گل زیب انجم
محفلین
نام ۔ گل زیب انجم
تاریخ پیدائش۔ ۱مئ ۱۹۶۷
تعلیمی قابلیت۔ ایم اے پولیٹکل سائنس (سال اول)
جائے پیدائش۔ کوٹلی سوہلناں ضلع کوٹلی
حال مقام ۔ سیری ضلع کوٹلی آزاد کشمیر
حالات زندگی
گل زیب انجم ضلع کوٹلی کے ایک گاؤں کوٹلی سوہلناں میں پیدا ہوئے۔لیکن پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد اپنے گھر والوں کے ساتھ ننھالی گاؤں سیری ضلع کوٹلی آ گے۔یہاں سے ہی انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ نہم جماعت سے سکول کو خیرآباد کہہ کر محنت مزدوری کی غرض سے لاہور چلے گے۔دو تین سال گزارنے کے بعد ایک دوست کے کہنے پر کراچی چلے گے۔وہاں جاکر کچھ عرصہ ایک شادی دفتر سے وابستہ رہے بعد ازیں ایک مشفق انسان کے کہنے پر فوج میں بھرتی ہو گے۔ریکروٹی کا زمانہ بڑا صبر آزما گزارا۔مانسرکیمپ سے پاسنگ اُوٹ ہوئے اور پہلی تقرری اکاڑہ چھاونی میں ہوئی۔
گل زیب انجم کو نصابی کتب سے نہ سہی لیکن غیر نصابی کتب پڑھنے کا بےحد شوق تھا اور یہی شوق وہ دوران ڈیوٹی فرما رہے تھے کہ ڈیوٹی این،سی،او حوالدار شمس دین چکنگ کے لیے آگیا۔چکنگ کے دوران جب نائیٹ گارڈ کے ہاتھ میں آداب عرض دیکھا تو بہت بھرم ہوا لیکن سزا دینے کے بجائے ایک مشورے سے نوازا کہ تم لائبریری سے دسویں کی کتابیں لے لو جن کے پڑھنے سے کچھ فائدہ بھی ہو گا رات بھی گزر جائے گی اور دیکھنے والا یعنی چکنگ والا بھی کچھ نہیں کہے گا۔ دوسرے دن جب کتابوں کے لیے لائبریری گے تو شومئ قسمت پتہ چلا کے دسویں کے کچھ ہی سیٹ تھے جو کے ایشو ہو چکے ہیں۔اب گل زیب انجم نے اسی سلسلے میں دوبارہ حوالدار شمس دین سے رابطہ کیا تو انہوں نے یوں کہا کہ اب ان لوگوں کے ساتھ ڈیوٹی لگوایا کرو جن کے پاس کتابیں ہیں۔ تاکہ ایک ساتھ ڈیوٹی کرنے سے تمہیں بھی پڑھنے کا موقع مل جائے گا۔حوالدا شمس دین کی اس بات سے کتابوں کا مسلۂ تو حل ہو گیا لیکن دو تین دن تک کتاب والے ساتھیوں کی کج ادائیاں خندہ پیشانی سے برداش کرنی پڑی۔
آرمڈ سروسز بورڈ میں امتحان ہو رہا تھا ابھی دو پرچے باقی تھے کے ان کو اپنڈکس کا درد ہوگیا جس کا علاج اپریشن کی صورت میں ہوا۔ یوں اپریشن کی وجہ سے ان کے دو پرچے رہ گے جن کے لیے سپلی میں شامل ہونا پڑا۔سپلی کے داخلے جاری تھے ان کو بھی داخلہ بھیجنے کا خیال آیا لیکن داخلے کے لیے مبلخ ۱۰۱ روپیہ درکار تھا جو اُن کے پاس نہ تھا ۔آخر سوچ بچار کے بعد کنٹین ٹھکیدار سے ۱۰۱ روپے مانگنے گے اُس نے وجہ پوچھنے کے بعد ۱۲۰ روپے ان کو دیے ۔جب انہوں نے ۱۰۱ کا کہا تو اس نیک دل شخص نے کہا بابا منی ارڈر پر بھی کچھ پیسہ لگے گا کے نہیں؟ داکلا پھارم(داخلہ فارم)بھی پیسے کا ملے گا۔تم لے جاؤ بعد میں دے دینا۔ ان ادھار کے روپوں سے انہوں نے داخلہ بیجھا آخر کار دسویں جماعت کا امتحان صرف پاس مارکس سے ہی پاس کر لیا۔
