آجکل حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور خط جو مکتوبِ مدنی کے نام سے مشہور ہے، زیرِ مطالعہ ہے۔ سوچا کہ کیوں نہ اسکا اردو ترجمہ کیا جائے۔
سو یہ ٹوٹا پھوٹا اردو ترجمہ حاضرِ خدمت ہے۔ کوشش کی ہے کہ اسے آسان زبان میں بیان کرسکوں۔ :)
شروع کرتے ہیں اللہ کے نام سے۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم
یہ خط ، بندہِ ناتواں ولی اللہ بن عبدالرحیم دہلوی(اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور انکے ساتھ اپنی محبت والا معاملہ کرے) کی جانب سے اسمٰعیل آفندی بن عبداللہ رومی، المدنی کی طرف ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے مقصد میں کامیاب کرے۔ آمین۔
حمد بیان کرتا ہوں میں اس اللہ کی جسکے سوا کوئی معبود نہیں، اور صلٰوۃ و سلام ہو اسکے نبی حضرت محمد مصطفیٰ پر اور انکی آل و اصحاب پر۔ آمین۔
مجھے آپ کا مراسلہ مل گیا ہے جس میں آپ نے شیخِ اکبر (محی الدین ابن عربی)، شیخِ مجدّد (احمد سرہندی) اور ان دونوں بزرگوں کے ماننے والوں کے اقوال کی روشنی میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے متعلق سوال کیا ہے۔اور پوچھا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ان دونوں بزرگوں (اللہ ان سب سے راضی ہو) کے اقوال میں تطبیق دی جاسکے؟
اے میرے بھائی (اللہ آپ پر اپنی رحمتیں کرے)، آپ کو معلوم ہونا چاہئیے کہ ہر زمانے کا ایک قرن (ایک مخصوص طور) ہوتا ہے اوررحمتِ الہٰی کی تقسیم کے مطابق، ہر قرن کیلئے ایک مخصوص علم ہوتا ہے۔
اگر آپ اس امّتِ مرحومہ کے ابتدائی ادوار پر غور کریں جب شرعی علوم اور ادبی فنون ابھی مدوّن نہیں ہوئے تھے، اور نہ ہی ان میں بحث چھڑی تھی، تو یہ بات آپ سے چُھپی نہیں رہے گی کہ اس زمانے میں لوگوں کے سینوں میں حق بات کا الہام ایک علم کے بعد دوسرے علم کی صورت میں، اُس دور کیلئے مخصوص حکمت کے مطابق ظاہر ہوتا رہتا تھا۔ اور یہ بھی کہ ہمارے اس موجودہ دور کیلئے اللہ کی تقسیم کردہ رحمتوں میں سے ہمارا نصیب یہ ہے کہ ہمارے سینوں میں علمائے امّت کے عقلی و نقلی اور کشفی علوم جمع ہوں اور ہم ان میں سے بعض کو بعض پر منطبق کریں تاکہ بظاہر دکھائی دئیے جانے والے اختلاف کی شدّت کم ہوسکے۔ اور ہر قول کو اسکے مناسب مقام پر رکھا جائے۔ اوراللہ کی توفیق کے مطابق، دوسرے علوم کی طرح فقہ، کلام اور تصّوف میں بھی یہی اصول جاری و ساری ہو۔ الحمدللہ۔
جان لو کہ معرفتِ حق ایسی ہی ہے جیسا کہ اسکے متعلق حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا، کہ ایک بیکراں اور عمیق سمندر، جسکی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ انتہاء۔ اور معرفتِ حق میں کلام کرنے والوں کی حالت اس سوئی کی مانند ہے جسکی نوک کو اس سمندر میں غوطہ دیا جائے، یا ان چڑیوں کی طرح جنہوں نے اپنی اپنی حاجت کے مطابق اس سمندر سے کچھ چکھا، جس سے اس سمندر میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ واقع ہوسکی۔ چنانچہ یہی ہوا کہ ہر شخص اس کمال کی خبر دینے لگا، جو اسے حاصل ہوا جبکہ باقی کمالات سے بے بہرہ رہ گیا، اور ہر اس جمال کی حکایت بیان کی جسکا علم اسے حاصل ہوا،اور باقی سب جمال پوشیدہ رہا۔ اوصاف بیان کرنے والے اسکا وصف بیان کرتے رہے، زمانے بیت گئے لیکن اب بھی بہت کچھ ہے جو بیان نہ ہوسکا۔
چنانچہ اس صورتِ حال میں سننے والے مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔ کچھ تو ان میں وہ ہیں جنہوں نے ہر بات اور ہر اشارے کو اسکے مناسب مقام کے مطابق سمجھا، اور ہر قول کو اسکے متعلقہ محلّ پر رکھا، چنانچہ انہوں نے سب کی تصدیق کی۔ جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوئے جنہیں عبارات کے اختلاف اور اشارات کے تنوّع Variety نے الجھا دیا۔ چنانچہ وہ اس اختلاف کے احاطے سے باہر نہ نکل سکے اور حیرت انکی دامن گیر ہوئی۔
اسکی مثال ایسے ہی ہے جیسے کچھ نابینا لوگ، جنہوں نے درخت کو چھُونے، چکھنے اور سونگھنے پر ہی اکتفا کی۔ پس کچھ لوگوں کی رسائی اس درخت کی شاخوں تک ہوئی، کسی کے حصّے میں پھول، کسی کے حصّے میں پھل آئے اور کچھ لوگ صرف اسکی جڑ یا تنے ہی کو چُھو پائے۔ چنانچہ جب وہ لوگ باہم ایک جگہ بیٹھے اور اپنے اپنے علم کے مطابق اس درخت کی صفت بیان کرنے لگے، تو کسی نے کہا کہ یہ بہت ملائم ہے، کسی نے کہا کہ وہ تو ایک ستون ہے، کسی نے کہا کہ یہ تو بیحد نرم ہے، کسی نے سخت کہا، کسی نے میٹھا تو کسی نے کڑوا، اور کسی نے کہا کہ اسکا تو کوئی ذائقہ ہی نہیں ہے، کوئی یہ کہنے لگا کہ یہ بہت خوشبودار ہے تو کسی کے نزدیک بے بُو ہے۔ چنانچہ انکے اقوال جب اسقدر اختلافات کا شکار ہوئے تو وہ ایک دوسرے کوجھٹلانے لگے اور ایک دوسرے کو برا کہنے لگے۔
پس ایسے میں انکے پاس ایک شخص آیا جو دو آنکھیں رکھتا تھا، اگرچہ چھونے، چکھنے، گرفت کرنے، سننے، سونگھنے اور بیان کرنے کی قوت میں وہ لوگ اس سے بڑھ کر تھے۔ چنانچہ اس دیکھنے والے نے یہ کہا کہ تم سب لوگ اپنی اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہے ہو، تمہارا کلام اصل کے اعتبار سے تو ٹھیک ہے لیکن اگر اسی پر اکتفا کرلی جائے تو حصرTotality کے اعتبار سے غلط ہے۔ چنانچہ اس نے ہر کہنے والے کے قول کو اسکے مناسب مقام کی طرف لوٹادیا، اور ہر اشارے کو اسکے مناسب محل میں جگہ دی۔
(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔
 
اور ایسا بھی ہوا ہے کہ ایسے عارفین، جو ظاہری اور باطنی دونوں علوم کے حامل تھے، انکا کشف تو بالکل صحیح اور درست تھا، لیکن پرانے بزرگوں کے کلام کی توجیہہInterpretation اور مراد سمجھنے میں ان سے غلطی ہوئی۔ لیکن ان غلطیوں سے ان عارفین کی معرفت میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی انکے کمالات میں کوئی ضرر لاحق ہوتا ہے۔ کیونکہ کلام کی توجیہہ اور اسکے متعلقہ مقام کا تعیّن کشف سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ یہ اجتہاد اور تحرّی(Guess work) کی قبیل سے ہے اور اس مرتبے میں یہ عارفین اور دیگر علماءِ ظاہر، بلکہ عوام بھی شریک ہیں۔
اور جان لو کہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود، دو لفظ ہیں جن کا استعمال دو مختلف مواقع پر کیا جاتا ہے :
1- چنانچہ کبھی ان دونوں لفظوں کو سیر الی اللہ (ٖQuest towards Allahٖ) کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے، چنانچہ اس صورت میں کہا جاتا ہے کہ فلاں سالک کا مقام وحدت الوجود ہے اور فلاں سالک وحدت الشہود کے مقام پر ہے۔چنانچہ یہاں وحدت الوجود سے مراد ایک خاص استغراق(Absorption) ہے جو تمام عالم کی اس جامع حقیقت(Unifying Reality) کی معرفت میں حاصل ہوتا ہے جسکی رُو سے فرق اور امتیاز ( Distinction & Differentiation) کےایسے تمام احکام ساقط( null & void) ہوجاتے ہیں جنکی بناء پر خیر اور شر کا باہمی فرق قائم ہے، اور جنکی شرع اور عقل نے کافی وضاحت کے ساتھ خبر دی ہے۔ یہ مقام بعض سالکین کو درپیش ہوتا ہے اور وہ اسی حالت میں رہتے ہیں تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ انکو اس مقام سے خلاصی بخش دے۔ اور وحدت الشہود وہ مقام ہے جہاں جمع اور تفرقہ(Unity & Differenciation) دونوں بیک وقت نظر میں رہتے ہیں۔ چنانچہ اس مقام کے سالک کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اشیاء ایک خاص نقطہءِ نظر سے تو واحد ہیں، لیکن ایک دوسرے نقطہءِ نظر سے باہم مختلف(Distinct)ہیں۔ اور کثرت اسی وجہ سے ہے۔ چنانچہ یہ مقام پہلے والے مقام سے زیادہ بلند مرتبہ اور کامل تر ہے۔ چنانچہ وحدت الشہود کی یہی وہ اصطلاح (Term) ہے جو شیخ آدم بنوری قدس سرّہ اور انکی اتباع کرنے والوں نے استعمال کی ہے.
