میں یہ کہتا ہوں کہ لفظ "حقائق ِ ممکنات" کا اطلاق کئی معنوں پر کیا جاتا ہے:
1- ایک تو موجوداتِ خاصّہ کیلئے۔ مثلاّ یہ کہ انسان کی ایک حقیقت ہے، گھوڑے کی بھی ایک حقیقت ہے اور گدھے کی بھی ایک حقیقت ہے۔ اور یہ حقائق خارج میں متحقق ہیں یعنی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس اعتبار سے حقائقِ ممکنات وہ ہیں جن کو عاقل اپنی عقل سے جان سکے جب بھی ان ناموں کا اطلاق کیا جائے۔ چنانچہ عاقل بخوبی جانتا ہے کہ انسان، گھوڑا اور گدھا ان تمام ناموں کو کن موجودات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
2- دوسرے معنی یہ ہیں کہ حقائقِ ممکنات وہ امور ہیں جو اگرچہ مرتبہِ ثبوت میں ہیں لیکن اپنی ذات کی حد تک نہ تو معدوم ہیں اور نہ ہی موجود۔ پس جب ان امورِ ثابتہ کے ساتھ ضمیمہِ وجود ملحق ہوتا ہے تو وہ موجود ہوجاتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو معدوم کے درجے میں ہی رہتے ہیں۔ اور ان معنوں میں حقائقِ ممکنات کو ایک معقولی (فلاسفر) ماھیات کا نام دیتا ہے۔ اور جانتا ہے کہ یہ ماھیات ایسے امور ہیں جو نہ تو معدوم ہیں اور نہ ہی موجود۔ چنانچہ وہ ان ماھیات کو درجہِ ثبوت میں رکھتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ وہ یہ بھی جانتا ہو کہ ان ماھیات کا اوّل الاوائل (یعنی ذاتِ حق) کے ساتھ کیا تعلق ہے یا یہ کہ درجہِ ثبوت میں یہ فیضِ اقدس ہیں اور مرتبہِ وجود میں یہ فیضِ مقدّس ہیں۔ اسکے برعکس ایک صوفی، جو وحدت الوجود کا قائل ہے، اسکو وجودِ خارجی سے ماقبل مرتبہِ عقل میں حقائقِ ثابتہ اور انکے باہمی ارتباط کا و جدان حاصل ہوتا ہے اور اس پر یہ مکشوف ہوتا ہے کہ ذاتِ مقدسہ سب سے پہلے اپنے آپ پر ظاہر ہوئی اور اس تجلیِ اوّل سے اس(ذاتِ مقدسہ ) نے جانا کہ وہ کیا ہے اور اسکی ذات کے ساتھ کیا کیا کمالات وابستہ ہیں اور ان کمالات اور مقتضیاتِ ذات کے کیا کیا مظاہر ہوسکتے ہیں۔ اور یہ اقتضاءِ ذات ہی درحقیقت اسکا علم ہے۔ اور علم سے مراد یہ نہیں کہ صورِ معلومہ اور اشیاء کی صورتیں اسکے نفس میں ارتسام پذیر ہوجائیں ۔
چنانچہ اسکے بعد جو مظاہر اپنی استعداد کے اعتبار سے کلّی ہیں، فاعلیت رکھتے ہیں، قہاریت رکھتے ہیں اور مقدّس ہیں، ان مظاہر کو اسماء کا نام دیا جاتا ہے اور جو مظاہر اپنی استعداد کے اعتبار سے کلّی نہیں بلکہ جزئی ہیں، منفعل (Passive) ہیں، مقہور ہیں اور اسماء کی طرح مقدس نہیں، انکو اعیانِ ممکنات کا نام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس اصطلاح کے مطابق حقائقِ ممکنات ان معلوم صورتوں کو کہتے ہیں جو حقِّ اوّل کے علم میں آئیں۔
