات روپے جن کے اوپر سے لوہاري دروازےکے ايک کنبے کے پورے ساتہ دن گزرتے ہيں۔ اور لوہاري دروازے کے باہر ايک گندہ نالہ بھي ہے۔ اگر آپ کو اس کنبے سے ملنا ہو تو اس گندے نالے کے ساتھ ساتھ چلے جائيں۔ ايک گلي دائيں ہاتھ کو ملے گي۔ اس گلي ميں سورج کبھي نہيں آيا ۔ ليکن بدبو بہت آتي ہے۔ يہ بدبو بہت حيرت انگيز ہے۔ اگر آپ يہاں رہ جائيں تو يہ غائب ہو جائے گي۔ يہاں صغرا بي بي رہتي ہے۔ ايک بوسيدہ مکان کي کوٹھري مل گئي ہے۔ دروازے پر ميلا چکٹ بوريا لٹک رہا ہے، پردہ کرنے کے لئے۔۔ جس طرح نئے ماڈل کي شيو ر ليٹ کار ميں سبز پردے لگے ہوتے ہيں۔ صحن کچا اور نم دار ہے۔ ايک چارپائي پڑي ہے۔ ايک طرف چولھا ۔۔اپلوں کا ڈھير ہے۔ ديوار کے ساتھ پکانے والي ہنڈيا مٹي کا ليپ پھيرنے والي ہنڈيا اور دست پناہ لگے پرے ہيں۔ ايک سيڑھي چڑھ کر کوٹھري کا دروازہ ہے۔ کوتھري کا کچا فرش سيلا ہے۔در ديوار سے نم دار اندھيرا رس رہا ہے۔ سامنے دو صندوق کے اوپر صغرا بي بي نے پران اکھيس ڈال رکھا ہے۔ کونے ميں ايک ٹوکرا التا رکھا ہے جس کے اندر دو مرغياں بند ہيں۔ ديوار ميں دو سلاخيں ٹھونک کر اوپر لکري کا تحفہ رکھا ہے۔ اس تختے پر صغر بي بي نے اپنے ہاتھ سے اخبار کے کاغذ کاٹ کر سجائے ہيں۔ اور تين گلاس اور چار تھالياں ٹکا دي ہيں۔ اندر بھي ايک چارپائي بچھي ہے۔ اس چارپائي پر صغرا بي بي کے دو بچے سو رہے ہيں۔ دو بچے اسکول پڑھنے گئے ہيں۔ صغرا بي بي بڑي گھريلو عورت ہے باکل آئيڈيل قسم کي مشرقي عورت۔ خاوند مہينے کي آخر ي تاريخوں ميں پٹائي کرتا ہے تو رات کو اس کي مٹھياں بھرتي ہے۔ وہ لات مارتا ہے تو صغرا بي بي اپنا جسم ڈھيلا چھوڑ ديتي ہے۔ کہيں خاوند کے پائوں کو چوت نہ آجائے۔ کتني آئيڈيل عورت ہے يہ صغرا بي بي يقينا اسي ہي عورتوں کے سر کے اوپر دوزخ اور پائوں کے نيچے جنت ہوتي ہے۔ خاوند ڈاکيہ ہے۔ ساٹھ روپے کي کثير رقم ہر مہينے کي پہلي کو لاتا ہے۔ پانچ روپے کوٹھري کا کرايہ۔ پانچ روپے دونون بچوں کے اسکول کي فيس، بيس روپے دودھ والاے کے اور تيس روپے مہينے بھر کے راشن پاني کے۔ باقي جو پيسے بچتے ہيں ان ميں يہ لوگ بڑے مزے سے گزر بسر کرتے ہيں۔ کبھي کبھي صغرا بي بي ساڑھے تين روپے والي کلاس میں بيٹھ کر فلم بھي ديکھ آتي ہے اور اگر پکچر بور ہو تو انٹر ول ميں ہي اٹھ کر لمبي کار ميں بيٹھ کر اپنے گھر آجاتي ہے۔ بک اسٹال والا ہر مہينے انگريزي رسالہ ، لک اور لائف اسے گھر پر ہي پہنچا ديتا ہے۔ وہ کھانے کے بعد ميٹھي چيز ضرور کھاتي ہے۔ دودھ کي کريم ميں ملے ہوئے انناس کے قتلے صغرا بي بي اور اس کے ڈاکيے خاوند کو بہت پسند ہيں۔ کريم کو محفوظ رکھنے کے لئے انہوں نے اپني کوٹھڑي کے اندر ايک ريفريجريٹر بھي لا رکھا ہوا ہے۔ صغرا بي بي کا خيال ہے کہ وہ اگلي تنخواہ پر کوٹھري کو ايئر کنڈيشنڈ کروا لے کيونکہ گرمي حبس اور گندے نالے کي بدبو کي وجہ سے اس کے سارے بچوں کے جسموں پر دانے نکل آتے ہيں اور وہ رات بھر انہيںاٹھ اٹھ کر پنکھا جھلتي رہتي ہے ۔ صغرا نے ايک ريڈيو گرام کا آدر بھي دے رکھا ہے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
مائي گاڈ وٹ اے لولي ہوم از دس
ہوم سويٹ ہوم
صغرا بي بي کا رنگ ہلدي کي طرح ہے اور ہلدي ٹي بي کے مرض میں سے بے حد مفيد ہے۔ اس کے ہاتھوں ميں کانچ کي چوڑيا ں ہيں ۔ مہينے کے آخر میں جب اس کا خاوند اسے پيٹتا ہے تو ان مین سے اکثر ٹوٹ جاتي ہیں۔ چنانچہ اب اوہ اس ہر ماہ کے مستقل خرچ سے بچنے کے لئے سونے کے موٹے کنگن بنوا رہي ہے۔ کم از کم وہ ٹوٹ تو نہمں سکيں گے۔ صغرا بي بي کے چارون بچوں کا رنگ بھي زرد ہے اور ہڈياں نکلي ہوئي ہيں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے انہیں کيلثيم کے ٹيکے لگائو۔ ہر روز صبح مکھن ، پھل انڈے ، گوشت اور سبزياں دو۔ شام کو اگر يخني کا ايک ايک پيالہ مل جائے تو بہت اچھا ہے اور ہاں انہیں جس قدر ممکن ہو گندے کمروں ، بدبودار محلون اور اندھيري کوٹھڑيوں سے دور رکھو۔ صغرا بي بي کا خيال ہے کہ وہ اگلي سے اگلي تنخواہ پر گلبرگ يا کينال پارک میں کسي جگہ ان بچوں کے لئے زمين کا چھوٹا سا ٹکڑا لے کر وہاں ايک چھوٹا سا تين چار کمروں والا مکان بنوالے گي۔ دو چھوٹے بچے ابھي اسکون نہیں جاتے ليکن انشاء اللہ وہ بھي ايک دن اسکول جانا شروع کر ديں گے اور جو دو بچے مزيد پيدا ہوں گے وہ بھي اسکول ضرور جائيں گے۔ اب کي دفعہ وہ انہیں کانونٹ ميں داخل کروانے کا ارادہ رکھتي ہے جہان وہ ہر صبح خدا کے بيٹے کي دعا پڑھں ۔ صغرا بي بي کو ممي کہیں ، فر فر انگريزي بولین اور اردو فارسي پڑھ کر تيل بيچنے کي بجائے مقابلے کے امتحان ميں بيٹھيں اور اونچا مرتبہ اور لمبي کار اور چوڑے لان والي کوٹھي پائيں۔
کيلثيم کے ٹيکوں کا پورا سيٹ بيس روپے ميں آتا ہے۔ يہ تو معمولي بات ہے۔ اب کي وہ اپنے خاوند سے کہے گي کہ ڈاک خانے سے پہلي تاريخ کو گھر آتے ہوئ دو سيٹ ليتے آئے۔ اپني کوتھڑي والا ريفريجريٹر اس نے لال لال سيبون ، سرخ اناروں ، موٹے انگوروں ، مکھن کي ٹکيوں تازہ انڈوں اور گوشت کے قتلوں سے بھر ديا ہے۔ بچے سارا مہينہ مزے سے کھائيں گے اور موج اڑائيں گے۔ ليکن خدا کي دي ہوئي ہر نعمت کے ہوتے ہوئے بھي صغرا کے رخسار کي ہڈياں باہر کو نکلي ہوئي ہيں۔ کمر میں مستقل درد رہتا ہے ،چہرہ کمزور ہو کر پيلا پڑ گيا ہے، آنکھيں پھٹي پھٹي سي، ويران ويران سي رہتي ہيں۔ ان آنکھون نے کيا ديکھ ليا ہے؟ اس کي عمر پچيس سال سے زيادہ نہیں ۔ مگر اس کا جسم ڈھل گيا ہے اندر ہي اندر گھل گيا ہے۔ ہاتھ کي نسين ابھر آئي ہيں۔ کنگھي کرتے ہوئے ڈھيروں بال جھڑتے ہيں۔ ہاتھ پير ہر وقت ٹھنڈے رہتے ہيں جس طرح ريفريجريٹر ميں کريم پھل اور گوشت ٹھنڈا رہتا ہے۔
صغرا بي بي کي شادي کو پانچ سال ہو گئے ہيں اور خاوند نے اسے صرف چار بچے عطا کئے ہيں ۔ خدا اسے سلامت رکھے ابھي اور بچے پيد اہوں گے۔ ہر پہلي تاريخ کو اس کے خاوند کو صغرا بي بي سے محبت ہو جاتي ہے۔ جب بيس راپے دودھ والا لے جاتا ہے تو محبت کے اس تاج کا ايک برج گرتا ہے۔ پانچ روپے کرايہ جاتا ہے تو دوسرا برج گرتا ہے۔ پھر بچون کي فيس، کاپيا،ں پنسليں، کتابيں ، راشن ، دال ، آٹا ، نمک، مرچ ، ہلدي ، اوپلے ، کپڑا ، پريساني ، تفکرات ، وسوسے ، ملال اور نا اميديان ار يہ تاج محل گنبد سميت زمين کے ساتھ آن لگتا ہے اور خاوند اپني محبت کي پتاري ميں سے ڈنڈا نکال کر اپني پہلي تاريخ کي محبوبہ کي پٹائي شروع کر ديتا ہے۔
ونڈر فل ہوم
ڈيڈي آج آپ کامک نہيں لائے۔
او ممي يہ جيلي گندي ہے اسے پھينک ديں۔
کم ان ڈارلنگ صغرا بي بي ۔ آج الحمراء ميں کلچرل شو ديکھيں۔ ڈانس، ميوزک اووٹ اےتھرل ۔ ہني۔ بس يہ وائيٹ سارھي خوب ميچ کرے گي اور اس کے ساتھ بالوں ميں سفيد ماتے کے پھولوں کا گجرا۔۔۔۔مائي مائي يو آر سويٹ مائي ڈارلنگ صغرا بي بي۔۔
ندي کنارے يہ کاٹج کس قدر خوبصورت ہے۔ سر سبز لان، ترشي ہوئي گھاس قطار میں لگے ہوئے پھولون کے پودے۔ ايک ملازم غسل خانے ميں لکس صابن سے کتے کو نہلا رہا ہے۔ اس کے بعد توليے سے اس کا جسم خشک کيا جائے گا۔ کنگھي پھيري جائے گي۔ گلے ميں اپرپن باندھا جائے گا اور اسے دو آدميون کا کھانا کھلايا جائے گا اور پھر فورڈ کار میں بيٹھ کر مال روڈ کي سير کروائي جائے گي۔ آج اگر گوتم بدھ زندہ ہوتا تو وہ جانوروں کے ساتھ انسانوں کي اتني شديد محبت کو ديکھ کر کتنا خوش ہوتا۔ آج اسے انساني دکھوں اور مصيبتوں کو ديکھ کر محل چھوڑ کر جنگل ميں جا بيٹھنے کي کبھي ضرورت محسوس نہ ہوتي ۔ بلکہ وہ محل ہي ميں اپني بيوي بچے اور لونڈيوں کے ساتھ رہتا ۔ کتوں کي ايک پوري فوج رکھتا، شام کو کلب ميں جا کر دوستوں کے ساتھ تاس کھيلتا ، سنيما ديکھتا اور بچوں کو ساتھ لے کر انہیں کار ميں سير کرواتا۔ اس کے بچے رنگ دار قميض اور جينز پہن کر گردن اکڑا کر ، چھوٹي سي چھاتي پھلا کر ، پتلي سي کمر مٹکا کر کالج والے بس اسٹاپوں ، اعلي ہوٹلوں ناچ گھروں کے چکر لگاتے۔ وہ رات کو ايک بچے سوتے اور صبح منہ اندھيرے گيارہ بچے اٹھتے اور دانت صاف کئے بغير چائے پيتے اخبار ميں فلمون کا پروگرام ديکھتے۔گرمياں کبھي مري اور کبھي سوئٹرزلينڈ ميں بسر کرتے اور اپنے باپ کا نام روشن کرتے اور اسے کبھي بال منڈوا کر شاہي لبادہ پھينک کر ننگے پائوں نروان حاصل کرنے کے لئے جنگل کا رخ نہ کرنے ديتے۔
اف مائي گڈ نس لوہاري دروازے کي اس گندي گلي ميں کس قدر حبس ہے۔ يہ لوگ کيسے چارپائي گندي ناليوں پر ڈال کر سو رہے ہيں۔ وٹ اے پٹي مجھے ان لوگوں سے بڑي گہري ہمدردي ہے۔ميں ان کے تمام مسائل سے واقف ہون ۔ ميں ہر ہفتے ان کي پھيکي اور بے رس زندگي پر ايک افسانہ لکھتا ہوں ۔ ميرا خيال ہے کہ ميں ان لوگوں کي زندگي پر ايک پر مغز تحقيقي مقالہ لکھ کر سب مٹ کروا دوں۔ بڑا ونڈر فل ميجکٹ ہے ۔ ڈاکٹريٹ تو وہ پڑي ہے۔ جس طرح وہ کھري چارپائي پڑي ہے، جس پر تين پھنسيوں زدہ بچے اور ايک بچہ زدہ ماں سو رہي ہے۔ ميں ناک پر رومال رکھے۔ پرنالون سے اپنے اجلے کپڑے بچاتا ، ان لوگوں کا گہرا مطالعہ کرتا بدبو دار گلي میں سے باہر نکل آتا ہوں۔لاہور ميں قيامت کي گرمي پڑي رہي ہے ۔ ليکن اس ہوٹل کي فضا کس قدر خشک ہے، ايئر کنڈيشننگ بھي خدا کي کتني بڑي نعمت ہے۔ آج ہوٹل ميں بڑي رونق ہے۔ سايہ دار دھيمے قمقموں کي ملائم روشني ميں لوگوں کے چہرے کتنے خواب آور دکھائي دے رہے ہيں۔ يہ کہيں خواب ہي تو نہیں۔ميرا خواب۔۔صغرا بي بي کا خواب۔ اس کے ڈاکيے خاوند کا خواب، ہري اوم وہ پوني ٹيل والي لڑکي کتني پياري ہے اور وہ بليک ٹيشو کي چست قميض والي دوشيزہ جس کے بالوں ميں ريل کے گجرے ہيں۔ کانون ميں زہريلے رنگ کے نگينے ہيں اور جس کا چہرہ باقاعدہ اور قوت بخش غذائوں کے اثر سے کھانا کھانے والے چاندي کے چمچ کي طرح چمک ہرا ہے ۔اور وہ مرغن چہرے والي موٹي عورت جس کي آدھي آستينوں والي قميض بازوئوں پر گوشت کے اندر دھنس گئي ہے اس عورت کا چہرہ سوم کے بت کي طرح ہے۔ بے حس اور ٹھنڈا۔ اس کي گاڑي چودہ گز لمبي ہے اور غسل خانے کا فرش بارہ مربع گز ہے اس نے ريڈيو گرام جرمني سے منگوايا ہے۔ قالين ايران سے، عطر فرانس سے، کيمرہ امريکہ سے خاوند پاکستان سے حاصل کيا ہے۔ جتنے پيسون کا صغرا بي بي کے ہفتے بھر کا راشن آتا ہے اتنے پيسے يہ بيرے کو ٹپ کر ديتي ہے۔ اس کے بنگلے مين چار کتے اور سات بيرے رہتے ہيں۔ يہ ہميشہ چاندي کے کافي سيٹ ميں کافي پيتي ہے۔ چاندي کے برتنوں ميں بڑي خوبي يہ ہوتي ہے کہ ايک تو انہیں زنگ نہیں لگتا دوسرے وہ نان پوائزنس ہوتے ہيں۔ ايک سيٹ اپنے گھريلوں استعمال کے لئے لوہاري دروازے کي گلي والے ڈاکيے کو بھي خريد لينا چاھئيے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