میٹرک کر لینے کے بعد تعلیم کا ایک چسکا سا لگ گیا اور اسی چسکے کی بنا پر انہوں نے ایف اے کا امتحان سکینڈ ڈویژن میں اور بی۔اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔اسی عرصے میں وہ فوج سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے دوران دکانداری ان کو ماسٹر کی سوجی اور انہوں نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے فرسٹ پارٹ کا امتحان پاس کیا لیکن سکینڈ پارٹ ۲۰۰۵کے زلزلے کی وجہ سے نہ کر سکے ۔
گل زیب انجم کو شاعری سے کافی شغف رہا ہے اسی بنا پر انہوں نے اردو اور پنجابی میں ہر رنگ میں شاعری کی ان کی شاعری سے جہاں قہقے پھوٹتے ہیں وہی آنکھوں سے جھرنے بھی بہہ جاتے ہیں حالات حاضرہ کو کہیں شعرونغمہ میں پیش کرتے ہیں تو کہیں حا لات کی ستم ظریفی کو نوحے کی صورت میں لکھ دیتے ہیں۔ان کی شاعری میں بھی ان کی زندگی کی طرح کی سادگی ملتی ہے لیکن سادگی سچائی پر کبھی غالب نہیں آ سکی۔
وہ دوسروں کی خوبیوں کو بیان کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے دوسروں کے غم کو یوں بیاں کرتے ہیں کے سننے والا یہ امتیاز کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے کہ یہ داستان غم ان کی اپنی ہے یا کسی دوسرے کی بیان کر رہے ہیں۔ اُن کی غم زدہ شاعری میں "تجھ جیسا پروفیسر انوار نہیں آتا اور وہ نینوں کا تارا تھا" نمایاں ہیں جب کہ "اب کاکے نہیں ہوتے" تھوڑی مزاحیہ اور منصوبہ بندی والوں سے وابستہ ہے۔" توں لوکاندا پھردا ایں بالاں نوں" ملک کے اندر دہشت گردی سے منسوب ہے ۔ شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نگاری اور مضمون نگاری میں بھی ایک مقام رکھتے ہیں۔دھرتی ماں یہ عہد ہے میرا،شاہ ایران سے شاہ پاکسان اور وہ بادشاہ تھا یا ولی مثالی مضمون ہیں۔
تاریخ پیدائش۔ ۱مئ ۱۹۶۷
تعلیمی قابلیت۔ ایم اے پولیٹکل سائنس (سال اول)
جائے پیدائش۔ کوٹلی سوہلناں ضلع کوٹلی
حال مقام ۔ سیری ضلع کوٹلی آزاد کشمیر
حالات زندگی
گل زیب انجم ضلع کوٹلی کے ایک گاؤں کوٹلی سوہلناں میں پیدا ہوئے۔لیکن پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد اپنے گھر والوں کے ساتھ ننھالی گاؤں سیری ضلع کوٹلی آ گے۔یہاں سے ہی انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ نہم جماعت سے سکول کو خیرآباد کہہ کر محنت مزدوری کی غرض سے لاہور چلے گے۔دو تین سال گزارنے کے بعد ایک دوست کے کہنے پر کراچی چلے گے۔وہاں جاکر کچھ عرصہ ایک شادی دفتر سے وابستہ رہے بعد ازیں ایک مشفق انسان کے کہنے پر فوج میں بھرتی ہو گے۔ریکروٹی کا زمانہ بڑا صبر آزما گزارا۔مانسرکیمپ سے پاسنگ اُوٹ ہوئے اور پہلی تقرری اکاڑہ چھاونی میں ہوئی۔
گل زیب انجم کو نصابی کتب سے نہ سہی لیکن غیر نصابی کتب پڑھنے کا بےحد شوق تھا اور یہی شوق وہ دوران ڈیوٹی فرما رہے تھے کہ ڈیوٹی این،سی،او حوالدار شمس دین چکنگ کے لیے آگیا۔چکنگ کے دوران جب نائیٹ گارڈ کے ہاتھ میں آداب عرض دیکھا تو بہت بھرم ہوا لیکن سزا دینے کے بجائے ایک مشورے سے نوازا کہ تم لائبریری سے دسویں کی کتابیں لے لو جن کے پڑھنے سے کچھ فائدہ بھی ہو گا رات بھی گزر جائے گی اور دیکھنے والا یعنی چکنگ والا بھی کچھ نہیں کہے گا۔ دوسرے دن جب کتابوں کے لیے لائبریری گے تو شومئ قسمت پتہ چلا کے دسویں کے کچھ ہی سیٹ تھے جو کے ایشو ہو چکے ہیں۔اب گل زیب انجم نے اسی سلسلے میں دوبارہ حوالدار شمس دین سے رابطہ کیا تو انہوں نے یوں کہا کہ اب ان لوگوں کے ساتھ ڈیوٹی لگوایا کرو جن کے پاس کتابیں ہیں۔ تاکہ ایک ساتھ ڈیوٹی کرنے سے تمہیں بھی پڑھنے کا موقع مل جائے گا۔حوالدا شمس دین کی اس بات سے کتابوں کا مسلۂ تو حل ہو گیا لیکن دو تین دن تک کتاب والے ساتھیوں کی کج ادائیاں خندہ پیشانی سے برداش کرنی پڑی۔