3- تیسرے معنی کو سمجھنے کیلئے ایک تمہید اور ایک مقدمے (Prelude)کی ضرورت ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں یعنی اسماء اور اعیانِ ممکنات باہم ایک تعلق اور ارتباط رکھتے ہیں اور ایک دوسرے پر منطبق ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو کچھ اسماء میں ہے وہ اعیانِ ممکنات میں ظاہر ہوا۔ چنانچہ یہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ ایک میں جو چیز قوت اور تکمیل کی غایت اور انتہا کو چھو رہی ہے تو دوسرے میں وہی چیز ضعف اور نقص کے انتہائی سرے پر ہے۔ اور ضعف عدم ہے اس قوت کا جو قوی میں ہے اور نقص عدم ہے اس چیز کا جواتمام و اِکمال (Perfection) میں ہے۔ اور ان دونوں میں اگرچہ اصل کے اعتبار سے اشتراک پایا جاتا ہے۔ لامحالہ ان دونوں میں (یعنی اسماء اور حقائقِ ممکنات میں) ایک امرِ مشترک ہے جو ایک میں بروجہِ اتمام (By virtue of its perfection) ثابت شدہ ہے اور دوسرے میں ضعف و نقص کی شدت کی وجہ سے عدم کے حکم میں داخل ہے۔ چنانچہ اس تمہید کے بعد ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اسماء کا اصل (Root)ہونا اور حقائقِ ممکنات کا فرع (Branch) ہونا بیان کرنا چاہے تو اسکے لئیے یہ دونوں عبارتیں صحیح ہونگی۔ پہلی عبارت یہ کہ " حقائقِ ممکنات دراصل اسماء و صفات ہیں جو مرتبہِ علم میں متمیّز (Distinguished) ہوگئیں"، اور دوسری عبارت یہ کہ " حقائقِ ممکنات اسماء و صفات کے عکس ہیں جو انکے متقابل اعدام میں منعکس ہوئے" ان دونوں عبارتوں میں نہایت کمزور اور معمولی فرق ہے جو اس قابل نہیں کہ حقائقِ اشیاء کی تحقیق کرنے والوں کیلئے قابلِ اعتنا ہو۔
4- چوتھے معنی کو سمجھنے کیلئے بھی ایک تمہید کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ صوفیہ نے اسمائےحق کو معشوق اور حقائقِ ممکنات کو عاشق، اور ان دونوں میں ظاہر ہونے والے اعلیٰ مرتبے کو عشق کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اور یہ اصطلاح صاحبِ لمعات کی ہے (یعنی مولانا جامی کی)۔
اس تمہید کے بعد جان لو کہ کبھی معشوق اپنے عاشق کی طرف بڑھتا ہے (جسے صوفیانہ اصطلاح میں تدلّیٰ کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے کہ ثمّ دنا فتدلّیٰ)، اور عاشق کو اپنی طرف جذب و کشش سے کھینچ لیتا ہے۔ چنانچہ ایسے سالک کو جس پر غلبہِ حال ہو ، مجذوب، مراد اور محبوب کہتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصّے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عنایتِ حق نے انکو مراتبِ وجوبیہ کی طرف کھینچا درآنحالیکہ وہ خود بھی اسے سمجھ نہ پائے اور غروب ہونے والوں (آفلات) کا تذکرہ کرتے کرتے اپنی فطرت کے اقتضاء کو پہنچ گئے۔ یعنی وہی فطرتِ ابراہیمیہ جو ہر قسم کے نقص اور عیب سے منزّہ ہے۔
اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ عاشق اپنے معشوق کی طرف ریاضات و مجاہدات کے ذریعے عروج کرتا ہے اور اسکی روح کے چہرے سے حجابات اٹھ جاتے ہیں چنانچہ ایسے مغلوب الحال سالک کو مرید، سالک اور محبّ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور کبھی یوں بھی معاملہ ہوتا ہے کہ معشوق بھی نزول اور تدلّیٰ کرتا ہے اور عاشق بھی عروج و ترقی کرتا ہے اور وہ وسط میں جاملتے ہیں تو ایسے سالک کو جس پر یہ دونوں اطراف کے انوار جلوہ گر ہوتے ہیں، سالکِ مجذوب، محب ِمحبوب اور مریدِ مراد کہا جاتا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔)