محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
اسلام میں حقوق و فرائض کے حوالے سے زوجین کے باہمی تعلق اور اس رشتے کی بنیاد انتہائی پائیدار ہے۔ اس کے لیے مرد و عورت دونوں پر ذمے داریاں اور ایک دوسرے پر دونوں کے حقوق وفرائض متعین کئے گئے ہیں ،جن سے خاندان کی بنیاد مضبوط ہوتی اور معاشرے میں امن وسکون کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔سورۂ نساءمیں حکم دیا گیا : ’’اور ان کے ساتھ اچھی طرح گزر بسر کرو‘‘۔ (ترجمہ روح القرآن جلد دوم)
عورتوں کے ذمے احکام بیان کرنے کے بعد قرآن مجید دوبارہ شوہروں کو بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے کہ تمہارے اوپر عورتوں کے جو حقوق ہیں، انہیں اچھی طرح ادا کرو، اور خود کو بالادست و بااختیار سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ دستور شرعی کے خلاف بدسلوکی نہ کرو‘‘۔(تفسیر روح القرآن)’’یعنی ان کے بارے میں اچھی بات کرو، اپنے افعال اور اپنی ہیئت (کردار اور رویے) کو اچھا کرو، جیسا کہ تم ان سے اپنے لیے چاہتے ہو، ویسے ہی تم ان کے ساتھ (رویہ اور حسن سلوک کا معاملہ اختیار )کرو‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر )
یہاں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں سے معروف طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حکم دیا ہے اور ’’معروف‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کا حق پورا پورا ادا کیا جائے، مثلاً مہر، نفقہ اور باری، اگر کئی بیویاں ہوں تو ان کے درمیان باری مقرر کرنا، اسی طرح بدگوئی ترک کرکے اس کی اذیت کو ختم کرنا، اسی طرح اس کی طرف سے بے اعتنائی اور دوسروں کی طرف میلان کو ترک کرنا وغیرہ، اسی طرح ناک بھوئیں چڑھانا اور ترش روئی سے اس کے سامنے پیش آنا،جب کہ اس کا کوئی قصور بھی نہ ہو اور اسی طرح کی دوسری باتیں جو ان صورتوں میں آتی ہوں‘‘۔(احکام القرآن للجصاص)
پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، یہ امر نفس انسانی کے لیے بہترین اورخوش گوار زندگی کی ضمانت ہے‘‘۔ (تفسیر قرطبی جلد 5 صفحہ 97)حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اپنی بیویوں کے بارے میں اچھائی کی نصیحت کو قبول کرو‘‘۔ (مسلم شرح النووی)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو‘‘۔ (ترمذی )رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں کے لیے بہتر ہو اور خود مَیں اپنے اہل و عیال کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تمہاری رفیقہ حیات مرجائے تو اس کے لیے دعا کرو‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف )
حضور اکرمﷺ نے بیوی کے حقوق کے حوالے سے فرمایا: ’’جو خود کھاؤ، انہیں بھی کھلاؤ، جیسا خود پہنو، انہیں بھی ویسا ہی پہناؤ، انہیں مارو نہیں اور نہ انہیں برے الفاظ کہو‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب النکاح)حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’انسان حُسن اخلاق سے وہ درجہ پاسکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر عبادت کرنے سے حاصل ہوتا ہے‘‘۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الادب)
قرآن میں حکم دیا گیا: ’’وعاشروہنّ بالمعروف‘‘ عورتوں سے حُسن سلوک سے پیش آؤ۔ (سورۃ النساء: ۱۹) چناںچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاؤ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:’’ خیرُکمُ خیرُکمُ لاہلہ‘‘ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔(مشکوٰۃ، کتاب النکاح)
بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ ﷺنےحجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو ،وہ تمہاری زیر نگیں ہیں، تم نے انہیں اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور انہیں اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں ،جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو، اگر ایسا کریں تو تم انہیں ہلکی سزا دے سکتے ہو اور تم پر انہیں کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔(مشکوٰۃ بروایت صحیح مسلم ، فی قصۃ حجۃ الوداع)آپﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔(مشکوٰۃ، باب عشرۃ النساء)کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔(مشکوٰۃ، ترمذی)