2- لیکن کبھی یہ دونوں اصطلاحات حقائقِ اشیاء (جیسی کی وہ ہیں) کی معرفت کے حوالے سے استعمال کی جاتی ہیں۔ چنانچہ جب لوگوں نے حادث (Result of a change) اور قدیم (Unchanged) کے باہمی تعلق پر نظر ڈالی تو:
الف۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ عالم دراصل کئی اعراض (عارضی حالتیں جنکا وجود کسی دوسری شئے پر منحصرDependantہوتا ہے اور جو اپنا ایک الگ وجود اس شئے کے بغیر برقرار نہیں رکھ سکتیں) کے ایک حقیقت میں جمع ہونے یعنی اکٹھے ہونے کا نام ہے۔ جیسا کہ موم سے بنی ہوئی انسان کی ، گھوڑے کی اور گدھے کی صورتیں جو موم سے قائم ہیں اور ان تینوں باہم مختلف صورتوں میں موم کی حقیقت یا طبیعت(Nature) ایک ہی حالت پر قائم ہے. اور موم کو ان شکلوں صورتوں کے نام سے اس وقت تک نہیں پکارتے جب تک یہ شکلیں اور یہ صورتیں موم پر وارد نہ ہوں۔ بلکہ یہ صورتیں تو حقیقت میں وہ تماثیل (ٍFigures and Statues) ہیں جنکا کسی اور شئے یعنی موم سے ملے بغیر اپنا کوئی علیحدہ وجود نہیں۔
ب۔ جبکہ بعض دوسرے لوگوں کو یہ لگا کہ یہ عالم دراصل ان اسماء اور صفات کے عکسوں کا مجموعہ ہے جو ان اسماء اور صفات کے ان بالمقابل ان آئینوں میں ظاہر ہوئے جو (آئینے) ان اسماء و صفات کا عدم(Non Existant) ہیں۔ یعنی مثال کے طور پر قدرت ایک صفت ہے اور اسکا عدم عجز ہے۔ پس جب قدرتِ قدیم کی روشنی عجز کے آئینے میں منعکس ہوئی تو ممکن (یعنی حادث) کی قدرت کہلائی۔ علیٰ حذاالقیاس باقی تما صفتوں کو دیکھ لیں اور اسی اسلوب پر وجود کو سمجھ لیں۔
چنانچہ اس مقام پر پہلے والے نقطہ ِنظر (یعنی الف) کو وحدت الوجود اور دوسرے نقطہِ نظر کو وحدت الشہود کہتے ہیں۔
(جاری ہے)۔۔۔۔
 
اور ہمارے نزدیک واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں جو مکشوف ہوئی ہیں، اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں۔
لیکن یہ کہنا کہ وحدت الشہود کا ذکر،ان معنوں کے اعتبار سے شیخ ِ اکبر ابن عربی نے کبھی نہیں کیا، محض ایک غلط بات ہے اور سہو پر مبنی ہے۔ درست یہ ہے کہ نہ صرف شیخِ اکبر، بلکہ انکے متبوعین اور دوسرے حکماء نے بھی یہی بات کی ہے۔ کیونکہ دقیق الفہم استعارات اور مجازات سے قطعِ نظر، وحدت الشہود کے اس قول کا ماحصل یہی ہے کہ حقائقِ امکانیہ (Realities of possible beings) ضعیف اور نامکمل ہیں اگر انکا موازنہ حقیقتِ وجوبیہ (Reality of the Esential Being)سے کیا جائے جومکمل تر اور قوی تر ہے۔ چنانچہ اس اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حقائقِ امکانیہ دراصل اعدام(عدم کی جمع) ہیں جن میں حقائقِ موجودات کی صورتیں ظاہر ہوئیں۔
کوئی شک نہیں کہ یہ قول متفق علیہ ہے۔ اور یہ سوال، جو تم نے مجھ سے پوچھا ہے، کسی قدر تفصیل کا متقاضی ہے تاکہ درست طور پر تفہیم ہوسکے۔ پس جو کچھ تمہیں بتایا جارہا ہے، خوب غور اور دھیان کے ساتھ سنو۔
(جاری ہے)۔۔۔۔۔
 
اور جان لو، اللہ تم پر رحمت کرے، کہ ایک مسلمان کو کتاب و سنت کی نصوص سے جو بات سب سے پہلے سمجھ آتی ہے اور نہ صرف مسلمان، بلکہ کسی بھی ملت کے فرد پر جو اوّل بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ اپنے وجود کے ساتھ موجود ہے دوسری جزئیاتِ وجود کی طرح، فرق یہ ہے کہ وہ قدیم ہے، کائنات میں تاثیر اسی کی ہے، اور ان سب کا خالق و رازق ہے۔ اور یہ وہ علم ہے جو ہر عاقل کے سینے میں پایا جاتا ہے، قبل اسکے کہ وہ کسی ریاضتِ نفس میں مشغول ہو یا علومِ عقلی میں غوروفکر کرے۔ اور یہی وہ علم ہے جس سے شرع نے انسان کو مکلف(held responsible) کیا ہے۔ اور شرعِ الٰہی انسان کو کبھی اس بات پر مکلف نہیں کرتی جو اللہ نے انکی فطرت میں (صورتِ نوعیہ کی حیثیت سے) ودیعت نہ کی ہو۔ چاہے وہ تکلیف (Responsibility & Accountability)علمی ہو یا عملی۔ اور شرع اسی بات کا ان سے تقاضا کرتی ہے جو انکی فطرت کے خلاف نہ ہو۔ ارشادِ الٰہی ہے کہ :
[ARABIC]فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ[/ARABIC]
اللہ کی( بنائی ہوئی) فطرت، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اور اللہ کی پیدا کردہ(سرشت) میں تبدیلی نہیں ہوگی۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "کل مولود یولد علی الفطرۃ۔۔۔الخ" یعنی ہر پیدا ہونے والا ، اللہ کی بنائی ہوئی فطرتِ سلیمہ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔
اور یہ معرفت بالکل درست اور سچ ہے۔ اور اسکا مرجع و مآخذ حق تعالیٰ کی تجلیات میں سے ایک تجلی ہے، جو قدیم ہے اور نفسِ رحمانی کے قلب میں ظاہر ہوئی، جب زمان اور حدوث کا سلسلہ ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا۔ اور وہ تجلی یہ ہے کہ نفوسِ بشریہ (Human souls) کو اسکی طرف ایسی کشش اور جذب عطا ہو جیسا انجذاب لوہے کو مقناطیس کے ساتھ ہوتا ہے، اور ایسا میلان ہو جیسا آگ کو اوپر کی جانب اور مٹی کو نیچے کی جانب ہوتا ہے۔ اور کیا ہی سچی بات کہی ہے کسی نے کہ:
لقد صرت مقناطیسنا فقلوبنا​
لجذبک ایاھا الیک تمیل۔۔۔​
"پس تم ہمارے دلوں کیلئے ایک مقناطیس کی طرح ہوگئے، کہ جسکے جذب و کشش کی وجہ سے ہم تمہاری جانب کھنچے چلے آتے ہیں"
