محمد تابش صدیقی
منتظم
بیگم: میں اپنے بال کٹوا لوں؟
شوہر: کٹوا لو۔
بیگم: اتنی مشکل سے لمبے کیے ہیں۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ
بیگم: مگر آج کل چھوٹے بال فیشن میں ہیں۔
شوہر : تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: لمبے بال آپ کو بھی تو پسند ہیں۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔
بیگم: میرے سہیلیاں کہتی ہیں کہ میرے چہرے کے ساتھ چھوٹے بال اچھے لگیں گے۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: مگر چھوٹے بالوں کی چوٹی نہیں بنتی۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔
بیگم: سوچ رہی ہوں کہ تجربہ کر کے دیکھ لوں۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: لیکن اگر خراب ہو گئے تو؟
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔
بیگم سوچ رہی ہوں کہ کٹوا لوں۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: اگر اچھے نہیں لگے تو آپ ذمہ دار ہوں گے۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔
بیگم: ویسے چھوٹے بال سنبھالنا آسان ہوتا ہے۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: ڈر لگتا ہے کہ چھوٹے بال برے نہ لگیں۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔
بیگم: اچھا اب میں نے طے کر لیا ہے کہ کٹوا دیتی ہوں۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: تو پھر کب چلیں گے؟
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ
بیگم: میں امی کی طرف جانے کی بات کر رہی ہوں۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔
یہ شوہر اب پاگل خانے میں ہے اور یہی بولتا رہتا ہے کہ
تو پھر کٹوا لو۔
تو پھر نہ کٹواؤ۔
شوہر: کٹوا لو۔
بیگم: اتنی مشکل سے لمبے کیے ہیں۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ
بیگم: مگر آج کل چھوٹے بال فیشن میں ہیں۔
شوہر : تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: لمبے بال آپ کو بھی تو پسند ہیں۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔
بیگم: میرے سہیلیاں کہتی ہیں کہ میرے چہرے کے ساتھ چھوٹے بال اچھے لگیں گے۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: مگر چھوٹے بالوں کی چوٹی نہیں بنتی۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔
بیگم: سوچ رہی ہوں کہ تجربہ کر کے دیکھ لوں۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: لیکن اگر خراب ہو گئے تو؟
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔
بیگم سوچ رہی ہوں کہ کٹوا لوں۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: اگر اچھے نہیں لگے تو آپ ذمہ دار ہوں گے۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔
بیگم: ویسے چھوٹے بال سنبھالنا آسان ہوتا ہے۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: ڈر لگتا ہے کہ چھوٹے بال برے نہ لگیں۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔
بیگم: اچھا اب میں نے طے کر لیا ہے کہ کٹوا دیتی ہوں۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: تو پھر کب چلیں گے؟
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ
بیگم: میں امی کی طرف جانے کی بات کر رہی ہوں۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔
بیگم: آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔
یہ شوہر اب پاگل خانے میں ہے اور یہی بولتا رہتا ہے کہ
تو پھر کٹوا لو۔
تو پھر نہ کٹواؤ۔