محمود احمد غزنوی صاحب
یہاں ایک مشکل مسئلہ ہے جو وحدت الوجود کے قائلین کیلئے خاصا دشوار ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا یہ وجود، ذاتِ واجبہ کا عین ہے؟ یا ابداع (Creation Out of Nothing) کے طور پر ذاتِ واجبہ سے صادر ہوا ہے؟
ایک صوفی جو کہ اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں ان سے میں نے یہی سوال کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے بھی اس سوال کے جواب کی بہت جستجو تھی تو ایک دن میں اسی خیال میں غرق تھا کہ اچانک شیخ اکبر قدس سرہ العزیز نمودار ہوئے اور کہا کہ ظاہر قدیم فھوا حادث
 
آپ کی نقل ۔۔۔۔۔نانچہ اس ساری گفتگو کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ شیخِ مجدد احمد سرہندی نے اپنے مکتوبات میں صفاتِ ثمانیہ یعنی اللہ تعالیٰ کی آٹھ امہات صفات کے بارے میں کہا ہے کہ یہ صفات خارج میں موجود ہیں۔
دیکھیں جناب ہم تو ابھی تک سات امھات الاسماء کا ہی سنتے رہے ہیں یہ آٹھواں صفت یا اسم کونسا ہے؟؟؟؟
 
میں یہ کہتا ہوں کہ لفظ "حقائق ِ ممکنات" کا اطلاق کئی معنوں پر کیا جاتا ہے:
1- ایک تو موجوداتِ خاصّہ کیلئے۔ مثلاّ یہ کہ انسان کی ایک حقیقت ہے، گھوڑے کی بھی ایک حقیقت ہے اور گدھے کی بھی ایک حقیقت ہے۔ اور یہ حقائق خارج میں متحقق ہیں یعنی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس اعتبار سے حقائقِ ممکنات وہ ہیں جن کو عاقل اپنی عقل سے جان سکے جب بھی ان ناموں کا اطلاق کیا جائے۔ چنانچہ عاقل بخوبی جانتا ہے کہ انسان، گھوڑا اور گدھا ان تمام ناموں کو کن موجودات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
2- دوسرے معنی یہ ہیں کہ حقائقِ ممکنات وہ امور ہیں جو اگرچہ مرتبہِ ثبوت میں ہیں لیکن اپنی ذات کی حد تک نہ تو معدوم ہیں اور نہ ہی موجود۔ پس جب ان امورِ ثابتہ کے ساتھ ضمیمہِ وجود ملحق ہوتا ہے تو وہ موجود ہوجاتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو معدوم کے درجے میں ہی رہتے ہیں۔ اور ان معنوں میں حقائقِ ممکنات کو ایک معقولی (فلاسفر) ماھیات کا نام دیتا ہے۔ اور جانتا ہے کہ یہ ماھیات ایسے امور ہیں جو نہ تو معدوم ہیں اور نہ ہی موجود۔ چنانچہ وہ ان ماھیات کو درجہِ ثبوت میں رکھتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ وہ یہ بھی جانتا ہو کہ ان ماھیات کا اوّل الاوائل (یعنی ذاتِ حق) کے ساتھ کیا تعلق ہے یا یہ کہ درجہِ ثبوت میں یہ فیضِ اقدس ہیں اور مرتبہِ وجود میں یہ فیضِ مقدّس ہیں۔ اسکے برعکس ایک صوفی، جو وحدت الوجود کا قائل ہے، اسکو وجودِ خارجی سے ماقبل مرتبہِ عقل میں حقائقِ ثابتہ اور انکے باہمی ارتباط کا و جدان حاصل ہوتا ہے اور اس پر یہ مکشوف ہوتا ہے کہ ذاتِ مقدسہ سب سے پہلے اپنے آپ پر ظاہر ہوئی اور اس تجلیِ اوّل سے اس(ذاتِ مقدسہ ) نے جانا کہ وہ کیا ہے اور اسکی ذات کے ساتھ کیا کیا کمالات وابستہ ہیں اور ان کمالات اور مقتضیاتِ ذات کے کیا کیا مظاہر ہوسکتے ہیں۔ اور یہ اقتضاءِ ذات ہی درحقیقت اسکا علم ہے۔ اور علم سے مراد یہ نہیں کہ صورِ معلومہ اور اشیاء کی صورتیں اسکے نفس میں ارتسام پذیر ہوجائیں ۔
