مکافات عمل ۔۔ ملالہ کی ٹیڈی بیئر کی زبانی

عائشہ خٹک

محفلین
سنتے ہیں کہ امریکہ میں بیس سال سے کم عمر کی اسی فیصد لڑکیاں کنواری ہی نہیں رہتیں جبکہ ہر سال ایک ملین سے زائد بچیاں ناجائز طور پرحاملہ ہوجاتی ہیں۔ مانع حمل ادویات کا استعمال معمول ہے۔ پیٹ میں پلنے والی گناہ کی نشانیوں پر مانع حمل ادویات کے ڈرون حملوں کی مد میں سالانہ سات بلین ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔ ناجائز بچے پیدا کرنے والی چھپن فیصد کنواری مائیں زیادہ شراب نوشی، سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور اشیا کے استعمال کی وجہ سے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی لاغر ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے بچے جو پہلے ہی نامعلوم باپ کی وجہ سے محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ ماں کی طرف سے بھی توجہ نہ حاصل کرنے کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوکر معاشرے میں بگاڑ اور خرابیوں کا سبب بن جاتے ہیں، تعلیمی ناکامی کا سامنا کرنے پر ذہنی اورغیر ہموار اقتصادی صورتحال انہیں مزید ذہنی مفلوج بنا دیتی ہے۔ اور پھر وہی ہوتا ہے جوامریکی ریاست کنیٹی کٹ میں ایک ذہنی مریض نے پہلے اپنی ماں اور پھر سکول کے معصوم بچوں کیساتھ کیا۔ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے سے پہلےاس نوجوان نے بیس بچوں سمیت چھبیس افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کردئے۔ ہیروشیما اور ناگی ساکی سے لیکر ویتنام اور پھرعراق و لیبیا سے لیکرافغانستان تک امن گردی کے نام نہاد علمبردار بھیڑیوں کے صاف ستھرے اور تعلیم یافتہ معاشرے کے گورے لوگ اب کالی کرتوتوں اور بربریت کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں جس کے بعد خدا کی بے آواز لاٹھی بھی برسنے سے نہیں رکتی۔ جنگوں میں درندگی و سفاکی اور جارحیت کی توجیع تو پیش کی جاسکتی ہے کہ مقتول ہمارے جانی دشمن تھے۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والےاسلامی دہشت گردوںکو امریکہ کی سلامتی کیلیے خطرہ یا معصوم بچوں کو مستقبل کے ممکنہ دہشت گرد قرار دیکر جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ لیکن کنیٹی کٹ کےاس پرائمری سکول کے ہموطن بچے نہ تو جاپانی تھے نہ عراقی اور افغانی۔ وہ نہ تو اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ سمجھے جانے والے فلسطینی تھےاور نہ ہی پشتو، عربی، ازبک یا تاجک زبان بولنے والےاسلامی شدت پسند تھے تو پھران معصوموں کو کس جرم میں قتل کردیا گیا۔ فائرنگ کرنے والے امریکی شخص ایڈم لینزا نے حیران کن طور پر کسی تربیت یافتہ کمانڈو جنگجو کی طرح سیاہ کپڑوں کے ساتھ بلٹ پروف جیکٹ بھی پہن رکھی تھی اور وہ بہت سارے ہتھیاروں سے لیس تھا مگر یہ واضح نہیں ہےکہ اس ” امریکی طالبان” نے ایک گن کے علاوہ باقی ہتھیار استعمال بھی کیے یا نہیں۔ پنٹاگون کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ سکول کے بچوں کا قاتل نہ تو پاکستانی ہے نہ مسلمان اور نہ ہی اس نے دہشت گردی کی تربیت سوات یا وزیرستان سے حاصل کی ہے۔ باخدا قاتل کے پاس نہ تو حسن نصراللہ کا مہیا کردہ کوئی راکٹ لانچر تھا اور نہ ہی اس سے کشمیر لبریشن فرنٹ سے ملی ہوئی کوئی خودکار بندوق برامد ہوئی۔ یہ بھی طے ہے کہ نہ تو وہ اجمل قصاب کا رشتے دار تھا اور نہ ہی اسامہ بن لادن کے خاندان کا چشم و چراغ لیکن پھر بھی اس نے کسی ماہر ترین دہشت گرد کی طرح صرف دس پندرہ منٹ میں ستائیس افرادکوانتہائی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

اب ذرا سوچیے کہ جیو کی محبوب تعلیم یافتہ قوم کے اس گورے سپوت کو کس عالیشان امریکی یونیورسٹی سے انسانیت اور انسانی حقوق کی ایسی اعلی تعلیم ملی اور کون سے روشن خیال اساتذہ نے اسے اس اخلاقیات کا اعلی درس دیا تھا؟ احباب یاد کیجیے کہ امریکی اور ان کے سب اسلام دشمن حواریوں، پاکستان مخالف چیلوں نے ملالہ ڈرامہ رچائے جانے کے بعد کیا کیا کھیل تماشے دکھائے۔ میڈونا سے لے کر انجلینا جولی اور الطاف حسین سے لیکرعاصمہ جہانگیرتک انسانیت کے سب دوستوں نے کتنے ہوش ربا رقص پروگرام کیے کتنے چراغ جلائے، کتنے اشک بہائےاور مسلمان دہشت گردوں کو کتنے کوسنے سنائے لیکن ذرا سوچیے کہ ان امن گرد تعلیم یافتہ”نیک پاک” لوگوں میں ایسا قاتل طالبان کہاں سے گھس آیا؟ شاید وہیں سے جہاں سے قوم لوط پر پتھروں کی بارش برسی اور فرعون کی غرقابی کیلئے نیل کی خونی لہریں نازل ہوئیں تھیں۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے دو ہزار سات میں بھی ایسا ہی ایک طالبان کوہ قاف سے اتر کر امریکہ میں داخل ہوا تھا جس کے ہاتھوں ورجینیا ٹیک میں ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں بتیس افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس ہولناک المیہ پر امریکہ کے امن پسند صدر اوباما نے اپنی مظلوم قوم کی ڈھارس بندھانے اور تسلی دینے کیلئے لڑکھڑاتی آواز اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اس سانحے پر ہر ہر درد مند انسان افسردہ ہے سو ہم بھی مغموم ہیں ہیں کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں۔ اسی حوالے سے آج ایک کالم میں پڑھا تو چند ماہ قبل افغانستان میں ایک جنونی امریکی فوجی کے ہاتھوں بربریت کا نشانہ بننے والے سترہ بچوں اورعورتوں کی موت کا غم پھر سے تازہ ہو گیا۔ رابرٹ بیلز نامی اس امریکی فوجی کی اس ہولناک امن گردی پر امریکہ نے اسے ریمنڈ ڈیوس جیسا انعام دیا یا کچھ اور یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ لیکن ہاں ریمنڈ ڈیوس، رابرٹ بیلز کے ہاتھوں یا ڈرون حملوں سے مرنے والے معصوم اور بیگناہوں کے پیارےابھی تک آسمانوں کی طرف مونہہ اٹھائے نوحہ خوانی ضرور کرتے ہیں۔ آج بھی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں میں مرنے والے معصوم دہشت گردوں بچوں کے جلے ہوئے افسردہ کھلونے تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے رو رہے ہوں گے لیکن ملالہ جی کی کتاب پر سج سجا کر بٹھایا ہوا کیوٹ ٹیڈی بیئر ہمیشہ مسکراتا رہتا ہے۔ گویا خاموشی کی زبان میں کہہ رہا ہو کہ زمانہء جدید کے سفاک امریکی فرعونوں کےمکافات عمل کا شکار ہونے کا آغاز ہو چکا ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
خوب کالم ہے۔ عمدہ۔۔۔ :best:
مجاہدین کو ابھی تک خبر نہیں ہوئی شائد۔۔۔ یا راستے میں ہونگے۔ :)
آجاؤ بھئی اک نیا کالم آگیا ہے یاران نکتہ داں کے لیئے :)
 

سید زبیر

محفلین
عزیزم@arifkarim ! میرا خیال ہے کہ شائد میں اپنا موقف واضح نہیں کرسکا میرا مدعا یہ ہے کہ معاشرہ جیسا بھی ہو منافقت نہ ہو دوسروں کے لیے وہی بہتر سمجھے جو اپنے لیے پسند ہو
 

سید ذیشان

محفلین
اچھا لکھا ہے، لیکن کوشش کریں کہ باتوں میں ربط آئے۔ اور کوئی نتیجہ بھی اخذ ہو۔

امید ہے میری باتوں کا برا نہیں منائیں گی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کافی جذباتی لکھا ہے اور یہ بات تو میری سمجھ سے بالا ہی گذری ہے کہ
شاید وہیں سے جہاں سے قوم لوط پر پتھروں کی بارش برسی اور فرعون کی غرقابی کیلئے نیل کی خونی لہریں نازل ہوئیں تھیں۔​
قوم لوط کیوں کہا جا رہا ہے جبکہ وہ لوگ حضرت لوط علیہ السلام کے منکر تھے؟

اس کے علاوہ کالم کا آغاز "سنتے ہیں" سے کیا گیا ہے جو بذاتِ خود کوئی دلیل نہیں کہ سننے کو تو کوئی کچھ بھی سن سکتا ہے :)