آرمڈ سروسز بورڈ میں امتحان ہو رہا تھا ابھی دو پرچے باقی تھے کے ان کو اپنڈکس کا درد ہوگیا جس کا علاج اپریشن کی صورت میں ہوا۔ یوں اپریشن کی وجہ سے ان کے دو پرچے رہ گے جن کے لیے سپلی میں شامل ہونا پڑا۔سپلی کے داخلے جاری تھے ان کو بھی داخلہ بھیجنے کا خیال آیا لیکن داخلے کے لیے مبلخ ۱۰۱ روپیہ درکار تھا جو اُن کے پاس نہ تھا ۔آخر سوچ بچار کے بعد کنٹین ٹھکیدار سے ۱۰۱ روپے مانگنے گے اُس نے وجہ پوچھنے کے بعد ۱۲۰ روپے ان کو دیے ۔جب انہوں نے ۱۰۱ کا کہا تو اس نیک دل شخص نے کہا بابا منی ارڈر پر بھی کچھ پیسہ لگے گا کے نہیں؟ داکلا پھارم(داخلہ فارم)بھی پیسے کا ملے گا۔تم لے جاؤ بعد میں دے دینا۔ ان ادھار کے روپوں سے انہوں نے داخلہ بیجھا آخر کار دسویں جماعت کا امتحان صرف پاس مارکس سے ہی پاس کر لیا۔
میٹرک کر لینے کے بعد تعلیم کا ایک چسکا سا لگ گیا اور اسی چسکے کی بنا پر انہوں نے ایف اے کا امتحان سکینڈ ڈویژن میں اور بی۔اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔اسی عرصے میں وہ فوج سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے دوران دکانداری ان کو ماسٹر کی سوجی اور انہوں نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے فرسٹ پارٹ کا امتحان پاس کیا لیکن سکینڈ پارٹ ۲۰۰۵کے زلزلے کی وجہ سے نہ کر سکے ۔
گل زیب انجم کو شاعری سے کافی شغف رہا ہے اسی بنا پر انہوں نے اردو اور پنجابی میں ہر رنگ میں شاعری کی ان کی شاعری سے جہاں قہقے پھوٹتے ہیں وہی آنکھوں سے جھرنے بھی بہہ جاتے ہیں حالات حاضرہ کو کہیں شعرونغمہ میں پیش کرتے ہیں تو کہیں حا لات کی ستم ظریفی کو نوحے کی صورت میں لکھ دیتے ہیں۔ان کی شاعری میں بھی ان کی زندگی کی طرح کی سادگی ملتی ہے لیکن سادگی سچائی پر کبھی غالب نہیں آ سکی۔
وہ دوسروں کی خوبیوں کو بیان کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے دوسروں کے غم کو یوں بیاں کرتے ہیں کے سننے والا یہ امتیاز کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے کہ یہ داستان غم ان کی اپنی ہے یا کسی دوسرے کی بیان کر رہے ہیں۔ اُن کی غم زدہ شاعری میں "تجھ جیسا پروفیسر انوار نہیں آتا اور وہ نینوں کا تارا تھا" نمایاں ہیں جب کہ "اب کاکے نہیں ہوتے" تھوڑی مزاحیہ اور منصوبہ بندی والوں سے وابستہ ہے۔" توں لوکاندا پھردا ایں بالاں نوں" ملک کے اندر دہشت گردی سے منسوب ہے ۔ شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نگاری اور مضمون نگاری میں بھی ایک مقام رکھتے ہیں۔دھرتی ماں یہ عہد ہے میرا،شاہ ایران سے شاہ پاکسان اور وہ بادشاہ تھا یا ولی مثالی مضمون ہیں۔