ایم اے راجا
محفلین
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں میں مذہبی تہواروں کے موقع پر حکومتیں اور سول سوسائٹیز سستے بازار لگاتی ہیں جہاں پر لوگوں کو نہایت رعائیتی نرخوں پر معیاری اشیاء صرف مہیا کی جاتی ہیں، اسی طرح ریلوے اسٹیشنوں بس ٹرمینلز پر بھی حکومت کے انتظامات ہوتے ہیں کہ مسافروں کو رعائیتی اور معیاری چیزیں ( خصوصا کھانے پینے کی اشیاء) فراہم ہوسکیں، مگر ہمارے ملک میں ایک الگ طریقہ کار ہے جس سے ہم سب واقف ہیں، ہمارے دوکاندار ایسے موقعوں کو زیادہ مناقع کمانے کے مواقع جان کر عوام کی کھال کھینچتے ہیں اور انتظامیہ ان میں برابر کی حصہ دار ہوتی ہے، ان مواقعوں پر خاص طور پر ماہ رمضان میں نہ صرف کاروباری بلکہ دوسرے لوگ بھی ریڑھیاں اور خوانچے لگا کر اس نیک کام میں ہاتھ بٹاتے نظر آتے ہیں یہاں تک کے بہت سے گورنمنٹ ملازمین بھی اس ماہ میں رخصت لیکر عوام کی خدمت کے لیئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔
یہ ایک بہت وسیع موضوع ہے، ہم آج یوٹیلٹی اسٹورز کی خدمات پر بات کریں گے، حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز عوام کو سستی اور معیاری اشیاء صرف فراہم کرنے کے لیئے قائم کیئے لیکن یہ ایک مخصوص گروہ کے لیئے نہایت منافع بخش ثابت ہوئے جبکہ غریب عوام کے لیئے تذلیل کا باعث بن گئے ہیں، رمضان کے علاوہ بھی اگر یوٹیلٹی اسٹورز پر جایا جائے تو چند غیر ضروری اشیاء کے علاوہ دوسرے لوازمات موجود نہیں ہوتے۔
یوٹیلٹی اسٹورز کا عملہ خصوصا انچارج صاحبان ہزاروں میں کھیلتے ہیں، یوٹیلٹی اسٹورز کو فراہم کردہ دالیں، گھی، آٹا اور دوسری اشیاء انچارجز راتوں رات عام دوکانداروں کو فروخت کر دیتے ہیں، اور وہ دوکاندار ان اشیاء کو کھول کر مارکیٹ ریٹ پر فروخت کرتے ہیں اسطرح یوٹیلٹی اسٹورز والوں کے ساتھ ساتھ عام دوکاندار بھی اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے ہیں اور بیچارے عوام یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیاء دستیاب نہ ہونے کیوجہ سے وہی اشیاء دوسری دوکانوں سے مہنگے داموں خریدتے ہیں۔
کچھ دن پہلے لاہور میں ایک یوٹیلٹی اسٹور پر ( نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کیمطابق) زائد المیعاد اشیاء فروخت کی گئیں، یہ ہے معیار ہمارے یوٹیلٹی اسٹورز کا، سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ آخر حکومت کو یوٹیلٹی اسٹورز قائم کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی، کیا حکومتی قوانین عام کاروباری لوگوں پر نافذ کرنا حکومت کے بس میں ہی نہیں، کیا وہ پرائس اور کوالٹی کو کنٹرول نہیں کر سکتی اگر اسکا جواب ہاں ہے تو پھر تو ملک میں جنگل کا قانون ہوا، جس کو چاہا شیر نے ہڑپ کر لیا۔
