اب یہاں ایک مشکل مسئلہ ہے جو وحدت الوجود کے قائلین کیلئے خاصا دشوار ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا یہ وجود، ذاتِ واجبہ کا عین ہے؟ یا ابداع (Creation Out of Nothing) کے طور پر ذاتِ واجبہ سے صادر ہوا ہے؟
اس مشکل کو حل کرنا ضروری ہے کیونکہ ان دونوں فریقین کے کلام میں کچھ نہ کچھ کمی بیشی کی گنجائش ہے جسکی وجہ سے یہ دونوں اقوال مختلط ہوگئے ہیں۔
پس میں یہ کہتا ہوں کہ بیشک انسان کا حال اگر بشرطِ لا، بشرطِ شئی اور لابشرطِ شئی کے اعتبارات سے دیکھا جائے تو وہ یقیناّ اُس حال سے مختلف ہوگا جب اسی ماہئیتِ انسان کو اسکے افراد (Individuals)کی نسبت سے دیکھا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے والے حال میں وحدت حقیقی ہے اور کثرت اعتباری (Considerative) ہے جبکہ دوسرے والے حال میں کثرت حقیقی ہے اور وحدت اعتباری ہے۔ پہلے والا حال انسان کو ایک کلّی حیثیت ( Human Being in general, as a Species) سے خارج نہیں کرتا۔ جبکہ دوسرے والے حال میں اسکی حیثیت اب کلّی کی سی نہیں رہی۔
پس جب ہم نے کسی شئے کے ظہور کے مراتب کو سمجھ لیا جب وہ اپنے مظاہرمیں ظاہر ہوئی اور اپنے بعض محتملات(Possible outcomes) میں سے کسی ایک صورت میں متعین ہوئی، تو ہم نے اس شئے کو دو حالتوں میں دیکھا۔ پہلی حالت وہ جسے ہم صدور اور ابداع کہتے ہیں جبکہ دوسری حالت وہ جسے تعینِ اعتباری کہتے ہیں۔
اسکے بعد ہم کہتے ہیں کہ وجودِ منبسط کے بارے میں صوفیہ کے اقوال میں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔
چنانچہ شیخ صدرالدین قونوی نے اپنی کتاب مفاتیح الغیب کے شروع میں لکھا کہ "وجودِ منبسط ذاتِ الٰہیہ سے صادر ہوا"۔
جبکہ مولانا عبدالرحمٰن جامی نے اپنی شرحِ لمعات میں چند سوال جواب وارد کرکے یہ کہا کہ" تحقیق یہ ہے کہ فیض اور فیض دینے والی ذات، ایک ہی ہیں۔ ان میں جو نسبت ہے ، وہ محض اعتباری ہے"۔
اور میرے نزدیک حق بات وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی (یعنی شیخ صدرالدین قونوی کا قول)۔ کیونکہ موجوداتِ خاصّہ کے احکام میں امتیاز و اختلاف کامرتبہِ ثبوت میں ہونا بذاتِ خود ایک بدیہی(Obvious) بات ہے۔ کیونکہ لا محالہ یہ اپنے اس مرتبہِ ثبوت سے مرتبہِ وجود میں جس طور پر آئیں، اسی کو تنزّل و تعین کہتے ہیں۔ کیونکہ اگر اسے اعتباری کہا جائے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ کسی نوع اور اسکے افراد میں فرق محض اعتباری (Relative)ہے جو اس اعتبار ( Consideration) کے ختم کردینے سے ختم ہوجائے گا۔ اور اسی طرح ہر عام اور خاص General & Specificکے مابین ہوگا حتیٰ کہ یہ سلسلہ ذاتِ الٰہیہ تک جاپہنچے۔
ایسی بات نہیں کہ صوفیہ اس بات کالتزام کرتے ہوں کہ حقائقِ امکانیہ محض اعتباری اور اضافی امور ہیں جو وجود کو لاحق ہوئے۔ نہیں۔ کیونکہ صوفیہ تو یہ مانتے ہیں کہ مثلاّ آگ، پانی اور ہوا کا غیر ہے اور انسان اور گھوڑا ایک دوسرے کا غیر ہیں، بیشک وجود ان سب کو شامل ہے۔ چنانچہ جب وہ اعتبارات اور اضافات کی بات کرتے ہیں تو انکی مراد اس سے وہ معنی ہیں جن کی رُو سے تغائر اور امتیاز ختم نہیں ہوتا کیونکہ اسی تغائر اور امتیاز سےتو موجودات کے آثار اور احکام میں تنوع (Variety)اور اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور وہ معنی یہ ہیں کہ کثرت حقیقی ہے اور وحدت اعتباری ہے۔ کیونکہ کثرت کے حقیقی ہونے سے انکی مراد اختلافِ حقائق اور امتیازِ احکام و آثار کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور مختلف وجودات کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ہی تو کثرت ہے، لیکن اس کثرت کا وجودِ منبسط میں کوئی دخل نہیں کیونکہ وہ ایک بسیط امر ہے جو تمام موجودات کے ہیکلوں پر پھیلا ہوا ہے۔ پس صوفیہ کا یہ قول دراصل تنزّل اور تعین کا اثبات کرتا ہے البتہ تنزل کے درجوں میں سے کسی ایک درجے سے ہٹ کر کسی اور درجے کا اثبات نہیں کرتا۔
پس جب صوفیہ نے یہ کہا کہ عالم (The World) حق کا عین ہے تو اس سے انکی مراد یہ نہیں ہے کہ موجوداتِ خاصّہ کی نفی کردی جائے جو کہ وجود کے مختلف مراتب میں تنزل سے حاصل ہوتے ہیں۔ بلکہ انکی مراد تو فقط تنزل اور ظہور کے معنوں کو واضح کرنا ہے۔ چنانچہ جیسے کہ ایک معقولی (Philosopher) یہ کہتا ہے کہ زید اور عمر واحد ہیں یعنی انکی نوع میں مماثلت ہے (دونوں انسان ہیں ) یہ نہیں کہ دونوں میں ہر اعتبار سے مماثلت ہے۔ یا یہ کہتا ہے کہ انسان اور گھوڑا واحد ہیں۔ یعنی حیوان (Animal Form)ہونے میں ان میں اشتراک ہے۔ یا یہ کہنا کہ زید شیر ہے، یعنی مشابہت شجاعت میں ہے۔ چنانچہ اسی طرح صوفیہ کہتے ہیں کہ عالم عینِ حق ہے تو مراد یہ ہے کہ ساری کی ساری عینیت وجودِ منبسط میں ہے اور وجودِ منبسط کا قیام حق الاوّل جل شانہُ کے ساتھ ہونے میں ہے۔ یہ نہیں کہ کلی طور پر تمائز کی نفی کی جارہی ہے۔ کیونکہ انکا تو یہ قول ہے کہ :
ہر مرتبہ از وجود حکمے دارد
گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی
یعنی وجود کا ہر مرتبہ اپنا ایک مخصوص حکم رکھتا ہے، اگر تم ان مراتب اور انکے مخصوص احکام کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے، تو تم زندیق ہو۔
چنانچہ صوفیہ جب تنزل کی بات کرتے ہیں تو اس سے انکی مراد وہ معنی ہیں جو دونوں حیثیتوں کو شامل ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔)