سید انجم شاہ
محفلین
سرکار دو عالم (ص) کا ارشاد پاک ہے
”ہر کام میں میانہ روی اختیار کرو“
”میانہ روی کی تعریف و جامع یوں ہے کہ زندگی کا ہر کام چاہے اعلی ہو یا ادنی ہو ،تین صورتیں پیدا ہونگی اس میں سے درمیانی صورت اختیان کرنا میانہ روی کہلاتا ہے“
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں نقل کروں گا
آپ(ص) نے فرمایا
”اگر تمہیں کسی سے محبت ہے تو انتہا کی محبت نہ کرو ممکن ہے کہ تمہیں اس سے نفرت ہوجائے
اور اگر تمہں کسی سے نفرت ہوجائے تو انتہائی نفرت نہ کرو ممکن ہے تمہیں اس سے محبت ہوجائے“
تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے
سورۃرحمان میں ارشاد ہوا
”ہر انسان کو ترازو دے کر بیجھا گیا ہے اپنا توازن قائم کرو ،خبردار تول کو گھٹائو مت“
قرآن پاک کی یہ آیت ہمیںمیانہ روی کا درس دیتی ہے پس ثابت ہوا
”میانہ روی اک ترازو ہے جسے ہر ادنی و اعلی شخص عمل کرنے سے خرید سکتا ہے
اسی طرح ہمیں زندگی کے ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیئے
سورۃ رحمنٰ میں ایک اور جگہ ارشاد ہے
”اور ہم نے زمین پر ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے جن کے بارے تم جانتے ہو انکے بھی اور جن کے بارے تم نہیں جانتے ان کے بھی“
یہ آیت بھی میانہ روی کا درس دیتی ہےہمیں ہر جوڑے کو بالترتیب اپنے ترازو کے دونوں پلڑوں میں بائیں ،دائیں تونا چاہیئے توازن برقرار رکھیں
مثلا
کھانےپینے میں میانہ روی،محبت و نفرت میں ،مصروفیات وفارغ اوقات میں ،اسلام ودنیا میں میانہ روی،گفتگو و خاموشی میں میانہ روی،خوشی و غمی میں میانہ روی،اور سوچ و عمل میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیئے
غرض زندگی کے تمام امور میں میانہ روی اختیار کرنے سے زندگی سہل اور سود مند ہوتی ہے
خدا اور رسول پاک (ص) کو میانہ روی بے حد پسند ہے
جس بات کا اندازہ ہم اس طرح لگاسکتے ہیں کہ روز آخر میدان محشر میں خدا نے اسی قانون میانہ روی کو اختیار کیا یا پیش نظر رکھنا اک پلڑے میں نیکیاں اور دوسرے میں بدیوں کو ڈال کر انصاف ہوگا“
ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنے والا شخص دنیا کےلئے دلچسپ ،عجیب و غریب اور ملی جلی خوبیوب کا ملاک قرار پائے گا
سب سے اہم اور قابل قدر بات
جسم و روح کا توازن،دل و دماغ کا توازن،اور جگر و نظر کا توازن شامل ہے اور اسکے علاوہ زندگی کے اور بیشتر مسائل جو شاید میں بھی نہین جانتا
ہر انسان کی فطرت اور طبیعت میں اک کشمکش یا کشاکش مثلا زندگی کے کسی بھی موڑ پر جب انسان کوئی گفتگو ،مسئلہ یا کوئی کام کرنے لگتا ہے تو اسے بیک وقت دو طاقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انسان ذہنی کشمکش ،الجھائو یا ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے
مثلا کوئی مسئلہ ہو یا کام ہے جس کا حل کرنا مقصود ہے
دل کہتا ہے نہ کر،دماغ کہتا ہے کر لے یا روح کہتی ہے”ایسا ہر گز نہ کرنا اور جسم کہتا ہے بلا توقف کر لے
تو ایسی صورت میں اک تیسری طاقت یا آواز بلند کوتی ہے جسے ہم ضمیر کہتے ہیں جو کہ میانہ روی کا مرہون منت ہے
اس مقام پر آ کر اس مسئلہ کا حل ہوتا ہے
جسے ہر انسان گہری مصروفیت سے بآسانی حاصل کر سکتا ہے
اسے ہم ضمیر کی آواز کہتے ہیںمیانہ روی زندگی کا بہت بڑا ہنر ہے جسے نصیب ہوا وہ دو جہانوں میں سرفراز ہوا اور اسکا مقدر گراں قدر اورشاندار ہوا اور ایسا فن صرف محبت خدا اور رسول پاک (ص) کی بدولت ہی نصیب ہوتا ہے
زندگی کے بیشتر معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی حل نہیں لیکن ایسے معاملات کو ایک میانہ رو انسان بخوبی ادا کر سکتا ہے
بشکریہ: تحریر محترم جناب محمد اصغر علی صاحب
سنڈے میگزین روزنامہ اوصاف لاہور ( میں وہاں سے لے کر لکھ رہا ہوں)