چلیں اگر مان لیا جائے کے حکومت عوام کو سہارا دینے کے لیئے عام دوکانوں سے بھی زیادہ سستی چیزیں عوام کو فراہم کرنا چاہتی ہے اسکے لیئے حکومت کو ایک ادارہ قائم کرنا مقصود تھا تو پھر اس ادارے کے ارکان کو قانون کا پابند کیوں نہیں بنایا جاتا، اس ادارے کے لوگ عام لوگوں کے ساتھ جو رویہ روا رکھتے ہیں وہ کسی طرح بھی مہذبانہ نہیں، یوٹیلٹی اسٹورز کے ذمہ داران راتوں رات نایاب آٹے کو من پسند لوگوں کے گھروں اور دوکانداروں کے گوداموں تک خود پہنچاتے ہیں، اور صبح عوام جب اسٹورز پر لائینیں لگا کر کھڑی ہوتی ہے تو دس پندرہ لوگوں کو آٹا دیئے جانے کے بعد انتظامیہ اعلان کر دیتی ہیکہ آٹا ختم ہوچکا ہے اور احتجاج کرنے والوں کو پولیس کے ذریعے ڈنڈوں سے تواضع کروائی جاتی ہے، میں حیران ہوں کہ ہمارے حکمران ان چیزوں پر نظر کیوں نہیں کرتے۔
میں سمجھتا ہوں کہ فوری طور پر حکومت کو یوٹیلٹی اسٹورز کو بند کردینا چاہئیے اور جو ڈنڈے عوام پر برسائے جاتے ہیں وہی ڈنڈے ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں پر برسا کر غریب عوام کو مہنگائی اور آٹے کےخودساختہ بحران سے نجات دلائی جائے، یوٹیلٹی اسٹورز کو ختم کرنے سے کئی لوگ بیروزگار تو ضرور ہونگے لیکن اس قربانی سے لاکھوں روپیہ جو ان کرپٹ ملازمین پر خرچ ہوتا ہے، حکومت کو بچے گا جس سے ہزاروں ترقیاتی کام انجام دیئے جاسکتے ہیں۔
اسوقت ہمارے ملک میں آٹے کی قلت کا باعث بے جا ذخیرہ اندوزی ہے جس میں یوٹیلٹی اسٹورز کی انتظامیہ بھی براہِ راست ملوث ہے، نظام کی خرابی نے ذخیرہ اندوزوں کو نئے حوصلے بخشے دیئے ہیں، خاص طور پر شوکت عزیز کی حکومت میں ذخیرہ اندوزی بہت پروان چڑھی ہے۔
موجودہ حکومت سے عوام کی بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں، کیونکہ پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس نے عوام کو ، روٹی کپڑا اور مکان کا خوبصورت نعرہ دیا جسکے سحر میں غریب عوام نے ہمیشہ اس پارٹی کو ووٹ دیا، گزشتہ حکومتوں میں پارٹی کو بہت سے مسائل کا سامنا رہا اور کبھی اتنا بھاری مینڈٹ بھی نہ مل سکا مگر، محترمہ کی قربانی نے اس پارٹی کو بلند مقام بخشا اور آج پیپلز پارٹی بھاری مینڈٹ کے ساتھ اقتدار میں ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اپوزیشن بھی اسکے ساتھ ہے، جبکہ صدرِ مملکت کا عہدہ پارٹی کے پاس ہونا انکی طاقت کو دوگنا کرتا ہے، سو پیپلز پارٹی کی حکومت کا اولین مقصد ملک سے مہنگائی، نا انصافی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہونا چاہیئے، ان چیزوں کا خاتمہ امن امان کی صورت حال بہتر بنانے میں بھی ممدو و معاون ثابت ہوگا، کیونکہ بھوکا شخص ہر کام چاہے وہ کتنا ہی قبیح کیو ں نہ ہو کرنے کے لیئے تیار ہوتا ہے۔
اس حکومت کو سفارشی کلچر ختم کرنے کی بھی بے حد ضرورت ہے، نااہل لوگوں کو آگے لاکر اہل لوگوں کو کونے میں بٹھانے سے ملک کو شدید نقصان ہو گا اور ہوتا آیا ہے، اور پھر یہ پارٹی کی ساکھ کے لیئے بھی شدید نقصان کا باعث بنے گا، زرداری صاحب کو سب سے پہلے کنبہ پروری اور سفارشی کلچر کو ختم کر کے بلا کسی سیاسی وابستگی کے اہل لوگوں کو آگے لانا چاہئیے، ہمیشہ ملک میں افسروں کو اہلیت نہیں بلکہ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ہی تعینات کیا ہے جس نے ملکی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