چنانچہ اسکے بعد جو مظاہر اپنی استعداد کے اعتبار سے کلّی ہیں، فاعلیت رکھتے ہیں، قہاریت رکھتے ہیں اور مقدّس ہیں، ان مظاہر کو اسماء کا نام دیا جاتا ہے اور جو مظاہر اپنی استعداد کے اعتبار سے کلّی نہیں بلکہ جزئی ہیں، منفعل (Passive) ہیں، مقہور ہیں اور اسماء کی طرح مقدس نہیں، انکو اعیانِ ممکنات کا نام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس اصطلاح کے مطابق حقائقِ ممکنات ان معلوم صورتوں کو کہتے ہیں جو حقِّ اوّل کے علم میں آئیں۔
3- تیسرے معنی کو سمجھنے کیلئے ایک تمہید اور ایک مقدمے (Prelude)کی ضرورت ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں یعنی اسماء اور اعیانِ ممکنات باہم ایک تعلق اور ارتباط رکھتے ہیں اور ایک دوسرے پر منطبق ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو کچھ اسماء میں ہے وہ اعیانِ ممکنات میں ظاہر ہوا۔ چنانچہ یہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ ایک میں جو چیز قوت اور تکمیل کی غایت اور انتہا کو چھو رہی ہے تو دوسرے میں وہی چیز ضعف اور نقص کے انتہائی سرے پر ہے۔ اور ضعف عدم ہے اس قوت کا جو قوی میں ہے اور نقص عدم ہے اس چیز کا جواتمام و اِکمال (Perfection) میں ہے۔ اور ان دونوں میں اگرچہ اصل کے اعتبار سے اشتراک پایا جاتا ہے۔ لامحالہ ان دونوں میں (یعنی اسماء اور حقائقِ ممکنات میں) ایک امرِ مشترک ہے جو ایک میں بروجہِ اتمام (By virtue of its perfection) ثابت شدہ ہے اور دوسرے میں ضعف و نقص کی شدت کی وجہ سے عدم کے حکم میں داخل ہے۔ چنانچہ اس تمہید کے بعد ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اسماء کا اصل (Root)ہونا اور حقائقِ ممکنات کا فرع (Branch) ہونا بیان کرنا چاہے تو اسکے لئیے یہ دونوں عبارتیں صحیح ہونگی۔ پہلی عبارت یہ کہ " حقائقِ ممکنات دراصل اسماء و صفات ہیں جو مرتبہِ علم میں متمیّز (Distinguished) ہوگئیں"، اور دوسری عبارت یہ کہ " حقائقِ ممکنات اسماء و صفات کے عکس ہیں جو انکے متقابل اعدام میں منعکس ہوئے" ان دونوں عبارتوں میں نہایت کمزور اور معمولی فرق ہے جو اس قابل نہیں کہ حقائقِ اشیاء کی تحقیق کرنے والوں کیلئے قابلِ اعتنا ہو۔
4- چوتھے معنی کو سمجھنے کیلئے بھی ایک تمہید کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ صوفیہ نے اسمائےحق کو معشوق اور حقائقِ ممکنات کو عاشق، اور ان دونوں میں ظاہر ہونے والے اعلیٰ مرتبے کو عشق کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اور یہ اصطلاح صاحبِ لمعات کی ہے (یعنی مولانا جامی کی)۔
اس تمہید کے بعد جان لو کہ کبھی معشوق اپنے عاشق کی طرف بڑھتا ہے (جسے صوفیانہ اصطلاح میں تدلّیٰ کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے کہ ثمّ دنا فتدلّیٰ)، اور عاشق کو اپنی طرف جذب و کشش سے کھینچ لیتا ہے۔ چنانچہ ایسے سالک کو جس پر غلبہِ حال ہو ، مجذوب، مراد اور محبوب کہتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصّے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عنایتِ حق نے انکو مراتبِ وجوبیہ کی طرف کھینچا درآنحالیکہ وہ خود بھی اسے سمجھ نہ پائے اور غروب ہونے والوں (آفلات) کا تذکرہ کرتے کرتے اپنی فطرت کے اقتضاء کو پہنچ گئے۔ یعنی وہی فطرتِ ابراہیمیہ جو ہر قسم کے نقص اور عیب سے منزّہ ہے۔
اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ عاشق اپنے معشوق کی طرف ریاضات و مجاہدات کے ذریعے عروج کرتا ہے اور اسکی روح کے چہرے سے حجابات اٹھ جاتے ہیں چنانچہ ایسے مغلوب الحال سالک کو مرید، سالک اور محبّ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور کبھی یوں بھی معاملہ ہوتا ہے کہ معشوق بھی نزول اور تدلّیٰ کرتا ہے اور عاشق بھی عروج و ترقی کرتا ہے اور وہ وسط میں جاملتے ہیں تو ایسے سالک کو جس پر یہ دونوں اطراف کے انوار جلوہ گر ہوتے ہیں، سالکِ مجذوب، محب ِمحبوب اور مریدِ مراد کہا جاتا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔)
 
آپ کی نقل ۔۔۔ ۔۔نانچہ اس ساری گفتگو کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ شیخِ مجدد احمد سرہندی نے اپنے مکتوبات میں صفاتِ ثمانیہ یعنی اللہ تعالیٰ کی آٹھ امہات صفات کے بارے میں کہا ہے کہ یہ صفات خارج میں موجود ہیں۔
دیکھیں جناب ہم تو ابھی تک سات امھات الاسماء کا ہی سنتے رہے ہیں یہ آٹھواں صفت یا اسم کونسا ہے؟؟؟؟
شیخ احمد سرہندی نے اپنے مکتوبات میں صفاتِ ثمانیہ کا ذکر کیا ہے سات تو مشہور ہیں یعنی حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع، بصر اور کلام ۔ جبکہ انہوں نے آٹھویں صفت تکوین کو قرار دیا ہے۔ :)
 
اور اس ساری بات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک تجلّی ہے جو شخصِ اکبر (Macrocosm) کے قلب(عرش) پر پڑتی ہے اور اس تجلّی کو حظیرۃ القدس میں ایک انشراح و انبساط یعنی پھیلاؤ حاصل ہوتا ہے اور ملائے اعلیٰ میں اسکے مختلف عکس ظاہر ہوتے ہیں ، چنانچہ اس تجلّی پر اللہ کے نناوے ناموں کا انطباق کیا جاتا ہے۔
اور اللہ کیلئے لحظہ بہ لحظہ ایک ارادہ ہے اور ہر لمحہ تجدد پذیر علم ہے، اسی طرح اسکی رضا اور اسکی ناخوشی یا سخط ( Discontent) ہے، جو اس تجلّی کے مطابق لمحہ بہ لمحہ تجدد پذیر( Renew & Regenerate) ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس تجلّی اور جو کچھ اسکے گھیرے میں آتا ہے، اسے صوفیہ معشوق کے لفظ سے موسوم کرتے ہیں، اور انہوں نے اسے معشوق کا نام اس لئے دیا کہ انسانوں کے نفوس اس تجلّی کی طرف ایسی کشش و انجذاب رکھتے ہیں جیسی لوہے کو مقناطیس کے ساتھ ہوتی ہے۔اسی جذب و کشش پر سیرو سلوک کا دارو مدار ہے اور اسی کی وجہ سے وہ اتصال ممکن ہے کہ جس کا صوفیہ قصد رکھتے ہیں ۔اس خط کےتقریباّ وسط میں ہم نے اسی کشش و مقناطیسیت کا ذکر کیا تھا ۔
اور بعض دفعہ کچھ نادیدہ اسباب کے موجود ہونے کی وجہ سے اللہ ایسے شخص کو اپنے لئے چُن لیتا ہے جو ابھی اپنے نفس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں منہمک ہوتا ہے، اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی۔ ایسے شخص کو مراد کا نام دیا گیا ہے۔
اور کبھی کسی شخص کومختلف قسم کی بدنی ریاضتوں اور مجاہدوں سے گذار کر اسکی روح کے چہرے سے حجابات دور کئے جاتے ہیں تاکہ اسکے لئے وہ اتصالِ روحانی ظاہر ہوجائے جو اسکی جبّلت میں ودیعت( Inherited /Built in) کیا گیا تھا، چنانچہ اسے مرید کہا جاتا ہے۔