پس اللہ عزّ وجل نے موت کے بعد اس تجلی کے ساتھ واصل ہوجانےکو لقاءِ الٰہی کا نام دیا۔ اور ہر وہ بات جو انسان کو اس وصل کے حصول میں مدد دے، اور اسکے سینے میں ٹھنڈک کا باعث بنے، اسے طاعت قرار دیاگیا۔ اور ہر وہ بات جو اس وصول سے دور کرنے والی ہو، اور قلب میں قلق و اضطراب پیدا کرے، اسے گناہ کا نام دیا گیا۔ اور اسی معنی کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں اشارہ کیا کہ " عنقریب تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چودہویں کی رات کے چاند کو دیکھ رہے ہو کہ اسکے مشاہدے میں کوئی شئے حائل نہیں۔ پس اگر تم سے ہوسکے کہ سورک کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے کی نماز میں رسوخ حاصل کرسکو، تو ضرور کرو۔"
(جاری ہے)۔۔۔۔۔
 
اور جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، کہ یہ تجلی خیر اور شر کیلئے ایک میزان ہے۔اور یہی وہ تجلی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے ننانوے 99 ناموں کا انطباق ہوتا ہے۔ اور جسکے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ مخلوق کو خلق کرنے سے پہلے ہمارا رب کہاں تھا؟، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ "عماء" میں تھا (ایک گہرا تاریک بادل) جسکے اوپر ہوا تھی اور نیچے بھی ہوا تھی۔ اور یہی وہ تجلی ہے جسکے بارے میں صوفیہ نے ان الفاظ میں خبر دی کہ بیشک وجود دو قسم کے مظاہر میں ظاہر ہوا، ممکن (Possible) اور واجب (Essential)۔ واجب کیلئے تاثیر، قہر اور تنزیہہ (Transendence)ہے اور ممکن کے نصیب میں متاثر ہونا، مقہور ہونا، انفعال پذیر ہونا(Subjectivity) اور ملوّث ہونا قرار پایا۔ اور شیخ محی الدین ابن العربی نے فرمایا کہ انبیاء اور اولیاء کا ذوقِ عرفان اس بات کی طرف راہنمائی کرتا ہے کہ یہاں ہر لحظہ تجدد پذیر ہونے والا ارادہ پایا جاتا ہے۔ انتہیٰ قولہ۔
پس جس شخص کے حق میں یہ تجلی ثابت ہوئی، گویا وہ شخص اپنی اس فطرت تک پہنچ گیا جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مفطور کیا ہے، اور معرفت میں انبیاء و اولیاء کی اسے موافقت نصیب ہوئی۔
اور جو شخص اپنے حق میں اس تجلی کا اثبات نہ کرسکا، وہ فطرت سے دور جاپڑا اور معرفت میں انبیاء و اولیاء کی موافقت سے محروم رہتے ہوئے دہریہ اور زندیق قرار پایا۔
اور اسی طرح ہر وہ شخص جس نے اس علم کو جھٹلایا جو حق تعالیٰ نے اسکی فطرت میں ودیعت فرمایا تھا، اور جسکی بناء پر اسے مکلف ٹھہرایا گیا تھا، وہ بھی زندیق قرار پایا۔
اور علومِ فطرت (جنکا انکار کرنے والا زندیق کہلاتا ہے)، میں سے یہ بھی ہے کہ اشیاء کے حقائق ثابت شدہ (Established) ہیں۔ اور ان اشیاء کیلئے اپنا اپنا ایک مخصوص وجود ہے جس پر اسکے خواص گذرتے ہیں۔ جیسا کہ آگ ہے جو جلا تی ہے، پانی بجھا تا ہے، ادرک تاثیر میں گرم اور کافور سرد ہے، نماز خیر ہے اور زنا شر ۔ پس جو ان خواص کو نہیں مانتا، اسکے جھوٹ پر اسکے اپنے نفس کی طرف سے دلائل قائم ہوتے رہتے ہیں اور اسکا نفس اسے جھٹلاتا ہے اور وہ شخص مختلف قسم کے اقوال اور منتشر آراء کی آماجگاہ بنا رہتا ہے۔
اور ہمیں شارع علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سنت سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے ماورائے فطرت امور پر جراءت کرنے اور اسی قسم کی دوسری باتوں میں غورو خوض کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن صوفیہ نے جان لیا کہ یہ نہی دراصل عقل کیلئے وارد ہوئی ہے۔ یعنی عقل کے ذریعے ان امور میں غور و خوض کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ پس ممنوع ہے کہ انسان اس قسم کی باتوں کیلئے اپنی عقل اور قیاس کے گھوڑے دوڑائے اور اپنی بشریت کے ساتھ ان امور میں خوض کرے۔ البتہ صوفیہ نے جس مقام سے ان امور پر گفتگو کی ہے، وہ مقام طورِ عقل سے ماوراء ہے اور انہون نے اپنی بشریت کے ساتھ ان باتون کی تحقیق نہیں کی بلکہ اس حیثیت میں تحقیق کی ہے جس حیثیت میں وہ موجود ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)
 
پس لوگوں نے جبّلت سے متعلقہ اس بنیادی بات کے احکام کے بعد ایک دوسرے علم میں غور کیا اور وہ یہ کہ تمام اشیاء خواہ وہ معقولات کی دنیا سے تعلق رکھتی ہوں یا محسوسات کی دنیا سے، وجود کے اعتبار سے مشترک ہیں۔ اور یہ وہ چیز ہے جو انکو عدم سے جدا کرتی ہے۔ پس اس بات کو سمجھنے کیلئے ہم مثال کے طور پر ایک مثلث (Triangle) کا تصور کرتے ہیں اور یہ بات بھی ذہن میں رکھتے ہیں کہ یہ مثلث موجود نہیں ہے(خارجی دنیا میں)۔ اور چونکہ ہم نے اس مثلث کا تصور کیا اور ذہن میں رکھا چنانچہ وہ موجود ہے (ذہن میں )۔ پس پہلا تصور دوسرے تصور سے جس چیز کی وجہ سے مختلف اور ممتاز ہے، وہ چیز وجود ہے۔ اور یہ وجود ہی ہے جو ان اشیاء میں قابلیت (Capability) اور فاعلیت (Validation) کا مصدر ہے۔ اور یہ اشیاء اپنی ماہیات (Essence of Entity) کی بناء پر ایک دوسرے سے ممتاز اور مختلف ہیں۔ اور ماہیات سے مراد وہ خصوصیات اور امور ہیں جو وجود سے علیحدہ اور اضافی ہیں۔ اور انہی ماہیات کی وجہ سے مختلف اشیاء کے مختلف نام رکھے جاتے ہیں مثلاّ گھوڑا، گدھا، اونٹ ، انسان وغیرہ وغیرہ۔ اور انہی ناموں کی وجہ سے ہم اپنے اندر ان سب اشیاء کے احکام و آثار کی قدریں متعین کرتے ہیں۔
چنانچہ یہ لوگ وجود کی حقیقت میں اور ماہیات کے ساتھ اس وجود کے انضمام (Joining) کی کیفیت میں چند اختلافات کا شکار ہوئے۔
چنانچہ کسی نے کہا کہ وجود ایک انتزاعی (Abstract) امر ہے، جس سے ماہیات کو متصف کیا جاتا ہے۔ اور جاعل (بنانے والا) ماہیت کو ماہیت اور وجود کو وجو نہیں بناتا، بلکہ ماہیت کو موجود کردیتا ہے۔
میں یہ کہتا ہوں کہ یہ قول فی نفسہِ درست ہے لیکن غلط اس اعتبار سے ہے اگر وجود کی پوری معرفت کو اسی قول میں منحصر سمجھ لیا جائے یا وجودِ حقیقی کے مبحث میں اسکا ذکر کیا جائے۔ کیونکہ ہمیں بغیر کسی شک کے یہ معلوم ہے کہ وجود ایک امرِ انتزاعی (Abstract Reality) ہے اور لیکن ماہیات کو وجود کی صفت سے موصوف کرنا کسی جاعل (Renderer) کے جعل اور مسبّب کے سبب سے ہوتا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 
اور یہ بھی کہا گیا کہ بنانے والے نے ماہیات کو کچھ یوں بنایا کہ یہ ماہیات اسکے اپنے نفس سے نکلیں، یعنی انکا صدور اسکے اپنے نفس سے ہوا اور اسکے صادر ہوجانے کے بعد دیکھنے والوں نے جب اسکے بعض احوال ( جن میں قابلیت اور فاعلیت کا ظہور بھی شامل ہے)، پر نظر ڈالی تو انکے ذہن میں جو صورت نمودار ہوئی ( یعنی Perception) اسکا نام وجود رکھا گیا۔
میں یہ کہتا ہوں کہ یہ بات بھی حق ہے لیکن غلط اس وقت ہے جب وجود کی معرفت کو اسی قول میں محصور سمجھ لیا جائے۔ کیونکہ ہم قطعی طور پر یہ جانتے ہیں کہ خارج میں کچھ امور ہیں جنہیں ہم مختلف نام دیتے ہیں اور لامحالہ یہ کسی جاعل کے جعل کا اثر ہے اور حق یہ ہے کہ ماہیات دو قسم کے وجودوں میں لپٹی ہوئی ہیں :
1- پہلا وجود وہ ہے جو وحدانی ہے اور موجودات کے ہیکلوں پر پھیلا ہوا ہے ۔ اسے ہم وجودِ منبسط کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اور یہ وجودِ منبسط، تمام وجودات ِ خاصّہ سے مقدّم ہے (یعنی پہلے آتا ہے)۔ اور وجوداتِ خاصّہ عام طور پروجودِ منبسط کے تنزّلات اور تعیّنات ہیں اور یہ تنزّلات و تعیّنات دراصل ماہیات (جو وجودِ منبسط کی چند شانیںAspects ہیں) اور صورتِ علمیہ کے درمیان ایک ایسے ارتباط کا حاصل ہیں جو ہونے کے اعتبار سے تو معلوم ہے لیکن کیسے؟ اسکا کچھ پتہ نہیں۔
2- دوسرا وجود وہ ہے جو ان وجوداتِ خاصّہ کا اجمالی طور پر ملاحظہ کرنے سے ابھر کر سامنے آتا ہے ( یعنی Perception )۔
چنانچہ جن لوگوں نے یہ باتیں کی ہیں، اگرچہ وہ حق بات تک پہنچ گئے لیکن فقط انہی اقوال پر اکتفا اور حصر کرلینے کی وجہ سے غلطی میں جاپڑے۔ کیونکہ ان باتوں سے کوئی ایسا نتیجہ نہیں نکلتا جو مثبت قسم کا ہو اور عملی طور پر فائدہ مند ہو۔
(جاری ہے۔۔۔۔)
 
اور وحدت الوجود کے قائل صوفیہ نے کہا کہ کوئی بھی شئے جو خارج میں موجود ہو اور اس پر خارجی آثار مرتّب ہوتے ہوں، اس میں ان دونوں باتوں میں سے ایک بات ضرور پائی جائے گی:
1-وہ شئے خارج میں مختلف آثار کے ساتھ پائے جانے کیلئے کسی ایسی چیز کی محتاج ہو جو اس سے ملحق ہونےکے بعد اسے موجود کرے۔
2- وہ شئے ایسی کسی چیز کی محتاج نہ ہو۔
پہلا وجودِ ممکن ہے اور دوسرا وجود واجب۔
اور ہمیں اپنے ذوق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ یہ ملحق کردینے والی چیز وہی ہے جسے ہم نے وجودِ منبسط کا نام دیا ہے جو تمام موجودات کے ہیکلوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اور یہ وہ شئے ہے جو اپنی ذات سے قائم ہے، اور دوسروں کیلئے قیوم (یعنی دوسروں کو قیام دینے والا) ہے۔ اور فی نفسہِ ایسی کسی نوع کے ساتھ متعین (Identified) نہیں ہے جسکے آثار عام طور پر لوگوں کو معلوم ہوں۔ لیکن اس وجودِ منبسط کے کچھ علمی اور عینی تنزّلات ہیں جنکی وجہ سے یہ ان مخصوص آثار کے ساتھ متعین ہوجاتا ہے جو عند الناس معلوم ہوں۔
اور اسکے تنزّلات میں سے پہلا مرتبہ وہ ہے جس میں وہ اپنے نفس کیلئے اپنے ہی نفس کے ذریعے ایک کُلّی (A General Category) کی حیثیت میں جلوہ نما ہوتا ہے۔ اور یہ شانِ کلّی اس میں سے کہیں باہر نہیں نکلتی۔ پھر یہ کلّی اپنی تفاصیل کیلئے مزید تنزّل کرتی ہے علم کے مرتبے میں (عین کے مرتبے میں نہیں)۔ اور اسکے بعد ان تفاصیل کے ساتھ مزید تنزّل کرتی ہوئی عین کے مرتبے میں بھی آجاتی ہے۔
اور ان صوفیہ کے نزدیک حقائقِ ممکنات سے مراد اس ذاتِ واحد کی وہ تمام صورتیں ہیں جو کثرت میں مختلف اعتبارات اور شئون(Aspects) کے ساتھ ملتبس ہوتی ہیں۔ پس اسکی ایک شان کے ساتھ ملتبس ہونے کا علم، ایک ممکن کی حقیقت کہلاتا ہے اور دوسری شان کے ساتھ ملتبس ہونے کا علم دوسرے ممکن کی حقیقت کہلاتا ہے۔ علیٰ ھٰذاالقیاس۔
اور ممکنات کا وجود دراصل ان مختلف حقائق میں وجود کا ظہور پذیر ہونا ہے۔ پس جب ایک ممکن کے وجود کیلئے درکار تمام شرائط جمع ہوجاتی ہیں اور اس وجود سے باز رکھنے والی تمام شرائط رفع ہوجاتی ہیں تو اس حقیقت کو وجود کے ساتھ ایک خاص نسبت حاصل ہوجاتی ہے جسکا ہونا معلوم ہے، لیکن کیسے؟، یہ نامعلوم ہے۔ پس وجود سے ایسے آثار کا صدور ہوتا ہے جو خاص اس ایک حقیقت کے ساتھ مخصوص ہوتے ہیں، چنانچہ اس نسبت اور ارتباط کی وجہ سے اس حقیقت کو وجود عطا ہوتا ہے چنانچہ اس وقت کہا جاتا ہے کہ وجود نے تنزّل کیا اور ایک خاص مظہر میں ظاہر ہوا۔ چنانچہ ظہور کا مطلب یہ ہوا کہ ایک نوع کے مخصوص آثار کسی دوسری نوع کے مخصوص آثار سے باہم ممتاز ہوکر متعین ہوگئے۔ اور کسی شئے کا مظہر اس شئے کی بیشمار محتمل صورتوں میں سے ایک صورت ہوتی ہے، جس سے وہ متعین ہوتا ہے اور اس خاص صورت کے احکام و آثار سے ملتبس ہوتا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔)
 
