بدھ مت کا تاریک پہلو
چارلس ہیوی لینڈبی بی سی نیوز، کولمبو
31 مئ 2015
بدھ مت کو امن کا مذہب سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس کا ایک پرتشدد روپ بھی دیکھنے کو ملا ہے
بدھ مت کی تعلیمات میں تشدد نہ کرنے کا اصول بنیادی حیثیت رکھتا ہے لیکن سری لنکا میں کچھ بودھ راہبوں پر الزام ہے کہ وہ دوسری نسلی اقلیتوں اور مذاہب کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔
کولمبو کے نواح میں ایک چھوٹا سا مندر بڑا پرسکون ہے۔ اس میں بدھا کی شبہہ کو جامنی اور سفید کنول کے درمیان رکھا گیا ہے جبکہ چھوٹے بدھا دیوار کے ساتھ کھڑے ہیں۔
لیکن اس کے اوپر والی منزل میں ایک بھاری بھرکم راہب کی حکومت ہے جو نارنجی رنگ کے کپڑے پہنے بیٹھا ہوا ہے۔ یہ ہے سخت گیر بودھ تنظیم ’دی بودھا بالا سینا‘ یا بدھسٹ پاور فورس (بی بی ایس) کا صدر دفتر۔
بدھ مت کی پرامن نصحیتیں جن کی وجہ سے یہ مذہب پہچانا جاتا ہے شاید ہی ان کی گفتگو میں کبھی آئیں ہوں۔
اس کے برعکس راہب گالا گوڈا آتھے گناناسارا تھیرو بدھ مت کی بات بطور ایک نسل کے کرتے ہیں۔ سری لنکا کے زیادہ تر بودھ سنہالا ہیں اور سنہالا تقریباً اس ملک کی آبادی کا تین چوتھائی ہیں۔
گناناسارا تھیرو کہتے ہیں کہ ’یہ ملک سنہالا کا ہے، اور سنہالا ہی ہیں جنھوں نے اس کی تہذیب، ثقافت اور آبادیوں کو تعمیر کیا ہے۔ سفید فام لوگوں نے سب مسائل کھڑے کیے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ برطانوی نو آبادکاروں نے اس ملک کو تباہ کیا تھا اور اس کے حالیہ مسائل کے ذمہ دار بھی بقول ان کے ’باہر والے‘ ہی ہیں جس سے ان کا مطلب تمل اور مسلمان ہیں۔
حقیقت میں اگرچہ تمل کی ایک چھوٹی اقلیت یہاں انڈیا سے چائے کے باغات لگانے کے لیے آئی تھی، لیکن یہاں رہنے والے زیادہ تر تمل اور مسلمان اتنے ہی سری لنکن ہیں جتنے سنہالا ہیں اور ان کی جڑیں صدیوں پیچھے تک جاتی ہیں۔
گناناسارا تھیرو کہتے ہیں کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سنہالا ملک واپس سنہالا ہو جائے۔ جب تک ہم اس کو ٹھیک نہیں کرتے، ہم لڑتے رہیں گے۔‘
بی بی ایس کے سربراہ گالا گوڈا آتھےگناناسارا تھیرو
بدھ مت کا یہ پہلو کوئی پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا۔ بیسویں صدی کے اہم بودھ احیائے کار آناگارکا دھرماپالا غیر سنہالا لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ آریائی سنہالا لوگوں نے اس جزیرے کو جنت بنایا ہے جبکہ عیسائی اور دوسرے مذاہب اس کو تباہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو بھی یہ کہہ کر نشانہ بنایا کہ وہ سود پر قرض دینے والے طریقوں سے اس مٹی میں جنم لینے والوں کا استحصال کر کے پھلے پھولے ہیں۔
1958 میں ایک بودھ راہب ہی تھا جس نے وزیرِ اعظم ایس ڈبلیو آر ڈی بندرانائیکے کو قتل کیا تھا۔
تمل ٹائیگروں کے خلاف ایک لمبی جنگ نے سخت گیر بودھوؤں کو ایک مرتبہ پھر اکٹھا کر دیا ہے۔
2004 میں نو راہبوں کو پارلیمان میں منتخب کر کے یہ بتانے کی کوشش کی گئئ تھی کہ یہ جنگ سنہالا اور بدھ مت کو بچانے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔
بعد میں راہبوں کی اہم جماعت سے گناناسارا تھیرو الگ ہو گئے اور ایک الگ جماعت بی بی ایس کی بنیاد رکھی۔ 2012 سے بی بی ایس نے براہ راست کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے ذبح خانوں پر یہ کہہ کر حملے کیے کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ایک لاء کالج پر حملہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے حق میں نتائج دیتا ہے۔
اب چونکہ ان کے تمل حریف کو شکست ہو چکی ہے ان کی کارروائیوں کا نشانہ مسلمان اور عیسائی ہی بنتے ہیں۔
بی بی ایس کے ترجمان دلانتھا وتھاناگے کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی بودھ راہب کوئی غلط کرتا ہے تو ہماری شہرت کی وجہ سے ہم پر الزام لگایا جاتا ہے۔‘