نبی اکرم ﷺ کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں، حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے حسن معاشرت کے ساتھ ساتھ صبروتحمل سے کام لینے والا اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔
اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو کتنا بلند مقام حاصل ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں ‘‘معروف‘‘ یعنی اچھے طرزِ عمل اور حُسنِ معاشرت کاخیال کیا جائے، تاکہ وہ معاشرت کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن معاشرت برتیں۔ ارشادِ ربانی ہے :اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔(سورۃ النساء: ۱۹)
قرآن میں صرف حُسن معاشرت کے لیے ہی نہیں کہا گیا کہ عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا مردوں پر اللہ نے فرض کیاہے، بلکہ اسی کے ساتھ ہر طرح کے مسائل کے بارے میں کہا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے: اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ۔ (سورۃ البقرہ)
سرور کائنات حضرت محمدﷺ عام زندگی اور معاشرت میں انسان کامل تھے،آپﷺ بیٹے بھی تھے،اور باپ بھی ، شوہر بھی تھے اور بھائی بھی، عمر میں چھوٹے بھی تھے ، اور بزرگ بھی،آپ ﷺ دینی، روحانی، سیاسی، معاشی، سماجی، معاشرتی اور عائلی زندگی میں ہر حیثیت سے شاہ راہ حیات پر ایسے نقوش چھوڑ گئے جوابد تک امتِ مسلمہ کے لیے ایک روشن نمونہ اور معیار عمل بنے رہیں گے۔آپﷺ کی مثالی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ ہر عہد اور ہردور میں مسلمانوں کی قوت ورفعت کا سرچشمہ اور ان کی قومی وملی سیرت کی تشکیل وتعمیر کا بنیادی عنصر ہیں۔’’ بحیثیت شوہر‘‘ اور سربراہ خاندان آپﷺ نے جو اسوۂ حسنہ امت کے لیے پیش فرمایا، وہ اسلامی تاریخ کاگراں بہا سرمایہ اور سیرتِ طیبہ کاایک روشن باب ہے۔
مفتی محمد نعیم صاحب
عورتوں کے ذمے احکام بیان کرنے کے بعد قرآن مجید دوبارہ شوہروں کو بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے کہ تمہارے اوپر عورتوں کے جو حقوق ہیں، انہیں اچھی طرح ادا کرو، اور خود کو بالادست و بااختیار سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ دستور شرعی کے خلاف بدسلوکی نہ کرو‘‘۔(تفسیر روح القرآن)’’یعنی ان کے بارے میں اچھی بات کرو، اپنے افعال اور اپنی ہیئت (کردار اور رویے) کو اچھا کرو، جیسا کہ تم ان سے اپنے لیے چاہتے ہو، ویسے ہی تم ان کے ساتھ (رویہ اور حسن سلوک کا معاملہ اختیار )کرو‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر )
یہاں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں سے معروف طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حکم دیا ہے اور ’’معروف‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کا حق پورا پورا ادا کیا جائے، مثلاً مہر، نفقہ اور باری، اگر کئی بیویاں ہوں تو ان کے درمیان باری مقرر کرنا، اسی طرح بدگوئی ترک کرکے اس کی اذیت کو ختم کرنا، اسی طرح اس کی طرف سے بے اعتنائی اور دوسروں کی طرف میلان کو ترک کرنا وغیرہ، اسی طرح ناک بھوئیں چڑھانا اور ترش روئی سے اس کے سامنے پیش آنا،جب کہ اس کا کوئی قصور بھی نہ ہو اور اسی طرح کی دوسری باتیں جو ان صورتوں میں آتی ہوں‘‘۔(احکام القرآن للجصاص)
پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، یہ امر نفس انسانی کے لیے بہترین اورخوش گوار زندگی کی ضمانت ہے‘‘۔ (تفسیر قرطبی جلد 5 صفحہ 97)حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اپنی بیویوں کے بارے میں اچھائی کی نصیحت کو قبول کرو‘‘۔ (مسلم شرح النووی)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو‘‘۔ (ترمذی )رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں کے لیے بہتر ہو اور خود مَیں اپنے اہل و عیال کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تمہاری رفیقہ حیات مرجائے تو اس کے لیے دعا کرو‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف )
حضور اکرمﷺ نے بیوی کے حقوق کے حوالے سے فرمایا: ’’جو خود کھاؤ، انہیں بھی کھلاؤ، جیسا خود پہنو، انہیں بھی ویسا ہی پہناؤ، انہیں مارو نہیں اور نہ انہیں برے الفاظ کہو‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب النکاح)حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’انسان حُسن اخلاق سے وہ درجہ پاسکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر عبادت کرنے سے حاصل ہوتا ہے‘‘۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الادب)
قرآن میں حکم دیا گیا: ’’وعاشروہنّ بالمعروف‘‘ عورتوں سے حُسن سلوک سے پیش آؤ۔ (سورۃ النساء: ۱۹) چناںچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاؤ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:’’ خیرُکمُ خیرُکمُ لاہلہ‘‘ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔(مشکوٰۃ، کتاب النکاح)
بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ ﷺنےحجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو ،وہ تمہاری زیر نگیں ہیں، تم نے انہیں اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور انہیں اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں ،جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو، اگر ایسا کریں تو تم انہیں ہلکی سزا دے سکتے ہو اور تم پر انہیں کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔(مشکوٰۃ بروایت صحیح مسلم ، فی قصۃ حجۃ الوداع)آپﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔(مشکوٰۃ، باب عشرۃ النساء)کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔(مشکوٰۃ، ترمذی)
نبی اکرم ﷺ کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں، حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے حسن معاشرت کے ساتھ ساتھ صبروتحمل سے کام لینے والا اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔
اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو کتنا بلند مقام حاصل ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں ‘‘معروف‘‘ یعنی اچھے طرزِ عمل اور حُسنِ معاشرت کاخیال کیا جائے، تاکہ وہ معاشرت کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن معاشرت برتیں۔ ارشادِ ربانی ہے :اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔(سورۃ النساء: ۱۹)
قرآن میں صرف حُسن معاشرت کے لیے ہی نہیں کہا گیا کہ عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا مردوں پر اللہ نے فرض کیاہے، بلکہ اسی کے ساتھ ہر طرح کے مسائل کے بارے میں کہا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے: اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ۔ (سورۃ البقرہ)
سرور کائنات حضرت محمدﷺ عام زندگی اور معاشرت میں انسان کامل تھے،آپﷺ بیٹے بھی تھے،اور باپ بھی ، شوہر بھی تھے اور بھائی بھی، عمر میں چھوٹے بھی تھے ، اور بزرگ بھی،آپ ﷺ دینی، روحانی، سیاسی، معاشی، سماجی، معاشرتی اور عائلی زندگی میں ہر حیثیت سے شاہ راہ حیات پر ایسے نقوش چھوڑ گئے جوابد تک امتِ مسلمہ کے لیے ایک روشن نمونہ اور معیار عمل بنے رہیں گے۔آپﷺ کی مثالی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ ہر عہد اور ہردور میں مسلمانوں کی قوت ورفعت کا سرچشمہ اور ان کی قومی وملی سیرت کی تشکیل وتعمیر کا بنیادی عنصر ہیں۔’’ بحیثیت شوہر‘‘ اور سربراہ خاندان آپﷺ نے جو اسوۂ حسنہ امت کے لیے پیش فرمایا، وہ اسلامی تاریخ کاگراں بہا سرمایہ اور سیرتِ طیبہ کاایک روشن باب ہے۔
مفتی محمد نعیم صاحب