يہ ہوٹل تو بالکل جنت ہے۔ ايک جوڑا سب سے الگ بيٹھا ہے۔ کڑکي دبلي پتلي سي ہے۔ چست کپڑوں نے اسے اور دبلا بنا ديا ہے۔ بال ماتھے پر ہیں۔ ناخنوں پر ريڈ انڈين گلابي رنگ کا پالش چمک رہا ہے۔ اس شيڈکي لپ اسٹک کي ہلکي سي تہہ پتلے پتلے ہونٹون پر ہے۔چہرے پر نسواني نزاکت کے ساتھ ساتھ جذبات کا دھيما دھيما ہيجان سا ہے۔ کان اپنے ساتھي کي باتون پر ہیں اور بے چين آنکھيں موقع ملنے پر ايک ايک ميز کا جائزہ لے رہي ہيں۔ لڑکےکي گردن کالي بو اور بارڈر کالر ميں بري طرح پھنسي ہوئي ہے۔ ان کے سامنے کولڈ کافي کے گلاس ہيں۔ روشي ڈارلنگ ميں پرومس کرتا ہون کل سے صنوعي کے ساتھ کوئي کنسرن نہيں رکھو گا۔
شٹ اپ يو بگ لائر، تم مجھ سے فلرٹ کر رہے ہو۔ فار گاڈ سيک ڈونٹ تھنک لائيک ويٹ ۔ آئي نو يو ڈارلنگ ۔ ۔لائي ۔۔۔جھوٹ بالکل جھوٹ ۔ميں يو کے سے واپس آتے ہي تم سے شادي کر لوں گا۔ تم وہان شادي کر کے آئو گے۔ نو ۔۔نيور۔۔تمخود ديکھ لو گي۔ پھر ہم دونوں يو کے چلے جائيں گے ۔ او وہيں جا کر سيٹل ہو جائيں گے۔ ميں اس گندے شہر سے بور ہو گيا ہو۔۔ بيرا۔۔۔
يس سر۔۔
ايک کريم پف۔
يس سر
ووڈ يو لائيک مور ڈارلنگ؟
نو تھينک يو۔
ميں بھي سوچ رہا ہون کہ يو کے جا کے سيٹل ہو جائوں۔ ميں بھي اپني گندي گليوںسے نور ہو گيا ہوں۔ شايد میں صغرا بي بياور اس کي گلي ميں کھڑي چارپائي پر ماں کے ساتھ سونے والے پھنسي زردہ بچون کو بھي ليتا جائوں۔
بيرا تھري اسکويش مور۔
اوپر گيلري کو جانے والي سيڑھيوں کے پاس والي ميز پر تين ميڈيکل اسٹوڈنٹ بيٹھے باتيں کر رہے ہيں۔ گفتگو برجي باردو، کے کالھوں ،ايگا تھاکر سٹي کے ناولوں اور پکاڈلي کي پر اسرار گليوں سے ہو کر ميڈيکل پيشے میں آکر ٹھر گئي ہے۔ يار ميں تو فانئل سے نکل کر سيدھا لندن چلا جائون گا۔ يہاں کوئي فيوچر نہیں ہے۔ بالکل ۔۔ميں بھي وہيں جا کر پريکٹس کروں گا۔ برادر وہاں پيسہ بھي ہے اور مريض بھي برے پالشڈ ہوتے ہں۔ ۔
يار ميں تو يو کے جا کر کينسر ٹريٹمنٹ سپشلائيز کروں گا۔ يہاں کينسر اسپيشلسٹ کے بڑے چانسز ہيں۔ بيس روپے فيس رکھو گا اور ايک سال بعد اپنا کريم کلر کي ففٹي ايٹ مادل شو ہوگي اور گلبرگ ميں ايک کوٹھي۔
بھئي يار تم نے ہل مين بيچ کيوں دي؟
چھکڑا ہوگئي تھي۔ آئل بڑا کھناے لگي تھي۔
شي۔مس قريشي آرہي ہے۔
صديقي تم نے اس کي بڑي بہن مسز ارشاد کو پرسوں گرفن ميں ديکھا تھا؟ ارے بھئي۔ تم ساتھ ہي تو تھے کيا کلاس ون عورت ہے۔
نو ڈائوت ۔۔بالکل لولوبريجڈا۔
سب لوگ پاکستان سے باہر جا رہے ہيں ۔کوئي برجي باردو کے پاس، کوئي لولوبريجيڈا کے پاس، کسي کو بيوي کے لئے جا رہي ہے کوئي بيوي کو لئے جا رہا ہے۔ کسي کو پيس کھپينچ رہا ہے اور کسي کو پالشڈ قسم کے مريض۔ ہم لوگ کہان جائيں گے؟ مير ابھائي ڈاکيہ کہا جائے گا؟ صغرا بي بي کہاں جائے گي؟ اس کے بيمار بچون کا علاج کون کرے گا؟ مثانے کي بيماري ميں نيم حکيم سے گردے کي درد کي دوا کھان جانے والے ديہاتي کہاں جائيں گے؟ ان لوگوں کا علاج پاکستان ميں کون کرے گا؟ کونے والي ميز پر ايک پاکستاني آدمي امريکيوں کي طرح کندھے اچکا کر اپنے ساتھي سے کہہ رہا ہے۔ بڑي پرابلم بن گئي ہے۔ کيسي پرابلم ؟بے بي نے تين سال لوئر کے جي ميں لگائے ہيں۔ کراچي سے يہاں تبديل وہ کر آگيا ہون۔ يہاں کسي انگريزي اسکول ميں داخلہ نہیں مل رہا ۔ کارپوريشن کے اسکول والے بي بے کو پھر سے دوسري جماعت ميں لے رہے ہيں۔ کہتے ہیں بچے کو اردو نہیں آتي۔ بھئي وہ تو سوائے انگريزي کے اور کچھ بولتا ہي نہیں۔ اب سمجھ میں نہیں آ رہا کيا کروں؟ اردو کو گولي مارو ۔۔اب اسے فرانسيسي پڑھا ئو گھر پر۔۔
ہوٹل ميں بڑي رونق ہو گئي ہے۔ يہ بڑي رومانٹک جگہ ہے او گيلري تو بڑي پر سکون جگہ ہے۔ ميں انشاء اللہ پرسوں اس گيلري میں بيتک کر لوہاري دروازے کي بوسيدہ گلي والي بيمار صغرا بي بي پر ايک کہاني ضرور لکھوں گا۔ پاکر کر قلم ، کرو کسلے کا پيڈ، کولڈ کافي کا گلاس ، تھري کاسل کا سگڑيٹ ، کائونٹر کے گلدان میں لگي يو کلپٹس کي پتيوں اور ہوٹل ميں بيٹھي خوبصورت نازک عورتوں کے کپڑوں کي يورپي مھک اور صغرا بي بي کا ونڈر فل ميجسکٹ ايسا افسانہ تو بس اسي جگہ بيٹھ کر لگا جا سکتا ہے۔
ميں گيلري ميں يتھا جھانک کر نيچے ديکھتا ہون۔ تين ہم شکل ، ہم لباس لڑکياں گردنيں اٹھائے سينہ تانے ، آنکھوں میں مغرور چمک لئے داخل ہو رہي ہيں۔ گردنيں موڑے بغير آنکھيں اٹھائے بغير ہر شخص کا جائنزہ لينے لگا ہے۔ يہ دور شجاعت کے انگريزي ناولوں کي ہيرونئيں معلوم ہو رہي ہيں جو کبھي پھولدار بيلوں سے نصف ڈھکي ہوئي بالکونيون ميں کھڑے ہو کر چاندني راتوں ميں اپنے محبوب کا انتظار کرتي تھيں اور نوکيلي رنگيں چونچوں والےپرندوں کے پروں ميں انتہائي جذبات، محبت نامے باندھ کر انہین چوم کر فضا ميں چھوڑ ديا کرتي تھيں۔ جو اپنے محبوب کي بے وفائي کا حال سن کر زہر کھا ليا کرتي تھيں۔ ليکن اس ايٹمي دور ميں عشق فورڈ کا ر کي چابي گھمانے سے اسٹارٹ ہوتا ہے اور محبت نامے بنک کي چيک بک پر لکھے جاتے ہيں۔ اب يہ لڑکياں مبو ب کي بے وفائي کا سن کر زہر کھانے کي بجاے چکن سينڈويچ کھا کر رومال سے منہ پونچھتي ہيں اور دوسرے محبوب کي تلاش میں دوسري کار کي تلاش میں، دوسرے کيئرير کي تلاش میں نکل پڑتي ہیں۔ محبت کے جذبات آج کل اسپرو کي ايک ٹکيہ کھا کر غائب ہو جاتےہيں اور عشق کا ہيجان فروٹ سالت کے ايک ہي چمچ سے بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے ۔ شادي زندگي کے کائونٹر پر مستقل سودا ہے اور محبت شادي کي گاڑي کے پيچھے لٹکتا ہوا جوتا ہے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
فضا ميں ايئر کنڈيشمنگ پلانٹ کي سونفي مہک کے ساتھ باريک ريشمي کپڑون کي لطيف سر سراہٹ ، بجلي کي دھيمي روشني ميں روغني چہروں کي جھلملاہٹ ، چاندي کے سر پوش والي چٹني مربہ کي شيشيوں کي چمک دمل اور مختلف قسم کے کھانون کي خوشبوئيں گھل مل رہي ہيں۔ دھيمي دھمي باتوں کي بھنبھناہٹ ہے۔ مسرت اندوزي کے منصوبے ہیں۔ خود اطميناني کي ہلکي ہلکي ہنسي ہے ، خود پرستي کي ادائیں ہیں۔ گہرے اسرا رو رموز والي پر اسرا نگاہيں ہيں اور خواب ہیں صحت مند دھلے دھلائے چہرے ہیں۔ رگڑ رگڑ کر داڈھي مونڈھے گال ہيں۔ گردن ، کندھے اور نظرو ں کے غير ملکي ٹکسال ميں ڈھلے ڈھلائے اشارے ہیں۔ پھنسي پھنسائي گردنيں ہیں۔ گھٹي گھٹي باتين ہين۔ برجي باردو کے ہونٹ ہیں ، لولو بريجنڈا کے باوں ہيں ، ڈورس ڈے کے بال ہیں، امريکي ٹائياں ہيں۔ فرانسيسي عطر ہیں، انگريزي جوتے ہيں، سوئٹرزلينڈ، جرمني ، سيلون اور سنگا پور کي باتين ہيں۔ کہيں چک 92 ايف کي دوپہر ميں ہل چلاتا کاشتکار نہيں۔ کہیں حلوائي کي دکان کے پھٹے پر بيٹھ کر پيا جانے والا لسي کا گلاس نہيں، کہیں دور افتادہ گائوں ميں غوثيہ يونيورسٹي کي بنياد رکھنے والا ڈاکٹر فريد نہيں، کہیں تاريک افريقہ کے جنگلون ميں انسانون کي بھلائي کے لئے زندگي وقف کر دينے والا الرٹ شويٹرز نہیں۔ کہیں صغرا بيبي کے زرد گالون اور کمر کي مستقل درد کے لئے کيلثيم نہيں۔ کہیں مشرقي پاکسان کے دريائوں کے سيلاب سے برسر پيکار رہنے والے ماہي گير نہيں۔ وہ اداس آنکھيں نہیں، وہ ناريل کے تيل لگے گہرے سياہ بال نہیں، کہيں وہ پہلي کي پہلي بيوي سے محبت کرنے والا اور مہينے کے آخر ميں اس کي پٹائي کرنے والا مفلوک الحال ڈاکيہ نہیں، کوئي سيل زدہ ديوار نہیں جس پر صرف تانبے کے چار گلاس اور تين تھالياں لگي ہون۔ کھيتوں کي کڑھکتي دھوپ ميں اپني ہير کي راہ ديکھنے والا کوئي رانجھا نہیں۔ سب ڈرائينگ روم لورز ہیں، ٹھنڈي نشست گاہوں ميں انناس کےقتلے اور کولڈ کافي کا گلاس سامنے رکھ کر محبت کي سرد آہيں بھرنے والے عاشق ہيں۔ يوکلپٹس کي پتيوں کو فرنچ عطر کانون پر لگا کر کہانياں لکھنے والے افسانہ نگا ہیں۔ قوم ، مذہب ، ملت او سياست کے نام پر اپني گاڑيوں ميں پٹرول دلوانے والے اور اپني کوٹھيوں ميں نئے کمرے بنوانے والے درد مندان قوم ہیں۔ عشرت انگيزي ہے، تصنع آميزي ہے۔ سر پرستي ہے، خود پسندي ہے، جعلي سکے ہيں کہ ايک کے بعد بنتے چلے جا رہے ہيں۔ روشني کے داغ ہيں کہ ايک کے بعد ايک ابھرتے چلے جا رہے ہيں۔ انہیں صغرا بي بي کے بچوں کي پھنسيوں سے کوئي سروکار نہیح۔ انہيں اس کے ڈاکئے خاوند کے تاج محل کي بربادي کا کوئي علم نہيں۔ انہیں کھري چرپائي پر گندے نالے کے پاس رات بسر کرنے والون سے کوئي دلچسپي نہیں۔ دھان زمين ميں اگتا ہے يا درختوں پر لگتا ہے انہيں کوئي خبر نہيں۔يہ اپنے ملک ميں اجنبي ہيں۔ يہ اپنےگھر ميں مسافر ہيں۔ يہ اپنوں ميں بيگانے ہيں۔ چيک بک ، پاسپورٹ ، کار کي چابي کوٹھي اور لائسنس ۔۔يہي ان کي منزل ہے ،يہي ان کا محور ہے، يہي ان کا مرکز ہے، يہي ان کا مذہب ہے اور يہي ان کا پاکستان ہے۔يہ وہ باسي کھانے ہيں جن کي تازگي ريفريجريٹر بھي برقرار نہ رکھ سکا۔ يہ دو سورجوں کے درميان کا پردہ ہيں۔ يہ کھلے ہوئے متبسم لبون کے درميان کي تاريک لکير ہيں يہ اس غار کے منہ پر تنا ہوا جالا ہيں جہاں چاند طلوع ہو رہا ہے۔اب رات آسمان کي راکھ می سے تاروں کے انگارے کريدنے لگي ہے۔ لوہاري دروازے کي تنگ و تاريک گلي میں حبس ہے بدبو ہے، گرمي ہے ، مچھر ہیں ، پسينہ ہے، ٹوٹي پھوٹي کھري چارپائيوں کي سيدھي ٹيڑھي قاريں ہیں ، ناليون ميں جمي ہوئي گندگي ہے۔ چارپائيوں سے نيچے لتکتي ہوئي گلي کے فرش پر لگي ہوئي ٹانگين ہيں۔ کمزور باسي چہرے ہيں پھٹے پھٹے ہونٹ ہيں۔ صغرا بيبي اپنے چاروں بچوں کو پنکھا جھل رہي ہے، کوتھري ميں حبس کے مارے دم گھتا جا رہا ہے۔ گندے نالے والي کھڑکي ميں گرم ايشيائي رات کے سبز چاند کي جگہ اوپلو کا ڈھير پرا سلگ رہا ہے ۔ اس کا ڈاکيہ خاوند پاس ہي پرا خراتے لے رہا ہے۔ پنکھا جھلتے جھلتے اب صغرا بي بي بھي اونگھنے لگي ہے۔ اب پنکھا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نيچے گر پڑا ہے ۔ اب کمرے ميں اندھيرا ہے۔ خاموشي ہے۔ چار بچوں کے درميان سوئي ہوئي مٹي کي مونا ليزا کے ہونٹ نيم وا ہيں۔ چہرہ کھنچ کر بھيانک ہو گيا ہے۔آنکھوں کے حلقے گہرے ہو گئے ہيں اور رخساروں پر موت کي زردي چھا گئي ہے۔ اس پر کسي ايسے بوسيدہ مقبرے کا گمان ہو رہا ہے ، جس کے گنبد ميں دراڈيں پڑ گئي ہوں جس کے تعويذ پر اگر کوئي بتي نہ سلگتي ہو اور جس کے صحن ميں کوئي پھول نہ کھلتا ہو۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top