میں یہ کہتا ہوں کہ یہ قول درست ہے ، عقلی طور پر بھی اور کشفی طور پر بھی۔ پس مثال کے طور پر اگر تم کہو کہ قتال کے معرکے کے دوران جو چیز متحقق ہورہی ہے وہ جسم ہے (Body as a general category) ایک کلّی کے طور پر۔ پس جسم ہی قاتل ہے، جسم ہی مقتول ہے۔ وہی آلہِ قتل ہے، وہی سوار ہے اور وہی سواری ہے۔ نیزہ بھی وہی ہے، تلوار بھی وہی ہے، ڈھال بھی وہی ہے، تیر بھی وہی ہے اور کمان بھی وہی ہے۔ تیرانداز بھی وہی ہے اور نشانہ بھی وہی ہے، فاتح بھی وہی ہے اور مفتوح بھی وہی ہے۔ (یعنی ان تمام ناموں پر جسم کا اطلاق ہوتا ہے جو وجود کی ایک کّلی ہے)۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کلی یعنی جسم کے ان ناموں پر مخصوص کیفیات اور معنوں کا اطلاق ہوتا ہے۔
اور اگر ہم ان کیفیات کو جسم کے ساتھ ملتبس ہوئے بغیر دیکھیں ، تو وہ معدوم ہونگی اور ان سے کسی قسم کے آثار صادر نہیں ہونگے۔اور جب ان کو جسم کے ساتھ ضم کریں گے انکے آثار اس جسم سے ظاہر ہونگے اور وہ جسم ان مخصوص کیفیات اور معنوں کا محل(Locus) بن جائے گا۔ پس اس مثال میں یہ سب کیفیات اور معانی عقل اور اندازے میں موجود تھے وجودِ خارجی سے پہلے۔ اور بعد میں یہی مختلف کیفیات اور معانی، اشیاء بن گئے وجودِ خارجی کے ساتھ۔ اور یہ مختلف صورتیں عدمِ محض تھیں اگر انکو جسم سے قطعِ نظر کرکے دیکھیں۔ اور انکو کوئی تحقق حاصل نہیں تھا اور موہوم کے درجے میں تھیں۔ اور جب انکو جسم کے ساتھ ضم کیا گیا تو یہ موجود ہوگئیں۔ اور جسم کے ساتھ ضم ہونے کے بعد کبھی تلوار تو کبھی نیزہ کہلائیں۔ اور مختلف اسباب یعنی بڑھئی، لوہار، لکڑی ، لوہا، آگ، ہتھوڑا، سندان وغیرہ وغیرہ کی مدد سے یہی تلوار اور نیزہ جو معدوم اور موہوم تھا، ایک موجود شئے یعنی جسم کے ساتھ ایک خاص ارتباط پاکر ( جو انیّت کے اعتبار سے معلوم اور کیفیت کے اعتبار سے مجہول ہے) وجود کے ساتھ متصف ہوگئے چنانچہ معدوم کے وجود کے ساتھ ارتباط کے بعد اس موہوم تلوار اور نیزے کو موجود کہنا درست ٹھہرا۔ کیونکہ جسم ایک عام شئے ہے جو کئی صورتوں کیلئے محتمل ہے پس جب وہ تلوار بن گیا تو تلوار کے جملہ احکامات (یعنی کاٹنا وغیرہ) کے ساتھ ملتبس ہوا۔ تو بیشک جسم ایک خاص تعیّن کے ساتھ متعین ہوا۔ اور اپنی بیشمار محتمل صورتوں میں سے ایک صورت میں ظاہر ہوا۔ پس اس وقت کہا گیا کہ جسم ایک خاص مظہر (یعنی تلوار) میں ظاہر ہوا۔
اور یہ سب کلام درست ہے کوئی عاقل اسکا انکار نہیں کرسکتا سوائے لفظی جھگڑوں اور بکھیڑوں کے جنکا تعلق وضع اور عرف سے ہے۔ اور ہمارے نزدیک ان لفظی اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں۔ پس اگر تم جسم کی مثال کی حد تک یہ بات سمجھ گئے تو وجود اور موجود اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے سمجھا جائے۔
(جاری ہے۔۔۔۔)
 
چنانچہ موجود سے مراد ہے وہ چیز جو وجود سے متصف ہوچکی ہو۔ کوئی شک نہیں کہ وجود ایک انتزاعی صفت ہے۔ چنانچہ ہمیں اس بات کی تحقیق کرنا چاہئیے کہ اس انتزاعی صفت کا منشاء (Origin) خارج میں موجود ہے یا یا فقط وہم و خیال کی بات ہے؟ کوئی شک نہیں کہ عقل بدیہی طور پر پہلی بات کا اثبات کرتی ہے اور دوسرے احتمال کو رد کرتی ہے۔ پس اگر وجود کیلئے یہ حکم لگایا جاسکتا ہے تو وجودِ حقیقی اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس پر بھی یہی حکم لگایا جائے۔
اور جان لو کہ اشیاء کو وجود سے پہلے، ثبوت کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ کئی معدوم ہیں جو ثابت ہیں اور مخصوص احکام کے ساتھ متعین ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی اکاؤنٹنٹ (Accountant) اعداد کے مراتب کے بارے میں سوچے تو وہ اعداد کے مخصوص طبعی قوانین کے مطابق ہی سوچے گا جو کہ اسکے ذہن میں بدیہی طور پرثابت شدہ ہیں۔ چنانچہ اگر وہ جفت (Even) کو طاق (Odd) یا طاق کو جفت کرنا چاہے تو ایسا ممکن نہیں ہوسکے گا اور اگر وہ چاہے کہ کہ اعداد کے مراتب کو انکی حقیقی جگہ سے آگے پیچھے کرلیا جائے، تو یہ بھی نہیں کرسکے گا۔ پس اسی کا نام ثبوت ہے جسکے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ وجود سے پہلے ہے۔ اور یہ مرتبہِ ثبوت ، وجودِ خارجی سے علیحدہ ایک الگ چیز ہے اور اسی طرح وجودِ ذہنی سے بھی ہٹ کر ہے۔
اور جیسا کہ ہم نے مراتبِ اعداد کی مثال میں ذکر کیا ہے، ایسا ہی معاملہ ہر نوع اور ہر جنس کے احکام میں ہے چنانچہ لامحالہ ہم جانتے ہیں کہ کہ اگر کھجور کا درخت اگر کہیں ملے تو اسکے فلاں فلاں خواص ہونگے اور اسکے پتے فلاں شکل کے ہونگے، اور اگر بیری کا درخت کہیں پایا جائے تو اسکے بھی فلاں فلاں خواص ہونگے اور اسکے پتے اور شاخیں فلاں طرز کی ہونگی۔ پس ہر نوع اپنے مخصوص احکام کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے اور یہ احکام اس نوع کے ساتھ ایک لزوم کی حیثیت رکھتے ہیں جب وہ نوع وجود میں ظاہر ہو۔ اور یہ اسی قسم کا لازوم ہے جو اس قول میں ہے کہ "اگر اللہ نہ چاہتا تو کسی شئے کو تخلیق نہ کرتا" پس یہ ارتباط اور یہ لزوم نفس الامر میں واقع ہوئے ہیں خواہ وجود میں انکا ظہور کسی صورت کے ساتھ متحقق ہوا ہو یا نہ ہو۔