امید ہیکہ موجودہ حکومت ماضی سے سبق سیکھے گی اور غریب عوام کو مہنگائی، نا انصافی اور بے روزگاری سے نجات دلانے کے لیئے سیاسی وابستگیوں اور تعصب سے بالا ہو کر کام کرے گی، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنی موت آپ ہی مر جائیں گے کسی کو ہمیں مارنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اور ہمارے دشمن اسی دن کا انتظار کر رہے ہیں، کیونکہ ہماری موت آور پالیسیاں اسی بات کی عکاسی کرتی ہیں۔
یہ ایک بہت وسیع موضوع ہے، ہم آج یوٹیلٹی اسٹورز کی خدمات پر بات کریں گے، حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز عوام کو سستی اور معیاری اشیاء صرف فراہم کرنے کے لیئے قائم کیئے لیکن یہ ایک مخصوص گروہ کے لیئے نہایت منافع بخش ثابت ہوئے جبکہ غریب عوام کے لیئے تذلیل کا باعث بن گئے ہیں، رمضان کے علاوہ بھی اگر یوٹیلٹی اسٹورز پر جایا جائے تو چند غیر ضروری اشیاء کے علاوہ دوسرے لوازمات موجود نہیں ہوتے۔
یوٹیلٹی اسٹورز کا عملہ خصوصا انچارج صاحبان ہزاروں میں کھیلتے ہیں، یوٹیلٹی اسٹورز کو فراہم کردہ دالیں، گھی، آٹا اور دوسری اشیاء انچارجز راتوں رات عام دوکانداروں کو فروخت کر دیتے ہیں، اور وہ دوکاندار ان اشیاء کو کھول کر مارکیٹ ریٹ پر فروخت کرتے ہیں اسطرح یوٹیلٹی اسٹورز والوں کے ساتھ ساتھ عام دوکاندار بھی اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے ہیں اور بیچارے عوام یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیاء دستیاب نہ ہونے کیوجہ سے وہی اشیاء دوسری دوکانوں سے مہنگے داموں خریدتے ہیں۔
کچھ دن پہلے لاہور میں ایک یوٹیلٹی اسٹور پر ( نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کیمطابق) زائد المیعاد اشیاء فروخت کی گئیں، یہ ہے معیار ہمارے یوٹیلٹی اسٹورز کا، سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ آخر حکومت کو یوٹیلٹی اسٹورز قائم کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی، کیا حکومتی قوانین عام کاروباری لوگوں پر نافذ کرنا حکومت کے بس میں ہی نہیں، کیا وہ پرائس اور کوالٹی کو کنٹرول نہیں کر سکتی اگر اسکا جواب ہاں ہے تو پھر تو ملک میں جنگل کا قانون ہوا، جس کو چاہا شیر نے ہڑپ کر لیا۔
چلیں اگر مان لیا جائے کے حکومت عوام کو سہارا دینے کے لیئے عام دوکانوں سے بھی زیادہ سستی چیزیں عوام کو فراہم کرنا چاہتی ہے اسکے لیئے حکومت کو ایک ادارہ قائم کرنا مقصود تھا تو پھر اس ادارے کے ارکان کو قانون کا پابند کیوں نہیں بنایا جاتا، اس ادارے کے لوگ عام لوگوں کے ساتھ جو رویہ روا رکھتے ہیں وہ کسی طرح بھی مہذبانہ نہیں، یوٹیلٹی اسٹورز کے ذمہ داران راتوں رات نایاب آٹے کو من پسند لوگوں کے گھروں اور دوکانداروں کے گوداموں تک خود پہنچاتے ہیں، اور صبح عوام جب اسٹورز پر لائینیں لگا کر کھڑی ہوتی ہے تو دس پندرہ لوگوں کو آٹا دیئے جانے کے بعد انتظامیہ اعلان کر دیتی ہیکہ آٹا ختم ہوچکا ہے اور احتجاج کرنے والوں کو پولیس کے ذریعے ڈنڈوں سے تواضع کروائی جاتی ہے، میں حیران ہوں کہ ہمارے حکمران ان چیزوں پر نظر کیوں نہیں کرتے۔