یا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ اسے چُن لیا گیا ہے، چنانچہ وہ ارادہ الٰہیہ کے ساتھ موافقت کرتے ہوئے اپنے نفس کی مخالفت پر کمربستہ ہوتا ہے اور پردہِ غیب سے بھی اس کی اس جد وجہد اور ریاضت کو بڑی جلدی قبولیت بخش دی جاتی ہے اور اسے اپنی طرف کھینچ لیا جاتا ہے، جنانچہ دونوں اطراف سے رونما ہونے والی اس واردات کے نتیجے میں ایک تیسری حالت وجود میں ظاہر ہوتی ہے اور وہ شخص بیک وقت دونوں مراتب کا جامع ہوتا ہے یعنی مرید بھی اور مراد بھی۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ بعض مرتبہ ایسے شخص پر اس تجلی کے مختلف پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو غالب ہوجاتا ہے اور اس شخص کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ، چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص کو فلاں اسم کا تحقق حاصل ہوا ، یا یہ کہ اسماء میں سے فلاں اسم اس شخص کا ربّ (مربّی)ہے۔
مختصر یہ کہ عارف اس بات کو جان لیتا ہے کہ اسکی استعداد کی اصل اعیانِ ثابتہ میں کہاں ہے۔ چنانچہ اسکے تعین کی حقیقت اسماء میں سے کسی خاص اسم کے ساتھ منسوب کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں عارف کو اسم ِ رحمٰن کا تحقق حاصل ہوا ، یا اسم اللہ کا تحقق حاصل ہوا۔ اور شیخِ مجدّد (احمد سرہندی) نے اپنے کئی مکتوبات میں اس بات کا اعتراف کیا ہے۔
خلاصہِ کلام یہ ہے کہ یہ قول کہ " حقائقِ ممکنات صفات کے متقابل آئینوں (جو کہ عدمِ محض ہیں) میں منعکس ہوئے"، شیخِ اکبر ابن العربی اور ان کے ماننے والوں کے کلام کے ہرگز مخالف نہیں ہے۔ اور انہوں نے اپنے کلام میں جابجا اسی مفہوم کی تصریح کی ہے اور تلویح ( اشارتاّذکر)سے بھی کام لیا ہے۔ اور یہ بات ہم نے پہلے بھی بیان کی ہے اس لئے اسکی مزید تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔
اور یہ بات کہ حقائقِ ممکنات دراصل اسماء ہیں ان معنوں میں کہ وہ وجود میں صفات کے ساتھ متحقق ہیں اور اسی مطابقت کے ساتھ ان کے ظلال یا عکوس (Shadows/Reflections ) بھی ہیں جنہیں اعیانِ ممکنات کہا جاتا ہے" یا یہ قول کہ " عارف کیلئے اسماء میں سے کوئی اسم اس کا ربّ ہوتا ہے"، تو یہ اقوال جس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں اسی حقیقت کو شیخِ مجدد کی تصانیف میں قدرے مختلف عبارات میں پیش کیا گیا ہے اور ہم چاہیں تو انکے کلام میں سے کئی براہین و شواہد پیش کرسکتے ہیں۔
حاصلِ کلام یہ کہ شیخِ مجدد اور انکے ماننے والوں کے اذہان میں شیخِ اکبر کے بعض اقوال سے جو مفہوم گذرا، وہ انہیں اپنے کشف و وجدان کےخلاف لگا، جبکہ حقیقت میں شیخِ اکبر کی وہ مراد نہیں جو ان بزرگوں کے گمان میں آئی۔ اور یہ کوئی ایسی انہونی بات نہیں ہے اور کشف کی اس لغزش سے ان بزرگوں کے علوِّ مقام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔چنانچہ ہمیں اس بات کی طرف اتنا التفات نہیں کرنا چاہئیے۔ اور جہاں تک شیخِ مجدّد کا یہ قول ہے کہ "صفاتِ ثمانیہ خارج میں الگ وجود رکھتی ہیں اور ذات کی غیر ہیں"، تو یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس کو دیگر صوفیہ تسلیم نہیں کرتے، کیونکہ ان کے نزدیک صفات عین واجب الوجود ہیں۔ اور ان کے ذات سے الگ ہونے یا غیر ہونے کی بات عقلی اور نقلی طور پر کہیں بھی ثابت نہیں ہے۔ اور ہم صوفیہ کی اس بات کو دو وجوہات کی بناء پر درست سمجھتے ہیں :