”ہر کام میں میانہ روی اختیار کرو“
”میانہ روی کی تعریف و جامع یوں ہے کہ زندگی کا ہر کام چاہے اعلی ہو یا ادنی ہو ،تین صورتیں پیدا ہونگی اس میں سے درمیانی صورت اختیان کرنا میانہ روی کہلاتا ہے“
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں نقل کروں گا
آپ(ص) نے فرمایا
”اگر تمہیں کسی سے محبت ہے تو انتہا کی محبت نہ کرو ممکن ہے کہ تمہیں اس سے نفرت ہوجائے
اور اگر تمہں کسی سے نفرت ہوجائے تو انتہائی نفرت نہ کرو ممکن ہے تمہیں اس سے محبت ہوجائے“
تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے
سورۃرحمان میں ارشاد ہوا
”ہر انسان کو ترازو دے کر بیجھا گیا ہے اپنا توازن قائم کرو ،خبردار تول کو گھٹائو مت“
قرآن پاک کی یہ آیت ہمیںمیانہ روی کا درس دیتی ہے پس ثابت ہوا
”میانہ روی اک ترازو ہے جسے ہر ادنی و اعلی شخص عمل کرنے سے خرید سکتا ہے
اسی طرح ہمیں زندگی کے ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیئے
سورۃ رحمنٰ میں ایک اور جگہ ارشاد ہے
”اور ہم نے زمین پر ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے جن کے بارے تم جانتے ہو انکے بھی اور جن کے بارے تم نہیں جانتے ان کے بھی“
یہ آیت بھی میانہ روی کا درس دیتی ہےہمیں ہر جوڑے کو بالترتیب اپنے ترازو کے دونوں پلڑوں میں بائیں ،دائیں تونا چاہیئے توازن برقرار رکھیں
مثلا
کھانےپینے میں میانہ روی،محبت و نفرت میں ،مصروفیات وفارغ اوقات میں ،اسلام ودنیا میں میانہ روی،گفتگو و خاموشی میں میانہ روی،خوشی و غمی میں میانہ روی،اور سوچ و عمل میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیئے
غرض زندگی کے تمام امور میں میانہ روی اختیار کرنے سے زندگی سہل اور سود مند ہوتی ہے
خدا اور رسول پاک (ص) کو میانہ روی بے حد پسند ہے
جس بات کا اندازہ ہم اس طرح لگاسکتے ہیں کہ روز آخر میدان محشر میں خدا نے اسی قانون میانہ روی کو اختیار کیا یا پیش نظر رکھنا اک پلڑے میں نیکیاں اور دوسرے میں بدیوں کو ڈال کر انصاف ہوگا“
ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنے والا شخص دنیا کےلئے دلچسپ ،عجیب و غریب اور ملی جلی خوبیوب کا ملاک قرار پائے گا
سب سے اہم اور قابل قدر بات
جسم و روح کا توازن،دل و دماغ کا توازن،اور جگر و نظر کا توازن شامل ہے اور اسکے علاوہ زندگی کے اور بیشتر مسائل جو شاید میں بھی نہین جانتا
ہر انسان کی فطرت اور طبیعت میں اک کشمکش یا کشاکش مثلا زندگی کے کسی بھی موڑ پر جب انسان کوئی گفتگو ،مسئلہ یا کوئی کام کرنے لگتا ہے تو اسے بیک وقت دو طاقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انسان ذہنی کشمکش ،الجھائو یا ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے
مثلا کوئی مسئلہ ہو یا کام ہے جس کا حل کرنا مقصود ہے
دل کہتا ہے نہ کر،دماغ کہتا ہے کر لے یا روح کہتی ہے”ایسا ہر گز نہ کرنا اور جسم کہتا ہے بلا توقف کر لے
تو ایسی صورت میں اک تیسری طاقت یا آواز بلند کوتی ہے جسے ہم ضمیر کہتے ہیں جو کہ میانہ روی کا مرہون منت ہے
اس مقام پر آ کر اس مسئلہ کا حل ہوتا ہے
جسے ہر انسان گہری مصروفیت سے بآسانی حاصل کر سکتا ہے
اسے ہم ضمیر کی آواز کہتے ہیںمیانہ روی زندگی کا بہت بڑا ہنر ہے جسے نصیب ہوا وہ دو جہانوں میں سرفراز ہوا اور اسکا مقدر گراں قدر اورشاندار ہوا اور ایسا فن صرف محبت خدا اور رسول پاک (ص) کی بدولت ہی نصیب ہوتا ہے
زندگی کے بیشتر معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی حل نہیں لیکن ایسے معاملات کو ایک میانہ رو انسان بخوبی ادا کر سکتا ہے
بشکریہ: تحریر محترم جناب محمد اصغر علی صاحب
سنڈے میگزین روزنامہ اوصاف لاہور ( میں وہاں سے لے کر لکھ رہا ہوں)