اور جو کچھ خارج میں موجود ہے، وہ لامحالہ ثابت شدہ ہے۔ جبکہ ممتنع الوجود( وہ شئے جسکا وجود محال ہو) ثابت شدہ نہیں ہوتا۔ اسی طڑح ذہن کے وہ تمام لایعنی تصورات جو صرف تصورات ہی کی حیثیت رکھتے ہوں اور جنکا کوئی ایسا امام نہ ہو جسکی مقتدیٰ عقل ہو ( یعنی لایعنی اور عقلی طور پر محال تصورات)، انکے لئے ثبوت نہیں ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی شئے موجود ہوتی ہے، وہ دراصل ایک امرِ ثابت کے وجودِ خارجی کے ساتھ ملحق ہوجانے سے موجود ہوتی ہے۔ اور اگر ہم اس ثبوت اور وجود کے منبع کی تلاش کریں تو جو بات ہم پر واضح ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ وجودِ خارجی کا منبع و مصدر، وجودِ منبسط ہے جو تمام موجودات کے ہیکلوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اور اگر تم اس وجودِ منبسط کو نفسِ رحمانی کہو یا نفسِ کلّیہ کہو، جو کہنا چاہو کہو۔۔۔
[ARABIC]عباراتنا شتّیٰ و حسنک واحد
و کُلّ الیٰ ذاک الجمال یشیر[/ARABIC]​
ہماری عبارات(Statements) مختلف ہیں اور اسکا حسن ایک ہی ہے۔ اور یہ سب اسی جمال کی طرف اشارہ کررہی ہیں
اور یہ وجودِ منبسط صادر ہوا ہے ذاتِ الٰہیۃ سے۔ اور ثبوت کا منبع ذاتِ الٰہیۃ کا وہ اقتضاء (یا ارادہ) ہے جو کائنات کیلئے عالمِ عقل میں وجودِ خارجی سے قبل پایا گیا۔ اور اسی ارادہ و اقتضا کو صوفیہ تنزّلِ علمی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اور اس سے مراد اشیاء کی صورتوں کا علمِ الٰہی میں تشکیل پانا نہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک ہی دفعہ اشیاء کا صدور مرتبہِ عقلیہ (جسکا قیام اسکے نفس کے ساتھ نہیں بلکہ واجب کے ساتھ ہے) میں ہوگیا۔ اور اس بات کو ہم ایک مثال کے ساتھ واضح کریں گے۔
اگر تم کسی مُہر (Stamp) کو موم پر ثبت کرو تو موم پر جو نقش بنے گا وہ وہی حروف ہیں جو مُہر میں کُھدے ہوئے ہیں۔ اور موم میں جو حروف ظاہر ہوئے ہیں انکی علّتِ فاعلہ مُہر ہے، اور علّتِ قابلہ موم ہے۔ اور ان دونوں کے اجتماع اور ایک دوسرے پر انطباق سے یہ حروف ظاہر ہوئے موم میں۔ لیکن مہر کو جو استعدا حاصل ہے وہ مہر کے ساتھ شروع سے ہی ہے، چاہے اس مہر کو موم پر منطبق(Coincide) کریں یا کسی اور شئے مثلاّ مٹی وغیرہ پر۔ پس اس انطباق سے جو کچھ حاصل ہوا، وہ نفس الامر (یعنی مہر) میں ثبوت کے درجے میں تھا، وجود کے درجے میں نہیں۔ وجود کے درجے میں وہ موم یا مٹی کے ساتھ منطبق ہونے کے بعد آیا۔
اسی طرح ہم لمحہ بہ لمحہ جو کچھ زمانے میں موجود پاتے ہیں، وہ سب ذاتِ الٰہیۃ میں قائم تھا مرتبہِ ثبوت میں۔ اور یہ واجب کا ایک کمال اور مقتضاء ہے۔ اسی درجہِ ثبوت کو صوفیہ فیضِ اقدس کے نام سے بھی پکارتے ہیں جبکہ حکماء (فلاسفرز) اسے عقل کا نام دیتے ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔۔)
 
اور حق یہ ہے کہ تمام موجوداتِ خاصّہ عقل کے دائرے میں آجاتے ہیں۔ لیکن حکماء صرف عقولِ افلاک ہی کو مانتے ہیں۔ اور یہاں صرف چار بنیادی اصول ہیں:
1- ذاتِ الٰہیہ Essence of God
2- ذاتِ الٰہیہ سے صادر ہونے والا مرتبہِ عقل Universal Intellect.
3- نفسِ کلیہ (Universal Soul) جو ذاتِ الٰہیہ سے ہی صادر ہوا لیکن مرتبہِ عقل کے واسطے سے۔
4- ھیولیٰ (A formless medium in which all shapes and figures are formed) جو ذاتِ الٰہیہ سے صادر ہوا لیکن نفسِ کلیہ کے واسطے سے۔
چنانچہ مولانا عبدالرحمٰن جامی نے لکھا ہے کہ "ذات اور صادرِ اوّل دونوں اُس وجود کیلئے علّتِ تامّہ ( Ultimate Cause ) کی حیثیت رکھتے ہیں جو وجود کے دوسرے مرتبے میں ظاہر ہوا ہے اور یہ سب یعنی ذات، صادرِ اوّل اور وجود کا مرتبہِ دوم، یہ تینوں مل کر وجود کے مرتبہِ سوم کے لئیے علّتِ تامّہ بن جاتے ہیں"۔
اور جو کچھ حواس کے ذریعے مشہود (Percieved) ہوتا ہے یا عقل کے ذریعے ادراک میں آتا ہے وہ دراصل ھیولیٰ اور نفسِ کلیہ کے باہم ملنے سے حاصل ہوتا ہے۔ پس جو کچھ نفس کے زیادہ قریب ہے اس میں نفس کے احکامات ظاہر ہوتے ہیں اور جو کچھ ھیولیٰ کے زیادہ قریب ہے، اس میں ھیولیٰ کے احکامات ظاہر ہوتے ہیں۔ اور ھیولیٰ دراصل تشخص کے سوا اور کچھ نہیں۔ چنانچہ جب ان اشیاء کے صدور کا وقت آتا ہے اور علت تمام ہوجاتی ہے تو انکا وجود اُن استعدادات (Inherent Capabillities) کے مطابق ظہور پذیر ہوجاتا ہے جو ذاتِ الٰہیہ کے ساتھ قائم ہیں اور مرتبہِ ثبوت میں ہیں۔
چنانچہ انہی معنوں میں صوفیہ کا یہ قول ہے کہ " وجود کا ظاہر، وجود کے باطن کے مطابق ظاہر ہوا" چنانچہ ظاہر الوجود اور باطن الوجود میں ایک نسبت واقع ہوئی جو انیّت کے اعتبار سے معلوم اور کیفیت کے اعتبار سے مجہول ہے۔
اور صوفیہ نے انہی معنوں میں یہ بھی کہا کہ اعیان (اعیانِ ثابتہ) نے وجود کی بُو تک نہیں سونگھی۔ اور اس سے انکی مراد یہ ہے کہ جس چیز سے آثار صادر ہوئے، وہ فقط وجود ہی ہے جو باطنِ وجود کے مطابق ظاہر ہوا۔
پس اس قدر وحدت الوجود تو عقلی اور کشفی طور پر ثابت شدہ ہے۔
اور اہلِ عقل کے تمام گروہ اسی بات کے آس پاس گھوم پھررہے ہیں۔ پس جس کسی نے کہا کہ ذوات (ذا ت کی جمع) اپنی ذاتیت میں متحد (Unite) ہیں لیکن اپنے اوصاف میں مختلف ہیں، اسکی مراد یہی تھی جو کچھ اوپر مذکور ہوا۔
اور جس نے کہا کہ کہ عالم (The World) ہیولائے اولیٰ اور صورتِ عامّہ جسمیہ (General Bodily Form) میں متعین ہے، وہ بھی ہمارے بیان کردہ قاعدے سے کچھ زیادہ دور نہیں ۔ اور اس نے اپنے اس قول سے ہمارے ہی بیان کردہ قاعدے کا اعتراف کیا ہے خواہ جانے میں یا انجانے میں۔
اور ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ یہ قول کہ " کسی شئے کا وجود، عین اسکی حقیقت ہوتی ہے" اور یہ قول کہ " وجود انتزاعی صفت ہے" دونوں ہمارے اس مسئلے سے نہیں ٹکراتے۔ کیونکہ ہر قول کا ایک خاص محل ّ ہے جس پر اسے منطبق کیا جانا چاہئیے۔