1-پہلی یہ کہ اس بارے میں جو زیادہ سے زیادہ درست بات کہی جاسکتی ہے وہ یہی ہے کہ یہاں ایک حقیقت پائی جاتی ہے کہ جس پر سمیع اور بصیر ہونے کا معروف معنوں میں بھی اور لغوی معنوں میں بھی ،اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ سمیع اور بصیر دو صفات ہیں جو ذات سے علیحدہ ہیں، تو یہ بات ہرگز درست نہیں ہے۔ کیونکہ انصاف کی بات یہ ہے کہ عقلی طور پر لوگ جب کسی شخص کے افعال، صفات اور اسماء کا ذکر کرتے ہیں تو وہ صرف افعال کے صدور کی طرف التفات کرتے ہیں، اور ذہن میں یہ گمان نہیں گذرتا کہ جن صفات کی وجہ سے یہ افعال سرزد ہورے ہیں، وہ صفات اس شخص کی ذات سے ہٹ کر ہیں اور اس شخص کی ذات کا غیر ہیں۔ نہیں ان کا ذہن اس جانب منتقل نہیں ہوتا بلکہ فطری طور پر وہ ان صفات سے صادر ہونے والے افعال کی طرف ملتفت ہوتے ہیں چنانچہ اگر کوئی شخص انہیں چلتا پھرتا نظر آتا ہے تو وہ اسے زندہ کہتے ہیں ان آثار کی وجہ سے جو انہیں اسکے چلنے پھرنے کی صورت میں محسوس ہوئے، ان کا ذہن اس قسم کی فلسفیانہ موشگافیوں کی جانب قطعاّ ملتفت نہیں ہوتا کہ "حیوان کے لئے حیات اسکی ذاتی صفت ہے یا اس کی ذات پر زائد ہے، اسکی ذات کا حصہ نہیں ہے" ۔
2- دوسری وجہ یہ ہے کہ عقل صرف اسی صورت میں کسی بات کی شہادت دیتی ہے جب اس بات کا صدور مختلف آثار کے ذریعے ہورہا ہو۔ جہاں تک اس کو اس بات میں منحصر کرنا کہ یہ آثار جن صفات کی وجہ سے ذات سے صادر ہورہے ہیں وہ صفات ذات سے الگ ہیں، تو ایسی بات ہرگز نہیں ہے ۔ چنانچہ اگر انصاف سے کام لیا جائے تو یہ کہنا کہ صفات ان عوارض کی طرح ہیں جو موصوف پر وارد ہوتے ہیں اور موصوف کے ساتھ قائم ہیں، تو یہ بات تو اچھی خاصی تشبیہہ ہے اور تنزیہہ کے برعکس ہے۔ اور پھر یہ کہنا کہ اس قول کو قبول کیا جائے کیونکہ یہ اہلِ سنت کا قول ہے تو ہمارے نزدیک اہلِ سنت وہی ہیں جن کا جلوہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں نظر آتا ہے۔ اور اُن لوگوں نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کی تھیں کہ صفات ذات سے زائد ہیں یا نہیں، اور اگر زائد ہیں تو کیا وہ انتزاعی ہیں یا خارج میں پائی جاتی ہیں۔ اور جہاں تک متکلمین کے اس گروہ کی بات ہے جو اہلِ سنت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو ان کی ایسی باتوں کو اگر ہم بدعت فی الدین نہ بھی سمجھیں، تب بھی یہ ضرور کہیں گے کہ انہوں نے ایسی باتیں کہیں جو اسلاف نے نہیں کہیں تھیں، چنانچہ ہم ان سے اتفاق نہیں کرتے، وہ بھی انسان تھے اور ہم بھی انسان ہیں۔ ہم پر انکی آراء کو ماننا واجب نہیں ہے۔
اور جہاں تک یہ اختلاف ہے کہ یہ عالم خارج میں وجودِ ظلّی (Shadow of reality) کے ساتھ موجود ہے یا محض ایک وہم (Illusion) کا شہود ہے ؟ تو یہ کوئی اتنا اہم اختلاف نہیں ہے کیونکہ دونوں باتوں کی بنیاد اسی بات پر ہے کہ موجوداتِ خاصّہ متحقق ہیں جن سے آثارو نتائج کا صدور ہورہا ہے۔ اب اس تحقق کو خارجی کہو یا وہمی، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
اور اگر تم اس بارے میں میری رائے پوچھو کہ حق بات کیا ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ ذاتِ حق اس بات سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے کہ وہ خارج میں یا اعیان میں پائی جائے۔ خارج میں جو پایا جاتا ہے اسے ہم نفسِ رحمانی کہتے ہیں اور بطورکنایہ(Euphemism) اسے اعیان کہتے ہیں۔ ہاں حق تعالیٰ کی ایک عظیم تجلّی ہے جو خارج میں پائی جاتی ہے اور اسے حق کی صفت کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے کیونکہ یہ خارج میں یا عماء میں (حدیث کے الفاظ کے مطابق) اس تجلی کی شرط کے ساتھ موجود ہے۔
