نوید رزاق بٹ
محفلین
مکروہ پرندہ
دادی اماں کی کہانیوں میں ہمیشہ مکروہ پرندے کا ذکر ضرور ہوتا تھا، جس نے ساتھ والے گاوں پر آفت نازل کر رکھی تھی۔ بچوں کے اصرار پر دادی اماں نے بتایا تھا کہ مکروہ پرندے میں ایک سینکڑوں سال پرانی درندہ صفت روح بستی ہے۔ وہ روح جس نے ماضی میں قبیلے کے قبیلے اور مکمل نسلیں نیست و نابود کر دی تھیں۔ اور جس نے پلَک چھپک میں لاکھوں انسانوں کو گھروں میں بیٹھے بیٹھے جلا کر بھسم کر دیا تھا۔ ایسی درندہ روح جس کے شر سے بچے بوڑھے جوان کوئی بھی محفوظ نہ تھا۔
کئی دنوں سے ننھے گُل جان کے ذہن میں ایک ہی سوال دوڑ رہا تھا، اور آج صبح اٹھتے ہی وہ اپنی الجھن لے کر دادی اماں کی چارپائی کی طرف لپکا۔ دادی اماں چارپائی پر بیٹھیں انتہائی خوف کی حالت میں تیزی سے ہل ہل کر تسبیح کر رہی تھیں۔
شاید اُنہیں غیبی اشارہ مل چکا تھا کہ موت نے اُن کا گھر دیکھ لیا ہے۔
اُن کی آنکھوں میں لالی اور چہرے کی زرد رنگت دیکھ کر گل جان سہم گیا۔ مگر اُس کا سوال بہت ضروری تھا۔
“دادی اماں، ‘مکروہ’ کیا ہوتا ہے؟”
دادی اماں ایک لمحے کے لیے ساکت ہو گئیں، تسبیح والا ہاتھ کانپنے لگا اور آنکھوں کی پُتلیاں پھیل گئیں۔ انہوں نے لرزتے ہاتھ سے گل جان کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ دادی اماں کہا کرتی تھیں کہ بلاوں کی باتیں کرنے سے وہ نازل بھی ہو سکتی ہیں۔ اِسی انجان سی کشمکش میں گل جان کی نظر کھڑکی سے باہر پڑی۔ اُس کا باپ گھر کے احاطے میں کھڑا حیرانی سے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ گل جان پورے زور سے چلایا، “دادی اماں، مکروہ پرندہ!”۔
ایک ہولناک دیو قامت پرندہ گھر کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا۔
باہر کا منظر دیکھتے ہی دادی اماں کے ہاتھ سے تسبیح چھوٹ گئی۔ وہ اپنی مکمل بوڑھی جان کے ساتھ اچھل کر اٹھیں اور چھڑی کے بغیر ہی لنگڑاتی ہوئی احاطے کی طرف دوڑیں۔ مکروہ پرندہ اب گھر کے بہت قریب آ چکا تھا اور جس لمحے بوڑھی عورت نے لپک کر اپنے بیٹے کو بانہوں میں لپیٹا اُسی لمحے مکروہ پرندے نے ایک آگ کا گولا احاطے کی جانب مارا۔ شاید اُس نے پہچان لیا تھا کہ یہ وہی عورت ہے جو بچوں کو اُسکی کہانیاں سناتی ہے۔ ہولناک منظر کی دہشت سے گل جان بے اختیار زمین پر لیٹ گیا۔ باپ اور دادی کی دلدوز چیخوں اور پرندے کی خبیث بھنبھناہٹ کے بیچ ایک ہولناک دھماکے کی آواز اٹھی۔ پورا گھر لرزا اور کھڑکی کے شیشے ٹوٹ کر کچھ گل جان پر گرے۔ ایک لمحے کے لیے ساری کائنات خاموش ہوگئی۔ گل جان نے اٹھ کر ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے باہر جھانکا۔ گھر کے احاطے میں ایک گڑھا بن چکا تھا، سامنے کی دیوار گر چکی تھی اور کچھ چیتھڑے جلی ہوئی مٹی اور گھاس کے درمیان بکھرے پڑے تھے۔
مکروہ پرندہ ابھی تک گھر کے اوپر منڈلا رہا تھا۔
تحریر: نوید رزاق بٹ
(انتساب: امریکا کے غیر قانونی ڈرون حملوں کی نذر ہونے والے نہتے شہریوں کے نام)