(جاری ہے۔۔۔)
 
اب یہاں ایک مشکل مسئلہ ہے جو وحدت الوجود کے قائلین کیلئے خاصا دشوار ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا یہ وجود، ذاتِ واجبہ کا عین ہے؟ یا ابداع (Creation Out of Nothing) کے طور پر ذاتِ واجبہ سے صادر ہوا ہے؟
اس مشکل کو حل کرنا ضروری ہے کیونکہ ان دونوں فریقین کے کلام میں کچھ نہ کچھ کمی بیشی کی گنجائش ہے جسکی وجہ سے یہ دونوں اقوال مختلط ہوگئے ہیں۔
پس میں یہ کہتا ہوں کہ بیشک انسان کا حال اگر بشرطِ لا، بشرطِ شئی اور لابشرطِ شئی کے اعتبارات سے دیکھا جائے تو وہ یقیناّ اُس حال سے مختلف ہوگا جب اسی ماہئیتِ انسان کو اسکے افراد (Individuals)کی نسبت سے دیکھا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے والے حال میں وحدت حقیقی ہے اور کثرت اعتباری (Considerative) ہے جبکہ دوسرے والے حال میں کثرت حقیقی ہے اور وحدت اعتباری ہے۔ پہلے والا حال انسان کو ایک کلّی حیثیت ( Human Being in general, as a Species) سے خارج نہیں کرتا۔ جبکہ دوسرے والے حال میں اسکی حیثیت اب کلّی کی سی نہیں رہی۔
پس جب ہم نے کسی شئے کے ظہور کے مراتب کو سمجھ لیا جب وہ اپنے مظاہرمیں ظاہر ہوئی اور اپنے بعض محتملات(Possible outcomes) میں سے کسی ایک صورت میں متعین ہوئی، تو ہم نے اس شئے کو دو حالتوں میں دیکھا۔ پہلی حالت وہ جسے ہم صدور اور ابداع کہتے ہیں جبکہ دوسری حالت وہ جسے تعینِ اعتباری کہتے ہیں۔
اسکے بعد ہم کہتے ہیں کہ وجودِ منبسط کے بارے میں صوفیہ کے اقوال میں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔
چنانچہ شیخ صدرالدین قونوی نے اپنی کتاب مفاتیح الغیب کے شروع میں لکھا کہ "وجودِ منبسط ذاتِ الٰہیہ سے صادر ہوا"۔
جبکہ مولانا عبدالرحمٰن جامی نے اپنی شرحِ لمعات میں چند سوال جواب وارد کرکے یہ کہا کہ" تحقیق یہ ہے کہ فیض اور فیض دینے والی ذات، ایک ہی ہیں۔ ان میں جو نسبت ہے ، وہ محض اعتباری ہے"۔
اور میرے نزدیک حق بات وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی (یعنی شیخ صدرالدین قونوی کا قول)۔ کیونکہ موجوداتِ خاصّہ کے احکام میں امتیاز و اختلاف کامرتبہِ ثبوت میں ہونا بذاتِ خود ایک بدیہی(Obvious) بات ہے۔ کیونکہ لا محالہ یہ اپنے اس مرتبہِ ثبوت سے مرتبہِ وجود میں جس طور پر آئیں، اسی کو تنزّل و تعین کہتے ہیں۔ کیونکہ اگر اسے اعتباری کہا جائے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ کسی نوع اور اسکے افراد میں فرق محض اعتباری (Relative)ہے جو اس اعتبار ( Consideration) کے ختم کردینے سے ختم ہوجائے گا۔ اور اسی طرح ہر عام اور خاص General & Specificکے مابین ہوگا حتیٰ کہ یہ سلسلہ ذاتِ الٰہیہ تک جاپہنچے۔
ایسی بات نہیں کہ صوفیہ اس بات کالتزام کرتے ہوں کہ حقائقِ امکانیہ محض اعتباری اور اضافی امور ہیں جو وجود کو لاحق ہوئے۔ نہیں۔ کیونکہ صوفیہ تو یہ مانتے ہیں کہ مثلاّ آگ، پانی اور ہوا کا غیر ہے اور انسان اور گھوڑا ایک دوسرے کا غیر ہیں، بیشک وجود ان سب کو شامل ہے۔ چنانچہ جب وہ اعتبارات اور اضافات کی بات کرتے ہیں تو انکی مراد اس سے وہ معنی ہیں جن کی رُو سے تغائر اور امتیاز ختم نہیں ہوتا کیونکہ اسی تغائر اور امتیاز سےتو موجودات کے آثار اور احکام میں تنوع (Variety)اور اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور وہ معنی یہ ہیں کہ کثرت حقیقی ہے اور وحدت اعتباری ہے۔ کیونکہ کثرت کے حقیقی ہونے سے انکی مراد اختلافِ حقائق اور امتیازِ احکام و آثار کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور مختلف وجودات کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ہی تو کثرت ہے، لیکن اس کثرت کا وجودِ منبسط میں کوئی دخل نہیں کیونکہ وہ ایک بسیط امر ہے جو تمام موجودات کے ہیکلوں پر پھیلا ہوا ہے۔ پس صوفیہ کا یہ قول دراصل تنزّل اور تعین کا اثبات کرتا ہے البتہ تنزل کے درجوں میں سے کسی ایک درجے سے ہٹ کر کسی اور درجے کا اثبات نہیں کرتا۔
پس جب صوفیہ نے یہ کہا کہ عالم (The World) حق کا عین ہے تو اس سے انکی مراد یہ نہیں ہے کہ موجوداتِ خاصّہ کی نفی کردی جائے جو کہ وجود کے مختلف مراتب میں تنزل سے حاصل ہوتے ہیں۔ بلکہ انکی مراد تو فقط تنزل اور ظہور کے معنوں کو واضح کرنا ہے۔ چنانچہ جیسے کہ ایک معقولی (Philosopher) یہ کہتا ہے کہ زید اور عمر واحد ہیں یعنی انکی نوع میں مماثلت ہے (دونوں انسان ہیں ) یہ نہیں کہ دونوں میں ہر اعتبار سے مماثلت ہے۔ یا یہ کہتا ہے کہ انسان اور گھوڑا واحد ہیں۔ یعنی حیوان (Animal Form)ہونے میں ان میں اشتراک ہے۔ یا یہ کہنا کہ زید شیر ہے، یعنی مشابہت شجاعت میں ہے۔ چنانچہ اسی طرح صوفیہ کہتے ہیں کہ عالم عینِ حق ہے تو مراد یہ ہے کہ ساری کی ساری عینیت وجودِ منبسط میں ہے اور وجودِ منبسط کا قیام حق الاوّل جل شانہُ کے ساتھ ہونے میں ہے۔ یہ نہیں کہ کلی طور پر تمائز کی نفی کی جارہی ہے۔ کیونکہ انکا تو یہ قول ہے کہ :
ہر مرتبہ از وجود حکمے دارد​
گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی​
یعنی وجود کا ہر مرتبہ اپنا ایک مخصوص حکم رکھتا ہے، اگر تم ان مراتب اور انکے مخصوص احکام کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے، تو تم زندیق ہو۔