’بی بی ایس کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں ہے، بی بی ایس کسی کے خلاف بھی تشدد کو ہوا نہیں دے رہی۔۔۔ لیکن ہم کئی چیزوں کے خلاف ہیں۔‘
بی بی ایس کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں ہے، بی بی ایس کسی کے خلاف بھی تشدد کو ہوا نہیں دے رہی: دلانتھا وتھاناگے
لیکن صرف وہ ہی نہیں کئی اور سنہالا بھی سری لنکا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی قدامت پرستی کی وجہ سے خوش نہیں ہیں۔ اب اس ملک میں زیادہ عورتیں سر ڈھانپے ہوئے نظر آتی ہیں اور کئی علاقوں میں تو سعودی عرب کے زیرِ اثر وہابی مسلمانوں اور آزاد خیال لوگوں میں تناؤ بھی پیدا ہوا ہے۔
تاہم سری لنکن مسلمانوں کی طرف سے کسی پرتشدد کارروائی کی کوئی شہادت نہیں ملی ہے۔ بلکہ ان پر حملے ہی ہوتے رہے ہیں۔
گذشتہ جون آلوتھگاما کے چھوٹے سے قصبے میں ایک مسلم اکثریت کے علاقے میں بی بی ایس کی ایک مسلم مخالف ریلی کے دوران ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مسلمانوں کے گھر اور دکانیں جلا دی گئی تھیں اور انھیں سکولوں میں پناہ لینی پڑی تھی۔
سخت گیر بودھوؤں نے اعتدال پسند بودھوؤں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
گذشتہ برس واتھاریکا وجیتھا تھیرو کو اغوا کر کے بے ہوش کرنے کے بعد باندھا گیا اور زبردستی ان کے ختنے کر دیے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ان کی تذلیل کرنا تھا کیونکہ وہ بودھوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قریبی تعاون کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔
ان کے مطابق یہ بودھ راہبوں نے ہی کیا تھا لیکن وہ کسی خاص شخص یا گروہ پر الزام نہیں لگاتے۔
اس سے کچھ ہفتے قبل وجیتھا تھیرو نے مسلمان برادری کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک نیوز کانفرنس منعقد کی تھی جس میں بی بی ایس نے توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس وقت انھیں گناناسارا تھیرو نے دھمکی دی تھی کہ ’اگر تم اس طرح کی دغا بازی میں دوبارہ شامل ہوئے تو تمہیں پکڑ کر مہاویلی دریا میں پھینک دیا جائے گا۔‘
مہاویلی دریا کی طرف اشارہ بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ 1989 میں سری لنکا کی حکومت کے خلاف بائیں بازو کے محاذ نے ایک بغاوت کی تھی جس کے بعد ایک اندازے کے مطابق تقریباً 60,000 افراد لاپتہ ہو گئے تھے اور اسی دریا میں بہت سی لاشیں پائی گئی تھیں۔
ایک اور ملک جہاں بدھ مت کے پیروکار مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں وہ میانمار ہے جسے پہلے برما کہا جاتا تھا۔ یہاں کے بودھ دھڑے نے جس کا نام 969 تحریک ہے تشدد میں بڑھ چڑھا کر حصہ لیا۔
شن وراتھو (درمیان) 2014 میں کولمبو میں ہونے والے بدھسٹ پاور فورس کنوینشن میں گناناسارا تھیرو (بائیں) کے ہمراہ
حال ہی میں بی بی ایس کے دعوت نامے پر اس کے رہنما شن وراتھو سری لنکا آئے۔ دونوں تنظیمیوں کہتی ہیں اگرچہ ان کے ملکوں میں بدھ مت اکثریتی مذہب ہے لیکن مجموعی طور پر اس کو خطرہ ہے۔ وتھاناگے کہتے ہیں کہ ’ہم اس کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ہم نے ایشیائی خطے میں اتحاد کے لیے ایک یاداشت پر دستخط کیے ہیں۔‘
جنوری میں سری لنکا میں میئتھرپالا سری سینا نئے صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ سابق صدر ماہندے راجاپاکشے کی انتظامیہ نے بی بی ایس کی پشت پناہی کی تھی۔ تاہم یہ بات عیاں ہے کہ سابق حکومت اس تنظیم کی حمایت ضرور کرتی تھی۔
بدھ مت کے امور کے نئے وزیر کارو جے سوریا کہتے ہیں کہ یہ گروہ اس لیے پروان چڑھا کیونکہ کہ ملک کے قانون کو توڑا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بی بی ایس تباہ ہو جائے گی۔
منگل کوگناناسارا تھیرو کو بغیر اجازت احتجاجی مظاہرہ کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ابھی تک تو نئی حکومت جس میں ایک مضبوط بودھ قوم پرست جماعت شامل ہے، نارنجی لباس کے لوگوں کے خلاف نرم ہاتھ ہی رکھے ہوئے ہیں۔