آج میں نے ایک بندے کو پھر سے دیکھا، چہرہ وہی تھا لیکن انداز وہ نہ تھا جو 11 مئی سے پہلے کا تھا۔ سوچا مغالطہ ہو گیا ہو گا ۔ چشمہ پہن کر دیکھا بندہ تو وہی تھا اور اس کے ساتھ ایک اور بندہ بھی تھا بتیسی نکالے ہنستا ہوا۔ اس پر بھی گہری توجہ کی تو یاد آیا کہ ایک روز قبل ہی تو یہ بندہ میرے شہر میں تھا اور جس بندے کے ساتھ یہ بتیسی نکال کر بیٹھا باتیں کر رہا ہے اس سے بات کرنے کاروادر نہ تھا۔
ابھی خیالوں کا پنچھی مزید اونچی پرواز بھرنے کو تھا کہ نظر کے سامنے سے ان دونوں بندوں کی تصویر ہٹا دی گئی اور اس تیسرے بندے کی لگا دی گئی جسے میں "وہ" کا نام دے رہا ہوں۔ یہ دونوں بندے اس "وہ" کو خوش آمدید کہنے کے لئے اکٹھے مل بیٹھے تھے جیسا کہ ایک شوہر کی دو بیویاں اپنے مشترکہ "وہ" کے پاس بیٹھی اپنی رنجشوں پر نا کام پردہ ڈال رہی ہوں۔ اگرچہ ان کا "وہ" عمر ، تجربے اور قد میں ان سے چھوٹا تھا لیکن وہ چونکہ "وہ " ہے اس لئے اس کا احترام لازم ہے۔ اور پھر یہ "وہ" تو ہمسایہ بھی ہے ، پرانا آشنا بھی اور مہمان بھی۔ سو رسمِ دنیا ، موقع اور دستور اپنے اپنے مقام پر با ادب ہو گئے اور ہمارے جیسے تین اور تیرہ کے شمار سے باہر سمجھے جانے والے اس دلداری یا پھر معشوقی کا ادراک نہ کر سکے بلکہ سٹپٹا گئے کہ کیا یہ دونوں بندے وہی ہیں جو اس "وہ" کے سامنے زانوئے عقیدت طے کرنے سے قبل تک ایک دوسرے پر رقاقت بھر بھر کر انڈیل رہے تھے۔
منظر پھر بدل گیا ۔ اب مختلف اقسام کے لوحاتِ تحریر میرے سامنے سے گزارے جانے لگے کہ جن پر ان دونوں بندوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر ایک دوسرے کے ساتھ یوں محبتوں کا اظہار کیا تھا کہ گویا کوئی نوخیز لونڈا کسی پڑوسن پر فدا ہو کر اپنی محبت جتلانے کے لئے ڈائیلاگ مار رہا ہو۔ یقینا یہ لوحاتِ تحریر آپ کے "جہاں نما" پر بھی دکھائی دئے ہوں گے اور آپ نے بھی ان سے عیاں بلکہ "عریاں" ہوتی منافقانہ سیاست کو دیکھ کر شرم سے منہ دوسری طرف کر لیا ہو گا۔
اس ساری "فلم" کو دیکھ کر مجھے تو عمران ہاشمی کی اداکاری پر مشتمل ایک گانا بہت یاد آیا اور بے ساختہ اس کے الفاظ زبان پر آ گئے تو چائے کے کپ کی فرمائش کرنے کے لئے کچن میں گھسا تو بیگم نے قدرے دانٹ کر کہا ' "کچھ تو خیال کرو۔ بیٹا جوان ہو گیا ہے اور اپ ایسا لچر گانا گا رہے ہیں"۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا "شرم تو انہیں کرنی چاہئیے تھی" پوچھا گیا "کسے؟" ۔ اور میں نے اپنے ہونٹوں سے نکلتے الفاظ کو ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر انہیں زبردستی بند کر لیا کہ کہیں عمران ہاشمی کے اس لچر گانے سے بھی زیادہ بے ہودہ بات میرے منہ سے نہ نکل جائے۔
ابھی خیالوں کا پنچھی مزید اونچی پرواز بھرنے کو تھا کہ نظر کے سامنے سے ان دونوں بندوں کی تصویر ہٹا دی گئی اور اس تیسرے بندے کی لگا دی گئی جسے میں "وہ" کا نام دے رہا ہوں۔ یہ دونوں بندے اس "وہ" کو خوش آمدید کہنے کے لئے اکٹھے مل بیٹھے تھے جیسا کہ ایک شوہر کی دو بیویاں اپنے مشترکہ "وہ" کے پاس بیٹھی اپنی رنجشوں پر نا کام پردہ ڈال رہی ہوں۔ اگرچہ ان کا "وہ" عمر ، تجربے اور قد میں ان سے چھوٹا تھا لیکن وہ چونکہ "وہ " ہے اس لئے اس کا احترام لازم ہے۔ اور پھر یہ "وہ" تو ہمسایہ بھی ہے ، پرانا آشنا بھی اور مہمان بھی۔ سو رسمِ دنیا ، موقع اور دستور اپنے اپنے مقام پر با ادب ہو گئے اور ہمارے جیسے تین اور تیرہ کے شمار سے باہر سمجھے جانے والے اس دلداری یا پھر معشوقی کا ادراک نہ کر سکے بلکہ سٹپٹا گئے کہ کیا یہ دونوں بندے وہی ہیں جو اس "وہ" کے سامنے زانوئے عقیدت طے کرنے سے قبل تک ایک دوسرے پر رقاقت بھر بھر کر انڈیل رہے تھے۔
منظر پھر بدل گیا ۔ اب مختلف اقسام کے لوحاتِ تحریر میرے سامنے سے گزارے جانے لگے کہ جن پر ان دونوں بندوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر ایک دوسرے کے ساتھ یوں محبتوں کا اظہار کیا تھا کہ گویا کوئی نوخیز لونڈا کسی پڑوسن پر فدا ہو کر اپنی محبت جتلانے کے لئے ڈائیلاگ مار رہا ہو۔ یقینا یہ لوحاتِ تحریر آپ کے "جہاں نما" پر بھی دکھائی دئے ہوں گے اور آپ نے بھی ان سے عیاں بلکہ "عریاں" ہوتی منافقانہ سیاست کو دیکھ کر شرم سے منہ دوسری طرف کر لیا ہو گا۔
اس ساری "فلم" کو دیکھ کر مجھے تو عمران ہاشمی کی اداکاری پر مشتمل ایک گانا بہت یاد آیا اور بے ساختہ اس کے الفاظ زبان پر آ گئے تو چائے کے کپ کی فرمائش کرنے کے لئے کچن میں گھسا تو بیگم نے قدرے دانٹ کر کہا ' "کچھ تو خیال کرو۔ بیٹا جوان ہو گیا ہے اور اپ ایسا لچر گانا گا رہے ہیں"۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا "شرم تو انہیں کرنی چاہئیے تھی" پوچھا گیا "کسے؟" ۔ اور میں نے اپنے ہونٹوں سے نکلتے الفاظ کو ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر انہیں زبردستی بند کر لیا کہ کہیں عمران ہاشمی کے اس لچر گانے سے بھی زیادہ بے ہودہ بات میرے منہ سے نہ نکل جائے۔