چنانچہ صوفیہ جب تنزل کی بات کرتے ہیں تو اس سے انکی مراد وہ معنی ہیں جو دونوں حیثیتوں کو شامل ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔)
 
اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ " چونکہ تم نے حقِّ اوّل اور پھر اس سے صادر ہونے والے امر کو تسلیم کرلیا، چنانچہ لازم ہے کہ وجود اور تحقق ان دونوں کو شامل ہو۔ کیونکہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حقِّ اوّل موجود نہیں ہے، اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقِّ اوّل سے جو کچھ صادر ہوا، وہ بھی موجود نہیں ہے۔ چنانچہ جب وجود ان دونوں کو شامل ہے اور کلام اس وجود پر ہورہا ہے تو لازم ٹھہرا کہ وہی اوّل ہے اور ان دونوں مراتب میں وہی ہے (یعنی وجود)"۔ نہیں ایسی بات نہیں ہے، کیونکہ یہاں جس وجود کو مشترک سمجھا جارہا ہے (حقِّ اوّل اور صادرِ اوّل میں)، وہ محض عقل کے ذریعے فرض کیا گیا فرضی اور وہمی وجود ہے جو کہ نفس الامر میں (یعنی حقیقت میں ) کوئی ثبوت نہیں رکھتا۔
اور اگر تم اچھی طرح اس مسئلے کی تحقیق و تفتیش کرو تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ یہ کہنا کہ " حادث اور قدیم کا باہمی ربط و تعلق محض اعتباری ہے اور ان دونوں میں محض اعتباری فرق ہے" ایسی بات ہے جسکو فطرتِ سلیمہ ردّ کرتی ہے کیونکہ فطرتِ سلیمہ تو حقائق کے تحقق میں انکے باہمی فرق و امتیاز کو تسلیم کرنے پر مجبول ہے۔ البتہ اُس تنزل کو مانتی ہے جو صدور اور ابداع کے طریق سے ظاہر ہو۔ بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ فطرتِ سلیمہ اس تنزل کو بغیر کسی شک کے تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ اس بات سے قطع نظر، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تینوں اصول (Roots) یعنی عقل، نفس اور ہیولیٰ (جنکا پیچھے ذکر کیا گیا تھا) یہ تینوں بعض پہلوؤں سے ایک دوسرے کا عین ہیں اور بعض پہلوؤں سے غیر۔ جیسا کہ ہم نے تھوڑی دیر قبل انگوٹھی اور مہر کے نقوش کی استعداد (Inherent Capabillity) اور اس سے موم وغیرہ میں پیدا ہونے والی شکلوں کی مثال دی تھی، اُسی طرح نفس ایک پہلو سے ھیولیٰ کا عین ہے۔ اور اسکی ایک اور مثال یہ ہے کہ تم ذہن میں ایک کلّی کے بارے میں سوچو۔ چنانچہ اس صورت میں عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ یہ کلّی خارج میں کسی نہ کسی فرد ہی کی صورت میں پائی جائے گی۔(یعنی انسان جو ایک کلّی ہے، یہ خارج میں صرف کسی فرد یعنی زید، عمر اور بکر وغیرہ ہی کی صورت میں پائی جائے گی) چنانچہ وہ کلّی خارج میں اپنی جزئیات کی صورت میں نظر آتی ہے۔ پس نفس اور ہیولیٰ کا فرق بھی کلّی اور جزئی کے فرق جیسا ہے۔ اور ہمارے نزدیک ہیولیٰ کی حقیقت اسکے سوا کچھ نہیں کہ وہ نفس کلیہ ہی کا ایک ظہور اور ایک روپ ہے، تشخّص و تعیّن کی صورت میں۔ پس نفسِ کلیہ تشخّص اور تعیّن میں ظہور پذیر ہوکر ہیولیٰ کہلایا۔ چنانچہ عارف کو چاہئیے کہ جب وہ عینیت کا بیان کرے تو ہمیشہ ایسے الفاظ استعمال کرے جو اس فرقِ اعتباری کو واضح کرتے ہوں۔ اس ضمن میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لوگ کلمہِ حق کو باطل معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔۔)
 
چنانچہ اس ساری گفتگو کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ شیخِ مجدد احمد سرہندی نے اپنے مکتوبات میں صفاتِ ثمانیہ یعنی اللہ تعالیٰ کی آٹھ امہات صفات کے بارے میں کہا ہے کہ یہ صفات خارج میں موجود ہیں۔ چنانچہ لازم ٹھہرا کہ وہ صفات خارج میں ذاتِ واجبہ سے علیحدہ اور متمیّز ہوں۔ اور یہ بھی کہا کہ ہر صفت کے بالمقابل ایک عدم (Absence)ہے۔ چنانچہ صفتِ علم کے مقابل جو عدم ہے اسے جہل سے موسوم کریں گے، اور صفتِ قدرت کے مقابل عدم کو عجز کہیں گے۔ اور ان تمام عدمات کو علمِ حق میں علیحدہ علیحدہ تشخّص حاصل ہے۔ چنانچہ اس تشخص و تمیّز کی وجہ سے ان اعدام کو متعلقہ اسمائ و صفات کیلئے گویا آئینوں کی حیثیت حاصل ہے جن میں ان اسماء و صفات کے انوار دیکھے جاسکیں۔ پس ممکنات کے حقائق دراصل اسماء و صفات کے عکوس (Reflections) ہیں جو انکے متعلقہ اعدام میں ظاہر ہوئے ہیں۔ پس یہ اعدام ماھیات کیلئے گویا مادّے کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسماء و صفات کے عکوس گویا مادّے میں حلول کی ہوئی صورتوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ تو تھی شیخِ مجدد کی تعبیر۔
لیکن شیخ محی الدین ابن العربی کے نزدیک حقائقِ ممکنات سے مراد ہے اسماء و صفات کا مرتبہِ علم میں متعیّن و متمیّز(Distinguished) ہونا۔جبکہ شیخِ مجدد کے نزدیک حقائقِ ممکنات سے مراد وہ اعدام ہیں جن میں اسماء و صفات کے انوار منعکس ہوئے۔ اور یہ اعدام اور یہ انعکاس جو گرچہ ہیں تو مرتبہِ علم میں، لیکن جب فاعلِ مختار جلّ مجدہ نے یہ چاہا کہ ماھیات میں سے کوئی ماھیت خارج میں پائی جائے تو اسے وجودِ ظلّی (Shadowy)سے متصف کردیا، چنانچہ وہ ماھیات خارج میں وجودِ ظلّی کے ساتھ موجود ہوگئیں۔ لیکن اس عالم یعنی کائنات کے بارے میں شیخِ مجدد کے اقوال میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ کائنات خارج میں وجودِ ظلّی کے ساتھ موجود ہے، اور داسری جگہ لکھتے ہیں کہ یہ کائنات ایک وہمی وجود ہے جسکو اللہ تعالیٰ نے ایک اتقان اور استواری بخش رکھی ہے چنانچہ یہ وجود وہمی بھی ہے اور محکم یعنی استوار بھی۔
(جاری ہے۔۔۔۔)
 
Top