اور اگر تم مجھ سے ان تمام اقوال کے بارے میں پوچھو جو اوپر مذکور ہوئے، تو میں ان کا انکار نہیں کروں گا مگر یہ کہ تعبیر کی جہت سے یا کسی شے کو اسکے موقع محل سے ہٹا کر بیان کرنے کی جہت سے ۔ اگر ان کو اپنے اپنے مناسب محل میں رکھ کر بیان کیا جائے تو سب اقوال درست ہیں۔
چنانچہ صفاتِ ثمانیہ کا قول ایک قابلِ قبول توجیہہ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ نفسِ رحمانی کے اوائل (کہ جن میں ذکر اور تجلّی ِ اعظم متمثّل ہوئے ہیں )، کو اشاعرہ( Ash’arites) صفات کا نام دیتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ صفاتِ حق کا صدور ایجاب کے طور پر ہوا ہے اور زمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ صفات قدیم ہیں۔ چنانچہ یہاں ایک ہی شئے کو مختلف اعتبارات اور جہات کے نقطہ نظر سے مختلف نام دے دئے گئے ہیں۔ چنانچہ کئی ایسے اختلافات ہیں جو ایک ہی حقیقت کو مختلف نقطہ ہائے نظر سے دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں لیکن انہیں حقائق کا اختلاف سمجھ لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مثلا کے طور پر سفیدی ہے اور سفید ہے۔ یہ دونوں حقیقت میں ایک ہی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اس حقیقت کو بشرطِ لا کی اصطلاح کے اعتبار دیکھا جائے تو اسے سفیدی کہتے ہیں اور اگر بشرطِ شئی کی اصطلاح کے اعتبار سے دیکھیں تو اسے سفید کہہ دیا جاتا ہے۔
بالکل اسی طرح جب ہم صفتِ حیات کا ذکر کرتے ہیں تو اس جہت سے کہ یہ حقائقِ ممکنات کے بارے میں ذات کے علم کا منطقی نتیجہ ہے ہم اسے حیات کہتے ہیں۔ اور جب ہم صفتِ علم کی بات کرتے ہیں تو اس حیثیت سے کہ حقائقِ ممکنات خارج میں ظہور پذیر ہونے سے پہلے اس میں متمثل ہوئے، ہم اسے علم کہ دیتے ہیں۔ اور صفتِ قدرت کی بات ہو تو چونکہ تمام مخلوقات کی خلق اسی میں سے پھوٹی ہے، ہم اسے قدرت کا نام دے دیتے ہیں۔ صفتِ ارادہ کے ضمن میں چونکہ تجلّیِ اعظم میں دو مساوی حقائق میں سے ایک کو تخصیص حاصل ہوئی اور وہ حقیقت ظہورپذیر ہوگئی، تو اس صفت کو ہم ارادہ کہ دیتے ہیں۔ اور چونکہ اسی تجلی اعظم سے انبیاء کے قلوب پر اور ملائکہ پر وحی نازل ہوئی تو اس کو ہم صفتِ کلام کہتے ہیں۔ اور چونکہ تمام سنی جانے والی باتوں اور دیکھی جانے والی چیزوں کا مبدءِ انکشاف( Source for perception) یہی ہے، چنانچہ اسے سماعت اور بصارت کی صفات کے نام سے یاد کیا گیا۔
اور اسی طرح مولانا جامی کے اس قول کو بھی ہم تسلیم کرتے ہیں جو خط کے شروع میں بیان کیا گیا تھا۔ چنانچہ اس قول کا بھی مقصد صرف یہی ہے کہ اللہ کی ذات کے سوا باقی تمام حقائق کی اصالت کا انکار کیا جائے اور ان حقائق کو وجودِ حق کیلئے مختلف اعتبارات اور اضافات و انتسابات کی حیثیت دی جائے کہ جن میں وجود ظاہر ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ وجود میں اور حق میں محض اعتباری فرق ہے۔
اور اب چونکہ ہم نے سوال کا جواب مکمل طور پر بیان کردیا ہے، چنانچہ ہم اس خط کو یہیں پر ختم کرتے ہیں۔
الحمد للہ اولاّ و آخراّ و ظاہراّ و باطناّ و صلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیّدنا محمد و علیٰ آلہ و اصحابہ اجمعین۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top