میں سمجھتا ہوں کہ فوری طور پر حکومت کو یوٹیلٹی اسٹورز کو بند کردینا چاہئیے اور جو ڈنڈے عوام پر برسائے جاتے ہیں وہی ڈنڈے ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں پر برسا کر غریب عوام کو مہنگائی اور آٹے کےخودساختہ بحران سے نجات دلائی جائے، یوٹیلٹی اسٹورز کو ختم کرنے سے کئی لوگ بیروزگار تو ضرور ہونگے لیکن اس قربانی سے لاکھوں روپیہ جو ان کرپٹ ملازمین پر خرچ ہوتا ہے، حکومت کو بچے گا جس سے ہزاروں ترقیاتی کام انجام دیئے جاسکتے ہیں۔
اسوقت ہمارے ملک میں آٹے کی قلت کا باعث بے جا ذخیرہ اندوزی ہے جس میں یوٹیلٹی اسٹورز کی انتظامیہ بھی براہِ راست ملوث ہے، نظام کی خرابی نے ذخیرہ اندوزوں کو نئے حوصلے بخشے دیئے ہیں، خاص طور پر شوکت عزیز کی حکومت میں ذخیرہ اندوزی بہت پروان چڑھی ہے۔
موجودہ حکومت سے عوام کی بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں، کیونکہ پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس نے عوام کو ، روٹی کپڑا اور مکان کا خوبصورت نعرہ دیا جسکے سحر میں غریب عوام نے ہمیشہ اس پارٹی کو ووٹ دیا، گزشتہ حکومتوں میں پارٹی کو بہت سے مسائل کا سامنا رہا اور کبھی اتنا بھاری مینڈٹ بھی نہ مل سکا مگر، محترمہ کی قربانی نے اس پارٹی کو بلند مقام بخشا اور آج پیپلز پارٹی بھاری مینڈٹ کے ساتھ اقتدار میں ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اپوزیشن بھی اسکے ساتھ ہے، جبکہ صدرِ مملکت کا عہدہ پارٹی کے پاس ہونا انکی طاقت کو دوگنا کرتا ہے، سو پیپلز پارٹی کی حکومت کا اولین مقصد ملک سے مہنگائی، نا انصافی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہونا چاہیئے، ان چیزوں کا خاتمہ امن امان کی صورت حال بہتر بنانے میں بھی ممدو و معاون ثابت ہوگا، کیونکہ بھوکا شخص ہر کام چاہے وہ کتنا ہی قبیح کیو ں نہ ہو کرنے کے لیئے تیار ہوتا ہے۔
اس حکومت کو سفارشی کلچر ختم کرنے کی بھی بے حد ضرورت ہے، نااہل لوگوں کو آگے لاکر اہل لوگوں کو کونے میں بٹھانے سے ملک کو شدید نقصان ہو گا اور ہوتا آیا ہے، اور پھر یہ پارٹی کی ساکھ کے لیئے بھی شدید نقصان کا باعث بنے گا، زرداری صاحب کو سب سے پہلے کنبہ پروری اور سفارشی کلچر کو ختم کر کے بلا کسی سیاسی وابستگی کے اہل لوگوں کو آگے لانا چاہئیے، ہمیشہ ملک میں افسروں کو اہلیت نہیں بلکہ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ہی تعینات کیا ہے جس نے ملکی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
امید ہیکہ موجودہ حکومت ماضی سے سبق سیکھے گی اور غریب عوام کو مہنگائی، نا انصافی اور بے روزگاری سے نجات دلانے کے لیئے سیاسی وابستگیوں اور تعصب سے بالا ہو کر کام کرے گی، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنی موت آپ ہی مر جائیں گے کسی کو ہمیں مارنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اور ہمارے دشمن اسی دن کا انتظار کر رہے ہیں، کیونکہ ہماری موت آور پالیسیاں اسی بات کی عکاسی کرتی ہیں۔