یہ صحت مندانہ تنقید کے لئے لکھا گیا ہے۔ تاہم اگر آپ اسے کسی اور رنگ سے لینا چاہیں تو اس دھاگے پر میری طرف سے یہ آخری پوسٹ ہے
 

نایاب

لائبریرین
سنتے ہیں کہ امریکہ میں بیس سال سے کم عمر کی اسی فیصد لڑکیاں کنواری ہی نہیں رہتیں جبکہ ہر سال ایک ملین سے زائد بچیاں ناجائز طور پرحاملہ ہوجاتی ہیں۔ مانع حمل ادویات کا استعمال معمول ہے۔ پیٹ میں پلنے والی گناہ کی نشانیوں پر مانع حمل ادویات کے ڈرون حملوں کی مد میں سالانہ سات بلین ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔ ناجائز بچے پیدا کرنے والی چھپن فیصد کنواری مائیں زیادہ شراب نوشی، سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور اشیا کے استعمال کی وجہ سے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی لاغر ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے بچے جو پہلے ہی نامعلوم باپ کی وجہ سے محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ ماں کی طرف سے بھی توجہ نہ حاصل کرنے کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوکر معاشرے میں بگاڑ اور خرابیوں کا سبب بن جاتے ہیں، تعلیمی ناکامی کا سامنا کرنے پر ذہنی اورغیر ہموار اقتصادی صورتحال انہیں مزید ذہنی مفلوج بنا دیتی ہے۔ اور پھر وہی ہوتا ہے جوامریکی ریاست کنیٹی کٹ میں ایک ذہنی مریض نے پہلے اپنی ماں اور پھر سکول کے معصوم بچوں کیساتھ کیا۔ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے سے پہلےاس نوجوان نے بیس بچوں سمیت چھبیس افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کردئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب ذرا سوچیے کہ جیو کی محبوب تعلیم یافتہ قوم کے اس گورے سپوت کو کس عالیشان امریکی یونیورسٹی سے انسانیت اور انسانی حقوق کی ایسی اعلی تعلیم ملی اور کون سے روشن خیال اساتذہ نے اسے اس اخلاقیات کا اعلی درس دیا تھا؟

ملالہ کے " ملال " میں ڈوبے ذہنوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کی کہ " ملالہ پر حملہ کرنے والے اور آئے روز خودکش دھماکے کرنے والے مندرجہ بالا کون سی وجوہات کا شکار بنے ۔ امریکی ریاست میں تو اک ذہنی مریض نے اپنی ماں اور معصوم بچوں پہ ظلم ڈھاتے جانے کون سے خود پہ بیتے حالات کا بدلہ لیا ۔ مگر یہ پاک سر زمین پر جو آئے روز خود کش دھماکے کرتے ہیں ۔ خواتین اور معصوم بچوں پہ ظلم کرتے ہیں ۔ انہیں کس اسلامی یونیورسٹی نے انسانیت اور انسانی حقوق کو اس طرح برباد کرنے کی تعلیم دی ہے ۔ کون سے روشن خیال اساتذہ نے انہیں دہشت پھیلانا سیکھایا ہے ۔ یاد رہے کہ امریکہ میں بچوں پہ ظلم کرنے والا انفرادی طور پر اپنے عمل کا ذمہ دار تھا ۔ جب کہ یہاں پاکستان میں خود کش دھماکہ کرنے والا تو خود بھی جنت میں پہنچتا ہے اور ساتھ میں کئی بے گناہ لوگوں کو بھی بنا مشقت جنت کا حقدار ٹھہرا دیتا ہے ۔ اور پیچھے بیٹھے اس کے روشن خیال اساتذہ فورا سے پیشتر اس حملے کی ذمہ داری بھی قبول فرماتے انگلی کٹا شہیدوں میں نام لکھا لیتے ہیں ۔
سچ کتے ہیں کہ جب اللہ کا انصاف و انتقام حرکت میں آتا ہے تو معمولی سے ابابیل کو ہاتھی کی موت کا بہانہ بنا دیتا ہے ۔ ملالہ اک معصوم طالبہ بی اک ابابیل ہی ثابت ہوئی ان وقت کے ہاتھیوں کے لیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اسلام کو جبر اور زبردستی کا دین قرار دینے پر تلے بیٹھے ہیں ۔
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت اچھی تحریر ہے۔
عائشہ، لکھتی رہا کیجئے تاکہ مثبت فکر کے حامل لوگوں کی طرف سے بھی اظہارِ خیال ہوتا رہے اور لوگوں کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ بھی آتا رہے۔
 
Top